فہرست مضامین

قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق – ملازمین کی ذمہ داریاں

اسلام نے ہر شخص  کو ملازمت تلاش کرنے اور اپنی ذاتی اور اپنے خاندان کی ضروریات کو اپنی کمائی سے پورا کرنے کو ضروری قرار دیا ہے[1]، اسلام میں ایسے شخص کے بھیک مانگنے کو حرام قرار دیا گیا ہے جو خود کما سکتا ہو، اسلام نہ صرف لوگوں کو ”اچھے کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔“ (103:03) بلکہ ان سے یہ بھی تقاضاکرتا ہے کہ وہ اپنی کوششوں کو ایسے کاموں  میں صرف کریں جو کہ انسانیت کے لیے فائدہ مند ہوں۔[2]

اسلامی نقطۂ نظر سے کام  ایک اخلاقی معاملہ ہے جس میں کوئی مزدور ممنوعہ قسم کے روزگار  جیسا کہ  جسم فروشی ، سودی لین دین وغیرہ کے ذریعے روزی نہیں کما سکتا، اسلام کسی کو دھوکہ دے کر  یا استحصال کرکے کمائی  جانے والی آمدن کو بھی حرام سمجھتا ہے ، اسلام دنیا کو چھوڑ چھاڑ کر زاہدانہ زندگی گزارنے سے منع کرتا ہے، بلکہ اسلام مادی نعمتوں کے حصول اور ان کی بہتری کے لئے کام کرنے پر زور دیتا ہے ۔(28:77) [3] اسلام انسانوں کو دوسروں سے حسد کرنے کی بجائے   ایسے شعبوں میں مہارت حاصل کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے جس کے ذریعے وہ خود بھی سبقت حاصل کر سکیں۔(04:32)[4] نیز اسلام احتساب اور کارکردگی کا جائزہ لیتے رہنے کے بارے میں بھی بات کرتا ہے ، جس کے مطابق ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار  ہے۔(53:38–39) [5] اسلام کے مطابق  لوگوں کو ان کی محنت کا صلہ ملنا چاہے خواہ وہ  کم ہو یا زیادہ ،اسی طرح ملازمین کو بھی  عزیمت(احسان) ،قابلیت   اور بہتری کے جذبے کے ساتھ کام کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،  ایک حدیث مبارک میں احسان کی تشریح یوں کی گئی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ”تم اللہ تعالیﷻ کی عبادت یوں کروں جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے  تو   وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔“[6]   احسان کا یہی مفہوم اگر ایک ملازم کے ذہن میں ہوگا تو  یہ اسے بغیر کسی نگرانی کے بہترین کام کرنے پر مجبور کر دے گا۔

احسان کو نیک کاموں سے بھی تعبیر کیا گیا ہے ، قرآن کریم میں ہے: ”نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ  بھی نہیں  ہے۔ “ (55:60)

اس طرح کی سوچ ملازم اور آجر دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مثبت تعلقات برقرار رکھنے پر مجبور کرنے میں مددگار ثابت ہوتی  ہے۔ مزدوروں کو یہ بھی ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنے ان ملازم ساتھیوں  کی مدد کریں جنہیں اپنے کام کی تکمیل میں مدد کی ضرورت ہے۔ حضرت  موسٰی علیہ السلام   کے واقعے سے یہ مدداس طرح ثابت ہوتی ہے جب وہ  حضرت شعیب علیہ السلام  کی دو بیٹیوں کے ریوڑ کو پانی پلانے میں مدد کر دیتے ہیں جس وقت وہ دونوں اس بات کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں کہ باقی لوگ پانی پلاکر اپنے جانور پانی پلوا کر فارغ ہو جائیں۔[7]

مزید برآں  اسلام کام کرنے والوں  کو ہدایت  دیتا ہے کہ وہ اپنے کام کو بہتر طریقے سے انجام دینے کے لئے مسلسل کوشش کرتے رہیں[8]۔  رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”اللہ اس شخص کے کام میں  برکت دیتا ہے جو اپنے ہنر کو پورا کرتا ہے (اور اپنے کام کو صحیح طریقے سے کرنا جانتا ہے)“  [9]،اور  ”اللہ تعالی  پسند کرتا ہے کہ کوئی شخص اپنے کام کو صحیح طریقے سے انجام دینے کا طریقہ سیکھے۔ “ [10]

نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ ایک  قبیلہ کی تعریف کی جب آپ ﷺ کو بتایا گیاکہ فلاں قبیلے کے مرد
” بردباری،  میانہ روی اور پیشہ ورانہ مہارت  کے حامل ہیں ۔“ [11]یہ احادیث مزدوروں /محنت کشوں   کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ وہ بہتر طریقے سے کام کریں اور اپنی صلاحیتوں  اور قابلیت کو بہتر بنا کر با کمال  بن جائیں[12]۔

