باب دوئم: روزگار کے معاہدے (Employment Agreements)
- اس لیبر کوڈ کی دفعات کے تحت ، روزگار کا معاہدہ زبانی یا تحریری ہو سکتا ہے جو ایک مخصوص[1] یا غیر معینہ[2] مدت کے لیے یا کسی مخصوص کام[3] کی انجام دہی کے لئے بھی ہو سکتا ہے ۔[4]
- ”روزگار کا معاہدہ“ کا مطلب کام کا وہ معاہدہ ہے جو چاہے واضح ہو یا مضمر اور جسے زبانی یا تحریری طور پر ظاہر کیا جائے۔ [5]
- روزگار کے معاہدے میں فریقین کے حقوق اور ذمہ داریوں کی وضاحت کے لیے تمام ضروری تفصیلات شامل ہوں گی ، بشمول: [6]
- آجر کا نام اور ملازمت کی جگہ
- ملازم کا نام ، ملازمت کی جگہ ، اور شناخت کے لیے دیگر ضروری تفصیلات۔
- ملازمت کی نوعیت اور تفویض کردہ عہدہ ۔
- ملازمت کے معاہدے کی مدت
- معاہدہ ختم کرنے کے خواہشمند فریق کی جانب سے نوٹس کی مناسب مدت۔
- اجرت کی شرح اور حساب کا طریقہ ، اجرت کی ادائیگی کا طریقہ اور دورانیہ(روزانہ ، ماہانہ وغیرہ)
- تجرباتی مدت
- معاہدے کی دیگر خاص شرائط
- اگر ملازمت کا معاہدہ زبانی ہے تو آجر روزگار کی اہم تفصیلات تحریری شکل میں مزدور کو فراہم کرے گا۔
- ملازمت کا تحریری معاہدہ (یا ملازمت کی تحریری تفصیلات) اس وقت تک نافذ العمل اور قابل اطلاق رہیں گےجب تک یہ قانون کی دفعات سے متصادم نہ ہوں۔[7]
- اگر کوئی مزدور /محنت کش /ورکر مندرجہ ذیل امور میں ملوث پایا گیا تو وہ سنگین غفلت اور بداطواری (gross misconduct) کا ملزم شمار کیا جائے گا:[8]
- کام کی جگہ پر الکحل (alcohol) مشروبات ، نشہ آور ادویات ، سائیکو ٹروپک (psychotropic) مادوں یا نشہ آور مادوں کے استعمال کی وجہ سے مؤثر طریقے سے کام سر انجام دینے سے قاصر ہو۔
- دس دن سے زیادہ وقت تک بلا وجہ یا تسلی بخش وضاحت کےبغیر غیر حاضر رہا ہو۔
- کسی دوسرے مزدور کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی ہو، بشمول ہراسانی کے، لیکن یہ صرف کسی دوسرے مزدور کو جنسی طور پر ہراساں کرنے تک محدود نہیں(بلکہ اس میں دیگربنیادوں پر ہراسانی بھی ممنوع ہے)۔
- کام کی جگہ پر کسی ساتھی ملازم یا آجر پر حملہ کرنا یا مار پیٹ کرنا۔
- غفلت سے یا جان بوجھ کر آجر کی املاک کو نقصان پہنچانا یا کوئی نقصان پہنچ رہا ہوتو اسے نہ روکنا اور روکنے کی کوشش نہ کرنا جس کے نتیجے میں آجر کو نقصان ہو جائے۔[9]
- جان بوجھ کر یا انجانے میں کسی دوسرے مزدور /محنت کش /ورکر یا کام کی جگہ کو خطرات سے دوچار کرنا۔
- آجر کی خفیہ معلومات کی حفاظت اور حفاظت کے لیےمزدور/محنت کش /ورکر کی ذمہ داری[10] کی خلاف ورزی کرنا الا یہ کہ اس طرح کی خلاف ورزی کسی مزدور یا آجر کی بہتری کے لئے قانون کے دائرے میں رہ کر کی گئی ہو یا مفاد عامہ میں ہو۔[11]
- انٹرپرائز قوانین (کمپنی رولز)یا احکامات کو نظر انداز کرنا یا ان کی قانون شکنی کرنا۔
- ملازمت میں دھوکہ دہی یا بے ایمانی کرنا۔[12]
- نامناسب رویہ ، جیسا کہ نشے میں ، یا منشیات کے زیر اثر ہونا۔[13]
- (ملازمت کے حصول میں یا بعد میں )غلط یا گمراہ کن تفصیلات دینا۔[14]
- جس مزدور پر بدعنوانی کا الزام ہو اس کا نمائندہ تحقیقاتی کمیٹی میں شامل کیا جائے۔
- اگر کوئی آجر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتا (مثلاً اجرت ادا نہیں کرتا) تو ایک مزدور ایسی صورت میں معاہدہ ختم کر سکتا ہے ۔[15]
- ایک آجر کسی مزدور سے پروبیشنری (تجرباتی) مدت کا تقاضا کر سکتا ہے ، بشرطیکہ اس طرح کی پروبیشنری مدت تین ماہ سے زیادہ نہ ہو۔[16]
- ایک ملازم/ مزدور جسے ملازمت سے نکالنا مقصود ہو اسے معقول پیشگی نوٹس یا معاوضہ دیا جائےگا الا یہ کہ وہ کسی سنگین بدانتظامی کا مرتکب ہوا ہو ، یعنی ایسی نوعیت کی بدانتظامی ہو کہ آجر کی طرف سےیہ تقاضا کرنا غیر معقول ہو کہ مزدور/محنت کش /ورکر نوٹس کی مدت کے دوران اپنی ڈیوٹی جاری رکھے ۔[17]
- کسی مزدور /محنت کش /ورکر کے طرز عمل یا کارکردگی کی بناء پر اسے نوکری سے اس وقت تک نہیں نکالا جائےگا جب تک کہ اسے اس پر لگائےالزامات کے خلاف دفاع کا موقع فراہم نہ کیا جائے ۔[18]
- ایک مزدور جسے نوکری سے نکال دیا گیا ہو ، قومی قانون اور عمل کے تحت مندرجہ ذیل چیزوں کا حقدار ہوگا۔
- برطرفی الاؤنس یا برطرفی کے دیگر فوائد، جس کی مقدار ملازمت کے دورانیہ اور اجرت کی مقدار پر منحصر ہوگی، اور اسکی ادائیگی براہِ راست آجر کے ذریعہ یا آجر کے بنائے ہوئے فنڈ سے کی جائے گی۔[19]یا
- بے روزگاری کے لیے انشورنس یا امداد یا سماجی تحفظ کی دیگر اقسام کے الاؤنس ، جیسے بڑھاپے یا معذوری کی صورت میں الاؤنس ، عام حالات کے تحت اس طرح کے فوائد ہیں۔[20]
</br >
[1]– معاہدہ ملازمت کےنام سے یہ باب خاص طور پر معاہدۂنکاح اور فسخِ نکاح کے حوالے سے اسلامی تعلیمات پر مبنی ہے ۔
اسلام میں مقررہ مدت کے لئے کوئی معاہدہ کرنا جائز ہے۔ اس کی مثال اس واقعہ سے ملتی ہےجب حضرت موسٰی علیہ السلام کو حضرت شعیب علیہ السلام کی ہاں آٹھ سال تک ملازمت / خدمت کرنے کی پیشکش ہوئی، یہ معاہدہ مقررہ مدت کے بعد اگلے دو سالوں کے لیے قابل توسیع تھا ۔ اس سے مقررہ مدت کے معاہدوں اور انکی تجدید کا بھی پتا چلتا ہے۔ اس آیت کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
”انہوں نے (موسٰی علیہ السلام سے) کہا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں اس ( َمہر )پر کہ آپ آٹھ سال تک میرے پاس اُجرت پر کام کریں، پھر اگر آپ نے دس (سال) پور ے کردیئے تو آپ کی طرف سے (احسان) ہوگا اور میں آپ پر مشقت نہیں ڈالنا چاہتا، اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے نیک لوگوں میں سے پائیں گے۔“ (28:27)
ﵻقَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنْكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَىٰ أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ ۖ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ ۖ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ ۚ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَﵺ
ماہ رمضان کا تذکرہ کرتے ہوئے ، قرآن نے ایک بار پھر کسی کام میں مشغول ہونے کے لیے ایک مقررہ مدت کا ذکر کیا ہے ، یعنی رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنا۔
”رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لئے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لئے کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔“ (02:185)
ﵻشَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَﵺ
ایک مقررہ مدت کا معاہدہ اور اس کی توسیع قرآن میں حضرت موسٰیٰؑ علیہ السلام کے واقعہ کے ذریعے بیان ہوئی ہے: ”اور ہم نے موسٰی علیہ السلام سے تیس راتوں کا وعدہ فرمایا اور ہم نے اسے (مزید) دس (راتیں) ملا کر پورا کیا، سو ان کے رب کی (مقرر کردہ) میعاد چالیس راتوں میں پوری ہوگئی۔ اور موسٰی علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام سے فرمایا: تم (اس دوران) میری قوم میں میرے جانشین رہنا اور (ان کی) اصلاح کرتے رہنا اور فساد کرنے والوں کی راہ پر نہ چلنا (یعنی انہیں اس راہ پر نہ چلنے دینا)۔“ (07:142)
ﵻوَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ۚ وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَﵺ
[2]– ایک غیر معینہ مدت کے لیے معاہدہ کا ذکر مندرجہ ذیل حدیث میں بیان کیا گیا ہے جہاں ایک غلام کو ایک شرط کے ساتھ آزاد کیا جاتا ہے۔ ”سفینہؓ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین امِ سلمہؓ کا غلام تھا، وہ مجھ سے بولیں: میں تمہیں آزاد کرتی ہوں، اور شرط لگاتی ہوں کہ تم جب تک زندہ رہو گے رسول اللہ ﷺ کی خدمت کرتے رہو گے، تو میں نے ان سے کہا: اگر آپ مجھ سے یہ شرط نہ بھی لگاتیں تو بھی میں جیتے جی رسول اللہ ﷺ کی خدمت سے جدا نہ ہوتا، پھر انہوں نے مجھے اسی شرط پر آزاد کر دیا۔“(سنن ابو داؤد:3932)
﴿قَالَ كُنْتُ مَمْلُوكًا لأُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ أُعْتِقُكَ وَأَشْتَرِطُ عَلَيْكَ أَنْ تَخْدُمَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَا عِشْتَ . فَقُلْتُ إِنْ لَمْ تَشْتَرِطِي عَلَىَّ مَا فَارَقْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَا عِشْتُ فَأَعْتَقَتْنِي وَاشْتَرَطَتْ عَلَىَّ﴾
ایک اور روایت میں ہے کہ” آزادی کے لیے شرط یہ تھی کہ سفینہﷺ جب تک زندہ رہیں گے نبی کریمﷺ کی خدمت کریں گے۔“ (مسند احمد: 21927)
﴿أَعْتَقَتْنِي أُمُّ سَلَمَةَ وَشَرَطَتْ عَلَيَّ خِدْمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا عَاشَ﴾
[3] – یہ آیت اور حدیث کسی مخصوص کام سے متعلق معاہدہ ملازمت اور اس کی تکمیل پر معاوضے کی ادائیگی سے متعلق ہے۔
﴿قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَن جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ﴾
”وہ (درباری ملازم) بولے: ہمیں بادشاہ کا پیالہ نہیں مل رہا اور جو کوئی اسے (ڈھونڈ کر) لے آئے اس کے لئے ایک اونٹ کا غلہ (انعام) ہے اور میں اس کا ذمہ دار ہوں۔“ (12:72)
”رسول اللہﷺ اور ابوبکر ؓ نے بنو دِیل کے ایک ماہر راہبر سے مزدوری طے کر لی تھی۔ وہ شخص کفار قریش کے دین پر تھا۔ ان دونوں حضرات نے اپنی دونوں اونٹنیاں اس کے حوالے کر دی تھیں اور کہہ دیا تھا کہ تین راتوں کے بعد صبح سویرے ہی سواروں کے ساتھ غار ثور پر آ جائے۔“(صحیح بخاری: 2264)
﴿وَاسْتَأْجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبُو بَكْرٍ رَجُلاً مِنْ بَنِي الدِّيلِ، هَادِيًا خِرِّيتًا وَهْوَ عَلَى دِينِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ، فَدَفَعَا إِلَيْهِ رَاحِلَتَيْهِمَا، وَوَاعَدَاهُ غَارَ ثَوْرٍ بَعْدَ ثَلاَثِ لَيَالٍ بِرَاحِلَتَيْهِمَا صُبْحَ ثَلاَثٍ﴾
[4]– تمام مالی معاہدے تحریری شکل میں ہونے چاہئیں۔ روزگار کا معاہدہ ایک مالی معاہدہ بھی ہے جس میں اجرت کی وضاحت ہونی چاہئے ۔ لہذا ، اسے تحریری شکل میں لکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر معاہدۂ روزگار زبانی ہو تو آجروں کو چاہئے کہ وہ ملازمین کو کام کی کی کچھ تفصیلات تحریری شکل میں بھی فراہم کریں۔
”اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہئے کہ انصاف کے ساتھ لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اللہ نے لکھنا سکھایا ہے، پس وہ لکھ دے (یعنی شرع اور ملکی دستور کے مطابق وثیقہ نویسی کا حق پوری دیانت سے ادا کرے)، اور مضمون وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق (یعنی قرض) ہو اور اسے چاہئے کہ اللہ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس (زرِ قرض) میں سے (لکھواتے وقت) کچھ بھی کمی نہ کرے، پھر اگر وہ شخص جس کے ذمہ حق واجب ہوا ہے ناسمجھ یا ناتواں ہو یا خود مضمون لکھوانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس کے کارندے کو چاہئے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے، اور اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو (یعنی قابلِ اعتماد سمجھتے ہو) تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو جب بھی (گواہی کے لئے) بلایا جائے وہ انکار نہ کریں، اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی میعاد تک لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو، یہ تمہارا دستاویز تیار کر لینا اللہ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کے لئے مضبوط تر اور یہ اس کے بھی قریب تر ہے کہ تم شک میں مبتلا نہ ہو سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں، اور جب بھی آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو، اور نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ گواہ کو، اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہاری حکم شکنی ہوگی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور اللہ تمہیں (معاملات کی) تعلیم دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔“ (02:282)
ﵻيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ ۚ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا ۚ فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ ۚ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ ۖ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ ۚ وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا ۚ وَلَا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَىٰ أَجَلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا ۖ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا ۗ وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ ۚ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ ۚ وَإِنْ تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌﵺ
تمام معاہدوں کی طرح روزگار کے معاہدے بھی باہمی رضامندی سے ہونے چاہئیں۔ کسی کو معاہدے کی ایسی کسی شرائط قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جن میں ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہو۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے لیے تحریری ملازمت کے معاہدوں کی ضرورت نہیں ہے۔ مندرجہ بالا آیت میں اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہےکہ : ”سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں۔“ (02:282)
ﵻإِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَاﵺ
تاہم ، ہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ مزدوروں کو روزانہ اجرت کے معاہدوں پر مختلف قانونی حقوق (بشمول مختلف اقسام کی چھٹیوں ، سماجی تحفظ اور اتحاد کے حق ، وغیرہ) سے محروم کرنے کیلیے رکھنااسلامی احکامات کے خلاف ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ”خرید وفروخت باہمی رضامندی سے ہو۔“ (سنن ابن ماجہ: 2185)
﴿إِنَّمَا الْبَيْعُ عَنْ تَرَاضٍ﴾
تمام معاہدوں کو پورا کرنا واجب ہے ، چاہےوہ زبانی ہوں یا تحریری ، واضح الفاظ (express)میں ہو ں یا مضمر (implied)ہوں۔ قرآن کہتا ہے کہ”اے ایمان والو اپنے عہد وپیمان کو پورا کرو۔“ (05:1)
ﵻ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَوۡفُواْ بِٱلۡعُقُودِۚ ﵺ
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے؛
”اور وعدہ پورا کیا کرو، بیشک وعدہ کی ضرور پوچھ گچھ ہوگی۔“ (17:34)
ﵻوَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًاﵺ
معذور افراد اشاروں سے یا دوسروں کی مدد سےمعاہدہ ملازمت کی پیشکش قبول کر سکتے ہیں۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کی تسبیح کے اشارے سے ہدایت کی۔ (19:11) حضور اکرم ﷺ نے حضرت سوداء عجمیہؓ کے ”اسلام“ کو نشانیوں سے قبول کیا کیونکہ وہ گونگی تھیں۔(احکام القرآن، امام ابوبکر جصاصؒ) شاید انہی صحابیہ سے متعلق مسند احمد: (7906) اور سنن ابو داؤد: (3284) میں ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ: ”ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس ایک سیاہ لونڈی لیکر آیا جو کہ بول نہیں سکتی تھی، اس شخص نے آ کر کہا: ” یا رسول اللہﷺ! میرے ذمہ ایک مؤمن غلام کو آزاد کرنا ہے[اور میں اس لونڈی کو آزاد کرنا چاہتا ہوں]“ تو رسول اللہ ﷺنے اس لونڈی سے پوچھا: ”اللہ تعالی کہاں ہے؟“ تو اس لونڈی نے اپنی شہادت والی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا، پھر آپ ﷺ نے اس سے پوچھا: (میں کون ہوں؟)تو اس لونڈی نے رسول اللہ ﷺ کی طرف اور آسمان کی طرف اشارہ کیا، یعنی: آپ اللہ کے رسول ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے آزاد کر دو۔“ لہذا ، ایسے مزدوروں /محنت کشوں کے سامنے ایک تحریری معاہدہ دکھایا جائے گا/پڑھا جائے گا ، اور اشاروں یا اشاروں سے ان کی منظوری لے کر ان کےدستخط کروائے جائیں یا اگر ناخواندہ ہیں تو نشان انگوٹھا لگوا لیا جائے، اور اگر وہ خود پڑھ لکھ لیتے ہیں تو وہ معاہدے کو پڑھنے ، سننے یا اس کے سمجھنے کے بعد اس پر دستخط کریں گے۔
” پھر (زکریا علیہ السلام) حجرۂ عبادت سے نکل کر اپنے لوگوں کے پاس آئے تو ان کی طرف اشارہ کیا (اور سمجھایا) کہ تم صبح و شام (اللہ کی) تسبیح کیا کرو۔“ (19:11)
ﵻفَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّاﵺ
اگرچہ ، اگلی حدیث میں دی گئی مثال ہے تو ایک مخصوص خرید وفروخت کے عمل کی (سیل ڈِیڈ) لیکن اسے ”تحریری معاہدۂ ملازمت“ کی مثال کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔عبدالمجید بن وہب کہتے ہیں کہ مجھ سے عداء بن خالد بن ہوذہؓ نے کہا: کیا میں تم کو وہ تحریر پڑھ کر نہ سناؤں جو رسول اللہﷺ نے میرے لیے لکھی تھی؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ ضرور سنائیں، تو انہوں نے ایک تحریر نکالی، میں نے جو دیکھا تو اس میں لکھا تھا: ”یہ وہ ہے جو عداء بن خالد بن ہوذہ ؓنے محمد رسول اللہ ﷺ سے خریدا، عداءؓ نے آپﷺ سے ایک غلام یا ایک لونڈی خریدی، اس میں نہ تو کوئی بیماری ہے، نہ وہ چوری کا مال ہے، اور نہ وہ مال حرام ہے، مسلمان سے مسلمان کی بیع ہے ۔“ (سنن ابن ماجہ: 2251)
﴿قَالَ لِي الْعَدَّاءُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هَوْذَةَ، أَلَا نُقْرِئُكَ كِتَابًا كَتَبَهُ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، فَأَخْرَجَ لِي كِتَابًا، فَإِذَا فِيهِ: «هَذَا مَا اشْتَرَى الْعَدَّاءُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هَوْذَةَ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اشْتَرَى مِنْهُ عَبْدًا أَوْ أَمَةً، لَا دَاءَ، وَلَا غَائِلَةَ، وَلَا خِبْثَةَ، بَيْعَ الْمُسْلِمِ لِلْمُسْلِمِ﴾
معاہده ملازمت کی شرائط و ضوابط تحریری شکل میں ہونی چاہئیں تاکہ مستقبل میں کسی قسم کی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”لوگوں کی چند اقسام ایسی ہیں جن کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں، ان میں سے وہ شخص بھی ہے جو کسی کو مقرردہ مدت کے لئے قرض دے اور نہ ہی اسے تحریر میں لائے اور نہ ہی کسی کو اس پر گواہ مقرر کرے۔“
(بحار الانوار: جلد 104، صفحہ 301 نمبر 1)
﴿أصنافٌ لا يُستَجابُ لَهُم ، مِنهُم مَن أدانَ رَجُلاً دَيناً إلى أجَلٍ فلَم يَكتُبْ علَيهِ كِتاباً ولَم يُشهِدْ علَيهِ شُهُوداً﴾
[5] – دونوں فریقین کو معاہدے پر عمل کرنا چاہیے جب تک کہ اس میں کوئی غیر قانونی چیز نہ ہو۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مسلمان اپنے وعدوں کو اس کے مطابق پورا کرتے ہیں جو جائز ہے۔“ (کنز العمال ، نمبر: 10909)
﴿المُسلِمونَ عِندَ شُروطِهِم فيما اُحِلَّ﴾ ایک اور جگہ پر آپﷺ نے فرمایا:”مسلمان اپنی شرائط پر پورے اترتے ہیں سوائے اس شرط کے جو حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرے۔“ (مشکوٰة المصابیح:2923)
﴿ وَالْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا﴾
اسی طرح سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص امانت میں خیانت کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“
[بحار الانوار ، ج 75 ، ص۔ 172 ، نمبر: 14]﴿لَيسَ مِنّا مَن خَانَ بالأمانَةِ.﴾امام علی ؓنے فرمایا: ”خیانت کی ایک بدترین شکل یہ ہے کہ انسان امانت میں دی گئی چیز میں خیانت کرے۔“ [غرور الحکم ، نمبر: 931]
﴿من أفْحَشِ الخِيانَةِ خِيانَةُ الوَدائعِ﴾
اسی طرح سے حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ”مخلوق کی کوئی ایسی اطاعت روا نہیں جس میں خالق کی نافرمانی ہوتی ہو۔“ اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا کہ: ”اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں بلکہ اطاعت اسی میں ہے جو دستور کی بات ہو۔“
(مسلم: 4535)
﴿لا طاعة في معصية الله إنما الطاعة في المعروف﴾
معاہدہ کی شرائط کی پابندی دونوں فریقین پر لازم ہے ، یعنی دونوں فریق معاہدے کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے پابند ہیں۔قرآن میں اللہ کا فرمان ہے: ” اے اولادِ یعقوبؑ! میرے وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور تم میرے (ساتھ کیا ہوا) وعدہ پورا کرو میں تمہارے (ساتھ کیا ہوا) وعدہ پورا کروں گا، اور مجھ ہی سے ڈرا کرو۔“ (02:40)
ﵻيَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِﵺ
اور دوسری جگہ پر فرمایا گیا:”اور تم اللہ کا عہد پورا کر دیا کرو جب تم عہد کرو اور قسموں کو پختہ کر لینے کے بعد انہیں مت توڑا کرو حالانکہ تم اللہ کو اپنے آپ پر ضامن بنا چکے ہو، بیشک اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔“
ﵻوَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدتُّمْ وَلَا تَنقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا ۚ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَﵺ
[6]– قرآن کی رو سے معاہدہ بھی ایک عہد ہے۔ قرآن نے ایک مثال میں واضح کیا ہے کہ معاہدوں کی دفعات کس قدر لمبی بھی ہو سکتی ہیں ، ضروری یہ ہے کہ معاہدۂ ملازمت میں ملازمت کی تفصیلات واضح طور پر بیان کی جائیں۔ ”اور (یاد کرو) جب ہم نے اولادِ یعقوب سے پختہ وعدہ لیا کہ اللہ کے سوا (کسی اور کی) عبادت نہ کرنا، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھی (بھلائی کرنا) اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا، پھر تم میں سے چند لوگوں کے سوا سارے (اس عہد سے) رُوگرداں ہو گئے اور تم (حق سے) گریز ہی کرنے والے ہو، اور جب ہم نے تم سے (یہ) پختہ عہد (بھی) لیا کہ تم (آپس میں) ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور نہ اپنے لوگوں کو (اپنے گھروں اور بستیوں سے نکال کر) جلاوطن کرو گے پھر تم نے (اس امر کا) اقرار کر لیا اور تم (اس کی) گواہی (بھی) دیتے ہو۔“ (2:83-84)
ﵻوَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَوَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَﵺ
”اے نبیﷺ! جب آپ کی خدمت میں مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور چوری نہیں کریں گی اور بدکاری نہیں کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان سے کوئی جھوٹا بہتان گھڑ کر نہیں لائیں گی (جنسی بہتان یعنی زنا، تقبیل، ملامست وغیرہ) اور (کسی بھی) امرِ شریعت میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی، تو آپ اُن سے بیعت لے لیا کریں اور اُن کے لئے اللہ سے بخشش طلب فرمائیں، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔“ (60:12)
ﵻيَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌﵺ
چونکہ روزگار کے معاہدے مالی ذمہ داریاں بنتے ہیں اس لئے انہیں تحریری شکل میں مکمل کیا جائے۔ روزگار کے معاہدے کی شرائط بھی ”قرض“ سے مشابہت رکھتی ہیں لہٰذا یہ مستقبل کی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے تحریری طور پر ہونا چاہیے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” لوگوں کی چند اقسام ایسی ہیں جن کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں، ان میں سے وہ شخص بھی ہے جو کسی کو مقرردہ مدت کے لئے قرض دے اور نہ ہی اسے تحریر میں لائے اور نہ ہی کسی کو اس پر گواہ مقرر کرے۔“
(بحار الانوار: جلد 104، صفحہ 301 نمبر 1)
﴿أصنافٌ لا يُستَجابُ لَهُم ، مِنهُم مَن أدانَ رَجُلاً دَيناً إلى أجَلٍ فلَم يَكتُبْ علَيهِ كِتاباً ولَم يُشهِدْ علَيهِ شُهُوداً﴾
معاہدہ کی شرائط کو پورا کرنا اتنا اہم تھا کہ نبی کریم ﷺ نے دو صحابہ کو غزوۂ بدر (پہلی جنگ جہاں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی) میں شرکت کرنے سے روکا گیا تھا کیونکہ انہوں نے قریش سے ان کے خلاف نہ لڑنے کا عہد کیا تھا۔ ”حضرت حذیفہ بن یمانؓ نے بیان کیا کہ جنگ بدر میں میرے شامل نہ ہونے کی وجہ صرف یہ تھی کہ میں اور میرے والدحُسَیل ؓ (جو یمان کے لقب سے معروف تھے) دونوں نکلے تو ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا اور کہا: تم محمد (رسول اللہ ﷺ)کے پاس جانا چاہتے ہو؟ ہم نے کہا: ان کے پاس جانا نہیں چاہتے، ہم تو صرف مدینہ منورہ جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ہم سے اللہ کے نام پر یہ عہد اور میثاق لیا کہ ہم مدینہ جائیں گے لیکن آپ ﷺ کے ساتھ مل کر جنگ نہیں کریں گے، ہم نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو یہ خبر دی، آپ ﷺنے فرمایا: ”تم دونوں لوٹ جاؤ، ہم ان سے کیا ہوا عہد پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں گے۔“(صحیح مسلم:4639)
﴿قَالَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ،: مَا مَنَعَنِي أَنْ أَشْهَدَ بَدْرًا إِلَّا أَنِّي خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِي حُسَيْلٌ، قَالَ: فَأَخَذَنَا كُفَّارُ قُرَيْشٍ، قَالُوا: إِنَّكُمْ تُرِيدُونَ مُحَمَّدًا، فَقُلْنَا: مَا نُرِيدُهُ، مَا نُرِيدُ إِلَّا الْمَدِينَةَ، فَأَخَذُوا مِنَّا عَهْدَ اللهِ وَمِيثَاقَهُ لَنَنْصَرِفَنَّ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَلَا نُقَاتِلُ مَعَهُ، فَأَتَيْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْنَاهُ الْخَبَرَ، فَقَالَ: «انْصَرِفَا، نَفِي لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ، وَنَسْتَعِينُ اللهَ عَلَيْهِمْ ﴾
[7] – آجر اورمزدور/محنت کش /ورکر کے درمیان دستخط شدہ تحریری ملازمت کا معاہدہ مستقبل کے امورِ کار میں حوالہ کے لیے ایک درست دستاویز ہے۔”اگر تم سچے ہو تو اپنی کتاب پیش کرو۔“ (37:157)
ﵻفَاْتُوْا بِكِتٰبِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَﵺ
”آپ فرما دیں کہ مجھے بتاؤ تو کہ جن (بتوں) کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے زمین میں کیا چیز تخلیق کی ہے یا (یہ دکھا دو کہ) آسمانوں (کی تخلیق) میں ان کی کوئی شراکت ہے۔ تم میرے پاس اس (قرآن) سے پہلے کی کوئی کتاب یا (اگلوں کے) علم کا کوئی بقیہ حصہ (جو منقول چلا آرہا ہو ثبوت کے طور پر) پیش کرو اگر تم سچے ہو۔“ (46:04)
ﵻقُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ۖ ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَٰذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَﵺ
جب مزدور/محنت کش /ورکرکسی معاہدے پر دستخط کرتا ہے ، تو گویا اس نےمعاہدے کی تمام شرائط کو مکمل طور پر قبول کر لیا ہے۔جیسے کہ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے: ”اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔“ (02:208)
ﵻيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةًﵺ
معاہدے میں غیر مناسب شرائط و ضوابط کی اجازت نہیں ہے۔ ایک شخص کو معاہدے کی شرائط پر اس وقت تک کاربند رہنا چاہیے جب تک کہ اس میں کوئی غیر قانونی چیز نہ ہو ۔”نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ لوگوں کے مجمع میں تشریف لے گئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا، امابعد! کچھ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ( خرید و فروخت میں ) ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کتاب اللہ میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جو کوئی شرط ایسی لگائی جائے جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو وہ باطل ہو گی۔ خواہ ایسی سو شرطیں کوئی کیوں نہ لگائے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم سب پر مقدم ہے اور اللہ کی شرط ہی بہت مضبوط ہے ۔“ (صحیح بخاری: 2168)
﴿أَمَّا بَعْدُ مَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، قَضَاءُ اللَّهِ أَحَقُّ، وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ﴾
جو لوگ دوسروں کو ان کے حقوق سے محروم کرتے ہیں اور انہیں غیر انسانی کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں انہیں قیامت کے دن سزا ہوگی۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سنو! جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا یا اس کا کوئی حق چھینا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالا یا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی مرضی کے لے لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے وکیل ہوں گا۔“
(سنن ابو داؤد:3052)
﴿أَلاَ مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أَوِ انْتَقَصَهُ أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾
غیر قانونی شرائط و ضوابط پر کیا جانے والا معاہدہ ٔ ملازمت غلط اور باطل ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ”اور اپنی قَسموں کے باعث اللہ (کے نام) کو (لوگوں کے ساتھ) نیکی کرنے اور پرہیزگاری اختیار کرنے اور لوگوں میں صلح کرانے میں آڑ مت بناؤ، اور اللہ خوب سننے والا بڑا جاننے والا ہے۔“(02:224)
ﵻوَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِأَيْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌﵺ
[8] – قرآن کریم کی بہت سی آیات (02:173; 06:145; 05:03; 16:51) اس قاعدے کو ظاہر کرتی ہیں کہ بداطواری / بد انتظامی کے زمرے میں آنے والے تمام کام اور اقدامات، چاہے وہ معاہدۂ ملازمت یا قانونِ محنت کی متعلقہ دفعات یا کسی کمپنی کے اپنے قوانین وضوابط کی رو سے ممنوع ہوں، کو معاہدہ ملازمت میں واضح الفاظ میں بیان کیا جائے۔ کچھ مستثنیات بھی ہیں ، جن کے بارے میں انضباطی کارروائی کے وقت تحقیقات کی ضرورت ہے۔ آزادانہ تحقیقات کے نتیجے میں اگر غیرمعمولی حالات ثابت ہو جائیں تو اس صورت میں مزدور/محنت کش /ورکر پر پر بے ضابطگی اور بدانتظامی سے متعلق دفعات لاگو نہیں ہوں گی، بطور مثال ذیل مندرجہ ذیل آیت ملاحظہ کریں جس میں قرآن کریم میں حرام اور اس سے منسلک تفصیلات کو حرام قرار دیا گیا ہے اور پھر استثنائی صورتحال کا ذکر بھی کرتا ہے:
”تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا (جانور) اور (دھار دار آلے کے بغیر کسی چیز کی) ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور (کسی جانور کے) سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ (جانور) جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے (مرنے سے پہلے) تم نے ذبح کر لیا، اور (وہ جانور بھی حرام ہے) جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لئے مخصوص کی گئی قربان گاہوں) پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم پانسوں (یعنی فال کے تیروں) کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کرو (یا حصے تقسیم کرو)، یہ سب کام گناہ ہیں۔ آج کافر لوگ تمہارے دین (کے غالب آجانے کے باعث اپنے ناپاک ارادوں) سے مایوس ہو گئے، سو (اے مسلمانو!) تم ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرا کرو۔ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔ پھر اگر کوئی شخص بھوک (اور پیاس) کی شدت میں اضطراری (یعنی انتہائی مجبوری کی) حالت کو پہنچ جائے (اس شرط کے ساتھ) کہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو (یعنی حرام چیز گناہ کی رغبت کے باعث نہ کھائے) تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔“ (05:03)
ﵻحُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﵺ
[9] – ملازم ومزدور آجر کی جائیداد کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا (حاکم سے مراد منتظم ، نگہبان اور نگران کار اور محافظ ہے) پھر جو کوئی بادشاہ ہے وہ لوگوں کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا، کہ اس نے اپنی رعیت کے حق ادا کیے ان کی جان و مال کی حفاظت کی یا نہیں اور آدمی اپنے گھر والوں کا حاکم ہے اس سے ان کا سوال ہو گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی اور بچوں کی حاکم ہے اس سے ان کا سوال ہو گا اور غلام (مزدور یا ملازم)اپنے مالک (آجر) کے مال کا نگہبان ومحافظ ہے اس سے اس کا سوال ہو گا۔ غرض یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک شخص حاکم ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا۔“ (ادب المفرد:206 اور 212)
﴿كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، الإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا، وَالْخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ﴾
[10]– ”اے اولادِ یعقوب! میرے وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور تم میرے (ساتھ کیا ہوا) وعدہ پورا کرو میں تمہارے (ساتھ کیا ہوا) وعدہ پورا کروں گا، اور مجھ ہی سے ڈرا کرو۔“(02:40)
ﵻيَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِﵺ
[11]– ” اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول ﷺ سے (ان کے حقوق کی ادائیگی میں) خیانت نہ کیا کرو اور نہ آپس کی امانتوں میں خیانت کیا کرو حالانکہ تم (سب حقیقت) جانتے ہو۔“ (08:27)
ﵻيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ﵺ
[12] – لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے اپنے معاہدے (حلف نامہ ، تجربہ سرٹیفکیٹ ، کوڈ آف کنڈکٹ ) کو غلط استعمال کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ملازمت کے دوران جعلی ملازمت سرٹیفکیٹ پیش کرنا بھی دھوکے میں شمار ہوتا ہے ۔قرآن کہتا ہے کہ ” اور تم اپنی قَسموں کو آپس میں فریب کاری کا ذریعہ نہ بنایا کرو ورنہ قدم (اسلام پر) جم جانے کے بعد لڑکھڑا جائے گا اور تم اس وجہ سے کہ اللہ کی راہ سے روکتے تھے برے انجام کا مزہ چکھو گے، اور تمہارے لئے زبردست عذاب ہے۔“(16:94)
ﵻوَلَا تَتَّخِذُوا أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِهَا وَتَذُوقُوا السُّوءَ بِمَا صَدَدتُّمْ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌﵺ
ملازمت میں بھرتی اور پروموشن کے دوران جعلی ڈگریوں ، دستاویزات ، حلف ناموں کا استعمال سختی سے منع ہے۔ارشادِ باری تعالٰی ہے: ” تم اپنی قَسموں کو اپنے درمیان فریب کاری کا ذریعہ بناتے ہو تاکہ (اس طرح) ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ہو جائے، بات یہ ہے کہ اللہ (بھی) تمہیں اسی کے ذریعہ آزماتا ہے، اور وہ تمہارے لئے قیامت کے دن ان باتوں کو ضرور واضح فرما دے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے ۔“ (16:92)
ﵻ تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَﵺ
ملازمت کے حصول کے لیے جھوٹی اور دھوکہ دہی پر مبنی معلومات کا استعمال بھی شریعت میں ممنوع ہے: ”اے ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو، اللہ کے نزدیک بہت سخت ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے۔“ (61:02-03)
ﵻيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَﵺ
”اور حق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو اور نہ ہی حق کو جان بوجھ کر چھپاؤ۔“ (02:42)
ﵻوَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَﵺ
ایک روایت میں نبی کریم ﷺ نے ان لوگوں کیلیے دردناک عذاب کی وعید دی ہے اور ان میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جو جھوٹی قسم کھا کر اپنے سامان کو رواج دے اور پرکشش بنائے اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جو ملازمت کے حصول کیلیےاپنے کوائف میں جھوٹی معلومات کا اضافہ کرتے ہیں: ”نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ قیامت کے دن نہ بات کرے گا، نہ انہیں رحمت کی نظر سے دیکھے گا، اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا میں نے پوچھا: وہ کون لوگ ہیں؟ اللہ کے رسول ﷺ! جو نامراد ہوئے اور گھاٹے اور خسارے میں رہے، پھر آپ ﷺ نے یہی بات تین بار دہرائی، میں نے عرض کیا: وہ کون لوگ ہیں؟ اللہ کے رسولﷺ! جو نامراد ہوئے اور گھاٹے اور خسارے میں رہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ٹخنہ سے نیچے تہ بند لٹکانے والا، اور احسان جتانے والا، اور جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان بیچنے والا ۔“ (سنن ابو داؤد:4087)
﴿ثَلاَثَةٌ لاَ يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلاَ يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ . قُلْتُ مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا أَعَادَهَا ثَلاَثًا . قُلْتُ مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ خَابُوا وَخَسِرُوا فَقَالَ الْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ﴾
اس حدیث سے ظا ہر ہوتا ہے کہ کسی مہارت کے بغیر کسی ہنر کا دعوی کرنا کسی مزدور /محنت کش /ورکر کی طرف سے پیشہ ورانہ بداعمالی شمار ہوگی ۔ ایسے شخص کے خلاف تادیبی کارروائی ، اور مالی جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو طب نہ جانتا ہو اور علاج کرے تو وہ ( مریض کا ) ضامن ہو گا۔“ (سنن ابو داؤد: 4586)
﴿مَنْ تَطَبَّبَ وَلاَ يُعْلَمُ مِنْهُ طِبٌّ فَهُوَ ضَامِنٌ﴾
[13]– قرآن کریم نے شراب کو حرام قرار دیا ہے، اس لئے ایسے مزدور /محنت کش /ورکر کے خلاف تادیبی کارروائی کی جا سکتی ہے جو کام کے اوقات میں نشے کی حالت میں پایا گیا ہو یا منشیات کے زیر اثر ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے: ”اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔“ (05:90)
ﵻيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَﵺ
نبی کریمﷺ نے فرمایا: ”ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔“ (سنن ابن ماجہ کتاب:30، حدیث3517)
﴿كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ ﴾
”ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ کرے اس کی کم مقدار بھی حرام ہے۔“ (سنن ابن ماجہ کتاب:30، حدیث3517)
﴿كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ وَمَا أَسْكَرَ كَثِيرُهُ فَقَلِيلُهُ حَرَامٌ﴾
[14]– ” تم اپنی قَسموں کو اپنے درمیان فریب کاری کا ذریعہ بناتے ہو تاکہ (اس طرح) ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ہو جائے، بات یہ ہے کہ اللہ (بھی) تمہیں اسی کے ذریعہ آزماتا ہے، اور وہ تمہارے لئے قیامت کے دن ان باتوں کو ضرور واضح فرما دے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔“ (16:92)
ﵻوَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَنْ تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَﵺ
[15]– ”اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو ان کا عہد ان کی طرف برابری کی بنیاد پر پھینک دیں۔ بیشک اللہ دغابازوں کو پسند نہیں کرتا۔“(08:58)
ﵻ وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَﵺ
[16]– روزگار کے معیاری امتحانات ، انٹرویوز اور پروبیشن پیریڈ /آزمائشی عرصے میں شفافیت کی وضاحت حضرت علی ؓ کے اس مکتوب میں کی گئی ہے جو آپ نے مالکؒ الاشتر کو مصر کا گورنر مقرر کرتے ہوئے لکھا تھا۔ ”پھر اپنے عہدہ داروں کے بارے میں نظر رکھنا، ان کو خوب آزمائش کے بعد منصب دینا، کبھی صرف رعایت اور جانبداری کی بنا پر انہیں منصب عطا نہ کرنا۔ اس لئے کہ یہ باتیں ناانصافی اور بے ایمانی کا سرچشمہ ہیں۔ اور ایسے لوگوں کو منتخب کرنا جو آزمودہ و غیرت مند ہوں، ایسے خاندانوں میں سے جو اچھے ہوں اور جن کی خدمات اسلام کے سلسلہ میں پہلے سے ہوں۔ کیونکہ ایسے لوگ بلند اخلاق اور بے داغ عزت والے ہوتے ہیں، حرص و طمع کی طرف کم جھکتے ہیں اور عواقب و نتائج پر زیادہ نظر رکھتے ہیں۔“ (نہج البلاغۃ ، مکتوب: 53)
الإمامُ عليٌّ فيما كَتبَ للأشتَرِ لمَّا وَلاّهُ مِصرَ: ثُمّ انظُرْ في اُمورِ عُمّالِكَ، فاستَعمِلْهُمُ اختِبارا، ولا تُوَلِّهِم مُحاباةً وأثَرَةً؛ فإنَّهُما جِماعٌ مِن شُعَبِ الجَورِ والخِيانَةِ . وتَوَخَّ مِنهُم أهلَ التَّجرِبةِ والحَياءِ مِن أهلِ البُيوتاتِ الصّالِحَةِ، والقَدَمِ في الإسلامِ المُتَقَدِّمَةِ
