فہرست مضامین

سماجی تحفظ

سماجی تحفظ (Social Security)[1]

  1. ایک رجسٹرڈمزدور/محنت کش /ورکر کو مندرجہ ذیل تک رسائی حاصل ہوگی[2]:
    1. بے روزگاری کی صورت میں الاؤنس۔[3]
    2. بڑھا پاالاؤنس[4]
    3. دوران ملازمت زخمی / معذور ہونے کی صورت میں الاؤنس[5]
    4. (مزدور کی وفات کی صورت میں )پسماندگان کے لیے الاؤنس[6]

 

[1] ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقیؒ اپنی کتاب (عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت) میں لکھتے ہیں کہ ” عہد نبوی ﷺ کی اسلامی ریاست کا بنیادی پتھر  نبی کریم ﷺ کا سماجی تحفظ کا نظام تھا جو کہ بذاتِ خود ”امہ “ کے تصور و نظریہ پر مبنی تھا۔“

اسی طرح ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقیؒ نے اپنی کتاب (اسلام کا نظریہٴ ملکیت) میں لکھا ہے کہ” کفالت عامہ سے مراد یہ ہے کہ دارالاسلام کے حدود کے اندر بسنے والے ہر انسان  کی بنیادی ضروریاتِ زندگی  کی تکمیل کا اہتمام کیا جائے ۔ یہ اہتمام اس درجہ تک ہونا چاہیئے کہ کوئی فرد ان ضروریات سے محروم نہ رہے، ان بنیادی ضروریات میں غذا، لباس، مکان اور علاج لازماً شامل ہیں۔“

[2] – اسلام ریاست کی طرف سے مزدوروں کے لیے سماجی تحفظ کے فوائد کی فراہمی کو اہمیت دیتا ہے۔ سورة قریش میں  اللہ کی دو اہم خصوصیات کو بیان کیا گیا ہے: ”پس انہیں چاہئے کہ اس گھر (خانہ کعبہ) کے رب کی عبادت کریں (تاکہ اس کی شکر گزاری ہو)، جس نے انہیں بھوک (یعنی فقر و فاقہ کے حالات) میں کھانا دیا (یعنی رِزق فراہم کیا) اور (دشمنوں کے) خوف سے امن بخشا (یعنی محفوظ و مامون زندگی سے نوازا)۔“ (106:3-4) اس آیت کی رو سے ، ریاست کو سماجی تحفظ کا نظام وضع کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنی عوام کو بے روزگاری ، بیماری ، معذوری ، بڑھاپے وغیرہ کے دوران مالی فوائد دے سکے، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع اور (سماجی) تحفظ کو یقینی بنائے۔اس سماجی تحفظ میں دو چیزیں اہم ہیں: ـ ”جوع“(بھوک) میں کھانا اور ”خوف“ میں امن۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ  تدبر قرآن میں فرماتے ہیں کہ ”جوع“سے مراد کسی علاقہ کی وہ خاص حالت  ہے جو غذائی اشیاء و اجناس کی قلت یا نایابی سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح ”خوف“سے کسی علاقہ کی وہ حالت مراد ہے جو امن و امان کے فقدان اور جان و مال کے عدم تحفظ سے رونما ہوتی ہے۔

یہ سب حکومت کی ذمہ داری اس لیے ہے کہ سنن ابو داؤد میں ہے:  ” رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں ہر مسلمان سے اس کی ذات کی نسبت قریب تر ہوں، جو کوئی اپنے ذمہ قرض چھوڑ جائے یا عیال چھوڑ جائے تو اس کا قرض ادا کرنا یا اس کے عیال کی پرورش کرنا میرے ذمہ ہے، اور جو کوئی مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کا حق ہے، اور جس کا کوئی والی نہیں اس کا والی میں ہوں، میں اس کے مال کا وارث ہوں گا، اور میں اس کے قیدیوں کو چھڑاؤں گا، اور جس کا کوئی والی نہیں، اس کا ماموں اس کا والی ہے ( یہ ) اس کے مال کا وارث ہو گا اور اس کے قیدیوں کو چھڑائے گا۔“ (سنن ابو داؤد: 2900) یہاں ، ایک ملازم کی دوران ملازمت موت کی صورت میں پنشن اور دیگر فوائد کی فراہمی میں ریاست کے کردار پر زور دیا جارہا ہے۔

﴿قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَا أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ، فَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيْعَةً فَإِلَيَّ، وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ، وَأَنَا مَوْلَى مَنْ لَا مَوْلَى لَهُ أَرِثُ مَالَهُ وَأَفُكُّ عَانَهُ وَالْخَالُ مَوْلَى مَنْ لَا مَوْلَى لَهُ يَرِثُ مَالَهُ وَيَفُكُّ عَانَهُ﴾

اسی طرح یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ مکمل یتیم بچوں کا خیال رکھے، بشر بن عقربہؓ سے مروی ہے کہ ”میرے والد نبی کریم ﷺ کے ساتھ کسی غزوہ میں شہید کر دیے گئے، جب آپؐ میرے پاس سے گزرے تو میں رو رہا تھا تو آپؐ نے مجھے کہا: خاموش ہو جا، کیا تو پسند نہیں کرتا کہ میں تیرا باپ ہو جاوٴں اور عائشہؓ تیری ماں۔“ (سلسلہ احادیثِ صحیحہ: 3249)۔ قرآنی آیت 59:07 میں ہے : ”جو (اَموالِ فَے) اللہ نے (قُرَیظہ، نَضِیر، فِدَک، خَیبر، عُرَینہ سمیت دیگر بغیر جنگ کے مفتوحہ) بستیوں والوں سے (نکال کر) اپنے رسول ﷺ پر لوٹائے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لئے ہیں اور (رسول اللہ ﷺ کے) قرابت داروں (یعنی بنو ہاشم اور بنو المطّلب) کے لئے اور (معاشرے کے عام) یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہیں (یتیموں اور معاشرہ میں بے یارومددگار‘ تنہا رہ جانے والوں کے لئے‘ ان کے لئے جن کا چلتا ہوا کاروبار رُک گیاہو یا جو کسی وجہ سے کام کاج کے قابل نہ رہے ہوں‘ نیز ان مسافروں کے لئے جو مدد کے محتاج ہوں) ، (یہ نظامِ تقسیم اس لئے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مال داروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔ اور جو کچھ رسول ﷺ تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو)، بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔“

ﵻمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِﵺ

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کو تمام مزدوروں /محنت کشوں   میں دولت کو سماجی تحفظ کے کاموں میں تقسیم کرنا چاہیے جیسے بیماری کی صورت میں الاؤنس ، زچگی الاؤنس ،  زخمیوں کے لیے الاؤنس ، بے روزگاری کی صورت میں الاؤنس ، بڑھاپے کے لیے الاؤنس  وغیرہ۔ نیز صحیح بخاری میں ہے :”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، پس اس پر ظلم نہ کرے اور نہ ظلم ہونے دے۔ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگا ہو، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرنے میں لگا ہوتا ہے۔ جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرے، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت کو دور فرمائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کے عیب چھپائے گا۔“ (صحیح بخاری: 2442)

﴿الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لاَ يَظْلِمُهُ وَلاَ يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ ‏

اس حدیث سے ثابت ہوتا  ہے کہ ریاست پر مزدوروں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ہوتی  ہے ، چاہے نوکریاں دے  کر ، کاروبار کے مواقع پیدا کرکےیا سماجی تحفظ کے ذریعے۔ایک آیت مبارکہ 04:05 میں بھی ہے: ”اور تم بے سمجھوں کو اپنے (یا ان کے) مال سپرد نہ کرو جنہیں اللہ نے تمہاری معیشت کی استواری کا سبب بنایا ہے۔ ہاں انہیں اس میں سے کھلاتے رہو اور پہناتے رہو اور ان سے بھلائی کی بات کیا کرو۔“(04:05)

ﵻ وَلَا تُؤۡتُواْ ٱلسُّفَهَآءَ أَمۡوَٰلَكُمُ ٱلَّتِي جَعَلَ ٱللَّهُ لَكُمۡ قِيَٰمٗا وَٱرۡزُقُوهُمۡ فِيهَا وَٱكۡسُوهُمۡ وَقُولُواْ لَهُمۡ قَوۡلٗا مَّعۡرُوفٗا ﵺ