مزدور اور محنت کش کی ایک اور ذمہ داری اعتماد اور معاہدوں کی پاسداری ہے۔ قرآن اس شخص کے لیے”امین “ کا لفظ استعمال کرتا ہے جو اپنے وعدوں اور معاہدوں کو پورا کرتا ہےاور جیسا کہ اوپر ذکر ہوا: قرآن  کریم بااعتمادی کو مزدور کے بنیادی معیاروں میں سے ایک خاصہ  سمجھتا ہے۔ قرآن کریم اپنی امانتوں میں خیانت نہ کر نے کا حکم  دیتا ہے (8:27)، اور اور ایک حدیث میں ہے نبی  کریم ﷺ نے فرمایا:” جو شخص قابل اعتماد  امانت دار نہیں اس کا ایمان کامل نہیں اور جو شخص اپنا وعدہ پورا نہیں کرتا اس کا دین مکمل نہیں۔“ [13]

”امانت داری “  کی صفت ملازمت کے تناظر میں ضروری ہے ، کیونکہ یہ صفت  نہ صرف لوگوں سے اپنے معاہدوں کو پورا کرنے اور اپنے اہداف کو پورا کرنے کا تقاضا کرتی ہے بلکہ یہ بھی کہ وہ اپنی حیثیت میں دی گئی طاقت کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال نہ کریں۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا اسلام اندرونی معلومات رکھنے والے ملازمین کو اس بات کی اجازت دیتا ہے  کہ وہ اپنے آجر کے راز افشاء کرے،اور کیا اس سے اعتماد نہیں ٹوٹے گا۔؟

قرآن  کریم میں اس  کا سیدھا جواب یہ ہے کہ ”نیکی ، راستبازی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ و زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو “ (05:02)،جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم نیکی کے کاموں میں مدد کاحکم دیتا ہے اور اگر کسی ملازم کے پاس ایسی معلومات ہیں جس سے آجر کے راز افشاء ہوتے ہیں اور آجر کسی غیر قانونی یا غیر اخلاقی کام میں ملوث ہے تو اس صورت میں ”تعاون نہ کرنے“  کا  حکم ہے۔[14]

قرآن اخلاص اور دیانت داری  کی صفات کے بارے میں بھی بات کرتا ہے۔ ایک حدیث میں  مزدور کی کمائی کو بہترین کمائی کہا  گیا  ہے بشرطیکہ وہ اخلاص کے ساتھ کام کرے[15]۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مزدور سچ بولیں اور اپنے کام میں تساہل اور کام چوری سے کام نہ لیں، قرآن کریم کام چوری کو ناپسندیدہ قرار دیتا ہے۔  (83:01)۔[16]

اسلامی فقہاء کہنا ہے  کہ اس آیت  مبارکہ میں کم وزن سے مراد وہ مزدورانہ  تطفیف ہے جب ایک ملازم   تنخواہ تو پوری لے اور معاہدہ کی شرائط کے مطابق کام نہ کرے یا  کام کے اوقات میں دوسری سرگرمیوں  میں مصروف رہے یا خلاف قانون کوئی کام کرے۔ نبی کریمﷺ نے مذہب کو اخلاص کے ساتھ تشبیہ دی اور کہا کہ ایک شخص تب ہی دیندار  ہوتا ہے جب وہ عام لوگوں کے ساتھ بھی مخلص ہو (جس میں آجر اورہم کار بھی شامل ہیں) [17]۔

اسلام مزدوروں سے اپنے معاملات میں شفافیت کا تقاضا بھی کرتا ہے اور انہیں روزگار کے حصول کے لیے اپنی صلاحیتوں سے متعلق غلط بیانی سے منع کرتا ہے۔ قرآن میں جب کوئی شخص دوسروں کو دھوکہ دے کر  کوئی جائیداد (اس میں ہر قسم کی دولت شامل ہے) حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے  ”زیادتی اور ناانصافی“  قرار دیا  گیا ہے ۔ نبی کریمﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ”جو ہمیں دھوکہ  دینے والا ہم میں سے نہیں ہے۔“[18]

اسلام میں کام کی جگہ کے تعلقات کا سب سے اہم اصول اور معیار حسن ِ نیت ہے ، نہ کہ نتیجہ یا کام کی جگہ اور کمیونٹی کے کاموں کے فوائد کی پیمائش کرنا۔

نبی کریمﷺ نے فرمایا: ”اعمال  کا دارومدار صرف(کرنے والے) کی  نیت پر ہے ، اور ہر شخص کو صرف اسی کے مطابق (انعام دیا جاتا ہے) جیسی اس کی نیت ہو۔“[19]

اسلام میں حسن نیت اور نیک ارادہ اس قدر اہم ہے کہ نبی کریمﷺ نے اپنی ذات  یا اپنے خاندان کے لیے محنت ومشقت سے روزی کمانے والے شخص کا موازنہ اللہ کی راہ میں  جہاد کرنے والے شخص سے کیا ہے  ، اور کوئی شخص صرف اپنے اعلیٰ افسران کو دکھانے کے لیے کام کر رہا ہے تو شیطان کی خاطر کام کرتا ہے۔ اس اصول کا ایک اہم  ترین پہلو  یہ ہے کہ مزدوروں /محنت کشوں   کو ان کی  غیر ارادی غلطیوں پر سزا نہیں دی جانی چاہیے ، اسلام مزدوروں /محنت کشوں   سےبھی یہی  کہتا ہے کہ وہ اپنا کام خلوص  نیت کے ساتھ کریں[20]۔

