فہرست مضامین

اسلامی قوانین کےمآخذ و مصادر

اسلامی قوانین کےمآخذ و مصادر

اسلامی قانون ِ محنت (یعنی مزدوروں کے مسائل یا مزدوری اور روزگار کے قانون) کو اسلامی معاشی قانون کے ایک حصے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے اور یہ اسلامی قانون کے ارتقاء سے وجود میں آیا ہے،  عربی زبان میں ”الشریعة “     کا لغوی معنی پانی کے مقام تک جانے کا راستہ ہے۔اسلامی فقہ میں ، شریعت وہ  ماخذہے جس سے معاشی ، معاشرتی یا مذہبی  زندگی کے ہر پہلو کے لئے اصول وضع کئے گئے ہوں۔ شریعت کے بنیادی مآخذ قرآن و سنت ہیں۔ ثانوی مآخذ میں اجتہاد کی مختلف اقسام جیسے ”اجماع “،  ” قیاس “،  ”استحسان “،  ”مصالح مرسلہ یعنی مصلحت  “،  ” عرف “  ، اور  ”سد الذرائع “شامل ہیں۔

نبی کریم ﷺ کی زندگی اسلامی قانون کے مآخذ کو دو اہم اقسام میں بانٹتی ہے:[1] اول وہ مآخذ ہیں جو نبی کریم ﷺ نے پر وحی کی صورت میں نازل ہوئےیا وہ جو آپ ﷺ  نے اپنی زندگی کے دوران وضع کیے یعنی قرآن و سنت  جبکہ دوسرے وہ مآخذ ہیں جو یا پیغمبر اکرم ﷺ کے وصالِ ظاہری کے بعد   (یا آپ کی غیر موجودگی میں)مسلمانوں کے ذریعہ شناخت اور استعمال کیے گئے تھے ، یعنی اجتہاد، اجماع ، قیاس ، عرف عام ، وغیرہ۔

قرآن مجید

قرآن کریم مسلمانوں کی مقدس کتاب ، کلام ربانی  اور  اسلامی شریعت کا بنیادی ماخذ ہے۔قرآن کریم عربی زبان  میں 23 سالوں کے دوران اس وقت کی ضروریات اور مختلف مسائل کا حل فراہم کرنے کے لئے  بتدریج نازل کیا گیا، پیغمبر اکرمﷺ نے نزولِ وحی کے دور میں  قرآنی آیات کو لکھنے کیلیے ایک جماعت مقرر فرمائی، لیکن آپﷺ کی حیات مبارکہ میں آیاتِ قرآنیہ کو ایک نسخے کی صورت میں ایک  جگہ جمع نہ کیا جا سکا،جسے  ازاں بعد خلیفۂ اوّل حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دورِ خلافت اور ان کی رہنمائیمیں ایک جگہ جمع کیا گیا  ، اس کے بعد خلیفہ سوئم حضرت عثمان غنیؓ کے دورِخلافت میں اس کے پہلے نسخے  سے دیگر  نسخے بنائے گئے اور اسلامی دنیا میں بھیجے گئے۔ آج ہمارے ہاتھوں میں جو قرآن کریم ہے بالکل وہی ہے جو 1400 سال قبل حضرت عثمان ؓنے  ساتویں صدی میں تقسیم کیا تھا۔[2]

سنت

سنت  اسلامی قانون کا دوسرا بنیادی مآخذ سمجھا جاتا ہے۔ سنت میں تین عناصر شامل ہیں۔  پہلا: اقوال  ، دوسرا: اعمال اور تیسرا : وہ کام جنہیں ہوتے ہوئے دیکھ کر نبی کریم ﷺ نے خاموش رہ کر اپنی رضامندی ظاہر کی ہو ۔ (ان تینوں کو اجتماعی طور پر احادیث کہا جاتا ہے) اسلام میں قرآن و حدیث کے مابین فرق یہ ہے کہ قرآن اللہ تعالی ﷻ کا کلام ہے جبکہ پیغمبر ﷺکے اقوال  اللہ کا کلام نہیں ہیں۔ تاہم ، اسلامی فقہ میں ، سنت کی اہمیت قرآنی احکامات کے برابر ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ﵻوَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ۝‏ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰﵺ[3]