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سماجی تحفظ آجر کی ذمہ داری نہیں  بلکہ ریاست کی طرف سے اسے  یقینی بنایا جائے۔ تاہم ، حکومت اس بات کو یقینی بناسکتی ہے کہ آجر اور مزدور /محنت کش /ورکر بھی اس میں حصہ ڈالیں ، جیسا کہ صحیح مسلم  کی  کتاب الوصیت  میں بیان کیا گیا ہے : ”عامر بن سعد اور نے اپنے والد (حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: حجۃ الوداع کی موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ایسی بیماری میں میری عیادت کی جس کی وجہ سے میں موت کے کنارے پہنچ چکا تھا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ ! مجھے ایسی بیماری نے آ لیا ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں اور میں مالدار آدمی ہوں اور صرف ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں (بنتا۔) تو کیا میں اپنے مال کا دو تہائی حصہ صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے عرض کی: کیا میں اس کا آدھا حصہ صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، (البتہ) ایک تہائی (صدقہ کر دو) اور ایک تہائی بہت ہے،  اگر تو اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ جائے تو بہتر ہے اس سے کہ تو ان کو محتاج چھوڑ جائے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے پھریں اور تو جو خرچ کرے گا اللہ کی رضامندی کے لیے اس کا ثواب تجھے ملے گا حتی کہ اس لقمے کا بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو۔“(صحیح مسلم: 4209  کتاب: وصیت کے احکام ومسائل )

﴿عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: عَادَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ مِنْ وَجَعٍ أَشْفَيْتُ مِنْهُ عَلَى الْمَوْتِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، بَلَغَنِي مَا تَرَى مِنَ الْوَجَعِ، وَأَنَا ذُو مَالٍ، وَلَا يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ لِي وَاحِدَةٌ، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي؟ قَالَ: «لَا»، قَالَ: قُلْتُ: أَفَأَتَصَدَّقُ بِشَطْرِهِ؟ قَالَ: «لَا، الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَلَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللهِ، إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا، حَتَّى اللُّقْمَةُ تَجْعَلُهَا فِي فِي امْرَأَتِكَ﴾

ایک اور مقام پر نبی کریمﷺ نے فرمایا:”جو  تو نے اپنی  آپ کو کھلایا وہ تیرے لئے صدقہ ہے ، جو تو نے اپنی اولاد کو کھلایا وہ تیرے لئے صدقہ ہے ، جو تو نے اپنی بیوی کو کھلایا وہ تیرے لئے صدقہ ہے، اور  جو تو نے اپنے خادم کو کھلایا وہ بھی تیرے لئے صدقہ ہے۔“ (ادب المفرد:82)۔

﴿مَا أَطْعَمْتَ نَفْسَكَ فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَمَا أَطْعَمْتَ وَلَدَكَ فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَمَا أَطْعَمْتَ زَوْجَكَ فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَمَا أَطْعَمْتَ خَادِمَكَ فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ﴾

اس  حدیث  مبارک کی رو سے  ایک ریاست  کےٍ لئے ضروری ہے کہ وہ بڑھاپے کے لیے  الاؤنس، بے روزگاری کی صورت میں الاؤنس اور پسماندگان کے لئے الاؤنس میں آجروں اور مزدوروں /محنت کشوں   کی شراکت  کو یقینی بنائے۔ اس کے علاوہ  ایک اور روایت ہے :”تمام مخلوق   اللہ کی عیال ہے، اور اللہ کی مخلوق میں سب سے اچھا وہ ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ اچھائی کرے۔“ (بیہقی، شعب الایمان، 7176، مشکوٰة المصابیح:4999)

﴿الخلق كلهم عيال الله وأحب خلقه إليه أنفعهم لعياله﴾

اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست ، آجر اور مزدور /محنت کش /ورکر ، سب کو سماجی تحفظ کے لیے اپنا حصہ لیں۔ حکومت کو اپنے لوگوں (بشمول مزدوروں /محنت کشوں  ) کی بہتری کے لیے دولت خرچ کرنی چاہیے۔ آجروں کو اپنے مزدوروں /محنت کشوں   کے  (ماتحت لوگوں/ اور اہل خاندان) کے سماجی تحفظ کو یقینی بنانا چاہیے اور مزدوروں کو ان کے اور ان کے خاندانوں کے بہتر مستقبل کے لیے الاؤنس دینے کے لیے سماجی تحفظ کے نظام میں بھی حصہ ڈالنا چاہیے۔

ایک اور حدیث میں ہے: ”اور اپنے حیثیت کے مطابق اپنے اہل وعیال پر خرچ کر۔“ (ادب المفرد:18)

﴿وَأَنْفِقْ مِنْ طَوْلِكَ عَلَى أَهْلِكَ﴾

اسی طرح ایک اور حدیث مبارک میں ہے:” آدمی اپنی ذات اور اپنے گھر والوں پر اجر وثواب کی نیت سے جو بھی خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے ضرور اس کا اجر عطا فرماتا ہے، تو ان لوگوں سے ابتداء کر جن کی تو کفالت کرتا ہے پھر اگر مال بچ جائے تو قریبی رشتہ داروں پر درجہ بدرجہ خرچ کر اور اگر پھر بھی بچ جائے تو دوسروں کو( جسے تو چاہے )دے دے۔“ (ادب المفرد: 62)

﴿مَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى نَفْسِهِ وَأَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا إِلاَّ آجَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى فِيهَا، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ، فَإِنْ كَانَ فَضْلاً فَالأَقْرَبَ الأَقْرَبَ، وَإِنْ كَانَ فَضْلاً فَنَاوِلْ﴾

اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ آجر ملازمین کی فلاح و بہبود کا ذمہ دار ہے ، اور  وہ  سب ایک خاندان کی طرح ہیں ۔ ان کی فلاح و بہبود/سماجی تحفظ پر خرچ کرنا مذکورہ بالا حدیث کی رو سے ثابت ہے۔ایک آجر کی زیرِکفالت نہ صرف اسکا اپنا خاندان ہے بلکہ وہ سارے لوگ جو اسکے ماتحت کام کرتے ہوں یعنی ملازم وغیرہ وہ بھی شامل ہیں۔

آیت نمبر 51:19  میں  مزدوروں کے لیے سماجی تحفظ کے فوائد کو اہمیت دی گئی  ہے ، ارشاد  ہے : ”اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھا۔“(51:19)

ﵻوَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِﵺ

اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مزدور اپنے خاندان کی ضروریات پوری نہیں کر سکتے ، ان کی دیکھ بھال ریاست کی طرف سے سماجی تحفظ کے فوائد کی فراہمی کی صورت میں ہونی چاہیے۔ایک اور آیت مبارکہ میں مندرجہ ذیل الفاظ کے ذریعے اسی مضمون کو اجاگر کیا گیا ہے: ” اور وہ (ایثار کیش) لوگ جن کے اَموال میں حصہ مقرر ہے، مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محتاج کا۔“ (70:24-25)

ﵻوَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ  ۝  لِّلسَّآىٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِﵺ

اسی طرح زکوٰ ة اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے جس کا  مقصد ضرورت مندوں کو سماجی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ قرآن کریم زکوٰ ةاور اس کےحقدار لوگوں  کو مندرجہ ذیل  الفاظ میں  بیان کرتا ہے: ” صدقات کے متعلق (یعنی اس مال کے متعلق جسے مملکت رفاہِ عامہ کے لئے صرف کرتی ہے) یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس کی تقسیم ‘ کسی کے ذاتی مفاد یا انفرادی جذبات کی تسکین کے لئے نہیں ہوگی۔ یہ درحقیقت ان لوگوں کا حق ہے۔ (1) فقرا یعنی جو اپنی نشوونما کے لئے دوسروں کے محتاج ہوں۔ یعنی کسی وجہ سے خود کمانے کے قابل نہ ہوں۔ (2) مساکین یعنی جن کا چلتا ہوا کاروبار‘ یا نقل و حرکت (کسی وجہ سے) رک گئی ہو۔ (3) جو لوگ صدقات (مملکت کی اس آمدنی) کی وصولی پر مامور ہوں‘ (ان کی کفالت کے لئے)۔ (4) جن کی تالیفِ قلوب مقصود ہو۔(یعنی جو لوگ ویسے تو نظام خداوندی کی طرف آنے کے لئے تیار ہوں لیکن بعض معاشی موانع ان کے راستے میں اس طرح حائل ہوں کہ وہ انہیں اس طرف آنے نہ دیں۔ اِن موانع کے دُور کرنے میں ان کی امداد کی جائے)۔ (5) جو لوگ دوسروں کی محکومی کی زنجیروں میں جکڑے ہوں‘ انہیں آزادی دلانے کیلئے۔ (6) ایسے لوگ جو دشمن کے تاوان‘ یا قرض کے بوجھ کے نیچے اس طرح دب گئے ہوں کہ اس کا ادا کرنا ان کے بس میں نہ ہو۔ (7) نیز‘ اُن باہر سے آنے والوں کا جنہیں مالی امداد کی ضرورت لاحق ہوجائے اور مسافروں کی بہبود کیلیئے۔ (8) ان کے علاوہ‘ اور جو کام بھی نظامِ خداوندی کے لئے مفید اور نوع انسان کی فلاح وبہبود کے لئے ممدّومعاون ہوں‘ انہیں سر انجام دینے کے لئے۔ یہ خدا کے ٹھہرائے ہوئے ضوابط ہیں۔ اور اللہ کے ٹھہرائے ہوئے ضوابط علم وحکمت پر مبنی ہوتے ہیں ۔“ (09:60)

ﵻإِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌﵺ

اس کے علاوہ  آیت نمبر: 16:90میں ہے : ”بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا  حکم دیتا ہےاور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو۔“(16:90)

ﵻإِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَﵺ

مذکورہ بالا تعلیمات یہ ظاہر کر تی ہیں کہ ریاست/حکومت کو سماجی تحفظ کے فوائد فراہم کر کے مزدوروں /محنت کشوں   کی مدد کرنی چاہیے۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ” أصحابِ اقتدار ریاست کے تمام محروم افراد کی ضروریات کی تکمیل کے ذمہ دار ہیں۔“ ابومریم ازدیؓ  کہتے ہیں کہ ”میں معاویہ بن ابی سفیان ؓ کے پاس گیا، انہوں نے کہا: اے ابوفلاں! کیسے تشریف لائے؟، میں نے کہا: میں آپ کو رسول اللہﷺ سے سنی ہوئی ایک حدیث بتا رہا ہوں، میں نے آپؐ کو فرماتے سنا ہے: جسے اللہ مسلمانوں کے کاموں میں سے کسی کام کا ذمہ دار بنائے پھر وہ ان کی ضروریات اور ان کی محتاجی و تنگ دستی کے درمیان رکاوٹ بن جائے(یعنی انکی ضروریات سے بے پرواہ ہوکر بیٹھ جائے) تو اللہ اس کی ضروریات اور اس کی محتاجی و تنگ دستی کے درمیان حائل ہو جاتا ہے (یعنی بے نیاز ہو جائے گا)جب  معاویہؓ  نے یہ سنا تو انہوں نے  ایک شخص کو مقرر کر دیا جو لوگوں کی ضروریات کو سنے اور اسے پورا کرے۔“ (سنن ابو داوٴد: 2948)

اسی طرح آپؐ نے فرمایا:” کوئی امیر جو مسلمانوں کے معاملات کی ذمہ داری اٹھاتا ہے، پھر وہ ان (کی بہبود)کے لیے کوشش اور انکی خیر خواہی نہیں کرتا، وہ ان کے ہمراہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔“ (صحیح مسلم: 366)

﴿ما مِن أَمِيرٍ يَلِي أَمْرَ المُسْلِمِينَ، ثُمَّ لا يَجْهَدُ لهمْ وَيَنْصَحُ، إِلَّا لَمْ يَدْخُلْ معهُمُ الجَنَّةَ﴾

شاید انہی احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ فرمایا تھا: ”لوگو! اللہ نے مجھ پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے تاکہ میں اسکے حضور کی جانے والی دعاوٴں کو روکوں۔“  مشہور فقیہ عزالدین عبدالسلامؒ نے قواعد الاحکام فی مصالح الانام میں اس قول کے متعلق لکھا ہے کہ: ”اللہ کے حضور کی جانے والی دعاوٴں کو روکنے کا مطلب یہ ہے کہ امام ظالموں کے مقابلہ میں مظلوموں کے ساتھ انصاف کرے اور انکو اس بات کی ضرورت نہ پڑنے دے کہ وہ اللہ سے انصاف کے طالب ہوں۔ اسی طرح وہ لوگوں کی ضروریات اور حاجتیں پوری کرے تاکہ انکو اس کی ضرورت باقی نہ رہے کہ رب العالمین سے انکی تکمیل کے طالب ہوں۔ (حکمرانوں پر) مسلمانوں کے جملہ حقوق کے بیان میں یہ جملہ کتنا جامع اور واضح ہے۔“

اسی بات کا اعلان حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطبے میں کیا تھا: ”تم میں  سے قوی ترین شخص میرے نزدیک ضعیف ہے جب تک کہ اس سے حق حاصل نہ کر لو ں اور تم میں سے کمزور ترین شخص میرے نزدیک قوی ہے جب تک اسے اسکا حق دلا نہ دوں۔“  (فقہ ابوبکرؓ: رواس قلعہ جیؒ)

اسی طرح ابن جوزیؒ نے تاریخ عمرؓ میں لکھا ہے کہ آپؓ  نےحکومت کی ذمہ داریوں بارے میں فرمایا: ”ہماری اور قوم کی مثال ایسی ہے جیسے کچھ لوگ سفر پر روانہ ہوئے اور انہوں نے اپنے نفقات (سرمایہٴ حیات) اپنے میں سے کسی آدمی کے حوالے کر دیئے او رکہا کہ ہمارے اوپر خرچ کرو ، کیا ایسی صورت میں ان کے ساتھ کوئی ترجیحی سلوک روا ہو سکتا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا  نہیں۔“

خلیفۂ  چہارم حضرت علیؓ نے مالک الاشترمصر کا گورنر مقرر کرتے ہوئے اپنے خط میں لکھا ، فرمایا: ”پھر خصوصیت کے ساتھ اللہ کا خوف کرنا پسماندہ و افتادہ طبقہ کے بارے میں جن کا کوئی سہارا نہیں ہوتا، وہ مسکینوں، محتاجوں، فقیروں اور معذوروں کا طبقہ ہے۔ ان میں سے کچھ تو ہاتھ پھیلا کر مانگنے والے ہوتے ہیں اور کچھ کی صورت سوال ہوتی ہے۔ اللہ کی خاطر اِن بے کسوں کے بارے میں اس کے اس حق کی حفاظت کرنا جس کا اس نے تمہیں ذمہ دار بنایا ہے۔ ان کیلئے ایک حصہ بیت المال سے معین کر دینا اور ایک حصہ ہر شہر کے اس غلہ میں سے دینا جو اسلامی غنیمت کی زمینوں سے حاصل ہوا ہو، کیو نکہ اس میں دور والوں کا اتنا ہی حصہ ہے جتنا نزدیک والوں کا ہے۔ اور تم ان سب کے حقوق کی نگہداشت کے ذمہ دار بنائے گئے ہو۔ لہٰذا تمہیں دولت کی سرمستی ان سے غافل نہ کر دے، کیونکہ کسی معمولی بات کو اس لئے نظر انداز نہیں کیا جائے گا کہ تم نے بہت سے اہم کاموں کو پورا کر دیا ہے۔ لہٰذا اپنی توجہ ان سے نہ ہٹانا اور نہ تکبر کے ساتھ ان کی طرف سے اپنا رخ پھیرنا۔“

”اور  خصوصاً خبر رکھو ایسے افراد کی جو تم تک پہنچ نہیں سکتے، جنہیں آنکھیں دیکھنے سے کراہت کرتی ہوں گی اور لوگ انہیں حقارت سے ٹھکراتے ہوں گے، تم ان کیلئے اپنے کسی بھروسے کے آدمی کو جو خوفِ خدا رکھنے والا اور متواضع ہو، مقرر کر دینا کہ وہ ان کے حالات تم تک پہنچاتا رہے۔ پھر ان کے ساتھ وہ طرزِ عمل اختیار کرنا جس سے کہ قیامت کے روز اللہ کے سامنے حجت پیش کر سکو، کیونکہ رعیت میں دوسروں سے زیادہ یہ انصاف کے محتاج ہیں، اور یوں تو سب ہی ایسے ہیں کہ تمہیں ان کے حقوق سے عہدہ برآ ہو کر اللہ کے سامنے سرخرو ہونا ہے۔“