اگلے باب میں  اسلامک لیبر کوڈ (اسلامی مجموعہ قوانین برائے مزدوران)کا عملی نمونہ پیش کیا جا رہا ہے، اس میں مزدوروں کے بنیادی حقوق ، یعنی انجمن کی آزادی اور اجتماعی سودے بازی کا حق نیز ہڑتال کا حق ،ملازمت اور پیشہ ورانہ کام میں امتیازی سلوک کی ممانعت ، چائلڈ لیبر اور جبری مشقت کا خاتمہ ، پیشہ ورانہ صحت و حفاظت اورسماجی تحفظ شامل ہیں۔ یہ لیبر کوڈ پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت کے ساتھ ساتھ سماجی  تحفظ  کو بھی مزدوروں کے بنیادی حقوق میں شامل کرتے ہیں۔  بنیادی حقوق  کے علاوہ اس مجموعہ قوانین میں ملازمت کے معاہدوں اور ان کے خاتمے کے بارے میں تفصیلی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ اس کے بعد اجرت، کام کے اوقات اور مختلف قسم کی چھٹیوں کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ لیبر انسپکشن سسٹم (labour   inspection   system)کا آخری باب اس مجموعۂ قوانین کی تعمیل کو یقینی بنانے میں ریاست کی ذمہ داریوں کے بارے میں ہے۔ دیگر قانون سازیوں کی طرح ،اسلامک لیبر کوڈ ( اسلامی مجموعہ قوانین برائے مزدوراں) میں  بھی کچھ استثناء کا امکان ہے۔[21]

اسلامی لیبر کوڈ کا مسودہ بناتے ہوئے ، ہم نے انٹرنیشنل  لیبر سٹینڈرڈز )یعنی کنونشنز ، سفارشات اور پروٹوکولز( کی شرائط کو بھی مدنظر رکھا ہے ، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کام اورکام کرنے والے محنت کشوں سے متعلقہ امور پر اقوام متحدہ کی خصوصی ایجنسی ہے۔اقوام متحدہ کی یہ وہ واحد سہ فریقی ایجنسی ہے جس میں 180 سے زائد رکن ممالک کی حکومتوں ، آجر اور مزدور  تنظیموں کی نمائندگی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اب تک 191 کنونشنز اور 208 سفارشات کو اپنا چکا ہے۔ ان میں سے دس کو بنیادی کنونشن سمجھا جاتا ہے ، جس میں بنیادی معیاراتِ محنت شامل ہیں۔ان میں ایسوسی ایشن کی آزادی اور اجتماعی سودے بازی کے حقوق ، جبری یا لازمی مزدوری (بندھوا مزدوری) کی تمام اقسام کا خاتمہ ، چائلڈ لیبر کا موثر خاتمہ اور روزگار ، پیشے کے حوالے سے امتیازی سلوک کے خاتمے، پیشہ ورانہ صحت و تحفظ کے موضوعات شامل ہیں۔

اس کے علاوہ سماجی تحفظ اور جائے کار پر دیگر حقوق (اجرت کا حق، چھٹیوں کا حق، معاہدہ ملازمت کا حق، وغیرہ) جیسے موضوعات  پربھی کنونشنز اور سفارشات موجود ہیں۔

اسلامک  لیبر کوڈ کی دفعات کو لکھتے ہوئے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(ILO)  کے کنونشنز اور سفارشات کی شکل میں بین الاقوامی سطح پر متفقہ معیارات سےمکمل  افادہ کیا گیا ہے اور یہ لیبر کوڈ اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہے۔[22]



[1] – ”بے شک اللہ محنت ومزدوری کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور جو شخص اپنے خاندان اور اپنے زیرکفالت افراد کے لیے محنت وکوشش کرتا ہے اسے  ایسا انعام ملے گا جو اللہ تعالیﷻ کی راہ میں  جہاد کرنے والے کے برابر ہوگا۔“ (مسند احمد )

ایک اور مقام پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے حلال رزق تلاش کرو یہ بھی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ “(کنزالعمال: 25826) ﴿ وَابْتَغِ عَلَى نَفْسِكَ وَعِيَالِكَ حَلالا، فَإِنَّ ذَلِكَ جِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ﴾

انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نبی اکرمﷺکے پاس مانگنے کے لیے آیا، آپ نے پوچھا:”  کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے؟“، بولا: کیوں نہیں، ایک کمبل ہے جس میں سے ہم کچھ اوڑھتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالا ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: ”وہ دونوں میرے پاس لے آؤ“، چنانچہ وہ انہیں آپؐ کے پاس لے آیا،
رسول اللہﷺنے ان دونوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا:”یہ دونوں کون خریدے گا؟“، ایک آدمی بولا: انہیں میں ایک درہم میں خرید لیتا ہوں، آپﷺنے پوچھا: ”ایک درہم سے زیادہ کون دے رہا ہے؟“، دو بار یا تین بار، تو ایک شخص بولا: میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں، آپﷺ نے اسے وہ دونوں چیزیں دے دیں اور اس سے درہم لے کر انصاری کو دے دئیے اور فرمایا:”ان میں سے ایک درہم کا غلہ خرید کر اپنے گھر میں ڈال دو اور ایک درہم کی کلہاڑی لے آؤ“، وہ کلہاڑی لے کر آیا تو آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس میں ایک لکڑی ٹھونک دی اور فرمایا:”جاؤ لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں یہاں نہ دیکھوں“، چنانچہ وہ شخص گیا، لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور بیچتا رہا، پھر آیا اور دس درہم کما چکا تھا، اس نے کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ، رسول اللہﷺنے فرمایا: ” یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ قیامت کے دن  مانگنے کی وجہ سے تمہارے چہرے میں کوئی داغ ہو، مانگنا صرف تین قسم کے لوگوں کے لیے درست ہے: ایک تو وہ جو نہایت محتاج ہو، خاک میں لوٹتا ہو، دوسرے وہ جس کے سر پر گھبرا دینے والے بھاری قرضے کا بوجھ ہو، تیسرے وہ جس پر خون کی دیت لازم ہو اور وہ دیت ادا نہ کر سکتا ہو اور اس کے لیے وہ سوال کرے۔“(سنن ابو داؤد: 1641)

[2] – ایک حدیث میں  ہے کہ  ایمانداری سے کمائی ہوئی روزی  ایک  عبادت ہے، دوسری طرف ، لوگوں کو ایسے کام پر آمادہ  کرنے کے لئے ایک مقام پر ارشاد نبویﷺ ہے کہ ”لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔“

”مومن  دوسروں کا دوست ہوتا ہے اور خود بھی دوست بناتا  ہے ، کیونکہ جو شخص نہ  تو خود کسی کا دوست ہو اور نہ اس کا کوئی دوست ہو تو  اس میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔ بہترین لوگ وہ ہیں جو لوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوں ۔“
(المعجم الاوسط: 5937)

﴿الْمُؤْمِنُ يَأْلَفُ وَيُؤْلَفُ وَلا خَيْرَ فِيمَنْ لا يَأْلَفُ وَلا يُؤْلَفُ وَخَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ﴾

[3]۔ ”جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کر جیسےاللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے۔“ (28:77)

ﵻوَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَﵺ

 

[4] ۔”اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دُوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنّا نہ کرو۔ جو کچھ مَردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق ان کا حصّہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصّہ۔ اور اللہ سے اس کے فضل کی دُعا مانگتے رہو“۔ (04:32)

ﵻوَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ ۚ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِﵺ

[5] – بہترین کارکردگی دکھانے والوں کے لیے ان کی  کارکردگی  پر انعام دینا ضروری ہے۔ قرآن کریم  میں  مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ ایسے انعام کا حوالہ دیا گیا ہے: ” کیا اِنسان یہ خیال کرتا ہے کہ اُسے بے کار (بغیر حساب و کتاب کے) چھوڑ دیا جائے گا۔ “ (75:36)

ﵻأَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًىﵺ

مزید یہ کہ قرآن کسی بھی تادیبی کارروائی سے پہلے انکوائری کے عمل کا حوالہ اور   اس عمل کی مکمل جانچ کا حکم دیتا ہے: ” اور انہیں (صراط کے پاس) روکو، اُن سے پوچھ گچھ ہوگی۔“ (37:24)

ﵻوَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَﵺ

کام کے بعد مزدوروں /محنت کشوں   کو شکایت کے حوالے سے پوچھ گچھ کے لیے روکا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ”تم ان دونوں کو نماز کے بعد روک لو۔ “ (05:106)

ﵻتَحْبِسُونَهُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلَاةِﵺ

[6] – حدیث جبرائیل علیہ السلام   : پھر حضرت جبرائیل  علیہ السلام  نے احسان کے متعلق پوچھا، توآپ ﷺنے فرمایا ”احسان یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ درجہ نہ حاصل ہو تو پھر یہ تو سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔“
(صحیح بخاری: 20)

﴿قَالَ مَا الإِحْسَانُ قَالَ ‏”‏ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ﴾

[7] -” اور جب وہ مَدْيَنَ کے پانی (کے کنویں) پر پہنچے تو انہوں نے اس پر لوگوں کا ایک ہجوم پایا جو (اپنے جانوروں کو) پانی پلا رہے تھے اور ان سے الگ ایک جانب دو عورتیں دیکھیں جو (اپنی بکریوں کو) روکے ہوئے تھیں (موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: تم دونوں اس حال میں کیوں (کھڑی) ہو؟ دونوں بولیں کہ ہم (اپنی بکریوں کو) پانی نہیں پلا سکتیں یہاں تک کہ چرواہے (اپنے مویشیوں کو) واپس لے جائیں، اور ہمارے والد عمر رسیدہ بزرگ ہیں،اور وہ جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتے۔“ (28:23)

