فہرست مضامین

باب سو ئم: اجرتیں اور معاوضہ جات

باب سو ئم: اجرتیں اور معاوضہ جات (Remuneration and Payments)

 

  1. ایک آجر مزدوروں کو ان کی اجرت/تنخواہ بغیر کسی امتیاز کے ادا کرے گا۔[1]
  2. اسی طرح کی ادائیگی کے لیے اجرت کا تعین موجودہ مارکیٹ کے معیار کے مطابق کیا جائے گا اور تمام مروجہ قوانین اور قواعد و ضوابط کی تعمیل کی جائے گی۔
    1. کم از کم اجرت کا تعین اجرت کونسل (Wage Council)کے ذریعے طے کیا جائے گا[2] جس میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ یہ اجرت مزدوروں کی بنیادی ضروریات جیسا کہ خوراک ، رہائش ، کپڑے، صحت ، تعلیم اور ٹرانسپورٹ  (نقل و حمل سے متعلق اخراجات)کو پورا کرتی ہو۔[3]
    2. بنیادی ضروریات کی وضاحت بین الاقوامی معیار اور ملک کی مخصوص صورت حال کے مطابق ، اس ملک، جس میں مزدور ملازمت کرتا ہے، کے رہن سہن کی قیمتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جائے۔[4]
    3. معاہدے میں اجرت/ تنخواہ واضح طور بیان کی جائے  جو  اجرت کونسل کی طرف سےطے کردہ کم از کم اجرت سے کسی صورت  کم نہ ہو[5]
  3. اجرت/تنخواہوں کی ادائیگی کام کے دنوں کے اوقات میں براہ راست اس بینک اکاؤنٹ میں کی جائے گی جو مزدور آجر کو فراہم کرے گا۔ [6]
  4. اجرت فی گھنٹہ ، روزانہ ، ہفتہ وار ، پندرہ روزہ یا ماہانہ بنیاد پر دی جائے گی۔ اجرت کی ادائیگی کی زیادہ سے زیادہ مدت ایک ماہ سے تجاوز  نہیں ہوگی۔[7]
  5. یکساں نوعیت اور قدرکے کام کے لیے یکساں تنخواہ کے اصول کے باوجود ، کم از کم اجرت کونسل(wage council) مختلف پیشوں یا مزدوروں کی خاص قسموں کے لیے مختلف اجرت/تنخواہ کی سفارش کر سکتی ہے۔[8]
  6. ایک آجر مزدور وں کو ان کی اجرت پوری پوری ادا کرے گا۔ البتہ اسے قواعد کے تحت طے کی جانے والی کچھ کٹوتیوں کی اجازت ہوگی۔[9]
  7. ایک آجر مزدور کو اس کی  اجرت/تنخواہ کی ہر ادائیگی کے ساتھ ایک پے سلپ بھی فراہم کرے گا  جس کی  زبان اور ترتیب (language       and       form)ملازم کے لیے  قابلِ فہم ہو ۔ [10]
  8. ایسا آجر جو اس قانون کے تحت طےکردہ، مقرر کردہ یا اعلان کردہ اجرت ملازم کو دینے سے قاصر رہے گا، تو اس کا یہ عمل جرم تصور ہوگا۔ [11]

 

[1]– قرآن واضح طور پر مردوں اور عورتوں کے ساتھ یکساں سلوک کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اسلام کی رو سے   مردوں اور عورتوں کے اعمال اور ان کی جزا  (یا معاوضہ)میں کوئی  فرق نہیں ۔اسلام میں  قرآن کے ذریعے  واضح اعلان کیا گیا ہے:

”مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا”  (4:32)

ﵻلِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَﵺ

عورت ہونے  کی وجہ سے کسی عورت  کی اجرت میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی نہ ہی  اس سے  ان کی عزت اور وقار میں کوئی ایسی  کمی  واقع  کی جائے  گی  جو  انہیں ایک ایسے غیر انسانی مقام کی جانب  دھکیل دے گی جو اسلام کے تحت جائز نہیں ہے ، قرآن کریم میں ہے: ”اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو (شوہر کی حیثیت سے) عورتوں پر ایک درجہ ترجیح حاصل ہے، اور  اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔“ [2:228]

ﵻ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﵺ

آیت میں  ”مردوں کو  عورتوں  پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے اور اللہ طاقت ور ہے ، حکمت والا ہے۔“ کا ذکر مردوں اور عورتوں کے  ایک دوسرے پر حقوق کی یقین دہانی کے بعد استعمال کیا گیا ہے جو واضح طور پر مردوں اور عورتوں کے مساوی کام کے لیے برابر کے انعام اور جزا کی نشاندہی کرتا ہے۔ نوکری کی قدر یا اہمیت کا تعین کرنے کے لیے متعلقہ معیار یعنی  تعلیمی قابلیت ، پیشہ ورانہ مہارت ، تجربہ ،  اور ذمہ داریوں کو سنبھالنے میں کسی مرد وعورت میں کوئی فرق نہیں۔ ایک حدیث میں ان دونوں میں برابری کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ”عورتیں بھی (شرعی احکام میں) مردوں ہی کی طرح ہیں۔“ (سنن ابو داؤد: 236)

﴿ إنما النساء شقائق الرجال ﴾

نبی ﷺ نے اپنے الوداعی خطبے میں ایک اعلان  میں لوگوں سے کہا کہ ”عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو!“ (صحیح مسلم: 1218الف)

﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ﴾

اگرچہ تاریخی طور پر مردوں کو  معاشرے میں زیادہ  حقوق سے  میسر رہے ہیں لیکن نبی اکرم ﷺ نے خواتین کے لیے ایک بہتر اور منصفانہ مقام کے لیے ارشاد فرمایا: ”عورتوں  (بیویوں)کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو، اس لیے کہ عورتیں (تمھاری بیویاں) تمہاری ماتحت ہیں ، لہٰذا تم ان سے اس ( ہمبستری اور اپنی عصمت اور اپنے مال کی امانت وغیرہ) کے علاوہ اور کچھ اختیار نہیں رکھتے (اور جب وہ اپنا فرض ادا کرتی ہوں تو پھر ان کے ساتھ بدسلوکی کا جواز کیا ہے) ، الا یہ کہ وہ کھلی بدکاری کریں۔“ (ابن ماجہ:1851)

﴿اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا فَإِنَّمَا هُنَّ عِنْدَكُمْ عَوَانٍ ‏لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْهُنَّ شَيْئًا غَيْرَ ذَلِكَ إِلاَّ أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ﴾

قرآن مجید اجرت کی ادائیگی اور ضرورت سے زیادہ کٹوتی کے مسئلے  کی بھی وضاحت کرتا ہے۔ اسے بغیر کسی امتیاز کے یکساں نوعیت  کے کام کے لیے یکساں اجرت ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ”تم پیمانہ پورا بھرا کرو اور (لوگوں کے حقوق کو) نقصان پہنچانے والے نہ بنو،اور سیدھی ترازو سے تولا کرو،اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم (تول کے ساتھ) مت دیا کرو اور ملک میں (ایسی اخلاقی، مالی اور سماجی خیانتوں کے ذریعے) فساد انگیزی مت کرتے پھرو۔“ (26:181-183)

ﵻأَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ۝وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ۝وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَﵺ

مندرجہ ذیل  طویل آیت میں ، قرآن نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ اچھے کاموں کا اجر سب کے لیے برابر ہے ، چاہے ان کی جنس کوئی بھی ہو: ”بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے۔“ (33:35)

ﵻإِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﵺ

اوپر دی گئی آیت کا مفہوم غلام  احمد پرویز صاحبؒ اور جاوید احمد غامدی صاحب کے تراجم و تفسیر سے افادہ کرتے ہوئے کچھ یوں ہے: ”اسلامی معاشرہ کے مردوں اور عورتوں ‘ دونوں کی خصوصیات یہ ہونی چاہئیں کہ وہ :۔ (1)مسلمان ہوں یعنی جنھوں نے اسلام کو اپنے دین اور ضابطہ حیات کی حیثیت سے قبول کر لیا ہو اور قوانین خداوندی کے سامنے سر تسلیم کئے ہوں۔ (2)مومن ہوں یعنی ان قوانین کی محض میکانکی طور پر اطاعت نہ کریں‘بلکہ دل کی گہرائیوں میں‘ ان کی صداقت اور نتیجہ خیزی پر ایمان رکھیں۔ (جاوید احمد غامدی صاحب کے مطابق: ایمان دین کا باطن ہے اور یہاں اِس سے مراد وہ یقین ہے جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے وعدوں کے بارے میں اُس کی حقیقی معرفت کے ساتھ پایا جائے) (3) فرمانبردار ہوں اور اپنی صلاحیتوں کی نشونما کرکے‘ انہیں صِرف وہاں صَرف کریں جہاں صَرف کرنے کا حکم قوانین خداوندی کی رو سے ملے۔ (جاوید احمد غامدی صاحب کے مطابق: ’قٰنِتِیْن‘ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ بندگی میں رہیں۔ غم، خوشی، جوش، ہیجان اور لذت و الم کی کسی حالت میں بھی اپنے خالق سے سرکش نہ ہوں۔ شہوت کا زور، جذبات کی یورش اور خواہشوں کا ہجوم بھی اُنھیں خدا کے سامنے کبھی بے ادب نہ ہونے دے۔) (4) وہ عہد جو اُنہوں نے اپنے خدا سے باندھا ہے ‘ اسے سچ کر دکھائیں۔ (جاوید احمد غامدی صاحب کے مطابق: جنکے قول، فعل اور ارادہ میں تضاد نہ ہو) (5) مشکلات اور مصائب کے مقابلہ میں ثابت قدم اور مستقل مزاج رہیں۔ (جاوید احمد غامدی صاحب کے مطابق: ’صَابِر‘ وہ شخص ہے جو ہر خوف و طمع کے مقابل میں اپنے موقف پر قائم اور اپنے پروردگار کے فیصلوں پر راضی اور مطمئن رہے) (6) نوع انسان کی خدمت کے لئے شاخِ ثمردار کی طرح جھکے رہیں۔ (جاوید احمد غامدی صاحب کے مطابق: خشوع ایک قلبی کیفیت ہے جو اُسے خدا کے سامنے بھی جھکاتی ہے اور دوسرے انسانوں کے لیے بھی اُس کے دل میں رحمت و رأفت کے جذبات پیدا کر دیتی ہے۔) (7) اپنی ہر متاع کو‘ نظامِ خداوندی پر سے نچھاور کر دینے کے لئے تیار ہوں۔ (متصدقین وہ لوگ ہیں جو کمال درجہ کے فیاض ہوں (زکوة، صدقات کے علاوہ ایثار کرکے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے) اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں) (8)روزہ رکھنے والے ( چونکہ روزہ ضبط نفس اور صبر کی خاص عبادت ہے اس لیے صائمین منکرات سے بچنے والے، فواحش سے اجتناب کرنے والے اور اپنی زندگی میں تمام اخلاق عالیہ کا بہترین نمونہ ہوتے ہیں۔ قوانین خداوندی نے جہاں جہاں سے رُکنے کا حکم دیا ہے‘ وہاں سے رکتے ہیں۔ان پر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں ‘ ان کا پور اپورا خیال رکھتے ہیں۔ (9) اپنی عفت و عصمت کی پوری پوری حفاظت کریں۔ (یعنی اپنی عفت و عصمت کی بالکل آخری درجے میں حفاظت کرنے والے ہیں) (10)ذکر کرنے والے جنکی زبانیں ہر وقت اللہ کے ذکر سے تر رہیں ( اور وہ زندگی کے ہر قدم پر‘ قوانین خدوندی کو‘ اپنے سامنے رکھیں)۔ اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے۔( اس باب میں ، مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں ۔(3:194)،( 4:124)) ۔“

اگرچہ یہ آیت کسی بھی امتیازی بنیاد پر اجرت میں امتیازی سلوک کی ممانعت کرتی ہے ، پھر بھی یہ مہارت ، قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر اجرت کے فرق کی اجازت دیتی ہے: ”اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض  اللہ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)۔“ (53:39)

ﵻوَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىﵺ

اسی طرح کی دلیل ایک اور جگہ بھی ملتی ہے: ”پھر اُسے (اُس کی ہر کوشش کا) پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔“ (53:41)

ﵻثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ ﵺ

زیادہ اجرت کی بنیاد مہارت ، قابلیت اور کارکردگی پر ہونی چاہیے۔ قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت کے تحت اجرت پریمیم (premium     payment)کی اجازت ہے۔ ” اور نہ تمہارے مال اس قابل ہیں اور نہ تمہاری اولاد کہ تمہیں ہمارے حضور قرب اور نزدیکی دلا سکیں مگر جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کئے، پس ایسے ہی لوگوں کے لئے دوگنا اجر ہے ان کے عمل کے بدلے میں اور وہ (جنت کے) بالاخانوں میں امن و امان سے ہوں گے۔“ (34:37)

ﵻوَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُم بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَىٰ إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَﵺ

جزا و سزا کا معیار عمل ہیں نہ کہ  خواہشات، جیسا کہ قرآن میں ہے: ”انجام کار نہ تمہاری آرزوؤں پر موقوف ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر جو بھی برائی کرے گا اس کا پھل پائے گا اور اللہ کے مقابلہ میں اپنے لیے کوئی حامی و مدد گار نہ پاسکے گا، اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشر طیکہ ہو وہ مومن، تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور اُن کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی۔“  (04:123-124)

مہارت ، قابلیت ،  اسی طرح مشقت والے کام یا اثر ونفوذ والے  کام کی صورت میں اجرت  میں فرق کی اجازت ہے۔ اسی طرح غیر سماجی اوقات ، یعنی رات کی شفٹ ، اختتام ہفتہ ، یا عام تعطیلات پر کام کرنے پر زیادہ اجرت دی جا سکتی ہے۔ ہارڈ ایریا (مشکل مقام) کا الاؤنس  بھی اس کے تحت آ سکتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”تمہارا زمانہ پچھلی امتوں کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے عصر سے مغرب تک کا وقت ہے، تمہاری مثال یہود و نصاریٰ کے ساتھ ایسی ہے جیسے کسی شخص نے کچھ مزدور لیے اور کہا کہ میرا کام آدھے دن تک کون ایک ایک قیراط کی اجرت پر کرے گا؟ یہود نے آدھے دن تک ایک ایک قیراط کی مزدوری پر کام کرنا طے کر لیا۔ پھر اس شخص نے کہا کہ آدھے دن سے عصر کی نماز تک میرا کام کون شخص ایک ایک قیراط کی مزدوری پر کرے گا۔ اب نصاریٰ ایک ایک قیراط کی مزدوری پر آدھے دن سے عصر کے وقت تک مزدوری کرنے پر تیار ہو گئے۔ پھر اس شخص نے کہا کہ عصر کی نماز سے سورج ڈوبنے تک دو دو قیراط پر کون شخص میرا کام کرے گا؟ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تمہیں ہو جو دو دو قیراط کی مزدوری پر عصر سے سورج ڈوبنے تک کام کرو گے۔ تم آگاہ رہو کہ تمہاری مزدوری دگنی ہے۔ یہود و نصاریٰ اس فیصلہ پر غصہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ کام تو ہم زیادہ کریں اور مزدوری ہمیں کو کم ملے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کیا میں نے تمہیں تمہارا حق دینے میں کوئی کمی کی ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر یہ میرا فضل ہے، میں جسے چاہوں زیادہ دوں۔“ ( صحیح بخاری: 3459)

