فہرست مضامین

قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق – مساوات اور عدم تفریق

اسلام تمام انسانوں  میں برابری کا درس دیتا ہے ، اس میں جنس ، نسل ، اصلیت  و مذہب وغیرہ کی بنیاد پر کسی کو کسی دوسرے پر  کوئی  امتیازی حیثیت حاصل نہیں ۔ قرآن کریم میں  ہے:” اے انسان! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے۔“(04:01, 49:13) یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تمام انسان برابر ہیں مگر برتری کا پیمانہ صرف تقویٰ ہے ، (یعنی  قانون کی پابندی، نیک  کام کرنا اور اللہ سے ڈرنا)(49:13) ۔

یہی تعلیمات ہمیں احادیث مبارکہ سے  بھی ملتی ہے جہاں کہا گیا ہے کہ ” کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری حاصل ہے۔ نہ ہی کسی گورے کو کالے پر کوئی برتری حاصل ہے ، اور نہ ہی کسی  کالے کو کسی  گورے پر کوئی برتری حاصل ہے۔ تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ کومٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ “    [1]

جہاں تک صنفی امتیاز کا تعلق ہے تو اسلام عورتوں کو کام اور ملازمت  کرنے سے نہیں روکتا، قرآن کہتا ہے کہ عورتوں کو کام کرنے کا حق ہے ، اور ان کے اس حق سے انکار نہیں کیا جا سکتا: ” مردوں کے لیے ان کی کمائی کا اجر ہے (اور اسی طرح) عورتوں کے لیے بھی ان کی کمائی کا اجر ہے۔ “ (04:32)  ایک اور آیت کریمہ میں ارشاد باری تعالٰی ہے: ”میں تم میں سے کسی کا کام ضائع نہیں ہونے دوں گا ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔“ (03:195)  اس آیت مبارکہ میں جہاں اسلام نہ صرف کام کی جگہ پر خواتین کے ساتھ مساوی سلوک کا حکم دیتا ہے وہاں آجروں کو  بھی حکم دیتا ہے کہ وہ جنسی بنیادوں پر اجرت اور ملازمت میں امتیازی سلوک نہ کریں۔

ہمیں سنت  مبارکہ میں ایسی تعلیمات ملتی ہیں جہاں رسول اللہ ﷺکی زوجہٴ اول حضرت خدیجہؓ ﷞ تجارت کرتی تھیں، آپؓ غیر  ممالک میں تجارتی سرگرمیوں کے لیے دوسرے اشخاص کی خدمات حاصل کرتیں، آپ نے پیغمبر اکرم ﷺکے ساتھ معاہدۂ مضاربہ (ہمارے خیال میں اسے معاہدۂ ملازمت تصور کیا جا سکتا ہے۔[2]) کرکے  اپنے تجارتی قافلے کے ساتھ  ملک شام روانہ کیا[3]۔ ہمیں شفاؓ بنت عبداللہ ﷞کی مثال بھی ملتی جو پبلک ایڈمنسٹریشن(عوامی انتظامی امور) میں اس قدر ماہر تھیں کہ  حضرت عمر ؓنے انہیں مدینہ منڈی کا مارکیٹ انسپکٹر/سپروائزر مقرر کیا تھا۔ آپؓ ابتدائی اسلامی دور میں پہلی خاتون استاد بھی تھیں۔[4] ایک اور خاتون صحابیہ جن کا نام رفیدہؓ تھا آپؓ بطور معالج زخمیوں کا علاج کرتیں [5]۔ معاشی سرگرمیوں میں خواتین کی شرکت نسبتًا زیادہ تھی ،خواتین کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ تعداد والی  انڈسٹری یعنی صنعت  و ٹیکسٹائل کے کئی پیشوں پر اجارہ داری تھی۔[6] شاتز ملر (1997) نے لکھا ہے کہ ”قرون وسطی کے آخری دور ، 11-15 ویں صدی عیسوی  کی  لیبر مارکیٹ میں خواتین کی نمایاں اور دیگر چھوٹے بڑے عہدوں میں شرکت و  شمولیت کے شواہد           ملتے ہیں، ان کی شمولیت اور مہارتیں قرون وسطی کی یورپی خواتین کی نسبت زیادہ نفیس اور وسیع تر معلوم ہوتی ہیں، وہ تجارتیں اور پیشے جن کا استعمال مسلم خواتین کرتیں اور جو پیشہ ورانہ اور غیر ہنر مندانہ کام انہوں نے انجام دیئے اور  وہ تجارتی سرگرمیاں اور سودے بازیاں جن میں ان کی شمولیت ہوتی ، وہ   انتہائی اعلی درجے کی ، خصوصیت سے بھر پور اور مزدوری کے میدان میں  حد درجہ متاثر کن ہوتی۔“