پروبیشن پیریڈ سے متعلق احکامات کو ہم نے قرآن میں یتیموں سے متعلقہ آیات سے اخذ کیا ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ کسی کو بھی ذمہ داری دینے سےپہلے اسے ٹیسٹ کیا جائے بالکل اسی طرح جیسے یتیموں کو ان کی جائیداد سپرد کرنے سے پہلے ان کی جانچ کا حکم ہے، اسی طرح مزدوروں کو پروبیشن پیریڈ کے دوران ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم مندرجہ ذیل الفاظ میں رہنمائی کرتا ہے: ”اور یتیموں کی (تربیت) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حُسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو، اور ان کے مال فضول خرچی اور جلد بازی میں (اس اندیشے سے) نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو (کر واپس لے) جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ (مالِ یتیم سے) بالکل بچا رہے اور جو (خود) نادار ہو اسے (صرف) مناسب حد تک کھانا چاہئے، اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو، اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہے۔“ (04:06)
ﵻوَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَنْ يَكْبَرُوا ۚ وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًاﵺ
” کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ (صرف) ان کے (اتنا) کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی، اور بیشک ہم نے ان لوگوں کو (بھی) آزمایا تھا جو ان سے پہلے تھے سو یقیناً اللہ ان لوگوں کو ضرور (آزمائش کے ذریعے) نمایاں فرما دے گا جو (دعوٰی ایمان میں) سچے ہیں اور جھوٹوں کو (بھی) ضرور ظاہر کر دے گا۔“(29:2-3)
ﵻ أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَﵺ
اگر کسی مزدور/محنت کش /ورکر نے پروبیشنری پیریڈ (تجرباتی مدت) اچھی طرح مکمل کی ہو تو ایسے مزدوروں /محنت کشوں کو مستقل کر دیا جائے گا اور ان کا معاہدۂ روزگار غیر معینہ مدت کے معاہدے میں تبدیل کر دیا جائے گا، جیسا کہ قرآن کی مختلف آیات میں آزمائش کا بتایا گیا اور انعام و اکرام اس آزمائش میں کامیابی پر ہی دیاگیا: ”اور ہم ضرور تمہاری آزمائش کریں گے یہاں تک کہ تم میں سے (ثابت قدمی کے ساتھ) جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو (بھی) ظاہر کر دیں اور تمہاری (منافقانہ بزدلی کی مخفی) خبریں (بھی) ظاہر کر دیں۔“ (47:31)
ﵻوَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْﵺ
”اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو انہوں نے وہ پوری کر دیں، (اس پر) اللہ نے فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا، انہوں نے عرض کیا: (کیا) میری اولاد میں سے بھی؟ ارشاد ہوا: (ہاں! مگر) میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچتا۔“(02:124)
ﵻوَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَﵺ
”اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو انہیں اچھی طرح جانچ لیا کرو، اللہ اُن کے ایمان (کی حقیقت) سے خوب آگاہ ہے، پھر اگر تمہیں اُن کے مومن ہونے کا یقین ہو جائے تو انہیں کافروں کی طرف واپس نہ بھیجو، نہ یہ (مومنات) اُن (کافروں) کے لئے حلال ہیں اور نہ وہ (کفّار) اِن (مومن عورتوں) کے لئے حلال ہیں، اور اُن (کافروں) نے جو (مال بصورتِ مَہر اِن پر) خرچ کیا ہو وہ اُن کو ادا کر دو، اور تم پر اس (بات) میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اِن سے نکاح کر لو جبکہ تم اُن (عورتوں) کا مَہر انہیں ادا کر دو، اور (اے مسلمانو!) تم بھی کافر عورتوں کو (اپنے) عقدِ نکاح میں نہ روکے رکھو اور تم (کفّار سے) وہ (مال) طلب کر لو جو تم نے (اُن عورتوں پر بصورتِ مَہر) خرچ کیا تھا اور وہ (کفّار تم سے) وہ (مال) مانگ لیں جو انہوں نے (اِن عورتوں پر بصورتِ مَہر) خرچ کیا تھا، یہی اللہ کا حکم ہے، اور وہ تمہارے درمیان فیصلہ فرما رہا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔“ (60:10)
ﵻيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ وَآتُوهُمْ مَا أَنْفَقُوا ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنْفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنْفَقُوا ۚ ذَٰلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ ۖ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌﵺ
معاہدۂ ملازمت تجرباتی مدت کے دوران کسی بھی وقت ، بغیرپیشگی نوٹس دئیے، ختم کیا جا سکتا ہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا ”جو شخص تھن میں دودھ جمع کی ہوئی بکری خریدے اسے تین دن تک اختیار ہے چاہے تو واپس کر دے، چاہے تو رکھے، اگر واپس کرے تو اس کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی واپس کرے لیکن گیہوں کا ہونا ضروری نہیں۔“ (سنن ابن ماجہ: 2239)
﴿مَنِ ابْتَاعَ مُصَرَّاةً فَهُوَ بِالْخِيَارِ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ فَإِنْ رَدَّهَا رَدَّ مَعَهَا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ لاَ سَمْرَاءَ﴾
«مصراۃ»: ایسی بکری یا دودھ والا جانور جس کا دودھ ایک یا دو یا تین دن تک نہ دوہا جائے تاکہ دودھ تھن میں جمع ہو جائے اور خریدار دھوکہ کھا کر زیادہ قیمت میں اس جانور کو اس دھوکہ میں خرید لے کہ یہ بہت دودھ دینے والا جانور ہے۔
تربیت لینے والے اور تجرباتی مدت پر کام کرنے والے ملازمین کو قابلیت ثابت کرنے پر مستقل کر دیا جائے گا۔ ” اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (اور مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقیناً انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں، اور بیشک اللہ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے۔“(29:69)
ﵻوَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَﵺ
مزدوروں کو مستقل طور پر مزدور بھرتی کرنے سے پہلے ان کی جانچ پڑتال اور ٹیسٹ لینا اسلامی تعلیمات کےعین مطابق ہے۔” کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم (مصائب و مشکلات سے گزرے بغیر یونہی) چھوڑ دیئے جاؤ گے حالانکہ (ابھی) اللہ نے ایسے لوگوں کو متمیّز نہیں فرمایا جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا ہے اور (جنہوں نے) اللہ کے سوا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا اور اہلِ ایمان کے سوا (کسی کو) محرمِ راز نہیں بنایا، اور اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو تم کرتے ہو۔“(09:16)
ﵻأَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَﵺ
[17] – قرآن کریم کوئی بھی معاہدہ ختم کرنے سے پہلے ایک معقول مدت کے لئے نوٹس دینے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ سورة کہف میں ارشاد باری تعالی ہے: ”اور آپ کا رب بڑا بخشنے والا صاحبِ رحمت ہے، اگر وہ ان کے کئے پر ان کا مؤاخذہ فرماتا تو ان پر یقیناً جلد عذاب بھیجتا، بلکہ ان کے لئے (تو) وقتِ وعدہ (مقرر) ہے (جب وہ وقت آئے گا تو) اس کے سوا ہرگز کوئی جائے پناہ نہیں پائیں گے۔ “ (18:58)
ﵻوَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ ۖ لَوْ يُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ ۚ بَلْ لَهُمْ مَوْعِدٌ لَنْ يَجِدُوا مِنْ دُونِهِ مَوْئِلًاﵺ
مذکورہ آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نوکری کی مدت/روزگار کے معاہدے کو ختم کرنے کے لیے نوٹس دینے کی معقول میعاد مقرر ہونی چاہیے اور ملازم کو مطلع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے مزدور کو نوٹس کی مدت بتانے کے بارے میں بتلایا ہے چاہے ملازم/ مزدور /محنت کش /ورکر نے سخت بے ضابطگی ہی کیوں نہ کی ہو۔ جیسا کہ آیت مبارکہ میں ہے : ”پس (اے مشرکو!) تم زمین میں چار ماہ (تک) گھوم پھر لو (اس مہلت کے اختتام پر تمہیں جنگ کا سامنا کرنا ہوگا) اور جان لو کہ تم اللہ کو ہرگز عاجز نہیں کر سکتے اور بیشک اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔“(09:02)
ﵻفَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَﵺ
اسی طرح سورة بقرہ میں ہے : ”اور ان لوگوں کے لئے جو اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں چار ماہ کی مہلت ہے پس اگر وہ (اس مدت میں) رجوع کر لیں تو بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے، اور اگر انہوں نے طلاق کا پختہ ارادہ کر لیا ہو تو بیشک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔“ (02:226-227)
ﵻ لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ۖ فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌﵺ
اس آیت سے یہ بھی اخذ کیا سکتا ہے کہ نوٹس کی مدت کو اس مزدور/محنت کش /ورکر کے لیے ایک وارننگ سمجھا جائے جس نے کوئی بے ضابطگی کی ہو شاید اس طرح وہ اپنے رویے پر غور کرسکے یا اسے درست کر سکے ۔
قرآن کریم کی آیت نمبر 65:01 میں ہے:”اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے۔“ (65:01)
ﵻيَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًاﵺ
ہماری فہم کے مطابق یہاں ، عدت کی اصطلاح معاہدے کے خاتمے کے لئے بطور نوٹس استعمال ہو سکتی ہے۔ اس مشابہت کو مدنظر رکھتے ہوئے ، ہم فرض کرتے ہیں کہ نوٹس کی مدت کے دوران ایک مزدور معمول کے مطابق اجرت اور مراعات کا حقدار ہوگا اور اسے بطورمزدور/محنت کش /ورکر اپنے حقوق سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔
مزید یہ کہ قرآنی آیت 02:234 میں ارشاد ہے : ”اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں، پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مؤاخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح خبردار ہے۔“ (02:234)
ﵻ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌﵺ
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ”عدت (کی مدت)“ مختلف قسم کے معاملات میں مختلف ہو سکتی ہے۔ لہذا ، نوٹس کی مدت مختلف اقسام کے خاتمے میں بھی مختلف ہوگی، جیسا کہ آجر یا مزدور /محنت کش /ورکر کی طرف سے معاہدہ ختم کرنے کی صورت میں یا بے ضابطگی کی صورت میں۔نیز ، قرآن کریم میں مختلف حالات کے حوالے سے ارشاد ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نوٹس کی مدت ہر مزدور کے لیے مختلف ہو سکتی ہے۔ آیت 33:49 میں ارشاد ہے: ”اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم انہیں مَس کرو (یعنی خلوتِ صحیحہ کرو) تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدّت (واجب) نہیں ہے کہ تم اسے شمار کرنے لگو، پس انہیں کچھ مال و متاع دو اور انہیں اچھی طرح حُسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کرو۔“ (33:49)
ﵻيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًاﵺ
اس کا مطلب یہ ہوا کہ تجرباتی مدت (probationary period) کے دوران نوٹس دینا ضروری نہیں اگر کسی شخص کو باقاعدہ ملازمت شروع کرنے سے پہلے برطرف کر دیا جاتا ہے تو اسے کم از تنخواہ تو ادا کرنا چاہیے۔
ارشاد مبارک ہے: ”اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو انہیں اچھے طریقے سے (اپنی زوجیّت میں) روک لو یا انہیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو، اور انہیں محض تکلیف دینے کے لئے نہ روکے رکھو کہ (ان پر) زیادتی کرتے رہو، اور جو کوئی ایسا کرے پس اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا، اور اللہ کے احکام کو مذاق نہ بنا لو، اور یاد کرو اللہ کی اس نعمت کو جو تم پر (کی گئی) ہے اور اس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل فرمائی ہے اور دانائی (کی باتوں) کو (جن کی اس نے تمہیں تعلیم دی ہے) وہ تمہیں (اس امر کی) نصیحت فرماتا ہے، اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔“(02:231)
ﵻوَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ ۚ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا ۚ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌﵺ
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اگرچہ نوٹس کی مدت کے دوران ملازمت دوبارہ بحال کرنے کی اجازت ہوگی ، لیکن اسے کبھی بھی ایک ملازم کو زیردباؤ رکھنے کے طور پر استعمال نہ کیا جائے ۔آیت مبارکہ 02:232 میں ارشاد ہے: ”اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو، اس شخص کو اس امر کی نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ پراور یومِ قیامت پر ایمان رکھتا ہو، یہ تمہارے لئے بہت ستھری اور نہایت پاکیزہ بات ہے، اور اللہ جانتا ہے اور تم (بہت سی باتوں کو) نہیں جانتے۔“ (02:232)
ﵻذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ۗ ذَٰلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ ذَٰلِكُمْ أَزْكَىٰ لَكُمْ وَأَطْهَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونََﵺ
[18]– قرآن کریم میں مزدوروں کی برطرفی اور ملازمت میں مختلف معاہدوں کی معطلی کی طرف بھی اشارہ ہے۔ قرآن کریم کی آیت 35:16 میں ارشاد باری تعالی ہے : ”اگر وہ چاہے تمہیں نابود کر دے اور نئی مخلوق لے آئے۔“
ﵻ إِن يَشَأۡ يُذۡهِبۡكُمۡ وَيَأۡتِ بِخَلۡقٖ جَدِيدٖ ﵺ
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آجر کو حق حاصل ہے کہ وہ بہتر طریقے سے کام نہ کرنیوالے ا مزدوروں /محنت کشوں کو تبدیل کر دے۔
مروی ہے کہ ”ثابت بن قیس ؓکی بیوی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے ان کے اخلاق اور دین کی وجہ سے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ البتہ میں اسلام میں کفر کو پسند نہیں کرتی۔ ( کیونکہ ان کے ساتھ رہ کر ان کے حقوق ِزوجیت کو نہیں ادا کر سکتی ) ۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کیا تم ان کا باغ ( جو انہوں نے مہر میں دیا تھا ) واپس کر سکتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے ( ثابت ؓسے ) فرمایا کہ باغ قبول کر لو اور انہیں طلاق دے دو۔“ (صحیح بخاری: 5273) اس حدیث مبارک کا مطلب ہے کہ اگر کوئی ملازم قانون کی پاسداری نہیں کر پا رہا تو اسے معاہدہ ملازمت ختم کر نے کا حق حاصل ہے۔ (خلع: عورت کی طرف سے نکاح کو ختم کرنا ہے)۔
حدیث نمبر 1515/11 (صحیح مسلم ، کتاب البیع (لین دین) ، حدیث 2238 (سنن ابن ماجہ ، کاروباری لین دین) اور حدیث 4487 (سنن نسائی ، مالی لین دین) میں تجرباتی مدت( پروبیشن پیریڈ )کے دوران معاہدہ ختم کرنے کی وضاحت ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1515/11 میں ہے : ”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”باہر سے سودا لانے والوں کو سودا خریدنے کے لئے پہلے (یعنی قافلے کے راستے میں) جا کر نہ ملو اور نہ تم میں سے کوئی آدمی دوسرے سودے پر سودا کرے اور دھوکا دینے کے لئے (خریدنے کی نیت کے بغیر محض بھاؤ بڑھانے )جھوٹی بولی نہ لگاو اور شہری شخص کسی دیہاتی کے لئے نہ بیچے اور اونٹنیوں اور بکریوں کے تھنوں میں (بیچنے کے لئے) دودھ نہ روکو، پھر اگر کوئی شخص اس کے بعد ایسا جانور خرید لے تو اسے دوھنے کے بعد دو میں سے ایک اختیار ہے: اگر اسے پسند ہو تو (سودا باقی رکھ کر)اس جانور کو اپنے پاس رکھ لے اور اگر ناپسند ہو تو اس جانور کو کھجوروں کے ایک صاع کے ساتھ واپس کر دے۔“ (صحیح مسلم:3815) نیزایک ا ورحدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے «مصّراۃ» خریدی تو اسے تین دن تک اختیار ہے، چاہے تو واپس کر دے، چاہے تو رکھے، اگر واپس کرے تو اس کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی واپس کرے (سنن ابن ماجہ: 2239) اسی طرح سنن نسائی میں روایت کردہ ایک حدیث میں ہے کہ: ”بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو اختیار رہتا ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں یا ان میں سے ہر ایک بیع کو اپنی مرضی کے مطابق لے اور وہ تین بار اختیار لیں“ (س سے مراد یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے کو کہہ دے، کہ ابھی پسند کر لو، تمہیں اختیار ہے۔ بعد میں واپس نہیں ہو سکے گی۔ دونوں تین دفعہ اس بات کی صراحت کر لیں، پھر اسی مجلس میں ہونے کے باوجود واپسی کا اختیار نہیں رہے گا۔ “
(سنن نسائی: 4486 اور 4487)
یہاں ، بیع الخیار کا مطلب خریدار کو دیا گیا وہ اختیار ہے جس کے تحت وہ جانچ / استعمال کے بعد اجناس (بکرے / اونٹ کو دودھ دینے کی صورت میں تین دن کے اندر) واپس کرسکتا ہے، اس طرح ، دوسرے الفاظ میں ، یہ ”پروبیشن پیریڈ“ کے مترادف ہے جس میں دونوں فریقین کو معاہدہ ختم کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ تاہم ، کسی اجناس کی جانچ پڑتال کسی مزدور /محنت کش /ورکر کی مہارت/کارکردگی کو جانچنے سے کم وقت لیتی ہے۔ لہذا ، خیار یا تجرباتی نوکری ملازمت کی قسم پر منحصر ہوگا۔ بکرے/اونٹ کو واپس کرتے وقت کچھ کھانا دینے کی شرط سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پروبیشن کے دوران مالک کی طرف سے معاہدہ ختم کرنے کی صورت میں مزدور کو کچھ اضافی اجرت بھی دی جائے گی بشرطیکہ معاہدہ ختم کرنے کا سبب سنگین بداطواری (Gross Misconduct) نہ ہو۔ اسی طرح ، بغیر نوٹس کے استعفیٰ دینے کی صورت میں ، مزدور /محنت کش /ورکر پچھلے ماہ کی تنخواہ واپس کرنے کا پابند ہو گا۔ اس طرح کا استعفیٰ ایک ماہ کی تنخواہ کے بدلے قبول کیا جا سکتا ہے۔
قرآن کریم نے ملازمت کے معاہدے کو مختلف قسم کی برطرفیوں کے ذریعے ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔ آیت 09:12 میں ارشاد ہے ”اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم (ان) کفر کے سرغنوں سے جنگ کرو بیشک ان کی قَسموں کا کوئی اعتبار نہیں تاکہ وہ (اپنی فتنہ پروری سے) باز آجائیں۔“
ﵻوَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَﵺ
اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مزدور /محنت کش /ورکر کی برخاستگی ان کے قواعد/معاہدے کی شدید خلاف ورزی یا کاروباری رازوں کے انکشاف کی وجہ سے ہوگی۔ مزید یہ کہ مذکورہ بالا آیت نمبر 65:01 جو (حاشیہ 38 میں) گزری چکی ہے میں ارشاد باری تعالی ہے : ”اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے۔“ اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملازم کی سنگین بے ضابطگی یا معاہدے کی سنگین خلاف ورزی کی صورت میں برخاستگی ہو سکتی ہے ، جس کے نتیجے میں ایک ملازم اپنی تنخواہ سے ہاتھ دھو سکتا ہے۔ تاہم ، مزدور /محنت کش /ورکر کی اپیل پر غیر منصفانہ برطرفی کی صورت میں ، برطرفی کی تنخواہ دی جا سکتی ہے۔ مزید برآں ، معاہدے کی شدید خلاف ورزی پر کسی مزدور کو فارغ کرنے کی صورت میں سزا دوگنی ہو سکتی ہے اگر کوئی مزدور زیادہ ذمہ داری کے عہدے پر فائز ہے تو اسے سزا بھی زیادہ دی جا سکتی ہے ، جیسا کہ قرآن کریم کی آیت (33:30) سے ظاہر ہے : ” اے اَزواجِ نبیِ (مکرّم!) تم میں سے کوئی ظاہری معصیت کی مرتکب ہو تو اس کے لئے عذاب دوگنا کر دیا جائے گا، اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے ۔“
ﵻيَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًاﵺ
مزید برآں آیت نمبر 09:94میں ہے: ”(اے مسلمانو!) وہ تم سے عذر خواہی کریں گے جب تم ان کی طرف (اس سفرِ تبوک سے) پلٹ کر جاؤ گے، (اے حبیب!) آپ فرما دیجئے: بہانے مت بناؤ ہم ہرگز تمہاری بات پر یقین نہیں کریں گے، ہمیں اللہ نے تمہارے حالات سے باخبر کردیا ہے، اور اب (آئندہ) تمہارا عمل (دنیا میں بھی) اللہ دیکھے گا اور اس کا رسولﷺ بھی (دیکھے گا) پھر تم (آخرت میں بھی) ہر پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے (رب) کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو وہ تمہیں ان تمام (اعمال) سے خبردار فرما دے گا جو تم کیا کرتے تھے۔“
ﵻيَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ ۚ قُلْ لَا تَعْتَذِرُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ ۚ وَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَﵺ
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی بھی معاہدہ ختم کرنا کسی مزدور /محنت کش /ورکر کی کارکردگی پر منحصر ہونا چاہئے ، اور اس طرح کا کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے کارکردگی کے ہر پہلو کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