﴿ إِنَّمَا أَجَلُكُمْ فِي أَجَلِ مَنْ خَلاَ مِنَ الأُمَمِ مَا بَيْنَ صَلاَةِ الْعَصْرِ إِلَى مَغْرِبِ الشَّمْسِ، وَإِنَّمَا مَثَلُكُمْ وَمَثَلُ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى كَرَجُلٍ اسْتَعْمَلَ عُمَّالاً فَقَالَ مَنْ يَعْمَلُ لِي إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ فَعَمِلَتِ الْيَهُودُ إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ، ثُمَّ قَالَ مَنْ يَعْمَلُ لِي مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ إِلَى صَلاَةِ الْعَصْرِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ فَعَمِلَتِ النَّصَارَى مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ إِلَى صَلاَةِ الْعَصْرِ، عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ، ثُمَّ قَالَ مَنْ يَعْمَلُ لِي مِنْ صَلاَةِ الْعَصْرِ إِلَى مَغْرِبِ الشَّمْسِ عَلَى قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ أَلاَ فَأَنْتُمُ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ مِنْ صَلاَةِ الْعَصْرِ إِلَى مَغْرِبِ الشَّمْسِ عَلَى قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، أَلاَ لَكُمُ الأَجْرُ مَرَّتَيْنِ، فَغَضِبَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى، فَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ عَمَلاً وَأَقَلُّ عَطَاءً، قَالَ اللَّهُ هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ حَقِّكُمْ شَيْئًا قَالُوا لاَ‏.‏ قَالَ فَإِنَّهُ فَضْلِي أُعْطِيهِ مَنْ شِئْتُ﴾

سنیارٹی(seniority) یا کارکردگی کی بنا پر  اجرت میں فرق  کی بھی اجازت ہےجیسا کہ سالانہ وظیفہ میں فرق جس کا حکم  خلیفہ عمر ؓنے دیا ۔ ۔ غزوۂ بدرمیں شامل صحابہ کو ہر سال پانچ ہزار (درہم) دیے گئے۔  حضرت عمرؓ نے فرمایا: کہ ”میں ان کو اس سے زیادہ دوں گا جو میں دوسروں کو دوں گا۔“ (صحیح بخاری: 4022) سلمہ ؓبن الاکوع بیان کرتے ہیں کہ ”انہیں (غزوہ ذی قرد میں) غیر معمولی کارکردگی کی بنا پر جنگی مال غنیمت میں سے دو حصے دیے گئے اور رسول اللہ ﷺنے انہیں بہترین معارض (جنگجو)قرار دیا۔“ (صحیح مسلم: 1807)

کم سے کم اجرت مقرر کرتے وقت مختلف معیارات پر غور کیا جا سکتا ہے۔”جناب عمر بن خطابؓ نے ایک دن فئے ( بغیر جنگ کئے مل جانے والا مال ) کا ذکر کیا اور کہا کہ میں اس فئے کا تم سے زیادہ حقدار نہیں ہوں اور نہ ہی کوئی دوسرا ہم میں سے اس کا دوسرے سے زیادہ حقدار ہے، لیکن ہم اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی تقسیم کے اعتبار سے اپنے اپنے مراتب پر ہیں، جو شخص اسلام لانے میں مقدم ہو گا یا جس نے ( اسلام کے لیے ) زیادہ مصائب برداشت کئے ہونگے یا عیال دار ہو گا یا حاجت مند ہو گا تو اسی اعتبار سے اس میں مال تقسیم ہو گا، ہر شخص کو اس کے مقام و مرتبہ اور اس کی ضرورت کے اعتبار سے مال فئےتقسیم کیا جائے گا۔“ (سنن ابو داؤد:2950) البتہ خلیفہٴ  اول حضرت ابوبکر ؓکی سوچ اس سے مختلف تھی انہوں نے اصحاب  رسولؐ کے درمیان وظیفہ میں برابری کو ترجیح دی۔ (فقہ ابوبکر ؓ از محمد رواس قلعہ جیؒ ، ص 25)

﴿ذَكَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَوْمًا الْفَىْءَ فَقَالَ مَا أَنَا بِأَحَقَّ، بِهَذَا الْفَىْءِ مِنْكُمْ وَمَا أَحَدٌ مِنَّا بِأَحَقَّ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ أَنَّا عَلَى مَنَازِلِنَا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَالرَّجُلُ وَقِدَمُهُ وَالرَّجُلُ وَبَلاَؤُهُ وَالرَّجُلُ وَعِيَالُهُ وَالرَّجُلُ وَحَاجَتُهُ﴾

قرآن  کریم میں یہ بھی ارشاد ہے کہ بعض  لوگوں کو قیامت کے دن دوگنا انعام دیا جائے گا: ”اور جو شخص اپنے رب کے حضور (پیشی کے لئے) کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اُس کے لئے دو جنتیں ہیں۔“ (55:46)

ﵻوَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ ﵺ

ایک اور مقام پر  قرآن  کریم اس جانب بھی اشارہ ملتا ہے کہ واجب الادا سے زیادہ ادائیگی کی جائے: ”سو اللہ نے ان کی اس (مومنانہ) بات کے عوض انہیں ثواب میں جنتیں عطا فرما دیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ (وہ) ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اور یہی نیکوکاروں کی جزا ہے۔“(05:85)

ﵻ فَأَثَابَهُمُ اللَّهُ بِمَا قَالُوا جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَﵺ

ریاست کےلئے جائز نہیں ہے کہ وہ   صنف ، مذہب ، نسل ، ذات ، یا مسلک وغیرہ کی بنیاد پر مردو خواتین یا عوام کے درمیان امتیازی سلوک کرے۔ حضرت  علیؓ نے جب دو عورتوں کو پیسے اور کھانا برابر دیا ، جن میں سے ایک عرب اور دوسری غلام تھی ، ان میں سے ایک نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ، ’میں ایک عرب عورت ہوں ، اور وہ ایک غیر عرب ہے‘۔تو حضرت علیؓ نے فرمایا تھا  ”خدا کی قسم ، میں اسماعیل علیہ السلام کی اولاد  کو اسحاق  علیہ السلام کی اولاد پر کوئی فضیلت نہیں دیتا ۔“ (شارح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید ،جلد 2 ، صفحہ 200 ، نمبر 201)

[2] – ایک بار رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ( غلہ وغیرہ کا ) نرخ بڑھ گیا، تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہمارے لیے نرخ مقرر کر دیجئیے، آپ نے فرمایا: ”نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، وہی روزی تنگ کرنے والا، کشادہ کرنے والا اور کھولنے والا اور بہت روزی دینے والا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے رب سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کوئی مجھ سے جان و مال کے سلسلے میں کسی ظلم ( کے بدلے ) کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔“ (جامع ترمذی: 1314)

لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گرانی بڑھ گئی ہے لہٰذا آپ ( کوئی مناسب ) نرخ مقرر فرما دیجئیے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، ( میں نہیں ) وہی روزی تنگ کرنے والا اور روزی میں اضافہ کرنے والا، روزی مہیا کرنے والا ہے، اور میری خواہش ہے کہ جب اللہ سے ملوں، تو مجھ سے کسی جانی و مالی ظلم و زیادتی کا کوئی مطالبہ کرنے والا نہ ہو ( اس لیے میں بھاؤ مقرر کرنے کے حق میں نہیں ہوں ) ۔ “(سنن ابو داؤد؛ 3451)

﴿قَالَ النَّاسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ غَلاَ السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ وَإِنِّي لأَرْجُو أَنْ أَلْقَى اللَّهَ وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ يُطَالِبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلاَ مَالٍ﴾