”اور دیکھو یتیموں اور سال خوردہ بوڑھوں کا خیال رکھنا کہ جو نہ کوئی سہارا رکھتے ہیں اور نہ سوال کیلئے اٹھتے ہیں، اور یہی وہ کام ہے جو حکام پر گراں گزرا کرتا ہے (اور حق تو بہرحال گراں ہی ہوا کرتا ہے)۔ ہاں خدا ان لوگوں کیلئے جو عقبیٰ کے طلب گار رہتے ہیں، اس کی گرانیوں کو ہلکا کر دیتا ہے، وہ اسے اپنی ذات پر جھیل لے جاتے ہیں اور اللہ نے جو ان سے وعدہ کیا ہے اس کی سچائی پر بھروسا رکھتے ہیں۔“

”اور تم اپنے اوقات کا ایک حصہ حاجتمندوں کیلئے معین کر دینا جس میں سب کام چھوڑ کر انہی کیلئے مخصوص ہو جانا، اور ان کیلئے ایک عام دربار کر نا، اور اس میں اپنے پیدا کرنے والے اللہ کیلئے تواضع و انکساری سے کام لینا، اور فوجیوں، نگہبانوں اور پولیس والوں کو ہٹا دینا، تاکہ کہنے والے بے دھڑک کہہ سکیں۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کئی موقعوں پر فرماتے سنا ہے کہ: »اس قوم میں پاکیزگی نہیں آ سکتی جس میں کمزوروں کو کھل کر طاقتوروں سے حق نہیں دلایا جاتا«۔“ (نہج البلاغۃ، مکتوب نمبر: 53)

بعض غیر معمولی حالات میں ضرورت مندوں کی مدد کے لیے نئے ضابطے بھی مقرر کیے جا سکتے ہیں۔ ایک بار عید الاضحی کے موقع پر
نبی کریمﷺنے فرمایا :”جس نے تم میں سے قربانی کی تو تیسرے دن وہ اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہ ہو۔ دوسرے سال صحابہ کرام ؓنے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کیا ہم اس سال بھی وہی کریں جو پچھلے سال کیا تھا۔ ( کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت بھی نہ رکھیں ) ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اب کھاؤ، کھلاؤ اور جمع کرو۔ پچھلے سال تو چونکہ لوگ تنگی میں مبتلا تھے، اس لیے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں ان کی مدد کرو۔“ (صحیح بخاری: 5569)

﴿مَنْ ضَحَّى مِنْكُمْ فَلاَ يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ وَفِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَىْءٌ فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ الْمَاضِي قَالَ ‏‏ كُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا فَإِنَّ ذَلِكَ الْعَامَ كَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا﴾

سماجی تحفظ کے نظام کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں کو یہ سہولیات اپنے گھر کی دہلیز پر حاصل ہوں نہ کہ انہیں ان سہولیات کیلیے حکومتی افراد کے پیچھے بھاگنا پڑے۔ حضرت عمر ؓ نے ایک دفعہ حضرت ابوموسٰی اشعریؓ کو یہ ہدایت فرمائی:”سنو، لوگوں کے گھروں میں  ان کیلیے فراخی کا سامان فراہم کردو اور ان کے متعلقین کو کھلانے کا سامان کرو۔“ (ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقیؒ:  اسلام کا نظریہٴ ملکیت)

[3] – قرآنی آیات 16:90 ( جو پچھلے حاشیہ میں بھی گزری ہے) اور 06:151 بے روزگاری کی صورت میں  الاؤنس کی ضرورت پر زور دیتی ہیں۔ ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست کو بے روزگار مزدوروں کی بے روزگاری کے فوائد کی فراہمی کے دوران، جس عرصے میں ایک مزدور کمانے اور اپنے خاندانوں کی کفالت کرنے کے قابل نہیں ہے،  مدد کرنی چاہیے ۔ اسی طرح آیت 06:151  میں ہے : ”فرما دیجئے: آؤ میں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں (وہ) یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)، اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ (خواہ) وہ ظاہر ہوں اور (خواہ) وہ پوشیدہ ہوں، اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا)  اللہ نے حرام کیا ہے بجز حقِ (شرعی) کے، یہی وہ (امور) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو ۔“

ﵻقُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ  أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا  وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ  نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ  وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ  وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ  ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَﵺ

مذکورہ بالا نمایاں کردہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کو جمع شدہ فنڈز/دولت سے بے روزگار مزدوروں کی مدد کرنی چاہیے۔ یہ نقدی اور تربیت وغیرہ  کی صورت میں کیا جا سکتا ہے۔

[4]  – اسلام کے نزدیک بڑھاپا  الاؤنس اور  بزرگوں کی خدمت  کی اہمیت  کا پتا  اس حدیث سے چلتا ہے  ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس شخص کی ناک خاک آلود ہو گئی، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو گئی، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو گئی۔“پوچھا گیا: اللہ کے رسول! وہ کون شخص ہے؟ فرمایا: ”جس کے ہوتے ہوئے اس کے ماں باپ، ان میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو بڑھاپے نے پایا، پھر وہ (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔“ (صحیح مسلم: 6511)

﴿رَغِمَ أنْفُ، ثُمَّ رَغِمَ أنْفُ، ثُمَّ رَغِمَ أنْفُ، قيلَ: مَنْ؟ يا رَسولَ اللهِ، قالَ: مَن أدْرَكَ أبَوَيْهِ عِنْدَ الكِبَرِ، أحَدَهُما، أوْ كِلَيْهِما فَلَمْ يَدْخُلِ الجَنَّةَ﴾

ایک مقام پر نبی کریمﷺ سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالی کے ہاں کون سا عمل محبوب ترین ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ”نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔“ جب آپ ﷺسے  دوبارہ یہی سوال کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: ”والدین سے حسن سلوک کرنا۔“  اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا: ”اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔“  (ادب المفرد:1)

﴿سَأَلْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم‏:‏ أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ‏؟‏ قَالَ‏:‏ الصَّلاَةُ عَلَى وَقْتِهَا، قُلْتُ‏:‏ ثُمَّ أَيٌّ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ، قُلْتُ‏:‏ ثُمَّ أَيٌّ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ثُمَّ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ﴾

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کو بڑھاپا الاؤنس دیناریاست کی ذمہ داری ہے۔ علاوہ  ازیں ، اس بات کی تائید دو مزید احادیث سے بھی ہوتی ہے ، مثلا ابن القطان ، 1997 ، 4: 371 ، جس میں ہے کہ ”اللہ کے  احترام  کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی بوڑھے مسلمان کا احترام کیا جائے۔“ نیز البانی ، 1: 438 ،  میں ہے کہ ”بزرگوں پر احسان اور ان کا  احترام  کرکے ایک شخص  اللہ کی بڑائی  کا حق اداکرسکتا  ہے۔“ اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ ( سے ظلم کیا ہو ) تو آج ہی، اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم، بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کے ( مظلوم ) ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔“(صحیح بخاری:2449)

﴿مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لأَحَدٍ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَىْءٍ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ، قَبْلَ أَنْ لاَ يَكُونَ دِينَارٌ وَلاَ دِرْهَمٌ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ ﴾

اگرچہ مختلف ممالک میں اوسط عمر مختلف ہوتی ہے  جو کہ  بنیادی طور پر خوشحالی کی سطح پر منحصر  ہوتی ہے ، جبکہ ایک حدیث مبارک  میں ساٹھ سال کا حوالہ ہے۔ لہذا ، ملک میں اوسط عمر کے لحاظ سے قابل پنشن عمر 60 سال یا اس سے بھی زیادہ مقرر کی جا سکتی ہے۔
نبی کریمﷺ نے  ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے عذر کے سلسلے میں حجت تمام کر دی جس کی موت کو مؤخر کیا یہاں تک کہ وہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا۔“  (صحیح بخاری: 6419)

﴿أَعْذَرَ اللَّهُ إِلَى امْرِئٍ أَخَّرَ أَجَلَهُ حَتَّى بَلَّغَهُ سِتِّينَ سَنَةً ‏﴾

مندرجہ ذیل حدیث مبارک میں نمایاں کردہ حصے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ریٹائرڈ  ملازم  کو بڑھاپے میں ریاست کی طرف سے الاؤنس ملے گا ۔ سنن ابو داؤد میں ہے ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:” جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کھائے اور ہمارے بڑے کا حق نہ پہنچانے ( اس کا ادب و احترام نہ کرے ) تو وہ ہم میں سے نہیں۔“ (سنن ابو داؤد: 4943)