ﵻ وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِنْ دُونِهِمُ امْرَأَتَيْنِ تَذُودَانِ ۖ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا ۖ قَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّىٰ يُصْدِرَ الرِّعَاءُ ۖ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ ﵺ

رسول اللہ ﷺسےپوچھا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ”اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔“  پھر آپﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سی گردن آزاد کرنا افضل ہے یعنی کون سے غلام  کی رہائی بہترین ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : ” جو قیمت میں سب سے زیادہ ہو  اور اپنے مالک کی  نظر میں سب سے قیمتی۔“  سوالات کرنے والے نے  پھر پوچھا ، ”اگر میں کچھ (آپ کے سکھائے ہوئے اعمال) کرنے سے قاصر ہوں تو پھر میں کیا کروں؟“  آپﷺ نے فرمایا : ”پھر کسی ایسے شخص کی مدد کر جو ضائع ہو رہا ہو (خاندان کے ایک غریب کی مدد کرنا ، کسی ایسے شخص کی مدد کرنا جس کی صحت خراب ہو یا جسے پتا نہ ہو کہ اسے زندگی میں کیا کرنا چاہیے) یا کسی غیر ہنر مند یا نادان شخص کے معاملات کو دیکھنا۔“  اس آدمی نے پھر پوچھا ، ”      کیا ، اگر میں کمزور ہوں اور ان میں سے کوئی کام نہ کر سکوں تو؟“   اس پر رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”پھر دوسرے لوگوں کو اپنے شر سے بچاؤاور تکلیف نہ دو تو یہ تیرا اپنی جان پر صدقہ ہے جو تو کرے گا۔ “
(ادب المفرد:220)

﴿عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، قِيلَ‏:‏ أَيُّ الأَعْمَالِ خَيْرٌ‏؟‏ قَالَ‏:‏ إِيمَانٌ بِاللَّهِ، وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِهِ، قِيلَ‏:‏ فَأَيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ‏؟‏ قَالَ‏:‏ أَغْلاَهَا ثَمَنًا، وَأَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا، قَالَ‏:‏ أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ بَعْضَ الْعَمَلِ‏؟‏ قَالَ‏:‏ فَتُعِينُ ضَائِعًا، أَوْ تَصْنَعُ لأَخْرَقَ، قَالَ‏:‏ أَفَرَأَيْتَ إِنْ ضَعُفْتُ‏؟‏ قَالَ‏:‏ تَدَعُ النَّاسَ مِنَ الشَّرِّ، فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَدَّقُ بِهَا عَلَى نَفْسِكَ﴾

[8] – قرآن کریم میں  حضرت یوسف علیہ السلام   کے قصہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ مزدور اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہو اور (قابلیت اور کمال کے لیے کوشش کرے) ، اور ایک مزدور /محنت کش /ورکر کو  جاننا چاہیے کہ کس طرح فرائض کو بااختیار اور مؤثر طریقے سے انجام دینا ہے۔ (12:54–5)

ﵻقَالَ اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ۖ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌﵺ

ایک حدیث شریف میں  لوگوں کو کسی ایسے پیشے سے وابستہ رہنے کی ہدایت کی گئی ہے جس میں  وہ مہارت حاصل کرلیں:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جسے روزی کا کوئی ذریعہ مل جائے، تو چاہیئے کہ وہ اسے پکڑے رہے۔
“ (سنن ابن ماجہ:2147)

﴿مَنْ أَصَابَ مِنْ شَىْءٍ فَلْيَلْزَمْهُ﴾

” اللہ تعالیٰ جب تم میں سے کسی کے لیے روزی کا کوئی ذریعہ پیدا کر دے، تو وہ اسے نہ چھوڑے یہاں تک کہ وہ بدل جائے، یا بگڑ جائے۔ “  (سنن ابن ماجہ:2148)

﴿إِذَا سَبَّبَ اللَّهُ لأَحَدِكُمْ رِزْقًا مِنْ وَجْهٍ فَلاَ يَدَعْهُ حَتَّى يَتَغَيَّرَ لَهُ أَوْ يَتَنَكَّرَ لَهُ﴾

[9]– بیہقی، شعب الایمان (2/551)

﴿إنَّ اللهَ يحبُّ المؤمنَ المحترفَ﴾

[10] –  بیہقی، شعب الایمان (4/1867)

﴿إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ إِذَا عَمِلَ أَحَدُکُمْ عَمَلًا أَنْ یَّتْقِنُہُ﴾

مسجد نبویﷺ کے تعمیر کے موقع سے متعلق روایت ہے کہ ایک آدمی آیا جو کہ گارا بنانا خوب جانتا تھا تو آپؐ نے فرمایا:” اللہ اس انسان پر رحم فرمائے جو (اپنا) کام بہتر طریقے سے کرنا جانتا ہو“ اور پھر آپؐ نے اس سے فرمایا: ”تو اس کام میں مصروف ہو جا، میں دیکھ رہا ہوں کہ تو اسے بہتر طور پر انجام دے سکتا ہے۔ “(منبع الفوائد: 1189)

