فہرست مضامین

قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق – معاہدۂ ملازمت

روزگار کے معاہدوں پر بحث کرنے سے پہلے ، ہمیں اسلام میں سماجی انصاف اور مساوات کے تصور پر بحث کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ انصاف کا مطلب ہے سب کے ساتھ منصفانہ سلوک (خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم ، مرد ہو یا عورت، بچہ ہو جوان ہو یا بوڑھا)۔ قرآن کریم کے مطابق تمام انسان برابر ہیں جنہیں ایک ہی مرد اور عورت( یعنی آدمؑ اور حواؑ )سے پیدا کیا گیا ،(49:13)۔ قرآن کریم میں عدل کے لیے دو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، ایک  ”عدل “ اور دوسرا ” قسط “۔ عدل کا مطلب ہے   ایک متوازن راستے پر عمل کرنا ہے جبکہ قسط کا مطلب یہ تسلیم کرنا ہے کہ ہر ایک کے کچھ حقوق ہیں ، اورہرکسی کو اس کے حقوق دینا قرین ِ انصاف ہے، [1]اس کے برعکس ، لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنا ناانصافی اور خدا وند کریم کی حکم عدولی ہے۔

قرآن فیصلے انصاف کے مطابق کرنے کا حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے: اگر تم فیصلہ کرو تو ان کے درمیان قانونِ عدل کے مطابق فیصلہ کرو، اللہ قانونِ عدل پر عمل کرنے والوں ہی کو دوست رکھتا ہے۔ (05:42)

ﵻ وَإِنْ حَكَمْتَ فَٱحْكُم بَيْنَهُم بِٱلْقِسْطِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَﵺ

مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے مطابق: ”یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے واسطے سے پوری امت سے گویا عہد لیا گیا ہے کہ فیصلہ اپنوں کے کسی معاملے کا ہو یا غیروں کے، بہرحال بے لاگ لپیٹ، قانون عدل و قسط کے مطابق ہو۔ ’قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ‘ کا فریضہ منصبی یہی ہے اور اسی کی خاطر اللہ نے پچھلی امتوں کو معزول کر کے اس امت کو برپا کیا ہے۔ ’إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ‘ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کی محبت کسی نسل اور خاندان کے ساتھ نہیں بلکہ عدل و قسط قائم کرنے والوں کے ساتھ ہے، جو گروہ جب تک اس پر قائم رہے گا اور اس کو قائم کرے گا اللہ اس کو دوست رکھے گا اور جس کو اللہ دوست رکھے وہی دنیا اور آخرت دونوں میں برو مند اور فلاح یاب ہو گا۔“

قرآن کریم کا حکم  ہے  کہ” ایک شخص کو انصاف کے لیے کھڑا ہونا چاہیے چاہے اس کے لئے اسے اپنے خاندان کی مخالفت ہی کیوں نہ کرنی پڑے“، اور یہ بھی حکم ہے کہ ”ناانصافی کرکے انصاف کو مسخ نہ کیا جائے ۔“(04:135)  ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہے کہ”اللہ  ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو انصاف سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔“(05:42)  اللہ تعالی نے لوگوں کو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے(16:90)۔ اس سلسلے میں ، تیرہویں صدی کے اسلامی اسکالر ابن تیمیہؒ نے کیا خوب بات لکھی ہے کہ: ”اللہ تعالی عدالت وانصاف پر مبنی  ریاست کو برقرار رکھتا ہے چاہے وہ کافر ہو، اور ظالم کی حمایت نہیں کرتا چاہے وہ مسلمان ہو۔“ [2]نبی کریمﷺ کی ایک حدیث میں ہے کہ ناانصافی (ظلم) اور قطع رحمی (خاندانی رشتوں کو توڑنے )سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں۔ [3]

کسی قسم کی ناانصافی کے تدارک کے لئے   اسلام  نے فریقین کو پیشگی معاملات طے کرلینے کا حکم دیا ہے   جسے معاہدہ کہا جاتا ہے، یہ معاہدے تحریری بھی ہو سکتے ہیں اور  زبانی بھی ،  لیکن اسلام نے زیادہ تر تحریری معاہدوں پر زور دیا ہے۔

قرآن کریم  لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ معاہدہ  طے کرلینے کے بعد اس پر عمل کریں(02:177, 23:08, 70:32)۔ ایک جگہ ارشاد ہے کہ ” قرآن  کریم لوگوں کو اپنی ذمہ داریاں  پورا کرنے کا حکم دیتا ہے۔“(05:01)،  اور بتاتا ہے کہ” روز ِمحشر جب حساب کتاب ہوگا تو ان وعدوں کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ان پر عمل کیا تھا یا نہیں“ (17:34)۔  قرآن  کریم یہ بھی تقاضا کرتا ہے کہ” اگر کوئی شخص معاہدہ کر چکا ہے تو اسے ذمہ داری کے ساتھ پورا کرے، اور یہ کہ اللہ تعالی ﷻ اس شخص کو ناپسند کرتا ہے جو  کوئی بات کہتا ہے یا معاہدہ کرتا ہے اور پھر اس پر عمل نہیں کرتا(61:2–3)۔“