﴿مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيَعْرِفْ حَقَّ كَبِيرِنَا فَلَيْسَ مِنَّا﴾

ایک اور موقع پر ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”برکتیں تمہارے بڑوں کے ساتھ ہیں۔“(ابن حبان: 559)

﴿الْبَرَكَةُ مَعَ أَكَابِرِكُمْ﴾

اسی طرح رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ: ”جبریلؑ نے مجھے حکم دیا کہ میں بڑوں کو مقدم رکھوں۔“ (سلسلہ احادیثِ صحیحہ: 155)

﴿أمرني جبريل أن أقدم الأكابر﴾

یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے بوڑھوں اور عمر رسیدہ افراد  کے لیے نماز مختصر کرنے کا حکم دیا۔ روایت ہے کہ” ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! قسم اللہ کی میں صبح کی نماز میں فلاں کی وجہ سے دیر میں جاتا ہوں، کیونکہ وہ نماز کو بہت لمبا کر دیتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺکو نصیحت کے وقت اس دن سے زیادہ ( کبھی بھی ) غضب ناک نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ (عوام کو عبادت سے یا دین سے ) نفرت دلا دیں، خبردار تم میں لوگوں کو جو شخص بھی نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے۔ کیونکہ نمازیوں میں کمزور، بوڑھے اور ضرورت والے سب ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔“
( صحیح بخاری: 702)

﴿ أَنَّ رَجُلاً، قَالَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لأَتَأَخَّرُ عَنْ صَلاَةِ الْغَدَاةِ مِنْ أَجْلِ فُلاَنٍ مِمَّا يُطِيلُ بِنَا‏.‏ فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ يَوْمَئِذٍ ثُمَّ قَالَ ‏ ‏ إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيَتَجَوَّزْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ وَالْكَبِيرَ وَذَا الْحَاجَةِ ‏‏‏﴾

اسی طرح رسول اللہﷺ نے فرمایا:  ”معمر اور سن رسیدہ مسلمان کی اور حافظ قرآن کی( جو غلو اور بے توجہی نہ کرے) اور عادل بادشاہ ، (ان تینوں)کی عزت و تکریم دراصل اللہ کے اجلال و تکریم ہی کا ایک حصہ ہے۔“(سنن ابوداود: 4843)

﴿إِنَّ مِنْ إِجْلاَلِ اللَّهِ إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِي فِيهِ وَالْجَافِي عَنْهُ وَإِكْرَامَ ذِي السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ﴾

[5] – اسلام متاثرہ  ملازم کو زخمی /  معذور ہونے پر الاؤنس دینے  کا حکم دیتا ہے۔ قرآن کریم کی  آیت 04:92 میں ہے: ”اور کسی مسلمان کے لئے (جائز) نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کر دے مگر (بغیر قصد) غلطی سے، اور جس نے کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کر دیا تو (اس پر) ایک مسلمان غلام / باندی کا آزاد کرنا اور خون بہا (کا ادا کرنا) جو مقتول کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے (لازم ہے) مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں، پھر اگر وہ (مقتول) تمہاری دشمن قوم سے ہو اور وہ مومن (بھی) ہو تو (صرف) ایک غلام / باندی کا آزاد کرنا (ہی لازم) ہے اور اگر وہ (مقتول) اس قوم میں سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان (صلح کا) معاہدہ ہے تو خون بہا (بھی) جو اس کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے اور ایک مسلمان غلام / باندی کا آزاد کرنا (بھی لازم) ہے۔ پھر جس شخص کو (غلام / باندی) میسر نہ ہو تو (اس پر) پے در پے دو مہینے کے روزے (لازم) ہیں۔ اللہ کی طرف سے (یہ اس کی) توبہ ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔“  (04:92)

ﵻوَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً ۚ وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ إِلَّا أَنْ يَصَّدَّقُوا ۚ فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ ۖ وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ ۖ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِنَ اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًاﵺ

اس سے ثابت ہوتا  ہے کہ حادثاتی موت یا کسی مزدور کی مکمل یا جزوی معذوری کی صورت میں مزدور یا اس کے خاندان کو معاوضہ (مالی یا کسی اور صورت میں) ادا کرنا ہوگا۔ اگر آجر کی طرف سے غلطی ثابت ہو جائے تو زیادہ معاوضہ دیا جائے۔ صحیح بخاری میں ، کتاب الدیت حدیث نمبر 6895  میں  ہے: ” نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”یہ اور یہ برابر یعنی چھنگلیا اور انگوٹھا دیت میں برابر ہیں۔“ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوران ملازمت زخمی ہونے پر  مکمل نااہلی یا جزوی نااہلی کی صورت میں ملازم کو الاؤنس ملنا چاہئے۔

تاہم ، احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ  الاؤنس نااہلی  کو مدنظر رکھ کر ادا کیا جائے ، روایت ہے کہ:  ”رسول اللہ ﷺ نے اہل یمن کو ایک کتاب لکھی جس میں فرائض، سنن اور دیات کا ذکر تھا۔ اسے عمرو بن حزم کے ساتھ بھیجا، چنانچہ وہ اہل یمن کو پڑھ کر سنائی گئی ۔ پھر انہوں نے اسی طرح بیان کیا، سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا: ایک آنکھ میں دیت آدھی ہے۔ ایک ہاتھ میں آدھی دیت ہے اور ایک پاؤں میں دیت آدھی ہے۔“(سنن نسائی: 4857)

﴿أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ كِتَابًا فِيهِ الْفَرَائِضُ وَالسُّنَنُ وَالدِّيَاتُ وَبَعَثَ بِهِ مَعَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ فَقُرِئَتْ عَلَى أَهْلِ الْيَمَنِ هَذِهِ نُسْخَتُهَا ‏‏ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِلَى شُرَحْبِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلاَلٍ وَنُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ كُلاَلٍ وَالْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ كُلاَلٍ قَيْلِ ذِي رُعَيْنٍ وَمُعَافِرَ وَهَمْدَانَ أَمَّا بَعْدُ ‏‏ ‏.‏ وَكَانَ فِي كِتَابِهِ ‏‏ أَنَّ مَنِ اعْتَبَطَ مُؤْمِنًا قَتْلاً عَنْ بَيِّنَةٍ فَإِنَّهُ قَوَدٌ إِلاَّ أَنْ يَرْضَى أَوْلِيَاءُ الْمَقْتُولِ وَأَنَّ فِي النَّفْسِ الدِّيَةُ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ وَفِي الأَنْفِ إِذَا أُوعِبَ جَدْعُهُ الدِّيَةُ وَفِي اللِّسَانِ الدِّيَةُ وَفِي الشَّفَتَيْنِ الدِّيَةُ وَفِي الْبَيْضَتَيْنِ الدِّيَةُ وَفِي الذَّكَرِ الدِّيَةُ وَفِي الصُّلْبِ الدِّيَةُ وَفِي الْعَيْنَيْنِ الدِّيَةُ وَفِي الرِّجْلِ الْوَاحِدَةِ نِصْفُ الدِّيَةِ وَفِي الْمَأْمُومَةِ ثُلُثُ الدِّيَةِ وَفِي الْجَائِفَةِ ثُلُثُ الدِّيَةِ وَفِي الْمُنَقِّلَةِ خَمْسَ عَشَرَةَ مِنَ الإِبِلِ وَفِي كُلِّ أُصْبُعٍ مِنْ أَصَابِعِ الْيَدِ وَالرِّجْلِ عَشْرٌ مِنَ الإِبِلِ وَفِي السِّنِّ خَمْسٌ مِنَ الإِبِلِ وَفِي الْمُوضِحَةِ خَمْسٌ مِنَ الإِبِلِ وَأَنَّ الرَّجُلَ يُقْتَلُ بِالْمَرْأَةِ وَعَلَى أَهْلِ الذَّهَبِ أَلْفُ دِينَارٍ﴾

اس میں کہا گیا ہے کہ دوران ملازمت زخمی ہونے کا الاؤنس مزدور کی معذوری کی قسم کے مطابق ہونا چاہئے ، جو جسم کے معذور ہونے  والے عضو پر منحصر ہے۔ جسے ملازمت میں زخمی ہونے کے بعد زندگی گزارنے کی صلاحیت سے بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سنن الکبریٰ  البیہقی کی حدیث نمبر 16258 میں  ہے ، ”عمرو بن شعیب  اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان  کے دادا نے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: کہ ہر   ہڈی والے عضو کو زخمی  کرنے پر پانچ اونٹ بطور د یت دیئے جائیں  اور پانچ اونٹ ہر دانت کے بدلے دیت ہے۔“