[11]  نبی کریم ﷺ نے قبیلہ عبدالقیس کے سردار اشج ؓسے فرمایا کہ: ”تمہارے اندر جو دو خوبیاں ہیں ان کو اللہ بہت پسند کرتا ہے (خواہ کسی شخص میں ہوں): حلم و بردباری ،اور دوسرے توقف و آہستگی(یعنی سوچ سمجھ کر کام کرنا ، جلد بازی نہ کرنا)۔“
(سنن ابن ماجہ: 4187)

[12] – فرائض کی تکمیل اور عمل کو فروغ دینے کے بارے میں بات کرتے ہوئے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ،”  اگر قیامت قائم ہونے لگے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو تو اگر وہ قیامت برپا ہونے سے پہلے پہلے اسے لگا سکتا ہے تو لگا دے ۔“  (مسند احمد:12569،  ادب المفرد:479)

﴿إِنْ قَامَتِ السَّاعَةُ وَفِي يَدِ أَحَدِكُمْ فَسِيلَةٌ، فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لاَ تَقُومَ حَتَّى يَغْرِسَهَا فَلْيَغْرِسْهَا﴾

[13] –  مشکوٰة المصابیح: 35

﴿لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ﴾

[14] – گواہی/ دلیل یا ثبوت چھپانا منع ہے:”  اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اس گواہی کو چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے (کتاب میں موجود) ہے۔“(02:140)

ﵻوَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَﵺ

”اور تم گواہی کو چُھپایا نہ کرو، اور جو شخص گواہی چُھپاتا ہے تو یقینا اس کا دل گنہگار ہے۔“ (02:283)

ﵻوَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُﵺ

قرآن نے جھوٹی شہادت سے بھی منع کیا ہے اور اسے بڑے گناہوں  میں سے  ایک گناہ بتایا ہے، قرآن  کریم میں ہے: ”اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو کذب اور باطل کاموں میں (قولاً اور عملاً دونوں صورتوں میں) حاضر نہیں ہوتے اور جب بے ہودہ کاموں کے پاس سے گزرتے ہیں تو (دامن بچاتے ہوئے) نہایت وقار اور متانت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔“ (25:72)

ﵻوَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًاﵺ

نبی کریم ﷺنے فرمایا : ”سب سے بڑے گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی کی ناحق جان لینا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹ بولنا ہیں( یا فرمایا کہ جھوٹی گواہی دینا)۔“(صحیح بخاری:6871)

﴿أَكْبَرُ الْكَبَائِرِ الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَوْلُ الزُّورِ ‏‏‏.‏ أَوْ قَالَ ‏‏ وَشَهَادَةُ الزُّورِ﴾

[15 ]    – مسند الفردوس: 2910۔

﴿خير الکسب کسب العامل إذا نصح ﴾

[16]   ﵻوَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ ۝ الَّذِيْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَي النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَ ۝ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَﵺ

”تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے، جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب ان کو ناپ  کر یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں گھاٹا دیتے ہیں۔“

مفتی محمد شفیع ؒ   نے معارف القرآن میں لکھا ہے کہ: ”وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ:  مطففین تطفیف سے مشتق ہے جس کے معنے ناپ تول میں کمی کرنے کے ہیں اور ایسا کرنے والے کو مطفف کہا جاتا ہے۔ قرآن حکیم کے اس ارشاد سے ثابت ہوا کہ تطفیف کرنا حرام ہے۔- تطفیف صرف ناپ تول ہی میں نہیں بلکہ حقدار کو اس کے حق سے کم دینا کسی چیز میں ہو تطفیف میں داخل ہے – قرآن و حدیث میں ناپ تول میں کمی کرنے کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ عام طور سے معاملات کا لین دین انہی دو طریقوں سے ہوتا ہے انہی کے ذریعہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حقدار کا حق ادا ہوگیا یا نہیں، لیکن یہ معلوم ہے کہ مقصود اس سے  ہر ایک حقدار کا حق پورا پورا دینا ہے اس میں کمی کرنا حرام ہے، تو معلوم ہوا کہ یہ صرف ناپ تول کیساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر وہ چیز جس سے کسی کا حق پورا کرنا یا نہ کرنا جانچا جاتا ہے اس کا یہی حکم ہے خواہ ناپ تول سے ہو یا عدد شماری سے یا کسی اور طریقے سے ہر ایک میں حقدار کے حق میں کم دینا بحکم تطفیف حرام ہے۔- موطا امام مالکؒ میں ہے کہ حضرت عمر ؓبن خطاب نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کےارکان ( رکوع سجدے وغیرہ) پورے نہیں کرتا جلدی جلدی ختم کر ڈالتا ہے تو اس کو فرمایا لقد طففت یعنی تو نے اللہ کے حق میں تطفیف کردی،
فاروق اعظم ؓکے اس قول کو نقل کرکے حضرت امام مالک ؒ نے فرمایا لک شیئٍ وفاء وتطفیف یعنی پورا حق دینا یا کم کرنا ہر چیز میں ہے یہاں تک کہ نماز، وضو طہارت میں بھی اور اسی طرح دوسرے حقوق اللہ اور عبادات میں کمی کوتاہی کرنے والا تطفیف کرنے کا مجرم ہے اسی طرح حقوق العباد میں جو شخص مقررہ حق سے کم کرتا ہے وہ بھی تطفیف کے حکم میں ہے۔ مزدور ملازم نے جتنے وقت کی خدمت کا معاہدہ کیا ہے اس میں سے وقت چرانا اور کم کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ وقت کے اندر جس طرح محنت سے کام کرنے کا عرف میں معمول ہے اس میں سستی کرنا بھی تطفیف ہے اس میں عام لوگوں میں یہاں تک کہ اہل علم میں بھی غفلت پائی جاتی ہے، اپنی ملازمت کے فرائض میں کمی کرنے کو کوئی گناہ ہی نہیں سمجھتا۔“(مفتی محمد شفیعؒ: معارف القرآن)