اوپر بیان کی گئی  حدیث سب سے اہم حدیث ہے جس کا حوالہ وه لوگ  دیتے  ہیں جو ریاست کی طرف سے قیمتوں کے تعین کے خلاف ہیں۔ ایک عام اصول یہ ہے کہ  اسلام قیمت یا اجرت کے تعین میں حکومت کی طرف سے مارکیٹ میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔ تاہم ، اگر مارکیٹ کی خامیاں مزدوروں کی اجرت میں کمی کا باعث بن رہی ہیں اور مارکیٹ میں توازن بہت کم سطح پر مقرر کیا گیا ہو تو  ریاست آجروں سے مطالبہ کر سکتی ہے کہ وہ مزدوروں کو ’اجرت مثالی یا اجرتِ مثل ‘(وہ اجرت جو  اس طرح کا کام کرنے والے باقی لوگ لے رہے ہوں) ادا کریں۔ اسے ”مروجہ اجرت“ بھی  کہا جاتا ہے۔

ابن تیمیہ ؒ(متوفی 1328) نے استدلال کیا ہے کہ کچھ مخصوص صنعتیں جیسے کاشتکاری ، عمارت سازی ، بنوائی اور دیگر عوامی پیشے جن میں مارکیٹ کی قوتیں (مارکیٹ کی بگاڑ کی وجہ سے) تعاون نہیں کرتی ہیں ، اور افراد بھی ان سرگرمیوں میں سرمایہ کاری نہیں کرتے  تو اگر عوام کو ان صنعتوں کی ضرورت ہو تو ، وہ ایک اجتماعی ذمہ داری بن جاتے ہیں (فرض کفایہ) جہاں کچھ افراد کو یہ کام ضرورکرنا ہوتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ افراد کو رضاکارانہ طور پر ان پیشوں کو اپنا لینا چاہیے کیونکہ یہ معاشرے کے لیے ضروری ہیں۔ پھر بھی ، مارکیٹ انسپکشن کا دفتر لوگوں کو کم از کم اجرت مقرر کرنے کے بعد ان پیشوں کو اپنانے پر مجبور کر سکتا ہے تاکہ آجروں کے ہاتھوں مزدوروں کا استحصال نہ ہو، وہ سمجھتے ہیں  کہ عوامی افادیت سے متعلق ایسی صورت  حال میں حکومت کو مزدوروں کے لیے معاوضے کی مناسب شرح مقرر کرنی چاہیے۔ اجتماعی/عوامی اشیا کے مسئلے کے علاوہ معیشت کے دیگر شعبوں میں کم از کم اجرت کے تعین کی بھی حمایت کی جاسکتی ہے۔ قیمتوں اور اجرتوں سے متعلق بحث کو اس کتاب کے شروع میں دیکھیے جہاں ہم نے مختلف حوالوں سے اجرتوں کے تعین کو اسلامی اصولوں کے مطابق ثابت کیا ہے۔

[3]   مندرجہ ذیل حدیث ایسی اجرت کی فراہمی کا تقاضہ کرتی ہے جس سے زندگی گزارنی ممکن ہو۔ غربت اور غلامی کی اجرت (poverty and slavery wages)کے بجائے ، آجر کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مزدوروں کی بنیادی ضروریات اجرت کے ذریعے پوری ہوں۔ اس اصول کا اطلاق اس  وقت  ہوتا ہے جبکہ حکومت کم از کم اجرت مقرر کرتی ہے۔ ”ملازم/ نوکر کے حقوق یہ ہیں کہ اسے کھانا کھلایا جائے ، اسے مناسب کپڑے پہنائے جائیں  (کھانا اور لباس دراصل  تمام ضروریات ِزندگی کی طرف  اشارہ ہیں اس لیے یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ کم از کم اجرت اس لیول پر رکھے جس سے مزدوروں کی ضروریات زندگی اس دور کے تقاضوں کے مطابق پوری ہو سکیں)  اور اس  پر اس کی استطاعت سے بڑھ کر کام  کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔“ (مسلم: 1662/41، 4316)

﴿ لِلْمَمْلُوكِ طَعَامُهُ وَكِسْوَتُهُ، وَلَا يُكَلَّفُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا يُطِيقُ﴾

مستورد بن شداد ؓ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا ہے آپ کہہ رہے تھے: ”جو شخص ہمارا عامل ہو وہ ایک بیوی کا خرچ  (یعنی اپنے گھر والوں کا خرچ)بیت المال سے لے سکتا ہے، اگر اس کے پاس کوئی خدمت گار نہ ہو تو ایک خدمت گار رکھ لے اور اگر رہنے کے لیے گھر نہ ہو تو رہنے کے لیے مکان لے لے۔“ مستورد کہتے ہیں: ابوبکر ؓ نے کہا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ”جو شخص ان چیزوں کے سوا اس میں سے لے تو وہ خائن یا چور ہے۔“ (سنن ابو داؤد: 2945)

﴿من كانَ لنا عاملًا فليَكتسب زوجةً فإن لم يَكن لَهُ خادمٌ فليَكتسِبْ خادمًا فإن لم يَكن لَهُ مسْكنٌ فليَكتسب مَسْكنًا قالَ قالَ أبو بَكرٍ أُخبِرتُ أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ قالَ منِ اتَّخذَ غيرَ ذلِكَ فَهوَ غالٌّ أو سارِقٌ﴾

ایک اور روایت میں ہے کہ اگر اس ملازم کے پاس سواری کا جانور نہیں تو وہ سواری کا جانور (آج کے دور میں کوئی بھی سواری، موٹر سائیکل، کار وغیرہ) لے لے۔ (مسند احمد: 18015)

﴿مَن وَليَ لنا عَمَلًا وليس له مَنزِلٌ فليَتَّخِذْ مَنزِلًا، أوَليست له زَوجةٌ فليَتَزوَّجْ، أوَليس له خادِمٌ فليَتَّخِذْ خادِمًا، أوَليس له دابَّةٌ فليَتَّخِذْ دابَّةً، ومَن أصابَ شَيئًا سِوى ذلك فهو غالٌّ﴾

کم از کم اجرت (جس سے زندگی گزارانے کے اخراجات پورے ہو سکیں) مقرر کرتے وقت ، مزدوروں کی خاندانی ذمہ داریوں کو مدنظر رکھا جا سکتا ہے۔ بیوی بچوں والے کے لیے غیر شدہ شادی سے زیادہ تنخواہ یا فوائد ہونے چاہئے، جیسا کہ اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے:  ”عوف بن مالک ؓکہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ کے پاس جس دن مال فئے آتا آپ اسی دن اسے تقسیم کر دیتے، شادی شدہ کو دو حصے دیتے اور کنوارے کو ایک حصہ دیتے، تو ہم بلائے گئے، اور میں عمار ؓسے پہلے بلایا جاتا تھا، میں بلایا گیا تو مجھے دو حصے دئیے گئے کیونکہ میں شادی شدہ تھا، اور میرے بعد عمار بن یاسرؓ بلائے گئے تو انہیں صرف ایک حصہ دیا گیا ( کیونکہ وہ کنوارے تھے )۔“  (سنن ابو داؤد:2953)

مزدوروں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا صدقہ کی ترجیحی شکلوں میں سے ایک ہونا چاہیے، ایک حدیث مبارک میں ہے: کہ  ”نبی اکرم ﷺ نے صدقہ کا حکم دیا تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنے کام میں لے آؤ ، تو اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنے بیٹے کو دے دو ، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنی بیوی کو دے دو ، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنے خادم  (ملازم)کو دے دو ، اس نے کہا میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اب تم زیادہ بہتر جانتے ہو ( کہ کسے دیا جائے ) ۔“ (سنن ابو داؤد:1691)

[4] – اگرچہ کم از کم اجرت کے قوانین کا احترام کرنے کی ضرورت ہے ،  پھر بھی ایک عام اصول یہ ہے کہ اجرت کی شرح آجر کی مالی حالت پر منحصر ہے۔ اس اصول کو کم از کم اجرت اور اجتماعی سودے بازی کے ذریعے طے شدہ دیگر فوائد کا تعین کرتے ہوئے ضرور مدِنظر رکھنا چاہیے۔ ” تم پر اس بات میں (بھی) کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم نے (اپنی منکوحہ) عورتوں کو ان کے چھونے یا ان کے مہر مقرر کرنے سے بھی پہلے طلاق دے دی ہے تو انہیں (ایسی صورت میں) مناسب خرچہ دے دو، وسعت والے پر اس کی حیثیت کے مطابق (لازم) ہے اور تنگ دست پر اس کی حیثیت کے مطابق، (بہر طور) یہ خرچہ مناسب طریق پر دیا جائے، یہ بھلائی کرنے والوں پر واجب ہے۔“ (02:236)

ﵻلَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَﵺ

اجرت طے کرتے وقت ، آجر کی مالی حالت پر بھی غور کرنا چاہیے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اجرت طے کرتے وقت آجر کے نمائندوں سے ضرور مشورہ کیا جانا چاہیے۔”اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑے۔“ (17:29)

ﵻوَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا ﵺ

[5] –  ملازمت کے معاہدے میں اجرت کا تعین ہونا ضروری ہے۔ حکومت کی جانب سے کم از کم اجرت کا نوٹیفکیشن بھی اسی مقصد کی تکمیل ہے۔ نیچے دی گئی آیت میں ، ”اونٹ کا بوجھ“  ایک مخصوص معاوضہ ہے جو کسی کام کی تکمیل پر دیا جاتا ہے۔ اس آیت میں بونس اور کارکردگی کی بنیاد پر معاوضے  کا تصور بھی شامل ہے۔ ”وہ (درباری ملازم) بولے: ہمیں بادشاہ کا پیالہ نہیں مل رہا اور جو کوئی اسے (ڈھونڈ کر) لے آئے اس کے لئے ایک اونٹ کا غلہ (انعام) ہے اور میں اس کا ذمہ دار ہوں۔“(12:72)

ﵻقَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَن جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌﵺ

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جو کوئی اپنے لئے کسی کو ملازم رکھے اسے چاہیئے کہ وہ اس  مزدورکو اس کی اجرت پہلے  بتادے۔“
(مصنف عبدالرزاق: 15023)

نبی كريم  ﷺ نے ایسی صورت کو  سخت ناپسند فرمايا جہاں ايك مزدور کو بغیر تنخواہ کام کرنے پر مجبور  كر ديا جائے۔ آپﷺ نے کام شروع کرنے سے پہلے مزدور کو اجرت کے بارے میں آگاہ کرنے کا حکم دیا ہے (مصنف ابن ابی شیبہ :21516،  سنن نسائی: 3857)

﴿أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ نَهَى عن استئجارِ الأجيرِ حتى يُبَيَّنَ لهُ أجرُهُ ﴾

﴿عن النبي صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أنه نهى أن يستأجر الأجير حتى يعلم أجره﴾

﴿قَالَ إِذَا اسْتَأْجَرْتَ أَجِيرًا فَأَعْلِمْهُ أَجْرَهُ ﴾

مزدور کا حق ہے کہ اسے اتنی اجرت ملے جس سے اس کاگزر بسر  ہو  سکے ۔ دیوالیہ ہونے کی صورت میں ، مزدور کی اجرت (قرض کی طرح) پہلے ادا کی جانی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ” اصل بدبخت وہ ہے جو اپنی دولت سے لازمی زکوٰ ةدینے سے انکار کرتا ہے اور اپنے لوگوں کی ضروریات پر خرچ کرنے سے انکار کرتا ہے ، اور اپنی دولت کو  دوسری چیزوں پر ضائع کرتا ہے۔“  (معانی الاخبار ، ص: 245 ، نمبر: 4)

اسی طرح ، دیوالیہ پن یا کسی کمپنی کی بندش کی صورت میں بھی مزدوروں کا اجرت کا حق محفوظ ہے۔ اور آجر کو فراخ دلی سے کام لینا چاہیے۔ آجر اور ٹریڈ یونین کے مابین ایک معاہدے پر دستخط کیے جا سکتے ہیں تاکہ ملازمین کی مالی حالت پر غور کرتے ہوئے مزدوروں کے حق کی حفاظت کی جا سکے۔ کچھ بنیادی ہدایات قواعد کے تحت بھی طے  کی جا سکتی ہیں۔قرآن کریم میں ارشاد ہے: ”اور (کشیدگی کے لمحات میں بھی) آپس میں احسان کرنا نہ بھولا کرو۔“ (02:237)

ﵻوَلَا تَنسَوُاْ ٱلۡفَضۡلَ بَيۡنَكُمۡۚ ﵺ

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے    زِنْ وَأَرْجِحْ (صحیح طریقے سے وزن کر اور اسے خریدار یا دوسرے فریق  کے حق میں ترازو کا جھول  رکھ کر تول) نہ صرف ان لوگوں پر لاگو ہوتا ہے جو مصنوعات بیچ رہے ہیں بلکہ ان مالکان کے لیے بھی جو حکومت کی مقرر کردہ کم از کم اجرت سے زیادہ اجرت ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔  حکومت کی طرف سے مقرر کردہ اجرتیں صرف کم ازکم حد مقرر کرتی ہیں انہیں  آخری حدنہیں سمجھنا چاہئے۔ (طبرانی: ، المعجم الاوسط: 6954)

اسی طرح کی حدیث سنن ابو داؤد اور سنن ابن ماجہ میں ہے: ”سوید بن قیس کہتے ہیں   میں نے اور مخرمہ عبدی نے ہجر سے کپڑا لیا اور اسے ( بیچنے کے لیے ) مکہ لے کر آئے تو رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس پیدل آئے، اور ہم سے پائجامہ کے کپڑے کے لیے بھاؤ تاؤ کیا تو ہم نے اسے بیچ دیا اور وہاں ایک شخص تھا جو معاوضہ لے کر وزن کیا کرتا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: تولو اور جھکا ہوا تولو ۔“(سنن ابو داؤد:3336)

﴿حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ قَيْسٍ، قَالَ جَلَبْتُ أَنَا وَمَخْرَمَةُ الْعَبْدِيُّ، بَزًّا مِنْ هَجَرَ فَأَتَيْنَا بِهِ مَكَّةَ فَجَاءَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَمْشِي فَسَاوَمَنَا بِسَرَاوِيلَ فَبِعْنَاهُ وَثَمَّ رَجُلٌ يَزِنُ بِالأَجْرِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ زِنْ وَأَرْجِحْ ‏﴾

ابوصفوان بن عمیرہ  ؓ کہتے ہیں کہ ”ہجرت سے پہلے میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ ایک پاجامہ بیچا، آپ نے مجھے قیمت تول کر دی، اور جھکا کر دی۔“ (سنن ابن ماجہ:2221)

﴿أَبَا صَفْوَانَ بْنَ عُمَيْرَةَ، قَالَ بِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ رِجْلَ سَرَاوِيلَ قَبْلَ الْهِجْرَةِ فَوَزَنَ لِي فَأَرْجَحَ لِي﴾ ‏.‏

اسی طرح  جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”رسول اللہ ﷺ نے ان سے ایک اونٹ خریدا اور ان کے لیے بطور قیمت) جب (چاندی کو وزن کیا تو کچھ بڑھا کر وزن کیا(ایک اور روایت میں ہے کہ   آپﷺنے فرمایا کہ بلالؓ! ان کی قیمت ادا کر دو اور کچھ بڑھا کر دے دو۔ چنانچہ انہوں نے چار دینار بھی دئیے۔ اور فالتو ایک قیراط بھی دیا ۔)“ (صحیح بخاری: 2097، 2309، 2385، 2460)

اور ایک اور حدیث میں روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ”(کسی کا حق دیتے ہوئے)جب تم وزن کرو تو جھکتا دیا کرو (یعنی حق سے کچھ زیادہ ہی)۔“ (سلسلہ احادیث ِ صحیحہ: 3942)

[6]–  آجروں پر لازم ہے کہ وہ مزدوروں کو وقت پر پوری اجرت دیں۔ ان آیات  میں مزدوروں پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے کام کو پورے عزم ودلجمعی کے ساتھ کریں اور کام چوری نہ کریں۔