جامع ترمذی میں درج  ہےکہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”رسول اللہ ﷺ نے انگلیوں کی دیت کے بارے میں فرمایا: ”دونوں ہاتھ اور دونوں پیر برابر ہیں، ( دیت میں ) ہر انگلی کے بدلے دس اونٹ ہیں۔“ (جامع ترمذی: 1391)

﴿دِيَةُ الأَصَابِعِ الْيَدَيْنِ وَالرِّجْلَيْنِ سَوَاءٌ عَشْرٌ مِنَ الإِبِلِ لِكُلِّ أُصْبُعٍ﴾

اسی طرح کے احکام سنن ابو داؤد میں درج روایات میں موجود ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”انگلی کوئی بھی  سب کی  (دیت) برابر ہیں اور  دانت  کوئی بھی دیت میں برابر ہیں۔ اگلا دانت اور داڑھ برابر ہیں ، یہ اور وہ برابر ہیں “ اور”اللہ کے رسول ﷺ نے فیصلہ دیا کہ آنکھ کی دیت  ایک تہائی  ہے۔“ (سنن ابوداؤد: 4559 اور 4567)۔

اسلام  میں دوران ملازمت زخمی یا معذور  ہونے پر ملازمین کو  سہولیات دینے کا حکم دیتا ہے  جس کا دارومدار  اخراجات اور دیگر عوامل پر  منحصر ہوگا، سنن ابوداؤد کی روایت  ہے :  کہ  رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں دیت کی قیمت آٹھ سو دینار، یا آٹھ ہزار درہم تھی، اور اہل کتاب کی دیت اس وقت مسلمانوں کی دیت کی آدھی تھی، پھر اسی طرح حکم چلتا رہا، یہاں تک کہ عمرؓ خلیفہ  مقررہوئے تو آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا، اور فرمایا: ”سنو، اونٹوں کی قیمت بڑھ گئی ہے، تو عمر ؓ نے سونے والوں پر ایک ہزار دینار، اور چاندی والوں پر بارہ ہزار ( درہم ) دیت ٹھہرائی، اور گائے بیل والوں پر دو سو گائیں، اور بکری والوں پر دو ہزار بکریاں، اور کپڑے والوں پر دو سو جوڑوں کی دیت مقرر کی، اور ذمیوں کی دیت چھوڑ دی، ان کی دیت میں ( مسلمانوں کی دیت کی طرح ) اضافہ نہیں کیا۔“ (سنن ابو داؤد:4542)

﴿حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ كَانَتْ قِيمَةُ الدِّيَةِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثَمَانَمِائَةِ دِينَارٍ أَوْ ثَمَانِيَةَ آلاَفِ دِرْهَمٍ وَدِيَةُ أَهْلِ الْكِتَابِ يَوْمَئِذٍ النِّصْفُ مِنْ دِيَةِ الْمُسْلِمِينَ قَالَ فَكَانَ ذَلِكَ كَذَلِكَ حَتَّى اسْتُخْلِفَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ فَقَامَ خَطِيبًا فَقَالَ أَلاَ إِنَّ الإِبِلَ قَدْ غَلَتْ ‏.‏ قَالَ فَفَرَضَهَا عُمَرُ عَلَى أَهْلِ الذَّهَبِ أَلْفَ دِينَارٍ وَعَلَى أَهْلِ الْوَرِقِ اثْنَىْ عَشَرَ أَلْفًا وَعَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ مِائَتَىْ بَقَرَةٍ وَعَلَى أَهْلِ الشَّاءِ أَلْفَىْ شَاةٍ وَعَلَى أَهْلِ الْحُلَلِ مِائَتَىْ حُلَّةٍ ‏.‏ قَالَ وَتَرَكَ دِيَةَ أَهْلِ الذِّمَّةِ لَمْ يَرْفَعْهَا فِيمَا رَفَعَ مِنَ الدِّيَةِ﴾

اسی طرح حدیث نمبر 4564 میں ہے:”رسول اللہ ﷺ گاؤں والوں پر قتل خطا کی دیت کی قیمت چار سو دینار، یا اس کے برابر چاندی سے لگایا کرتے تھے، اور اس کی قیمت اونٹوں کی قیمتوں پر لگاتے، جب وہ مہنگے ہو جاتے تو آپ اس کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیتے، اور جب وہ سستے ہوتے تو آپ اس کی قیمت بھی گھٹا دیتے، رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں یہ قیمت چار سو دینار سے لے کر آٹھ سو دینار تک پہنچی، اور اسی کے برابر چاندی سے ( دیت کی قیمت ) آٹھ ہزار درہم پہنچی، اور رسول اللہ ﷺ نے گائے بیل والوں پر ( دیت میں ) دو سو گایوں کا فیصلہ کیا، اور بکری والوں پر دو ہزار بکریوں کا۔ رسول اللہﷺنے فرمایا: دیت کا مال مقتول کے وارثین کے درمیان ان کی قرابت کے مطابق تقسیم ہو گا، اب اگر اس سے کچھ بچ رہے تو وہ عصبہ کا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ناک کے سلسلے میں فیصلہ کیا کہ اگر وہ کاٹ دی جائے تو پوری دیت لازم ہو گی۔ اور اگر اس کا بانسہ ( دونوں نتھنوں کے بیچ کی ہڈی ) کاٹا گیا ہو تو آدھی دیت لازم ہو گی، یعنی پچاس اونٹ یا اس کے برابر سونا یا چاندی، یا سو گائیں، یا ایک ہزار بکریاں۔ اور ہاتھ جب کاٹا گیا ہو تو اس میں آدھی لازم ہو گی، پیر میں بھی آدھی دیت ہو گی۔ اور مامومہ (سر کے ایسے زخم کو کہتے ہیں جو دماغ تک پہنچ جائے)۔ میں ایک تہائی دیت ہو گی، تینتیس اونٹ اور ایک اونٹ کا تہائی یا اس کی قیمت کے برابر سونا، چاندی، گائے یا بکری اور جائفہ (وہ زخم ہے جو سر، پیٹ یا پیٹھ کے اندر تک پہنچ جائے اور اگر وہ زخم دوسری طرف بھی پار کر جائے تو اس میں دو تہائی دیت دینی ہو گی۔) میں بھی یہی دیت ہے۔ اور انگلیوں میں ہر انگلی میں دس اونٹ اور دانتوں میں ہر دانت میں پانچ اونٹ کی دیت ہو گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا: عورت کی جنایت کی دیت اس کے عصبات میں تقسیم ہو گی ( یعنی عورت اگر کوئی جنایت /قتل یا زخمی  کرے تو اس کے عصبات کو دینا پڑے گا ) یعنی ان لوگوں کو جو ذوی الفروض سے بچا ہوا مال لے لیتے ہیں ( جیسے بیٹا، چچا، باپ، بھائی وغیرہ ) اور اگر وہ قتلکر دی گئی ہو تو اس کی دیت اس کے وارثوں میں تقسیم ہو گی ( نہ کہ عصبات میں ) اور وہی اپنے قاتل کو قتل کریں گے ( اگر قصاص لینا ہو ) ۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قاتل کے لیے کچھ بھی نہیں، اور اگر اس کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کا وارث سب سے قریبی رشتے دار ہو گا لیکن قاتل کسی چیز کا وارث نہ ہو گا ۔“ (سنن ابو داؤو:4564) (نوٹ: عصبات عصبہ کی جمع یعنی وہ لوگ جن کے حصے میراث میںمقرر شدہ نہیں البتہ اصحاب فرائض  سے جو بچتا ہے انھیں ملتا ہے اور اگر اصحاب فرائض نہ ہوں تو تمام مال(ترکہ)انہی میں تقسیم ہو جاتا ہے