یوں  تو  مسلم تاریخ میں خواتین مزدوروں /محنت کشوں   کا کچھ زیادہ تذکرہ نہیں ملتا، البتہ مچل  (2007)کی رائے یہ ہے: ”ایسا لگتا ہے کہ اسلامی ماخذوں میں خواتین کی عوامی سرگرمیوں کو جان بوجھ کر پسِ پشت ڈالا  گیا، جس سے معیشت میں مردوں کا تسلط زیادہ  دکھائی دیتا ہے۔“



[1] مسند احمد: 22978 البیہقی اور البزاز ۔اسی طرح کی روایت مسند احمد: 23489 میں  بھی ملتی ہے۔

[2] ۔ طبقات ابن سعد میں ہے کہ ”رسول اللہ ﷺ کے قدوم پہ خدیجہؓ کی تجارت ایسی کامیاب نکلی کہ جتنا پہلے منافع ہوا کرتا تھا اس سے دوچند ہوا، تو آنحضرت ﷺ کیلیے خدیجہؓ نے جو معاوضہ نامزد کیا تھا اس کو بھی دوچند کردیا (یعنی بجائے چار کے آٹھ اونٹ کر دیئے)۔ “ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ آپؐ نے مقررہ اجرت پر مزدوری کی تھی نہ کہ مضاربت۔

علامہ محمد طاسین  ؒ    (اسلامی اقتصاد کے چند مخفی گوشے) نے مختلف روایا ت سے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت خدیجہؓ لوگوں سے دو طرح کا معاملہ  کیا کرتی تھیں، ایک متعین اجرت پر اور دوسرا مضاربت پر، نبی کریم ﷺ کے ساتھ جو معاملہ کیا گیا وہ مضاربت کا نہ تھا بلکہ متعین اجرت کا تھا  اور سفرِشام کیلیے  جو اجرت مقرر ہوئی تھی وہ چار اونٹ تھی(طبقات ابن سعد، سیرة ابن ہشام)، اسی  طرح جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہؓ نے متعین اجرت پر رسول اللہ ﷺ سے دو مرتبہ مقام جرش (یمن) کی طرف سفر تجارت کا معاملہ کیا جس میں ہر سفر کے بدلے ایک جوان اونٹنی کا معاوضہ طے ہوا۔ (مستدرک حاکم: 4834)

[3] مضاربہ ، عقدیا معاہدہ ،  چھٹی اورساتویں صدی میں تجارتی فنانسنگ کی سب سے زیادہ مقبول شکل اور اسلامی فنانسنگ کی سب سے پسندیدہ شکل ہے۔ یہ فنانسر یا سرمایہ کار (رب المال) اور ورکنگ پارٹنر (مضارب) کے مابین شراکت داری پر مبنی ہے جہاں مضارب ایک معاشی سرگرمی میں فنانسر کی سرمایہ کاری کا انتظام کرتا ہے۔ حضرت خدیجہ ؓکی طرف سے رسول اللہ ﷺایک معتبر معاہدہ پر  بطور مضارب کام   کرتےتھے۔جس قدر منافع میں سے حصہ آپؓ  دوسرے لوگوں کو دیتیں ، اس سے زیادہ منافع میں حصہ آپ نے نبی کریمﷺ    کو دیا۔

[4] آپؓ  حسبہ کے ادارے کی سربراہ تھیں اور انکی  ذمہ داریوں میں بازار میں تمام لین دین اسلام کے احکامات کے مطابق کرانا شامل تھا۔

[5] ادب المفرد: 1129۔

[6] ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی ؒ نے اپنی کتاب (نبی اکرمﷺ اور خواتین: ایک سماجی مطالعہ) میں لکھا ہے کہ ”روایات کے مطابق عرب کے جاہلی معاشرے میں عورتوں کو کسبِ معاش کے چاروں ذرائع ۔ تجارت، زراعت، دستکاری/حرفت، اور مزدوری و اجرت۔ اختیار کرنے کی آزادی حاصل تھی اور حقیقت میں ان کے ذریعہ مال ودولت کماتی تھیں۔ صرف پیٹ بھرنے کی حد تک نہی  اور نہ صرف تن ڈھانکنے اور سر چھپانے کی حد تک، بلکہ باقاعدہ دولتمندی کے حصول کیلیے۔“ ان میں دستکار خواتین  بھی تھیں (جیسے کہ زینب بنت ثقفیؓ (زوجۂ عبداللہ بن مسعودؓ)، ماہرات طب و جراحت (جیسا کہ رفیدہؓ)، رضاعت کو بطور پیشہ اپنانے والی خواتین (نبی کریم ﷺ کی دائیاں جیسا کہ حلیمہ سعدیہؓ، ثویبہؓ، اور آپؐ کے فرزند حضرت ابراہیم کی رضاعی ماں، ام بردہؓ)، اور مزدوروں کے طور پر کام کرنے والی خواتین بھی (غزوۂ بدر کے واقعات میں دو بدوی عورتوں کا ذکر جن میں سے ایک دوسرے کی مقروض تھی اور مقروض نے قریشی لشکر کی خدمت کرکے آمدنی حاصل کرنے اور قرض اتارنے کا وعدہ کیا جو کہ بعد میں پورا بھی ہوا)