” اور وہ ﷺ(اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے،اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔“

آنحضرت ﷺکے زمانہ میں صحابہ کرامؓ نے آپﷺ کے ارشاداتِ مبارکہ (صحیفہ ہمام بن منبہ، صحیفۂ صادقہ، صحیفۂ علیؓ)  لکھے ، جو انہوں نے دوسروں لوگوں تک بھی پہنچائے، تاہم ، احادیث کو جامع انداز سےاکٹھا کرنے اور انہیں تحریر  اور مرتب کرنے کی ٹھوس کوششیں آٹھویں صدی کے وسط میں  (پیغمبر اکرم ﷺکی وفات کے 100 سال بعد) شروع ہوئیں۔ احادیث مبارکہ کی صحت و صداقت کو برقرار رکھنے کے لئے محدثین کرام نے حوالہ دینے کا ایک منفرد طریقہ کار اختیار کیا(جسے اسناد کہا جاتا ہے اور اس نے ایک پورے علم، علم الرجال، کو جنم دیا)  ، جس کا مطلب یہ تھا کہ ہر حدیث کو اس کےراویوں کی ایک زنجیر سے اور راویوں کے تقوٰی ودرایت  (علم روایت و درایت)سے ناپا تولا جاتا   اور جس میں اس پہلے شخص تک پہنچا جاتا جس نے یہ حدیث مبارکہ خود  نبی اکرم ﷺ سے سنی ہو یا آپ ﷺکو کوئی کام کرتے یا  اس  پر رضامندی کا اظہار اور اسےمنظور کرتے دیکھا ہو۔ اس کے بعد احادیث کی مختلف مجموعات مرتب کیے گئے۔ ان میں سے چھ کو انتہائی مستند سمجھا جاتا ہے، جنہیں صحاحِ ستہ کہا جاتا ہے۔[4]

اجماعِ امت  (امت کا اتفاق رائے)

مسلم فقہاء کے ایک خاص وقت میں کسی  قانونی مسئلے پر  اتفاق رائے کو اجماع امت کہا جاتا ہے ، اجما ع اور قانون کے دیگر مآخذ اسی وقت استعمال کیے جاتے ہیں  جب زیر غور مسئلہ  کے بارے میں قرآن و سنت میں کوئی واضح ہدایت موجود نہ ہو۔ تمام مآخذوں  کی بنیادقرآن و سنت ہے۔ اجماع تبھی قابل قبول ہے جب مسلم فقہاء وعلمائے دین کا  کسی مسئلہ میں اتفاق رائے پایا جائے، اور اتفاقِ رائے صرف جدید فروعی  معاملات پر مؤثر ہوتا ہے، فقہا ء  کا  اجماع  بنیادی عقائد اور عبادات کے اصولوں کو تبدیل نہیں کرسکتا۔

قیاس (تشبیہاتی استدلال)

قیاس شریعت کا چوتھا مآخذ ہے ، اور اس کا استعمال اسی وقت ہوتا ہے جب کسی مسئلے کے بارے مذکورہ بالا تینوں مآخذوں میں کچھ نہ پایا جائے۔’ایسا امر جس کے بارے میں حکم شرعی موجود نہ ہو، علت حکم کے اشتراک کی بنا پر اس امر کے مساوی قراردے دینا جس میں حکم شرعی وارد ہوا ہو، قیاس کہلاتا ہے‘۔قیاس (اجتہاد کی ایک شکل) ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہے۔[5] قرآن کی آیت ﵻ فَإِن تَنَٰزَعۡتُمۡ فِي شَيۡءٖ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ ﵺ [6] میں بھی تناز ع کو اللہ اور اسکے رسولﷺ کی طرف لوٹانے کا مطلب یہ ہے کہ اس معاملہ کو جس میں نص موجود نہ ہو ان امور پر قیاس کیا جائے جن میں نص موجود ہے اور زیر نزاع معاملے میں وہ علت موجود ہونے کی بناء پر جو منصوص حکم موجود ہے اس معاملے کا بھی وہی حکم تسلیم کیا جائے۔ اسی طرح قرآن نے استنباط (صحیح نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت)کا ذکر کیا ہے جس سے مراد قیاس ہے۔ [7]