﴿قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَجَدْتُ فِي كِتَابِي عَنْ شَيْبَانَ، – وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْهُ – فَحَدَّثْنَاهُ أَبُو بَكْرٍ، – صَاحِبٌ لَنَا ثِقَةٌ – قَالَ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، – يَعْنِي ابْنَ رَاشِدٍ – عَنْ سُلَيْمَانَ، – يَعْنِي ابْنَ مُوسَى – عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُقَوِّمُ دِيَةَ الْخَطَإِ عَلَى أَهْلِ الْقُرَى أَرْبَعَمِائَةِ دِينَارٍ أَوْ عَدْلَهَا مِنَ الْوَرِقِ يُقَوِّمُهَا عَلَى أَثْمَانِ الإِبِلِ فَإِذَا غَلَتْ رَفَعَ فِي قِيمَتِهَا وَإِذَا هَاجَتْ رُخْصًا نَقَصَ مِنْ قِيمَتِهَا وَبَلَغَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَا بَيْنَ أَرْبَعِمِائَةِ دِينَارٍ إِلَى ثَمَانِمِائَةِ دِينَارٍ أَوْ عَدْلَهَا مِنَ الْوَرِقِ ثَمَانِيَةَ آلاَفِ دِرْهَمٍ وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ مِائَتَىْ بَقَرَةٍ وَمَنْ كَانَ دِيَةُ عَقْلِهِ فِي الشَّاءِ فَأَلْفَىْ شَاةٍ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏‏ إِنَّ الْعَقْلَ مِيرَاثٌ بَيْنَ وَرَثَةِ الْقَتِيلِ عَلَى قَرَابَتِهِمْ فَمَا فَضَلَ فَلِلْعَصَبَةِ ‏‏ ‏.‏ قَالَ وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي الأَنْفِ إِذَا جُدِعَ الدِّيَةَ كَامِلَةً وَإِنْ جُدِعَتْ ثَنْدُوَتُهُ فَنِصْفُ الْعَقْلِ خَمْسُونَ مِنَ الإِبِلِ أَوْ عَدْلُهَا مِنَ الذَّهَبِ أَوِ الْوَرِقِ أَوْ مِائَةُ بَقَرَةٍ أَوْ أَلْفُ شَاةٍ وَفِي الْيَدِ إِذَا قُطِعَتْ نِصْفُ الْعَقْلِ وَفِي الرِّجْلِ نِصْفُ الْعَقْلِ وَفِي الْمَأْمُومَةِ ثُلُثُ الْعَقْلِ ثَلاَثٌ وَثَلاَثُونَ مِنَ الإِبِلِ وَثُلْثٌ أَوْ قِيمَتُهَا مِنَ الذَّهَبِ أَوِ الْوَرِقِ أَوِ الْبَقَرِ أَوِ الشَّاءِ وَالْجَائِفَةُ مِثْلُ ذَلِكَ وَفِي الأَصَابِعِ فِي كُلِّ أُصْبُعٍ عَشْرٌ مِنَ الإِبِلِ وَفِي الأَسْنَانِ فِي كُلِّ سِنٍّ خَمْسٌ مِنَ الإِبِلِ وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّ عَقْلَ الْمَرْأَةِ بَيْنَ عَصَبَتِهَا مَنْ كَانُوا لاَ يَرِثُونَ مِنْهَا شَيْئًا إِلاَّ مَا فَضَلَ عَنْ وَرَثَتِهَا فَإِنْ قُتِلَتْ فَعَقْلُهَا بَيْنَ وَرَثَتِهَا وَهُمْ يَقْتُلُونَ قَاتِلَهُمْ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏‏ لَيْسَ لِلْقَاتِلِ شَىْءٌ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَارِثٌ فَوَارِثُهُ أَقْرَبُ النَّاسِ إِلَيْهِ وَلاَ يَرِثُ الْقَاتِلُ شَيْئًا ‏‏ .‏ قَالَ مُحَمَّدٌ هَذَا كُلُّهُ حَدَّثَنِي بِهِ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ مِنْ أَهْلِ دِمَشْقَ هَرَبَ إِلَى الْبَصْرَةِ مِنَ الْقَتْلِ﴾

یہ احادیث متاثرہ مزدوروں کے معاوضے کو وقت اور صورت حال (معذوری کی قسم) کے مطابق تبدیل کرنے یا نظر ثانی کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہیں۔ لہذا ، متاثرہ مزدور کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے   حکومت وقت کو چاہئے کہ وہ دوران ملازمت زخمی ہونے یا  معذور ہونے والے افراد کے  الاؤنس  میں زمان ومکان کے حساب سے تبدیلی کرتی رہے۔

[6] – پسماندگان کے لئے الاؤنس  کو اسلام میں ایک اہم حق سمجھا جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیواؤں اور مسکینوں کے لیے کوشش کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ امام مالکؒ نے اس حدیث میں یہ بھی کہا تھا ایسے شخص کو اس شخص کے برابر ثواب ملتا ہے جو نماز میں کھڑا رہتا ہے تھکتا ہی نہیں اور اس شخص کے برابر جو روزے برابر رکھے چلا جاتا ہے افطار ہی نہیں کرتا ہے۔“ (صحیح بخاری: 6007)

﴿ السَّاعِي عَلَى الأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ـ وَأَحْسِبُهُ قَالَ، يَشُكُّ الْقَعْنَبِيُّ ـ كَالْقَائِمِ لاَ يَفْتُرُ، وَكَالصَّائِمِ لاَ يُفْطِرُ ‏﴾

نیز صحیح بخاری ، کتاب طلاق ، حدیث نمبر 5304 میں ہے: ”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپ نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا اور ان دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑی سی جگہ کھلی رکھی۔“(صحیح بخاری: 5304)

﴿وَأَنَا وَكَافِلُ اليَتِيمِ فِي الجَنَّةِ هَكَذَا» وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ وَالوُسْطَى، وَفَرَّجَ بَيْنَهُمَا شَيْئًا﴾

یہ احادیث ملازمین کے پسماندگان کے لئے  الاؤنس مقرر کرنے کا زور دیتی ہیں ،ریاست کو چاہئے کہ وہ  متاثرہ مزدوروں کے پسماندگان کی خود انحصاری کے لیے  اقدامات اٹھائے۔ اسی طرح  ایک روایت  میں ہے: ” ایک آدمی نے مرتے وقت اپنے چھ غلام آزاد کر دیے۔ ان کے علاوہ اس کے پاس کوئی مال نہ تھا۔ یہ بات نبی ﷺ کو پہنچی تو آپؐ اس پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا: ”میرا ارادہ ہوا کہ میں اس کا جنازہ نہ پڑھوں۔“ پھر آپؐ نے اس کے غلام بلائے، ان کے تین حصے کیے، پھر ان میں قرعہ ڈالا۔ دو کو آزاد فرمایا اور چار کو غلام رکھا۔“(سنن نسائی: 1960)

﴿أَنَّ رَجُلًا أَعْتَقَ سِتَّةً مَمْلُوكِينَ لَهُ عِنْدَ مَوْتِهِ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرَهُمْ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَغَضِبَ مِنْ ذَلِكَ وَقَالَ: «لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أُصَلِّيَ عَلَيْهِ»، ثُمَّ دَعَا مَمْلُوكِيهِ فَجَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ، ثُمَّ أَقْرَعَ بَيْنَهُمْ، فَأَعْتَقَ اثْنَيْنِ وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً﴾

یہ حدیث  پسماندگان کے لئے الاؤنس کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔  اور ترغیب دیتی ہے کہ ملازمین اپنے خاندانوں کے مستقبل کے لیے پنشن فنڈ میں حصہ ڈال  سکتے ہیں۔

قرآن اور احادیث مزدور کی موت کے بعد اس کے پسماندگان (بچوں اور والدین وغیرہ) کے لیے پنشن کا تقاضا کرتے ہیں ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ : ”بنی ہذیل کی دو عورتیں آپس میں لڑیں اور ایک نے دوسری عورت کو پتھر پھینک مارا جس سے وہ عورت اپنے پیٹ کے بچے( جنین) سمیت مرگئی۔ پھر( مقتولہ کے رشہ دار) مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے دربار میں لے گئے۔ آنحضرت ﷺ نے فیصلہ کیا کہ پیٹ کے بچے کا خون بہا ایک غلام یا کنیز دینی ہوگی اور عورت کے خون بہا کو قاتل عورت کے عاقلہ( عورت کے باپ کی طرف سے رشتہ دار عصبہ) کے ذمہ واجب قرار دیا۔“ (سنن ابو داؤد: 4576)

﴿اقْتَتَلَتِ امْرَأَتَانِ مِنْ هُذَيْلٍ، فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِحَجَرٍ، فَقَتَلَتْهَا وَمَا فِي بَطْنِهَا، فَاخْتَصَمُوا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَضَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ دِيَةَ جَنِينِهَا غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ وَلِيدَةٌ، وَقَضَى بِدِيَةِ الْمَرْأَةِ عَلَى عَاقِلَتِهَا، وَوَرَّثَهَا وَلَدَهَا وَمَنْ مَعَهُمْ﴾