     رسول اللہ ﷺنے فرمایا:” آدمی کی کوئی کمائی اس کمائی سے بہتر نہیں جسے اس نے اپنی محنت سے کمایا ہو، اور آدمی اپنی ذات، اپنی بیوی، اپنے بچوں اور اپنے خادم پر جو خرچ کرے وہ صدقہ ہے ۔“(سنن ابن ماجہ: 2138))

‏ ﴿مَا كَسَبَ الرَّجُلُ كَسْبًا أَطْيَبَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ وَمَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى نَفْسِهِ وَأَهْلِهِ وَوَلَدِهِ وَخَادِمِهِ فَهُوَ صَدَقَةٌ﴾

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” لوگو! اللہ سے ڈرو، اور دنیا طلبی میں اعتدال کا راستہ اختیار کرو، اس لیے کہ کوئی اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک اپنی روزی پوری نہ کر لے گو اس میں تاخیر ہو، لہٰذا اللہ سے ڈرو، اور روزی کی طلب میں اعتدال کا راستہ اختیار کرو، صرف وہی لو جو حلال ہو، اور جو حرام ہو اسے چھوڑ دو ۔“(سنن ابن ماجہ:2144)

﴿أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّهَ وَأَجْمِلُوا فِي الطَّلَبِ فَإِنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوتَ حَتَّى تَسْتَوْفِيَ رِزْقَهَا وَإِنْ أَبْطَأَ عَنْهَا فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَجْمِلُوا فِي الطَّلَبِ خُذُوا مَا حَلَّ وَدَعُوا مَا حَرُمَ﴾

نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”تین طرح کے آدمی ایسے ہیں جنہیں دوگنا ثواب ملتا ہے۔ اول وہ شخص جس کی لونڈی ہو ‘ وہ اسے تعلیم دے اور تعلیم دینے میں اچھا طریقہ اختیار کرے ‘ اسے ادب سکھائے اور اس میں اچھے طریقے سے کام لے ‘ پھر اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لے تو اسے دہرا اجر ملے گا۔ دوسرا وہ مومن جو اہل کتاب میں سے ہو کہ پہلے ( اپنے نبی پر ایمان لایا تھا ) پھر نبی کریم ﷺ پر بھی ایمان لایا تو اسے بھی دہرا اجر ملے گا ‘ تیسرا وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کے حقوق کی بھی ادائیگی کرتا ہے اور اپنے آقا کے ساتھ بھی بھلائی کرتا ہے (یا وہ ملازم جو حقوق اللہ بھی ادا کرتا ہے اور اپنے آجر کے ساتھ بھی نیک نیتی کے ساتھ کام کرتا ہے)۔“   (صحیح بخاری: 3011)

﴿ثَلاَثَةٌ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ الرَّجُلُ تَكُونُ لَهُ الأَمَةُ فَيُعَلِّمُهَا فَيُحْسِنُ تَعْلِيمَهَا، وَيُؤَدِّبُهَا فَيُحْسِنُ أَدَبَهَا، ثُمَّ يُعْتِقُهَا فَيَتَزَوَّجُهَا، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَمُؤْمِنُ أَهْلِ الْكِتَابِ الَّذِي كَانَ مُؤْمِنًا، ثُمَّ آمَنَ بِالنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَلَهُ أَجْرَانِ، وَالْعَبْدُ الَّذِي يُؤَدِّي حَقَّ اللَّهِ وَيَنْصَحُ لِسَيِّدِهِ﴾

[17] – صحیح مسلم: 55  الف

﴿أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏‏ الدِّينُ النَّصِيحَةُ ‏‏ قُلْنَا لِمَنْ قَالَ ‏‏ لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ ‏﴾

[18] – پوری حدیث درج ذیل ہے:  رسول اللہ ﷺ ایک غلہ کے ڈھیر سے گزرے، تو آپ نے اس کے اندر اپنا ہاتھ داخل کر دیا، آپ کی انگلیاں تر ہو گئیں تو آپ نے فرمایا: ”غلہ والے! یہ کیا معاملہ ہے؟“ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! بارش سے بھیگ گیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے اوپر کیوں نہیں کر دیا تاکہ لوگ دیکھ سکیں“، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:
”جو دھوکہ دے  وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“(جامع ترمذی:1315)