”اور مدین کی طرف (ہم نے) ان کے (قومی) بھائی شعیب (علیہ السلام) کو (بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! تم  اللہ کی عبادت کیا کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آچکی ہے سو تم ماپ اور تول پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور زمین میں اس (کے ماحولِ حیات) کی اصلاح کے بعد فساد بپا نہ کیا کرو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم (اس الُوہی پیغام کو) ماننے والے ہو۔“ (07:85)

ﵻوَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ  قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ  فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا  ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَﵺ

آجر مقررہ وقت اور طریقے سے اجرت دینے کے پابند ہیں۔ اجرت کی ادائیگی میں کسی تاخیر کو آجر کی جانب سے ناانصافی اور خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے: ”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ( قرض ادا کرنے میں ) مالدار کی طرف سے(ادائیگی میں)  ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور اگر تم میں سے کسی کا قرض کسی مالدار پر حوالہ دیا جائے تو اسے قبول کرے۔“ (مستدرک الواصل:15713؛ صحیح    بخاری: 2287)

﴿مَطْلُ الغَنِيِّ ظُلْم﴾

اجرت آجر کی طرف سے قرض کی طرح ہے۔ اس حدیثِ مبارکہ میں اصول مقرر کیا گیا ہے۔ کہ بہترین آجر وہ ہیں جو اجرت نہیں روکتے یا اجرت کی ادائیگی میں تاخیر نہیں کرتے۔ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ”نبی کریم ﷺ کبھی کسی شخص کی اجرت نہیں روکتے تھے اور  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی مزدوری کے معاملے میں کسی پر ظلم نہیں کرتے تھے۔“
﴿وَلَمْ يَكُنْ يَظْلِمُ أَحَدًا أَجْرَه﴾ (صحیح بخاری :  2280)

نبی کریمﷺ نے  ”بیع مضطر“  یعنی مجبور سے سودا کرنے یا ضرورت مند کے مال کو سستا خریدنےکی ممانعت فرمائی ہے ۔ اس حدیث کو اگر اسلامی قانونِ محنت کے حساب سے دیکھا جائے تو اسکا مطلب ہو گا کہ کسی مجبور محنت کش کااسکی مجبوری کی بنیاد پر  استحصال نہ کیا جائے اور اسے کم از کم اجرت یا معروف اجرت سے کم پر نہ رکھا جائے۔ (سنن ابو داود: 3382)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بہترین کمائی ان  تاجروں کی کمائی ہے جو جب بولتے ہیں تو جھوٹ نہیں بولتے ، جب انہیں کوئی چیز سونپی جاتی ہے تو وہ خیانت نہیں کرتے ، جب وہ وعدہ کرتے ہیں تو خلاف ورزی نہیں کرتے جب وہ خریدتے ہیں [مال]  میں بے جا نقص نہیں نکالتے ، اور  جب بیچتے ہیں تو [اپنے مال] کی (بے جا)تعریف نہیں کرتے ، جب  انہوں نے قرض  ادا  کرنا ہو  تو وہ اس کی ادائیگی میں تاخیر نہیں کرتے ہیں ، اور اگر  انہوں نے کسی سے  [رقم] لینی ہو  تو وہ [اپنے مقروض] کو مجبور نہیں کرتے ۔“
(کنز العمال ، حدیث نمبر 9340-9341)

اجرت روکنا یا اجرت کی ادائیگی میں تاخیر ناانصافی اور قانون کی خلاف ورزی ہے ہونے کے ساتھ ساتھ قابل سزا جرم ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ”صاحب استطاعت کا ادائیگی قرض میں تاخیر کرنا ظلم قرار دیا ہے اور جب تم میں سے کسی کو صاحب استطاعت کے حوالہ کیا جائے تو اسے اس حوالہ کو قبول کر لینا چاہئے۔“ (مشکوٰة المصابیح: 2907)

﴿مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ فَإِذَا أُتْبِعَ أحدكُم على مَلِيء فَليتبعْ﴾

اجرت کو روکنا یا اجرت چوری کرنا ایک دوسری حدیث میں درج ذیل الفاظ میں ممنوع ہے: ” آدمی کے گنہگار ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ  اس آدمی کا رزق روک لے جس کا وہ مالک ہے۔“ (صحیح مسلم:2312)

﴿كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يَحْبِسَ عَمَّنْ يَمْلِكُ قُوتَهُ﴾

[7]–  قرآن  کریم میں اجرت کی بروقت ادائیگی  پر یوں زور دیا گیا ہے  اور اجرت مزدور کو براہِ راست (چیک یا بنک اکاؤنٹ کے ذریعے سے)ہی ادا کی جائے گی: ”بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں۔“ (04:58)

ﵻإِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَاﵺ

اجرت کی باقاعدہ اور بروقت  ادائیگی اس حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ مزدور اور آجر کے درمیان اجرت کی ادائیگی کی مدت پر اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ، یہ ایک ماہ سے زیادہ نہ ہو۔ عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری دے دو۔“ (مشکوٰة المصابیح: 2987)

﴿أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ، قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ﴾

کام کی تکمیل پر مزدور کو اجرت دی جائے۔ تاہم ، اجرت کی مدت کا وقفہ(wage period) ایک ماہ سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔   رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بے شک  ایک مزدور کو اس کی پوری اجرت اسی وقت دی جاتی ہے جب وہ اپنا کام ختم کر لیتا ہے۔“ (مشکوٰة المصابیح: 1968)

﴿وَلَكِنَّ الْعَامِلَ إِنَّمَا يُوَفَّى أجره إِذا قضى عمل﴾

اجرت روکنا یا اجرت کی ادائیگی میں تاخیر جرم ہے جس کی سزا جرمانے کے ساتھ ساتھ قید بھی ہوسکتی ہے: شرید ؓروایت ہے کہ  ”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مالدار آدمی کا ٹال مٹول کرنا اس کی ہتک عزتی اور سزا کو جائز کر دیتا ہے ۔ ابن مبارک کہتے ہیں: ہتک عزت سے مراد اسے سخت سست کہنا ہے، اور سزا سے مراد اسے قید کرنا ہے۔“(سنن ابو داؤد:3628)

﴿‏ لَىُّ الْوَاجِدِ يُحِلُّ عِرْضَهُ وَعُقُوبَتَهُ ‏‏﴾

[8] – اجرت کی ادائیگی میں جگہ کے رواج کے ساتھ ساتھ رہن سہن کی قیمت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ ایک آجر کو حسب ضرورت اس سے زیادہ ادائیگی کی ضرورت نہیں ہوسکتی جب تک کہ فریقین کے درمیان اتفاق نہ ہو۔ یہاں قرآن کریم  سے چند مثالیں ہیں جو اصلاً خاندانی معاملات سے متعلق ہیں مگر ان کو  ملازمت کے تعلقات میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

”اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لئے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے، (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضا مندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور  اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بیشک جو کچھ تم کرتے ہو  اللہ اسے خوب دیکھنے والا ہے۔“ (02:233)

ﵻوَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ ۚ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَٰلِكَ ۗ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ۗ وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَا آتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌﵺ

” تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گی۔“ (65:06)

ﵻأَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰﵺ

”صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہئے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلّف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا۔“ (65:07)

ﵻ لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ ۖ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًاﵺ

[9] – آجر کی جائیداد کو جان بوجھ کر نقصان پہنچانے کی صورت میں ، ایک مزدور کو لیبر ڈیپارٹمنٹ کے نمائندے کی معیت  میں آجر کی طرف سے  مطلوبہ جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ آجر کوئی  ایسا جرمانہ نہیں لگا سکتا جو کھوئی ہوئی/خراب شدہ چیز کی قیمت سے زیادہ ہو، اس بارے میں  اصول یہ ہو گا:  فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ ہے ”پھر تمہاری اصل رقم تمہاری ہے۔“ (02:279)