ایک معاہدہ میں  مالک اور ملازم کے ذمہ داریوں اور حقوق کی وضاحت ہوتی ہے۔ ہمیں احادیث سے بھی ایسی ہی تعلیمات ملتی ہیں جن  میں جہاں نبی کریم ﷺ نے ایسے شخص کو منافق کہا ہے جو (شرائط طے کرلینے کے بعد)   معاہدہ کو پورا نہیں کرتا ، اور  جب اس پر کسی چیز کے بارے میں اعتماد وبھروسہ کیا جاتا ہے تو وہ اس اعتماد پر پور نہیں اترتا[4]۔

ہمیں ایک اور حدیث ملتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ” لوگ اپنے معاہدوں کی پابندی کریں اِلا یہ  کہ ان میں  کوئی ایسی شرط یا شرائط ہوں جو غیر قانونی یا خلافِ  شریعت ہوں ۔“  ایک اور روایت میں کہا گیا ہے کہ ”اسلام کسی ایسے معاہدے کی اجازت نہیں دیتا جو فریقین میں سے کسی کے  لئے نقصان دہ ہو۔“ـ  [5]

مذکورہ الصدر کو دیکھتے ہوئے ، ہم ذیل میں  کچھ اصول وضع کر سکتے ہیں جنہیں  ایک معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے طے کر لینا ضروری ہے۔

معاہدہ کرنے میں کوئی جبرواکراہ نہ ہو ، اور فریقین باہم رضامندی سے کام کرنے پر آمادہ ہوں، اگر فریقین میں سے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ معاہدہ اس کی آزادانہ رضامندی کے بغیر طے ہوا  ہے، یا اسے خدشہ ہے کہ معاہدہ کی غیر منصفانہ شرائط کی وجہ سے کسی فریق کا استحصال ہو رہا ہے تو ایسے فریق کو حق حاصل ہے کہ اعلانیہ معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کرے، اور اس بات کی اجازت قرآن مجید بھی دیتا ہے۔(08:58)۔

فریقین میں سے ہر فریق  کو اپنے حقوق اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا چاہیے۔ معاہدہ  میں  دوسری شرائط کے ساتھ ، معاوضے کی رقم ، کام کا وقت ،  معاوضے کی ادائیگی کی مدت (روزانہ، ہفتہ وار یا ماہانہ بنیادوں پر)، اور ساتھ ساتھ کام کے معیار اور مقدار یا تعداد کو واضح طور پر بیان کیا جانا  چاہیے،  جیسا کہ حضرت موسٰیٰؑ کے واقعے سے ظاہر ہوتا ہے  جب حضرت موسٰیٰؑ علیہ السلام (بطور ایک مزدور)اورحضرت شعیب علیہ السلام ﷤ (بطور ایک آجر ) کے درمیان معاہدہ ہوتا ہے کہ ملازم حضرت موسٰیٰؑ علیہ السلام  اپنے  آجر کی بھیڑوں کو آٹھ سال تک سنبھالے ، اور اس عرصےکے آخر  میں آجر اپنی ایک بیٹی کی شادی  حضرت موسٰیٰؑ علیہ السلام سے کردے گا،  حضرت شعیب علیہ السلام نے حضرت موسٰیٰؑ علیہ السلام سے یہ بھی کہا  کہ اگر وہ دس سال تک کام کر سکیں تو یہ بہت اچھا ہوگا ، لیکن وہ انہیں مجبور نہیں کر یں گے، جواب  میں ، حضرت  موسٰیٰؑ علیہ السلام آجر سے کہتے ہیں کہ انہیں یہ معاہدہ قبول ہے، تاہم ، وہ آٹھ یا دس سال میں سے جتنا عرصہ چاہیں  کام کرسکتے ہیں یہ ان کی پسند پر منحصر ہے ، نہ کہ آجر  کی خواہش پر (28:27–28)۔ یہ واقعہ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ  فکسڈ ٹرم معاہدات کیے جا سکتے ہیں اور کارکردگی کی بنیاد پر فکسڈ ٹرم معاہدوں کی تجدید ہو سکتی ہے۔

فریقین کو  چاہئے کہ وہ تحریری معاہدہ  کر لیں تاکہ اگر فریقین کے درمیان کوئی تنازعہ ہو تو وہ تنازعہ کو خوش اسلوبی سےنمٹایا جا سکے،  قرآن کریم میں ہے کہ ”معاہدہ لکھنے  کے بعد  چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، اس کی مقررہ تاریخ اور معاہدے کی شرائط طے ہوجانے کے بعد کوئی بھی فریق اس کی خلاف ورزی نہ کرے، یہ طریق کار اللہ تعالی کے ہاں زیادہ پسندیدہ اور مبنی بر انصاف ہے،  نیز یہ طریقہ شک کے امکانات کو کم کرتا ہے۔“(02:282)