﴿أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَرَّ عَلَى صُبْرَةٍ مِنْ طَعَامٍ فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلاً فَقَالَ ‏‏ يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ مَا هَذَا ‏‏ ‏.‏ قَالَ أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ‏.‏ قَالَ ‏‏ أَفَلاَ جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ حَتَّى يَرَاهُ النَّاسُ ‏‏ ‏.‏ ثُمَّ قَالَ ‏‏ مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنَّا ‏‏﴾

[19] – ریاض الصالحین: 1

﴿إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى﴾

[20] – ” ایک مزدور اپنے آجر کی جائیداد کا ذمہ دار ہے۔“ یہ حدیث مزدور سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے فرائض سے غافل نہ ہو اور کام کی جگہ پر ہر قسم کی جائیداد کا مناسب خیال رکھے۔کیونکہ اگر آجر نہ بھی دیکھے یا اسے پتا نہ بھی چلے تو ایک اور ذات دیکھ رہی ہے: ” اور اے نبی ؐ ، اِن لوگوں سے کہہ دو کہ تم عمل کرو ، اللہ اور اس کا رسول اور مومنین سب دیکھیں گے کہ تمہارا طرزِ عمل اب کیا رہتا ہے۔ پھر تم اُس کی طرف پلٹائے جاوٴ گے جو کھُلے اور چھُپے سب کو جانتا ہے اور وہ تمہیں بتادے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ـ “ (09:105)

[21] – مندرجہ ذیل حدیث میں  مکہ مکرمہ کی حرمت سے متعلق اصول میں استثنا ہے، جس سے  ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی مشکل کو کم کرنے اور  آسانیاں مہیا کرنے(removal        of        difficulties) کے لیے عام قوانین میں استثناء شامل کیا جا سکتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا ” اب ہجرت فرض نہیں رہی لیکن ( اچھی ) نیت اور جہاد اب بھی باقی ہے اس لیے جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو تیار ہو جانا۔ اس شہر ( مکہ ) کو اللہ تعالیٰ نے اسی دن حرمت عطا کی تھی جس دن اس نے آسمان اور زمین پیدا کئے، اس لیے یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حرمت کی وجہ سے محترم ہے یہاں کسی کے لیے بھی مجھ سے پہلے لڑائی جائز نہیں تھی اور مجھے بھی صرف ایک دن گھڑی بھر کے لیے ( فتح مکہ کے دن اجازت ملی تھی ) اب ہمیشہ یہ شہر اللہ کی قائم کی ہوئی حرمت کی وجہ سے قیامت تک کے لیے حرمت والا ہے پس اس کا کانٹا کاٹا جائے نہ اس کے شکار ہانکے جائیں اور اس شخص کے سوا جو اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہو کوئی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے اور نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے۔ عباس ؓ نے کہا یا رسول اللہ! اذخر ( ایک گھاس ) کی اجازت تو دیجئیے کیونکہ یہاں یہ کاری گروں اور گھروں کے لیے ضروری ہے(ایک اور حدیث کے الفاظ:  کیونکہ یہ یہاں کے سناروں اور گھروں کی چھتوں پر ڈالنے کے کام آتی ہے )تو آپﷺ نے فرمایا کہ اذخر کی اجازت ہے۔“ (صحیح بخاری:1834) مستثنیات کا حوالہ دیتے ہوئے ، قرآن  کریم میں ارشاد ہے کہ مندرجہ ذیل افراد کا جہاد میں شرکت نہ کرنا کوئی گناہ نہیں: ” ضعیفوں (کمزوروں) پر کوئی گناہ نہیں اور نہ بیماروں پر اور نہ (ہی) ایسے لوگوں پر ہے جو اس قدر (وسعت بھی) نہیں پاتے جسے خرچ کریں جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے خالص و مخلص ہو چکے ہوں، نیکوکاروں (یعنی صاحبانِ احسان) پر الزام کی کوئی راہ نہیں اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔“  (09:91)

ﵻ لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌﵺ

اسی طرح براءؓ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت: «‏لا يستوي القاعدون من المؤمنين» اتری تو ابن ام مکتوم ؓ جو اندھے تھے آئے اور کہا: اللہ کے رسولﷺ! میرے متعلق کیا حکم ہے؟ (میں بیٹھا رہنا تو نہیں چاہتا) اور آنکھوں سے مجبور ہوں، (جہاد بھی نہیں کر سکتا) پھر تھوڑا ہی وقت گذرا تھا کہ یہ آیت: «غير أولي الضرر» نازل ہوئی (یعنی معذور لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں۔
(سنن نسائی: 3104)

[22] مزید معلومات کے لیے ،ILO کی ویب سائٹ دیکھیں:

https://www.ilo.org/dyn/normlex/en/f?p=1000:12030:::NO