آیت نمبر  (05:95) میں ”اَوْ عَدْلُ ذٰلِكَ صِيَامًا“ یا ”صوم (روزہ) میں اس کا مساوی“ مطلب یہ ہے کہ کھوئے ہوئے سامان کی مساوی قیمت مزدور کی تنخواہ سے کٹوتی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ سزاؤں میں بھی آپشن ہو سکتے ہیں۔ آج کی دنیا میں ، اس کا مطلب جرمانہ اور/یا قید ہوسکتا ہے۔

”اے ایمان والو! تم احرام کی حالت میں شکار کو مت مارا کرو، اور تم میں سے جس نے (بحالتِ احرام) قصداً اسے مار ڈالا تو (اس کا) بدلہ مویشیوں میں سے اسی کے برابر (کوئی جانور) ہے جسے اس نے قتل کیا ہے جس کی نسبت تم میں سے دو عادل شخص فیصلہ کریں (کہ واقعی یہ جانور اس شکار کے برابر ہے بشرطیکہ) وہ قربانی کعبہ پہنچنے والی ہو یا (اس کا) کفّارہ چند محتاجوں کا کھانا ہے (یعنی جانور کی قیمت کے برابر معمول کا کھانا جتنے بھی محتاجوں کو پورا آجائے) یا اس کے برابر (یعنی جتنے محتاجوں کا کھانا بنے اس قدر) روزے ہیں تاکہ وہ اپنے کیے (کے بوجھ) کا مزہ چکھے۔ جو کچھ (اس سے) پہلے ہو گزرا اللہ نے اسے معاف فرما دیا، اور جو کوئی (ایسا کام) دوبارہ کرے گا تو اللہ اس سے (نافرمانی) کا بدلہ لے لے گا، اور اللہ بڑا غالب بدلہ لینے والا ہے۔“ (05:95)

ﵻيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ ۚ وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًا لِيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ ۗ عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ ۚ وَمَنْ عَادَ فَيَنْتَقِمُ اللَّهُ مِنْهُ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍﵺ

درج ذیل آیت کی روشنی میں ، اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ اگر کام پر کسی مزدور کی طرف سے (اس کی غفلت کی وجہ سے) کچھ مصنوعات کو نقصان پہنچتا ہے تو ، اس کی تنخواہ میں سے  ایک مخصوص رقم کی کٹوتی کی جا سکتی ہے یہاں  تک کہ خراب شدہ مصنوعات کی مناسب قیمت  وصول پا جائے ۔ تنخواہ کی اس کٹوتی کی مدت میں ملازم  نوکری نہیں چھوڑ سکتا۔ نقصان کی وصولی گریچواٹی/پنشن سے بھی وصول کی جاسکتی ہے۔

”اور داؤد اور سلیمان (علیہما السلام کا قصہ بھی یاد کریں) جب وہ دونوں کھیتی (کے ایک مقدمہ) میں فیصلہ کرنے لگے جب ایک قوم کی بکریاں اس میں رات کے وقت بغیر چرواہے کے گھس گئی تھیں (اور اس کھیتی کو تباہ کر دیا تھا)، اور ہم ان کے فیصلہ کا مشاہدہ فرما رہے تھے، چنانچہ ہم ہی نے سلیمان (علیہ السلام) کو وہ (فیصلہ کرنے کا طریقہ) سکھایا تھا اور ہم نے ان سب کو حکمت اور علم سے نوازا تھا اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں (تک) کو داؤد (علیہ السلام) کے (حکم کے) ساتھ پابند کر دیا تھا وہ (سب ان کے ساتھ مل کر) تسبیح پڑھتے تھے، اور ہم ہی (یہ سب کچھ) کرنے والے تھے۔“ (21:78-79)

ﵻوَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۚ وَكُنَّا فَاعِلِينَﵺ

قانون کی عدم تعمیل کی سزا (مزدور اور آجر دونوں کے لیے) انصاف کے اصولوں سے ہم آہنگ ہونی چاہیے ، اور ناپسندیدہ ہوتے ہوئے بھی اسے حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ قرآن میں ایک اصول پہلے سے بیان کیا گیا ہے: ”اور برائی کا بدلہ اسی طرح کی  برائی ہے۔“ (42:40)

ﵻوَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَاﵺ

مزدور کی طرف سے مکمل غفلت بددیانتی شمار ہوتی ہے۔ غفلت کی وجہ  سے نقصان پہنچانے پر ایک آجر  مزدور/ ملازم کو ملازمت  سے ہٹاسکتا ہے۔ بعض صورتوں میں قید بھی ہو سکتی ہے۔اسی لیے امیر المومنین حضرت علی ؓنے قید کو صرف تین صورتوں میں جائز قرار دیا ہے: ”ایک یتیم کی جائیداد غیر قانونی طور پر ہڑپ کرنے والا ، یا اسے غصب کرنے والا ، یا وہ آدمی جسے کوئی کام  کے لئے کوئی سامان سونپا جائے اور وہ اسے خراب کر دے۔“ (الکافی ، ص 7 ، صفحہ 263 ، نمبر 21)            امام جعفر صادقؒ نے فرمایا ”جو شخص کسی شخص  کے لیے کام کرتا ہے ، اور اسے بگاڑ دیتا ہے اور ضائع کر دیتا ہے وہ اس کا ذمہ دار ہوگا۔   حضرت علی ؓمزدوروں کو ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔“ (مستدرک الوسائل: 16039)

ہر ایک کو اپنا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے اور وہ اپنے اعمال اور نتائج کا  خود ذمہ دار ہے۔ بطور جرمانہ اجرت سے کچھ کٹوتی کی جا سکتی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد  ہے: ”اور وہ اپنی پیٹھوں پر اپنے (گناہوں کے) بوجھ لادے ہوئے ہوں گے، سن لو! وہ بہت برا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں۔“ (06:31)

ﵻ وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَىٰ ظُهُورِهِمْ ۚ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَﵺ

اعلی کارکردگی دکھانے والوں کو بونس یا اعزازیہ دیا جا سکتا ہے۔ مجموعی بدانتظامی کی وجہ سے ، اجرت میں کمی بھی ممکن ہے۔  حضرت علیؓ نے فرمایا:” آپ اچھے کام کرنے والوں کو عزت دے کر ان کی اصلاح کر سکتے ہیں ، اور غلط کام کرنے والوں کو ان کی گوشمالی کرکے  درست کر سکتے ہیں۔“ (بحار الانوار ، صفحہ 78 ، صفحہ 82 ، نمبر 81)

آجر بلاجواز ، ناجائز یا ضرورت سے زیادہ اجرت  میں کمی یا اجرت  میں چوری  (wage      theft) نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں انصاف کرنے کی ان الفاظ میں تاکید کرتا ہے؛

”اور اسی نے آسمان کو بلند کر رکھا ہے اور (اسی نے عدل کے لئے) ترازو قائم کر رکھی ہے، تاکہ تم تولنے میں بے اعتدالی نہ کرو، اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو کم نہ کرو۔“ (55:7-9)

ﵻوَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ۝ اَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيْزَانِ۝ وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيْزَانَﵺ

رسول کریمﷺ نے فرمایا:” جو آدمی کسی مسلمان آدمی کا حق قسم کھا کر مار لے گا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا اور جنت اس پر حرام کر دے گا۔“  ایک شخص نے آپؐ سے کہا: اگرچہ وہ معمولی سی چیز ہو؟ اللہ کے رسولؐ! آپؐ نے فرمایا: ”گرچہ وہ پیلو کی ایک ڈال ہو(مسواک والے درخت کی ایک ٹہنی ہی ہو)۔“ (سنن نسائی: 5421)

﴿من اقتطع حق امرئ مسلم بيمينه فقد اوجب الله له النار، وحرم عليه الجنة”، فقال له رجل: وإن كان شيئا يسيرا يا رسول الله؟ قال:” وإن كان قضيبا من اراك﴾