اس کے علاوہ بھی دیگر کئی مآخذ ہیں جیسا کہ  ”استحسان“،”مصالح مرسلہ “، ” عرف“وغیرہ  جو کہ احکام اخذ کرنے میں مستعمل ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے  کہ اسلامی قانون کے دیگر مآخذ اسلام کے  بنیادی مآخذ ، یعنی قرآن وسنت کے مقابلہ میں کمزور ہیں۔ تاہم ، یہ ثانوی مآخذمزدوروں کے مسائل  سمیت دیگر سماجی و اقتصادی امور کے قواعد کو اخذ کرنے  میں ممد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں، کیونکہ قرآن وسنت مزدوری اور روزگار کے ایسے  جدید امور پر گفتگو نہیں کرتے ہیں جو اسلام کی آمد کے وقت   (1445 سال قبل)  نہیں پائے جاتے تھے۔ ان مآخذ نے  مزدوری اور روزگار کے امور کے بارے میں عمومی ہدایات فراہم کیں ہیں۔ یہ اصول بعد میں فقہاء  کرامؒ ، جن میں صحابہ کرامؓ بھی شامل تھے، نے اخذ کیے  ان میں  اجماع ، قیاس ، اجتہاد ، استحسان ، سد ذرائع[8] اور بعض اوقات عرف عام نمایاں ہیں۔

عرف و عادت یعنی علاقائی رواج و روایات[9] کو اسلام میں قانون سازی کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے([10])۔ یہ بات قرآن کریم سے ثابت ہے ، اللہ تعالی نبی کریم ﷺاور اہل ایمان کوحکم دیتے ہیں:

اسلامی قوانین کےمآخذ و مصادر

ﵻخُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَﵺ

”(اے حبیبِ مکرّمﷺ!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور  عرف (یعنی بھلائی) کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔“


 

[1] El-Ashker and Wilson (2006)

[2]– ڈاکٹر حمید اللہ ؒ، 1981. خطباتِ بہاولپور۔ بہاولپور: اسلامیہ یونیورسٹی۔

لیکن مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی نے اپنی کتاب   ”قرآن کی تدوین: غلط فہمیوں کا ازالہ “ (2023، ادارہ ٔفکر اسلامی، لاہور)میں یہ رائے دی  ہے کہ قرآن نبی کریمﷺ کی زندگی میں تدوین شدہ صورت میں موجود تھا اور اس کی صرف ایک کاپی  ہی نہیں بلکہ: ”آپ کے ساتھیوں میں کوئی ایسا نہی تھا جس کے پاس قرآن کا کامل نسخہ نہ رہا ہو، بلکہ ان کے ہر گھرانے میں ہر ایک کے پاس اپنا اپنا قرآن ہوتا، اسی قرآن ِکامل کو مصحف کہا جاتا تھا۔“ حضرت عثمانؓ کے دور میں  ’وراقین‘ کے نام سےکچھ لوگ قرآن کے نسخے تیار کرکے فروخت کر رہے تھے  اور ان میں آیات کو کم یا زیادہ کر کے اور سورتوں کو آگے پیچھے کر کے عوام میں کنفیوژن پھیلا رہے تھے اور تحریف شدہ قرآن لوگوں میں پھیلا رہے تھے اس صورتحال میں خلیفۂ ثالث حضرت عثمان غنیؓ نے جلیل القدر صحابہؓ کے مشورے سے نبی کریمﷺ کے دور کے تدوین شدہ نسخے کی کاپیاں تیار کروا کراور ان پر خلافت  کی مہر لگا کر ہر مسلم ریاست میں بھیج دیا کہ اسی کو اصل سمجھا جائے اور باقی تمام ایسے نسخے جو اسکے مطابق نہ ہوں انہیں جلا دیا جائے۔

[3]– (53:3–4)

[4]– احادیث کی چھ  مستند ترین کتابیں یہ ہیں: صحیح بخاریؒ ، صحیح مسلم ؒ، سنن نسائیؒ ، سنن ابو داؤدؒ، سنن ابن ماجہ ؒاور جامع ترمذیؒ

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے مطابق موطا امام مالک ؒ  سب سے پہلے مقام پر ہے اسکے بعد صحیحین اور  پھر دوسری کتب ہیں۔