ماں باپ آیت نمبر:  17:23 کے رو سے پنشن کے حقدار ہیں ، ارشاد باری تعالی ہے: ”اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا۔“(17:23)

ﵻوَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًاﵺ

اسی طرح آیت نمبر 06:151  میں ہے : ”فرما دیجئے: آؤ میں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں (وہ) یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)، اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ (خواہ) وہ ظاہر ہوں اور (خواہ) وہ پوشیدہ ہوں، اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا)  اللہ نے حرام کیا ہے بجز حقِ (شرعی) کے، یہی وہ (امور) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔“(06:151)

ﵻقُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ  أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا  وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا  وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ  نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ  وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ  وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَﵺ

مندرجہ بالا آیت کے پیش نظر ، یہ نہ صرف ایک فرد کی بلکہ ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عمر رسيدہ لوگوں کو سماجی تحفظ فراہم کرے۔ والدین کے  پنشن کا حقدار ہونے کے بارے سنن ابو داؤد میں ہے : ”ایک شخص نبی اکرمﷺکے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! میرے پاس مال ہے اور والد بھی زندہ ہیں اور میرے والد کو میرے مال کی ضرورت ہے  تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم اور تمہارا مال تمہارے والد ہی کا ہے ( یعنی ان کی خبرگیری تجھ پر لازم ہے ) تمہاری اولاد تمہاری پاکیزہ کمائی ہے تو تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ۔“  (سنن ابو داؤد: 3530)

﴿أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي مَالًا وَوَلَدًا، وَإِنَّ وَالِدِي يَحْتَاجُ مَالِي؟ قَالَ: «أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ، إِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ، فَكُلُوا مِنْ كَسْبِ أَوْلَادِكُمْ﴾

والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور ان کا شکر گزار  رہنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ  پسماندگان کے لئے پنشن میں ان  حصہ  مقرر کیا جائے،  اگر وہ مرنے والے ملازم  کے زیر کفالت تھے۔ قرآن مندرجہ مجید میں ہے: ”اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں (نیکی کا) تاکیدی حکم فرمایا، جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں (اپنے پیٹ میں) برداشت کرتی رہی اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے (اسے یہ حکم دیا) کہ تو میرا (بھی) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ (تجھے) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔“ (31:14)

ﵻوَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُﵺ

ایک اور مقام پر قرآن کریم میں ارشاد ہے: ”اور دنیا (کے کاموں) میں ان (والدین) کا اچھے طریقے سے ساتھ دینا۔“ (31:15)

ﵻوَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًاﵺ

اسی طرح والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم سورہ بقرہ (آیت 83)، سورہ انعام (آیت 151)، سورہ عنکبوت (آیت 8)، اور
سورہ احقاف (آیت 15) میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے اس میں ان کیلیے ضروریاتِ زندگی کی فراہمی بھی شامل ہے۔ ”نبی کریم ﷺ سے اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے نمازکی بروقت ادائیگی کے بعد والدین سے اچھا سلوک کرنے کو محبوب ترین عمل بتایا اور اور اسے اللہ کی راہ میں جہاد سے بھی پہلے رکھا۔“ (صحیح بخاری: 527)

پسماندگاں میں  سے ایسا  بچہ، جو ملازم کی وفات کے بعد اس کا وارث بنے ،کو بھی ریاست کی طرف سے  اس وقت تک پنشن ملے گی جب تک وہ کمائی کی  عمر یا  خود کمانے کے  قابل  نہ ہو جائے  ، آیت مبارکہ   06:152 میں ہے: ”اور یتیم کے مال کے قریب مت جانا مگر ایسے طریق سے جو بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے، اور پیمانے اور ترازو (یعنی ناپ اور تول) کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو۔ ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، اور جب تم (کسی کی نسبت کچھ) کہو تو عدل کرو اگرچہ وہ (تمہارا) قرابت دار ہی ہو، اور  اللہ کے عہد کو پورا کیا کرو، یہی (باتیں) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔“ (06:152)

ﵻوَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونََﵺ

آیت 17:34 میں بھی ایسا ہی ایک حکم ہے ، جس میں کہا گیا ہے : ”اور تم یتیم کے مال کے (بھی) قریب تک نہ جانا مگر ایسے طریقہ سے جو (یتیم کے لئے) بہتر ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے، اور وعدہ پورا کیا کرو، بیشک وعدہ کی ضرور پوچھ گچھ ہوگی۔“ (17:34)

ﵻوَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۚ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًاﵺ

احادیث میں پسماندگان  کی پنشن کی تقسیم کے موقع پر  وسائل کی جانچ کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ صحیح بخاری  میں ہے: ”نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ہر مومن کا میں دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ قریب ہوں۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو « النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ‏»“ نبیِ (مکرّم) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں۔“ اس لیے جو مومن بھی انتقال کر جائے اور مال چھوڑ جائے تو چاہئے کہ ورثاء اس کے مالک ہوں وہ جو بھی ہوں ۔اور جو شخص قرض چھوڑ جائے یا اولاد چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آ جائیں کہ ان کا والی  وارث میں ہوں۔“  (صحیح بخاری: 2399)

﴿مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلَّا وَأَنَا أَوْلَى بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: }النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ{[الأحزاب: 6] فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ مَاتَ وَتَرَكَ مَالًا فَلْيَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَنْ كَانُوا، وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا، فَلْيَأْتِنِي فَأَنَا مَوْلاَهُ ﴾

ایسا ہی صحیح مسلم کی ایک روایت ہے : نبی  کریم ﷺ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! روئے زمین پر کوئی مومن نہیں مگر میں سب لوگوں کی نسبت اس کے زیادہ قریب ہوں، تم میں سے جس نے بھی جو قرض یا اولاد چھوڑی (جس کے ضائع ہونے کا ڈر ہے) تو میں اس کا ذمہ دار ہوں اور جس نے مال چھوڑا وہ عصبہ (قرابت دار جو کسی طرح بھی وارث بن سکتا ہو اس) کا ہے، وہ جو بھی ہو“ اور  ایک اور روایت میں ہے کہ ”جس نے مرنے کے بعد کوئی مال چھوڑا تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جس نے ایسی اولاد چھوڑی جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے تو اس کی کفالت میرے ذمہ ہے۔“ (جامع ترمذی:  2090 اور 1070)

﴿وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنْ عَلَى الْأَرْضِ مِنْ مُؤْمِنٍ إِلَّا أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِهِ، فَأَيُّكُمْ مَا تَرَكَ دَيْنًا، أَوْ ضَيَاعًا فَأَنَا مَوْلَاهُ، وَأَيُّكُمْ تَرَكَ مَالًا، فَإِلَى الْعَصَبَةِ مَنْ كَانَ﴾

ان احادیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست ملازمین کے پسماندگان  کو پنشن  دینے سے پہلے اس بات کو جاننا یقینی بنائے  کہ ملازمین کے پسماندگان کے  سابقہ حالات کیا ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی واقعے کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن   کریم میں ارشاد ہے: ”اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اس (کلمۂ توحید) کو اپنی نسل و ذریّت میں باقی رہنے والا کلمہ بنا دیا تاکہ وہ (اللہ کی طرف) رجوع کرتے رہیں۔“ (43:28)

ﵻوَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَﵺ

مزدوروں /محنت کشوں   کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ سوشل سیکورٹی ادارے (خاص طور پر خود روزگاری) کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کسی مزدور کی موت کی صورت میں انحصار کرنے والوں اور بچ جانے والوں کو سماجی تحفظ حاصل ہو۔ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”اور تم اپنے اہل و عیال کو (کافی مال دے کر) خیر کے عالم میں چھوڑ جاؤ۔“  یا فرمایا: ”(اچھی) گزران کے ساتھ اور خوشحال چھوڑکر  جاؤ ۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔“ اور آپ نے اپنے ہاتھ سےاشارہ کر کے دکھایا۔ (ادب المفرد: 520)

﴿وَإِنَّكَ أَنْ تَدَعَ أَهْلَكَ بِخَيْرٍ”، أَوْ قَالَ‏:‏ "بِعَيْشٍ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ”، وَقَالَ بِيَدِهِ‏﴾