مزدوروں کو ان کی ادائیگی کی صلاحیت سے زیادہ جرمانہ نہیں کیا جا سکتا۔ ابوسعید خدری ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک آدمی نے اپنے خریدے ہوئے پھلوں کا نقصان کیا اور اس کا قرض بڑھ گیا۔ چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ نے (لوگوں کو) اسے صدقہ دینے کو کہا ، اور انہوں نے اسے صدقہ دیا ، لیکن یہ پورا قرض ادا کرنے کے لیے کافی نہیں تھا ، چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے قرض دہندگان سے کہا: ”جو ملے اسے لے لو تمہیں اس کے علاوہ بھیک کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔“ (مشکوٰة المصابیح: 2900)

﴿خُذُوا مَا وَجَدْتُمْ وَلَيْسَ لَكُمْ إِلَّا ذَلِك﴾

ایک آجر مزدور کو پیشگی رقم (advance) دے کر  مزدوروں کے ساتھ حسن سلوک کر سکتا ہے اور اسے مزدوروں کو  قرض کی جلد ادائیگی پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ ”اور اگر قرض دار تنگدست ہو تو خوشحالی تک مہلت دی جانی چاہئے، اور تمہارا (قرض کو) معاف کر دینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں معلوم ہو (کہ غریب کی دل جوئی  اللہ کی نگاہ میں کیا مقام رکھتی ہے)۔“ (02:280)

ﵻ وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَﵺ

[10] –  مزدوروں کو اجرت کی پرچی (salary    slip) یعنی پے سلپ   دی جانی چاہیے جو اجرت اور اس کی جزئیات کی نشاندہی کرتی ہو۔ اجرت آجر کی طرف سے ایک قرض کی طرح ہے ، جو مزدوروں کی خدمات پر انہیں  ادا کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”بعض قسم کے لوگ ہیں جن کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو کسی کو ایک مقررہ وقت کے لیے قرض دیتا ہے اور نہ اسے لکھتا ہے اور نہ ہی کوئی اس کا گواہ ہوتا ہے۔“ (بحار الانوار ، صفحہ 104 ، صفحہ 301 ، نمبر 1)

[11] اجرت  میں چوری بدترین گناہوں میں سے ایک ہے!۔  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا  ”اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تین طرح کے لوگ ایسے ہوں گے جن کا قیامت کے دن میں مدعی بنوں گا، ایک وہ شخص جس نے میرے نام پر عہد کیا اور وہ توڑ دیا، وہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور وہ شخص جس نے کوئی مزدور اجرت پر رکھا، اس سے پوری طرح کام لیا، لیکن اس کی مزدوری نہیں دی۔“  (مشکوٰة المصابیح: 2984)

﴿قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِهِ أَجْرَهُ ﴾

اگر کوئی مزدور قرض لیتا ہے اور اسے واپس کرنے سے پہلے ہی فوت ہو جاتا ہے تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کا قرض آجر کو واپس کرے۔ ایسے معاملات میں ، قانون کے تحت قرض کی رقم کو محدود کیا جا سکتا ہے۔ حالت  قرض میں مر جانے والے ایک شخص کو رسول   اللہ ﷺ کے پاس لایا جاتا  ہے ، آپﷺ نے پوچھا ، ”کیا اس نے قرض واپس کرنے کے لیے کچھ چھوڑا ہے؟“  اگر آپﷺ کو بتایا جاتا کہ اس نے اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے تو نبی کریم ﷺ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیتے۔ دوسری صورت میں ، آپﷺ وہاں موجود مسلمانوں سے کہتے کہ ”اپنے ساتھی کا نماز جنازہ پڑھائیں“ لیکن جب اللہﷻ نے پیغمبر اسلامﷺ کو فتح نصیب فرمائی  تو آپ ﷺنے فرمایا: ”میں مومنوں کے لئے ان کی جانوں سے بھی زیادہ  قریب ہوں۔ پس اگر کوئی مومن حالت قرض میں مر جائے تو میں اسے لوٹا   دوں گا ، اور  اگر وہ مال چھوڑ کر مرا ہے تو یہ اس کے وارثوں کا ہو گا۔“ (مشکوٰة المصابیح: 2913)

قرآن مجید میں ناپ تول میں کمی کرنے والے کو سخت ناپسند فرمایا گیا ہے:”بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے، یہ لوگ جب (دوسرے) لوگوں سے ناپ لیتے ہیں تو (ان سے) پورا لیتے ہیں، اور جب انہیں (خود) ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں۔“ (83:1-3)

ﵻوَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ ۝ الَّذِيْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَي النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَ ۝ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَﵺ

حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ”مطفف“ وہ شخص ہے جو جان بوجھ کر ایسے شخص کی خدمات حاصل کرتا ہے جو ناپ تول اور وزن میں کمی کرتا ہے (دوسروں کو کم دیتا ہے) لہٰذا ، بہت کم اجرت پر کسی شخص کی خدمات حاصل کرنے کا گناہ ان ملازمین پر بھی ہوگا جنہوں نے اس معاملے میں معاونت کی۔

”بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔“ (04:58)

ﵻإِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًاﵺ

اجرت کی تاخیر سے ادائیگی(delayed      wage     payment) ، اجرت کی چوری(underpayment     or     wage        theft) ، اور اجرت سے ناجائز کٹوتی(undue   wage   deductions) کی اجازت نہیں ہے۔ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا:
”یہ گناہ اس آدمی کے لیے کافی ہے کہ وہ اس کا رزق روک لے جس کا وہ مالک ہے۔“  (مشکوٰة المصابیح: 3346)

اگر کوئی مزدور /محنت کش /ورکر یہ ثابت کر سکے کہ وہ آجر کے پاس ملازم تھا ، تو اسے تنخواہ کے ساتھ ساتھ  معاوضہ کا بھی حق حاصل ہے۔ سعد بن اطول ؓ بیان کرتے ہیں ، میرا بھائی فوت ہو گیا اور اس نے تین سو دینار اور چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑے ، میں نے ارادہ کیا کہ میں (یہ رقم) ان پر خرچ کروں ، لیکن رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا :”تیرا بھائی اپنے قرض کی وجہ سے محبوس ہے ، (پہلے) اس کی طرف سے قرض ادا کرو ۔“ وہ بیان کرتے ہیں ۔ میں گیا اور اس کی طرف سے قرض ادا کیا ، پھر میں واپس آیا تو عرض کیا   اللہ کے رسول ﷺ ! میں نے اس کی طرف سے سارا قرض ادا کر دیا ہے ، صرف ایک عورت باقی رہ گئی ہے جو دو دینار کا مطالبہ کرتی ہے ۔ جبکہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :”اسے دے دو کیونکہ وہ سچی ہے ۔“ (مشکوة المصابیح: 2928)

آجروں سے اجرت کی عدم ادائیگی ، یا اجرت کی ادائیگی میں تاخیر یا بے جا کٹوتی کے لیے پوچھ گچھ کی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  ”تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔“  (صحیح بخاری : 2554)

﴿أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ﴾

ایک اور روایت  میں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”ایک شخص کو اللہ تعالی نے اس لئے معاف کر دیا کہ وہ قرض داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا تھا ، خاص طور پر ایسے لوگ  جو قرض ادا کرنے سے قاصر تھے۔  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم سے پہلے والے لوگوں میں سے ایک آدمی کا حساب لیا گیا تو اس کے نامہ اعمال میں اس کے سوا کوئی نیکی نہیں تھی کہ وہ لوگوں سے میل جول رکھتا تھا اور خوشحال تھا، چنانچہ وہ اپنے نوکروں چاکروں کو حکم دیتا کہ تنگ دست سےدرگزر کرو۔ اللہ عزوجل نے فرمایا: ہم اس کی نسبت اس)عفو و درگزر(کے زیادہ حق دار ہیں، اس لیے اس نے اسے معاف کر دیا۔“  (ادب المفرد: 293)