[5]– سنن ابو داؤد (3592)میں ہے کہ:ـــ  ” رسول اللہ ﷺنے حضرت معاذؓ ﷜ کو جب یمن ( کا گورنر ) بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو
آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذؓ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ ﷺنے فرمایا: ”اگرتم  اللہ کی کتاب میں نہ پا سکو؟“ تو معاذؓنے عرض کیا:
رسول اللہ ﷺکی سنت کے موافق، آپ ﷺنے فرمایا: ”اگر سنت رسولؐ اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پا سکو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ ﷺنے معاذؓ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ ﷺ کے نمائندے (اورسفیر)کی ایسی بات اور طریقے کی طرف رہنمائی کی جو اللہ کے رسولﷺ کو راضی اور خوش کرتی ہے۔“

اسی طرح طبرانی نے معجم کبیر میں سلیمان بن اکیمہ سے یوں روایت کی ہے: میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے ماں باپ حضورﷺ پر قربان ہوں، یارسول اللہﷺ! ہم آپ سے باتیں سنتے ہیں لیکن جسطرح سنتے ہیں انہیں ادانہیں کرپاتے، تو آپؑ نے فرمایا: ”اگر حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہ کرو (یعنی مقصد الٹا نہ ہو جائے) اور مضمون و مطلب ٹھیک ادا ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہی۔“ (طبرانی، کنزالعمال: 44737)

﴿قلنا یارسول الله، انا نسمع منک الحدیث، فلا نقدر أن نؤدّیه. فقال: «اذا لم تحلّوا حراما ولم تحرّموا حلالا واصبتم المعنى فلابأس﴾

 [6] 04:59

[7]04:83

 [8]–  جو امور کسی حلال یا حرام  امرتک پہنچنے کا ذریعہ بنتے ہوں وہ ذرائع کہلاتے ہیں اور ان ذرائع کا بھی وہی حکم ہوتا ہے جو ان امور کا ہے جن کا وہ ذریعہ بنے ہوں، جو ذرائع حرام امر تک پہنچائیں اور انکا انجام برا ہو، انکا سدِباب کرنا ضروری ہےاس لیے اسے ”سدالذریعہ“  کہا جاتا ہے۔

[9]-”رواج سے مراد روزمرہ کے وہ معاملات ہیں جو ذوقِ سلیم کے نزدیک پسندیدہ ہوں اور دل میں گھر کر جائیں۔“ (فلسفۂ شریعتِ اسلام: ڈاکٹر صبحی محمصانیؒ) جیسے حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ  کا قول ہے کہ ”جو بات عام مسلمانوں کے نزدیک اچھی ہے وہ خدا کے نزدیک بھی اچھی ہے اور   اور جو چیز مسلمانوں کی نگاہوں میں بری ہو، وہ اللہ کے نزدیک بھی بری ہے۔“

﴿فما رَأى المُسلمونَ حَسنًا؛ فهو عندَ اللهِ حَسنٌ، وما رأَوا سيِّئًا؛ فهو عندَ اللهِ سيِّئٌ ﴾

[10]– دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام مالی لین دین میں ، قرآن کریم ایک قوم، علاقے اور وقت کی روایات اور رواج کا حوالہ دیتا ہے۔ مثال کے طور پر نکاح کے حوالے سے سورۃ بقرہ کی آیات (02: 232   اور  235؛  04:25) ، طلاق کی آیات ( 02: 229، 231 ، 236 ، اور 241؛ 65:02) ، اور بچوں کی رضاعت کی ادائیگی (02: 232  اور  65:06)۔ قابلِ گزارہ یاکفافی اجرت، علیحدگی پر نان نفقہ اور اس طرح کی دیگر ادائیگیاں جو کہ علاقے کی روایات/ رسم و رواج کے مطابق ہوں۔

ہندؓ بنت عتبہ  ایک دفعہ نبی کریمﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ ابوسفیانؓ  ( ان کے شوہر)بخیل ہیں اور مجھے ان کے مال میں سے لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ (تو کیا میں ان سے پوچھے بغیر لے لیا کروں ؟) آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ دستور کے مطابق اتنا لے لیا کرو جو تمہارے اور تمہارے بچوں کے لیے کافی ہو۔  (صحیح بخاری: 7180)

﴿ خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ﴾