معاہدہ کے  آخر  میں زیادتی کے خلاف شق(no injury clause)  بھی شامل کی جائے۔،جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے: ” دوسروں پر ظلم نہ کرو ، تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“ (02:279) [6]اور ایک حدیث شریف میں ہے :” نہ اپنا نقصان کرو اور نہ دوسروں کو تکلیف دو ۔“[7] معاہدے میں ایسی کوئی شق نہیں ہونی چاہیے جو ایک فریق کو ناجائز فائدہ پہنچائے اور دوسرے کے لئے نقصان دہ ہو۔[8]

معاہدے کو جاری رکھنے یا منسوخ کرنے  کے بارے میں  اسلام عام طور پر اسے اس وقت تک   جاری رکھنے کا مطالبہ کرتا ہے جب تک کہ آجر یا ملازم کوئی غیر قانونی کام نہ کرے، تاہم آجر کو حق حاصل  ہے کہ وہ  شدید غفلت یا بدانتظامی کی صورت میں ملازم کو بغیر کسی تنخواہ کی ادائیگی کے برخاست کر دے(47:09)۔ اسی طرح ملازم کو بھی  معاہدہ کے  ختم کرنے کی اجازت ہے اور اگر اسکے پاس کوئی دوسرا آپشن دستیاب ہے تو وہ اپنی نوکری تبدیل بھی  کر سکتا ہے[9]۔

ایک روایت میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”اگر آپ کسی چیز کے لیے حلف لیتے ہیں اور اس کا بہتر متبادل آپ کے پاس آتا ہے تو قسم کو توڑیں اور اس کا کفارہ دیں اور جو بہتر ہو وہ کریں۔“[10]

تاہم  پہلے سےیہ فیصلہ کرنا بھی انتہائی  اہم ہے کہ  پورے معاہدے  یا اس کی بعض  شقوں کی منسوخی  ممکن ہوگی یا نہیں ہوگی اور کیا    دونوں فریقین  اس معاہدہ کو منسوخ کرسکتے ہیں یا منسوخی یکطرفہ بھی ہو سکتی ہے۔

 


 

 [1]    ”عدل کے معنی ہیں دو آدمیوں میں برابر کا سلوک کرنا اور قسط کے معنی ہیں کسی کے حقوق وواجبات کو پوراپورا اداکرنا، عدل میں تقابل ہے جبکہ قسط میں تقابل کا کوئی سوال نہیں  ہوتا۔“ (تبویب القرآن)

[2] الامر بالمعروف ونہی عن المنکر، امام ابن تیمیہ ؒ،  1/29۔

[3]”بغاوت اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جس کا مرتکب زیادہ لائق ہے کہ اس کو اللہ کی جانب سے دنیا میں بھی جلد سزا دی جائے اور آخرت کے لیے بھی اسے باقی رکھا جائے ۔“ (جامع ترمذی: 2511)

﴿ مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللَّهُ تَعَالَى لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا – مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهُ فِي الآخِرَةِ – مِثْلُ الْبَغْىِ وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ ﴾

اسی طرح کی حدیث ادب المفرد: 588 میں مروی ہے۔

[4]”منافق کی نشانیاں تین ہیں: جب بھی وہ بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے۔ جب بھی اسے امانت دی جاتی ہے تو وہ بے ایمانی کرتا ہے۔ جب وہ وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔“ (صحیح بخاری: 2749)

﴿آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ، إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ﴾

[5] جامع ترمذی ، مجمع الزوائد ،سنن ابو داؤد۔

[6]-ﵻلَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَﵺ 

[7] ”نہ نقصان پہنچائیں نہ ہی نقصان برداشت کریں“یا ”(کسی کو اس کے حق میں کمی کر دینے والا) ضرر یعنی نقصان پہنچانا اور (پہنچائی گئی اذیت سے) زیادہ ضرر پہنچانا جائز نہی۔“  (سنن ابن ماجہ: 2341) ﴿لاَ ضَرَرَ وَلاَ ضِرَارَ﴾

[8] اس بارے میں مزید جاننے کے لیے نیازی (2005) دیکھیں۔ عمران احسن خان نیازی ، 2005 ۔ اسلامی فقہ کا خاکہ ، اسلام آباد: ایڈوانسڈ لیگل اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ۔

[9] درج ذیل حدیث براہ راست کام کے معاہدوں سے متعلق نہیں ، اور اس اصول  کو  ہم نے صرف قیاس  کے ذریعے اخذ کیا ہے۔ اگر ملازم معاہدہ ختم کرتا ہے تو ”کفارہ“ نوٹس یا نوٹس کی مدت کی رقم کی ادائیگی ہے۔

[10]” جب بھی تم کچھ کرنے کی قسم کھاتے ہو اور بعد میں تمہیں معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سے کچھ اور بہتر ہے ، تو بہتر کام  کرو اور اپنے حلف کا کفارہ ادا کرو۔ “ (صحیح بخاری: 6622)

﴿وَإِنْ أُوتِيتَهَا مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا، وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ، وَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ﴾