آیت نمبر 66:07 میں ہے: ”اے کافرو! آج کے دن کوئی عذر پیش نہ کرو، بس تمہیں اسی کا بدلہ دیا جائے گا جو کرتے رہے تھے۔“
ﵻيَا أَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ ۖ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَﵺ
کسی مزدور /محنت کش /ورکر کی کارکردگی کی بنیاد پر اسے برطرف کہا جا سکتا ہے اور جس کا عذر نوٹس دینے کے بعد قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ اس مزدور کے کیے کا بدلہ ہوگا۔
مزید یہ کہ بخاری شریف کتاب البیوع ، حدیث نمبر 2234 میں ہے: ”حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بذات خود سنا ہے کہ جب کوئی باندی زنا کی مرتکب ہو اور وہ ثابت ہو جائے تو اس پر حد زنا جاری کی جائے، البتہ اسے لعنت ملامت نہ کی جائے۔ پھر اگر وہ دوبارہ زنا کی مرتکب ہو تو اس پر اس مرتبہ بھی حد جاری کی جائے، لیکن کسی قسم کی لعنت ملامت نہ کی جائے۔ تیسری مرتبہ بھی اگر زنا کی مرتکب ہو اور زنا ثابت ہو جائے تو اسے بیچ ڈالے خواہ بال کی ایک رسی کے بدلے ہی کیوں نہ ہو۔“ (صحیح بخاری : 2234) مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی غلام چوری کرے تو اسے بیچ ڈالو اگرچہ ایک اوقیہ کے بدلے ہی کیوں نہ ہو۔“ (سنن ابو داؤد:4412)
ان دونوں احادیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کوئی ملازم/مزدور /محنت کش /ورکر بار بار غفلت کرتا یا بے ضابطگی کو دہراتا ہے تو اس کا معاہدہ بغیر کسی نوٹس کے ختم کیا جا سکتا ہے اور اس سے قطع نظر کہ وہ کتنا اچھا مزدور /محنت کش /ورکر ہے۔ ایسے مزدور کو زیادہ سے زیادہ دو بار تحریری انتباہ دیا جا سکتا ہے اور اگر وہ اس طرح کی بدتمیزی کو دہراتا رہے تو اسے برخاست کر دیا جائے۔ سنگین بداطواری (goss misconduct) کی صورت میں ، ملازمت کا معاہدہ علیحدگی کی تنخواہ کی ادائیگی کے بغیر ختم کیا جا سکتا ہے۔ قرآن نے مندرجہ ذیل الفاظ میں اسی طرح کے کیس کی طرف اشارہ کیا ہے:”اور اگر وہ (توبہ کے ذریعے اللہ کی) رضا حاصل کرنا چاہیں تو بھی وہ رضا پانے والوں میں نہیں ہوں گے۔“ (41:24)
ﵻوَإِنْ يَسْتَعْتِبُوا فَمَا هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَﵺ
قرآن کریم کی آیت 04:34 میں بتدریج انضباطی کارروائی سے مراد برطرفی کے مرحلے تک کی کاروائی ہے۔ اگر کوئی مزدور /محنت کش /ورکر اپنی عادات میں اصلاح کرتا ہے تو اسے ماضی کے سروس ریکارڈ کی بنیاد پر پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ آیتِ مبارکہ میں ہے : ”مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لئے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں، پس نیک بیویاں اطاعت شعار ہوتی ہیں شوہروں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت کے ساتھ (اپنی عزت کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں، اور تمہیں جن عورتوں کی نافرمانی و سرکشی کا اندیشہ ہو تو انہیں نصیحت کرو اور (اگر نہ سمجھیں تو) انہیں خواب گاہوں میں (خود سے) علیحدہ کر دو اور (اگر پھر بھی اصلاح پذیر نہ ہوں تو) انہیں (تادیباً ہلکی سی) سزا دو، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہو جائیں تو ان پر (ظلم کا) کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بیشک اللہ سب سے بلند سب سے بڑا ہے۔“ (04:34)
ﵻالرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًاﵺ
آیت 04:15 میں مزید اس بات کی وضاحت کچھ یوں ہے : ”اور تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو ان پر اپنے لوگوں میں سے چار مردوں کی گواہی طلب کرو، پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند کر دو یہاں تک کہ موت ان کے عرصۂ حیات کو پورا کر دے یا اللہ ان کے لئے کوئی راہ (یعنی نیا حکم) مقرر فرما دے۔“ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی مزدور /محنت کش /ورکر کو اس کی ناقص کارکردگی یا بدتمیزی پر برخاست کرنا ہی ضروری نہیں بلکہ اس کے خلاف تادیبی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے ، یا اسے معطل کیا جا سکتا ہے۔ (اگرچہ حوالہ شدہ آیت میں دی گئی ہدایات کو دوسری آیت یعنی سورۂ نور (24) کی آیت 12نے منسوخ کر دیا ہےتاہم اس آیت کا مفہوم اب بھی عام معاہدوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے)۔
جبکہ آیت75:13-15 میں برخاستگی کے طریقہ کار کا مطلب یہ کہ ایک مزدور /محنت کش /ورکر کو ان خرابیوں کے بارے میں بتایا جائےجن کی وجہ سے اس کو نوکری سے نکالا جا رہا ہے ۔ معاہدے کے خاتمے کی وجوہات کاونوٹس میں ذکر کرنا چاہیے۔ جیسا کہ آیت مبارکہ میں ہے : ” اُس دن اِنسان اُن (اَعمال) سے خبردار کیا جائے گا جو اُس نے آگے بھیجے تھے اور جو (اَثرات اپنی موت کے بعد) پیچھے چھوڑے تھے،بلکہ اِنسان اپنے (اَحوالِ) نفس پر (خود ہی) آگاہ ہوگا،اگرچہ وہ اپنے تمام عذر پیش کرے گا۔“ (75:13-15)
ﵻيُنَبَّأُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُﵺ
قرآن کریم ایک مزدور کو ملازمت کا معاہدہ ختم کرنے کا حق بھی دیتا ہے۔ آیت 08:58 میں اللہ تعالی فرماتا ہے: ”اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو ان کا عہد ان کی طرف برابری کی بنیاد پر پھینک دیں۔ بیشک اللہ دغابازوں کو پسند نہیں کرتا۔“ (08:58)
ﵻ وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَﵺ
یہ آیت مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کی یہود کی طرف سے مسلسل خلاف ورزی کے بارے میں نازل ہوئی۔ جس کے تحت مسلمانوں کو پیشگی اطلاع کے ساتھ ایسا کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ایسا ہی کیا گیا اور یہودیوں کو مدینہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آجر معاہدہ کی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر رہا یا کام کی جگہ کے ماحول کو ناقابل برداشت بنا رہا ہے جس کی وجہ سے مزدور /محنت کش /ورکر بہتری میں رکاوٹ کا شکار ہو رہے ہیں ، یا مزدور /محنت کش /ورکر کو بغیر کسی جواز کے کچھ فوائد سے محروم رکھا جا رہا ہے ، تو مزدور /محنت کش /ورکر پیشگی اطلاع دے کر اپنا معاہدہ ختم/ختم کر سکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” زبردستی کی صورت میں نہ طلاق واقع ہوتی ہے اور نہ ہی عتاق ( غلامی سے آزادی )۔“
(سنن ابن ماجہ: 2046)
ﵻلاَ طَلاَقَ وَلاَ عَتَاقَ فِي إِغْلاَقٍ ﵺ
اس کا مطلب یہ ہے کہ جبری استعفیٰ یا زور وزبردستی کے ذریعے ملازمت کے معاہدے کو ختم کرنا غلط ہوگا، اسی طرح جبری مشقت بھی ممنوع ہے۔ جیسا کہ سنن ابو داؤد (کتاب الادب) حدیث نمبر 5161 ، میں روایت ہے کہ ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو تمہارے موافق ہوں تو انہیں وہی کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو تم پہنتے ہو، اور جو تمہارے موافق نہ ہوں، انہیں بیچ دو، اللہ کی مخلوق کو ستاؤ نہیں ۔“ (سنن ابو داؤد: 5161) یعنی اگر کسی مزدور کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے تو اسے انفرادی ، نفسیاتی اور جسمانی طور پر اذیت دینے کے بجائے اس کے ساتھ معاہدہ ملازمت ختم کرنے کی اجازت ہے۔
﴿ مَنْ لاَءَمَكُمْ مِنْ مَمْلُوكِيكُمْ فَأَطْعِمُوهُ مِمَّا تَأْكُلُونَ وَاكْسُوهُ مِمَّا تَكْتَسُونَ وَمَنْ لَمْ يُلاَئِمْكُمْ مِنْهُمْ فَبِيعُوهُ وَلاَ تُعَذِّبُوا خَلْقَ اللَّهِ ﴾
نبی کریمﷺ نے حجة الوداع کے موقع پر فرمایا: ”اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ جو تم خود کھاتے ہو، انھیں بھی کھلاؤ۔ جو تم خود پہنتے ہو، انھیں بھی پہناؤ۔ اگر ان سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہو جائے جسے تم معاف نہیں کرنا چاہتے تو اللہ کے ان بندوں کو بیچ دو لیکن انھیں عذاب نہ دو۔“ (سلسلہ احادیثِ صحیحہ: 740)
﴿ارقاء کم ارقاء کم ارقاء کم اطعموہم مما تاکلون واکسوہم مما تلبسون فان جاء وا بذنب لا تریدون ان تغفروہ فبیعوا عباد اللہ ولا تعذبوہم﴾
[19] – اسلام مزدوروں سمیت ہر ایک کے حقوق کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اعتدال کا حکم دیتا ہے ۔ روایت ہے کہ ”حضرت انس بن مالک ؓنے بیان کیا کہ تین حضرات ( علی بن ابی طالب، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہم ) نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے، جب انہیں نبی کریم ﷺ کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا نبی کریم ﷺ سے کیا مقابلہ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔
« فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي » میرے طریقے سے جس نے بےرغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔“
﴿ أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي﴾
ایک آیت مبارکہ 65:06 میں ارشاد باری تعالی ہے: ”تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گی۔“ (65:06)
ﵻأَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰﵺ
اس آیت کی رو سے آجراور ملازمین معاہدہ ملازمت میں بلا وجہ کام چھوڑنے یا سبکدوش کرنے کی صورت میں دیئے جانے والے معاوضہ کے بارے میں بھی بات چیت کر سکتے ہیں۔مزید یہ کہ اسلام میں ایک ہی طرح کے کام کرنے والوں میں مختلف گریجویٹی (ملازم کی ملازمت ختم ہونے پر آجر کی جانب سےمزدور کی تنخواہ کے علاوہ ادائیگی) کو جائز قرار دیتا ہے ، جو از روئے قانون مزدوروں کے حقوق کی ضمانت کو کم نہیں کرتا۔ ایک روایت میں ہے : ” آپ ﷺ نے فرمایا کہ علائق (مہر) ادا کیا کرو، پوچھا گیا کہ علائق کیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: جس پر فریقین راضی ہو جائیں۔“ (التلخيص الحبير، ابن حجر عسقلانی: کتاب الصداق: 1672) اس سے پتا چلتا ہے کہ گریجویٹی کی رقم کے متعلق فریقین میں بات چیت ممکن ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ قانون میں دیے گئے حقوق کو کم نہ کیا جائے۔
﴿ أدوا العلائق ، قيل : وما العلائق ؟ قال : ما تراضى به الأهلون﴾
