فہرست مضامین

قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق

قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق

کام  کا ج کے بارے میں اسلامی مآخذ میں مختلف الفاظ  استعمال ہوئے ہیں جیسے کہ:  عمل (مزدوری) ، سعی (محنت)، فعل (کام) ، اور کسب (کمائی) یہ تمام ہم معنی لفظ ہیں ، اور پانچواں لفظ اجر ہے ، جو کام یا ملازمت کا معاوضہ ہے۔ لفظ عمل کے چار مختلف معنی ہیں: (1) محنت،  مزدوری ، (2) کام کاج ، (3) پیداوار یا مینوفیکچرنگ(manufacturing)  ، اور (4) صوبہ یا ملک کا کچھ حصہ۔[1]  زیادہ تر مذہبی اور اسلامی معاشی اسکالرز کے  ہاں قرآن اور حدیث میں ”العمل“  سے کام کے وسیع اور عمومی معنی اور مفہوم ، تفسیر وتشریح مراد ہیں جس میں روحانی اور مذہبی کام بھی شامل ہے۔ قرآن مجید میں 500 سے زائد آیات ہیں جو اپنے وسیع معنی میں”عمل“  کا حوالہ دیتی ہیں۔ تاہم ، جو بات قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کے وصالِ ظاہری کے بعد لفظ ”عمل“ کو  پیداواری عمل  یا مزدوری کو نہیں بلکہ زیادہ تر تفسیرات میں اسےصرف دینی مراقبہ اور عبادات کو ظاہر کرنے کیلیے استعمال کیا گیا ہے۔[2]

عمل کے حوالے سے  یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلام کام کی اقسام یعنی ہاتھ سے محنت ومشقت کرنے یا علم وعقل کا استعمال کرکے کوئی کام کرنے میں کوئی فرق یا امتیاز نہیں کرتا۔ اسلامی اصول تمام لوگوں پر لاگو ہوتے ہیں چاہے وہ آجر ہوں ، ملازم ہوں یا  آزاد پیشہ (self-employed )ہوں ، اور اس سلسلے میں ، استاد اور مکینک ، سرکاری ملازم اور نجی شعبے کے ملازم ، یا حکمران اور عام آدمی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن کریم نے حضرت نوح علیہ السلام کی ہاتھوں کی محنت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آپؑ نے  اپنے ہاتھ سے  کشتی بنائی (11:37) ، حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر اپنے ہاتھوں سے کی (02:127) ۔  حضرت داؤد علیہ السلام جنگی زرہیں بناتے(34:10–11)، حضرت موسٰی علیہ السلام بکریاں چراتے، (28:26–27) حضرت موسٰی علیہ السلام کے ہمرکاب (خضِر) نے  دیوار بنائی(18:77)، اور  حضرت ذوالقرنین نے   سیسہ پگھلا کر دیوار بنائی(18:86). حضرت یوسف علیہ السلام کی دانشورانہ محنت کا بھی ذکر قرآن کریم میں موجود ہے انہیں شاہ ِمصر نے خزانچی اور نگہبان (یا وزیر) مقرر کیا تھا (12:55)۔ قرآن ان لوگوں کی دستی محنت (manual      labour) کا حوالہ دیتا ہے جو قارون کے خزانوں کی چابیاں لے کر چلتے تھے۔ ([3])  جانوروں کے کام  کے بارے میں ارشاد  بار ی تعالی ﷻ ہے:  ”اور یہ (جانور) تمہارے بوجھ (بھی) ان شہروں تک اٹھا لے جاتے ہیں جہاں تم بغیر جانکاہ مشقت کے نہیں پہنچ سکتے تھے۔“ (16:07)

قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق کی تفصیلات بیان کرنے سے پہلے  ہم کچھ اصطلاحات کی  مزید وضاحت ضروری ہے۔ اسلامی فقہ میں ،” اجارہ“   کا لفظ کسی شخص کی خدمات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اثاثوں یا جائیدادوں کو کرائے پر دینے یا کرایہ پر لینے کے لیے بھی  استعمال ہوتا ہے،  بطور خاص اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی خدمات کا معاوضہ یا تنخواہ اس  ملازم کی محنت ومشقت کو مدنظر رکھتے ہوئے مقرر کی جائے۔ آجر کو مستاجر اور ملازم کو اجیر کہا جاتا ہے۔ اور ادا کی جانے والی تنخواہ یا معاوضے  کو  اجرت کہا جاتا ہے۔[4]


قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق

[1] Baalbaki, M. and Baalbaki, R. 2008, Al-Mawrid Al-Waseet: Concise Dictionary, English-Arabic and Arabic-English, Dar Al-Adab Publishing

[2] Shatzmiller, M. 1994. Labour in the medieval Islamic world. Leiden; New York: E.J. Brill.

[3]ﵻ وَءَاتَيۡنَٰهُ مِنَ ٱلۡكُنُوزِ مَآ إِنَّ مَفَاتِحَهُۥ لَتَنُوٓأُ بِٱلۡعُصۡبَةِ أُوْلِي ٱلۡقُوَّةِ ﵺ

”اور ہم نے اسے اس قدر خزانے عطا کئے تھے کہ اس کی کنجیاں (اٹھانا) ایک بڑی طاقتور جماعت کو دشوار ہوتا تھا۔“ (28:76)

[4]Ibn Naqib Al-Misri, A. 1991. The Reliance of the Traveler: A classic manual of Islamic sacred law. (N. H. M. Keller Trans.). Dubai, U.A.E.:  Modern Printing Press.