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ: ”بنو فزارہ قبیلے کی ایک عورت نے جوتوں کے جوڑے کے عوض شادی کر لی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم خود کو اور اپنے مال کو جوتے کے جوڑے کے عوض دینے پر راضی ہو؟ اس نے عرض کیا جی ہاں ، تو آپ ﷺ نے اس نکاح کو نافذ فرما دیا۔“ (مشکٰوة المصابیح: 3206)
﴿ أَرَضِيتِ مِنْ نَفْسِكِ وَمَالِكِ بِنَعْلَيْنِ؟﴾
ایک اور روایت ہے : ”ابوطلحہ ؓ نے ام سلیم ؓ سے نکاح کیا، تو ان کے درمیان مہر ( ابوطلحہ کا ) اسلام قبول کر لینا طے پایا تھا، ام سلیم ؓابوطلحہ ؓسے پہلے ایمان لائیں، ابوطلحہؓ نے انہیں شادی کا پیغام دیا، تو انہوں نے کہا: میں اسلام لے آئی ہوں ( میں غیر مسلم سے شادی نہیں کر سکتی ) ، آپ اگر اسلام قبول کر لیں تو میں آپ سے شادی کر سکتی ہوں، تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا، اور یہی اسلام ان دونوں کے درمیان مہر قرار پایا۔“ ( سنن نسائی :3342) معاوضے کی ادائیگی سامان کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔
(in-kind benefits)
فقہ ابوبکر ؓ (رواس قلعہ جی ؒ) میں ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ کھانے اور کپڑے کے عوض مزدور رکھا کرتے تھے، شاید آپ نے اس طرح مزدور کو اجرت پر رکھنے کو دودھ پلانے کے لیے دایہ کو اجرت پر رکھنے پر قیاس کیا ہے جیسا کہ سورہ بقرہ (آیت 233) میں ہے کہ ”دودھ پلانے والے باپ کے ذمہ ان دودھ پلانے والیوں (ماں یا دائی) کا رواج کے مطابق کھانا اور کپڑا ہے۔“ اسی طرح حضرت موسٰی ؑ نے بھی کھانے اور کپڑوں کے عوض حضرت شعیبؑ کی مزدوری آٹھ برس تک کی تھی۔
اسی طرح سے ایک خاتون کا نکاح قرآن کی کچھ سورتوں کی تعلیم کے عوض کیا گیا، روایت ہے کہ: ”ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی اور اس نے اپنے آپ کو آپؐ سے نکاح کے لیے پیش کیا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ مجھے اب عورت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پر ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! ان کا نکاح مجھ سے کر دیجئیے۔ نبی کریم ﷺنے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اس عورت کو کچھ دو، خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی سہی۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہؐ! میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ نبی کریمﷺ نے پوچھا تمہیں قرآن کتنا یاد ہے؟ عرض کیا فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ پھر میں نے انہیں تمہارے نکاح میں دیا۔ اس قرآن کے بدلے جو تم کو یاد ہے (اب اسکی تعلیم اپنی بیوی کو دینا)۔“(صحیح بخاری: 5141)
اس کے علاوہ سور ة بقرہ کی دیگر آیات02:231, 02:233 اور 02:234 بھی اسی تصور کو اجاگر کرتی ہیں۔ تجرباتی مدت کے دوران ، مزدوروں کو اجرت/دیگر مراعات ادا کی جائیں گی ، مدت کے دوران (چاہے وہ طویل عرصے کے لیے ہی ہوں)۔ اگر مزدور کو معاشی وجوہات کی بناء پر برطرف کیا جاتا ہے تو آجر کو طویل عرصے تک اجرت ادا کرنا پڑتی ہے۔ آیت میں 02:231 ارشاد ہے: ”اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو انہیں اچھے طریقے سے (اپنی زوجیّت میں) روک لو یا انہیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو، اور انہیں محض تکلیف دینے کے لئے نہ روکے رکھو کہ (ان پر) زیادتی کرتے رہو، اور جو کوئی ایسا کرے پس اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا، اور اللہ کے احکام کو مذاق نہ بنا لو، اور یاد کرو اللہ کی اس نعمت کو جو تم پر (کی گئی) ہے اور اس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل فرمائی ہے اور دانائی (کی باتوں) کو (جن کی اس نے تمہیں تعلیم دی ہے) وہ تمہیں (اس امر کی) نصیحت فرماتا ہے، اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔“ (02:231)
اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمبر 233 میں ارشاد ہے: ”اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لئے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے، (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضا مندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بیشک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھنے والا ہے۔“ (02:233)
اسی طرح آیت نمبر 02:234 میں ارشاد ہے: ”اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں، پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مؤاخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح خبردار ہے۔“(02:234)
اس کے علاوہ قرآن کریم کی آیت نمبر 02:236 میں ارشاد ہے: ”تم پر اس بات میں (بھی) کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم نے (اپنی منکوحہ) عورتوں کو ان کے چھونے یا ان کے مہر مقرر کرنے سے بھی پہلے طلاق دے دی ہے تو انہیں (ایسی صورت میں) مناسب خرچہ دے دو، وسعت والے پر اس کی حیثیت کے مطابق (لازم) ہے اور تنگ دست پر اس کی حیثیت کے مطابق، (بہر طور) یہ خرچہ مناسب طریق پر دیا جائے، یہ بھلائی کرنے والوں پر واجب ہے۔“(02:236)
ﵻ لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَﵺ
اس سے مراد وہ صورت حال ہے جہاں کوئی شخص معاہدے پر دستخط تو کرتا ہے لیکن ملازمت میں شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ آجر نے کچھ اندرونی وجوہات/مالی حالات کی وجہ سے معاہدہ ختم کر دیا ہے ، آجر کو اس شخص کو معقول رقم ادا کرنی چاہیے۔ آیت مبارکہ 02:237 میں ہے: ”اور اگر تم نے انہیں چھونے سے پہلے طلاق دے دی درآنحالیکہ تم ان کا مَہر مقرر کر چکے تھے تو اس مَہر کا جو تم نے مقرر کیا تھا نصف دینا ضروری ہے سوائے اس کے کہ وہ (اپنا حق) خود معاف کر دیں یا وہ (شوہر) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے معاف کردے (یعنی بجائے نصف کے زیادہ یا پورا ادا کردے)، اور (اے مَردو!) اگر تم معاف کر دو تو یہ تقویٰ کے قریب تر ہے، اور (کشیدگی کے ان لمحات میں بھی) آپس میں احسان کرنا نہ بھولا کرو، بیشک اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔“
قرآن ایسے معاملات کا بھی حوالہ دیتا ہے جن سے ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ کچھ حالات میں مزدوروں کوگریجویٹی کی ادائیگی کی ضرورت نہ ہو گی۔ (مذکورہ بالا حاشیہ میں ذکر کردہ قرآنی آیت 65:01 میں ارشاد ہے ”اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے۔“ اس سے پتہ چلتا ہے کہ معاہدے کی شدید خلاف ورزی کی صورت میں مزدور کی برطرفی پر کوئی تنخواہ نہیں دی جائے گی۔
اسی طرح آیت نمبر 09:84 میں ہے : ”اور آپﷺ کبھی بھی ان (منافقوں) میں سے جو کوئی مر جائے اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی آپ اس کی قبر پر کھڑے ہوں (کیونکہ آپ کا کسی جگہ قدم رکھنا بھی رحمت و برکت کا باعث ہوتا ہے اور یہ آپ کی رحمت و برکت کے حق دار نہیں ہیں)۔ بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ کفر کیا اور وہ نافرمان ہونے کی حالت میں ہی مر گئے۔“ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاہدے کی سنگین خلاف ورزی/کاروباری رازوں کے افشاء وغیرہ کی وجہ سے کی جانے والی انضباطی کاروائی کی صورت میں ملازم کی برطرفی پر کوئی تنخواہ نہیں دی جا ئے گی۔ ایک حدیث مبارک میں ہے: ”نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بندہ دوزخیوں کے سے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے ( اسی طرح دوسرا بندہ ) جنتیوں کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے، بلاشبہ عملوں کا اعتبار خاتمہ پر ہے۔“ (صحیح بخاری: 6607)
﴿إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيمِ ﴾
اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انضباطی کارروائی کی صورت میں ، ایک مزدور /محنت کش /ورکر چاہے وہ ایک طویل عرصہ کام کرتا رہا ہو کو سنگین غلطی/سنگین بدانتظامی پر سزا دی جاسکتی ہے اور اس کی گریجویٹی /بقایاجات روکے جا سکتے ہیں۔
[20] – معاہده ملازمت کے خاتمے پر سماجی تحفظ کے فوائد اور پنشن وغیرہ بھی اسلام میں بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن کریم کی آیت 02:241 میں ہے: ”اور طلاق یافتہ عورتوں کو بھی مناسب طریقے سے خرچہ دیا جائے، یہ پرہیزگاروں پر واجب ہے۔“ (02:241)
ﵻ وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَﵺ
اس آیت میں تجویز دی گئی ہے کہ پنشن معاوضہ زبردستی ریٹائر کئے جانے والے مزدوروں /محنت کشوں یا برطرف مزدوروں /محنت کشوں کو محدود وقت کے لیے دیا جائے۔ کچھ ادائیگی (جیسے میڈیکل کی سہولت وغیرہ) کسی مزدور /محنت کش /ورکر کی برطرفی کے بعد بھی جاری رہ سکتی ہے۔آیت نمبر 17:34 میں ارشاد ہے: ”اور تم یتیم کے مال کے (بھی) قریب تک نہ جانا مگر ایسے طریقہ سے جو (یتیم کے لئے) بہتر ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے، اور وعدہ پورا کیا کرو، بیشک وعدہ کی ضرور پوچھ گچھ ہوگی۔“ یہاں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست اور آجر کو اس طرح کا طریقہ کار وضع کرنا چاہیے کہ دوران ملازمت موت واقع ہونے کی صورت میں ملازم کی گریجویٹی کی ادائیگی یکمشت کرنے کی بجائے اسے ماہانہ بنیادوں پر دیا جائے یہاں تک کہ اس کے بچے جوانی کی عمر کو پہنچ جائیں۔اسی طرح آیت نمبر 04:05 میں ارشاد ہے: ”اور تم بے سمجھوں کو اپنے (یا ان کے) مال سپرد نہ کرو جنہیں اللہ نے تمہاری معیشت کی استواری کا سبب بنایا ہے۔ ہاں انہیں اس میں سے کھلاتے رہو اور پہناتے رہو اور ان سے بھلائی کی بات کیا کرو۔“ اسلام میں ملازم کی دوران ملازمت وفات (یا معاہدہ ختم کرنے ) کی صورت میں پسماندگان کے لیے مالی فوائد تجویز کیے گئے ہیں۔ تاہم پسماندگان میں یتیموں کو یہ مالی فوائد اس وقت تک ملیں گے جب تک وہ سن بلوغت (سمجھداری کی عمر ) یعنی 18 سال تک نہ پہنچ جائیں۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:”بلوغت کو پہنچنے کے بعد کوئی یتیم نہیں رہتا۔“ (سنن ابو داؤد: 2873)
﴿لاَ يُتْمَ بَعْدَ احْتِلاَمٍ﴾