اسلامی اقتصادیات اور مالی نظام کے ماہرین نے منافع کے حصول یا اسٹاک کی ملکیت کی اسکیموں کے قیام پر بہت کچھ لکھا ہے[1]۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام ہر دو فریقین کے مابین مشترکہ منصوبوں کے قیام کی اجازت دیتا ہے جس کی رو سے ایک فریق سرمایہ کاری کرتا ہے اور دوسرا فریق بطور مزدور یا معاون خدمات فراہم کرتا ہے ، اور منافع پہلے سے طے شدہ نسبت سے تقسیم کیا جاتا ہے (جسے اسلامی اصطلاح میں مضاربہ کہا جاتا ہے یہ شراکت داری (partnership) یا مشارکہ کی ایک مخصوص
شکل ہے) [2]۔
چاپرا (1983) کا کہنا ہے کہ ”منافع کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: بونس اور دیگر فوائد ، جہاں مؤخر الذکر کام کے حالات کو بہتر بنانے اور مزدوروں /محنت کشوں کو تربیت فراہم کرنے ، بچوں کی تعلیم کے لیے الاؤنس اور کھانے کی سبسڈی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ منافع کی رقم میں ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن اور صحت کے فوائد کے ساتھ ساتھ بغیر تنخواہ کٹوتی کی سالانہ چھٹیاں بھی شامل ہوسکتی ہیں ، جو مزدوروں /محنت کشوں کی حوصلہ افزائی اور ملازمت کے اطمینان بخش ہونے میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔“
ہمیں احادیث نبویؐ میں واضح حوالہ جات ایسے بھی ملتے ہیں جن میں آجروں کو پیداوار اور منافع مزدوروں کے ساتھ بانٹنے کی ضرورت پر زور دیا گیا اور آجروں کو اس پر قائل کیا گیا ہے۔مثلاً ایک حدیث میں روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا” کہ جب تم میں سے کسی کا نوکر/ملازم کھانا لائے تو چونکہ اس نے کھانا پکانے کی گرمی، محنت اور مشقت براشت کی ہے تو وہ ضرور اسکو ساتھ کھانے کیلیے بٹھا لے اور وہ اسے اپنے ساتھ کھلانے کے لیےنہ بٹھا سکے تو اسے ایک یا دو نوالے ضرور کھلا دے کیونکہ اسی نے اس کو تیار کرنے کی تکلیف اٹھائی ہے۔“ اور ایک اور حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں: ”کیونکہ اس نےپکاتے وقت اس کی گرمی اور تیاری کی مشقت برداشت کی ہے۔“[3]
احادیث مبارکہ میں روایت ہے کہ آجر حسب ِ ضرورت اپنے مزدوروں کے ساتھ پیداوار اور منافع بانٹنے پر باہم متفق ہوتے ہیں، بطور مثال ایک بندہ آپ کے لیے کھانا تیار کرتا ہے اور آپ کے لیے لاتا ہے تو وہ دھویں اور گرمی کے عذاب اور اذیت سے گزرا، تو آپ کو چاہئے کہ اسے اپنے پاس بٹھا کر کھانا کھلائیں، یا اگر آپ کے پاس مہمان ہیں اور اسے اپنے ساتھ نہیں بٹھا سکتے تو ایک یا دوملازمین کے لئے کھانا بچا کر رکھ چھوڑیں۔ اور ایک اور مقام پر ، نبی کریمﷺ نے فرمایا: ”مزدوروں کو ان کی کوششوں سے پیدا ہونے والے اناج کا کچھ حصہ ادا کرو، مزدور بھی خدا کے بندے ہیں ان کی محنت سے ہونے والی پیداوار سے انہیں محروم نہ کیا جائے ۔“[4] مذکورہ بالا دونوں صورتوں سے ہمیں ایک سادہ اور سیدھا سا اصول ملتا ہے کہ ایک کمپنی کو اپنے ملازمین کے ساتھ منافع کو شیئر کرنا چاہئے۔ بونس کا تصور بھی مذکورہ بالا احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔[5] پہلی حدیث سے یہ اصول بھی ثابت ہوتا اگر آجر زیادہ منافع نہیں بھی کما رہا پھر بھی اسے مزدوروں کو منافع میں حصہ دار بنا نا چاہیے۔
مزید برآں ذوالفقار (2007) کے استدلال کی روشنی میں منافع کی تقسیم کا یہ تصور زکوٰة میں بھی موجود ہے ، زکوٰةغریبوں کے ساتھ اپنی دولت بانٹنے کا ایک ذریعہ ہے، قرآن کریم اسے غریبوں اور ضرورت مندوں کا حق سمجھتا ہے (51:19) ، جو قرآن و سنت کے مطابق ایک مخصوص طریقے سے ادا کی جاتی ہے، جو شخص جس قدر زیادہ مزدوری یا سرمائے کے ذریعے معاشرے میں اپنا حصہ ڈالتا ہے اتنا ہی اس پر ٹیکس کم عائد ہوتا ہے ، اور اس کا کم منافع عوام میں تقسیم ہوتا ہے۔
[1] Chapra, M. U. 1983. Islamic Work Ethics. Al-Nahdah: Muslim News and Views 3 (4):1–7.
[2] اس بارے میں مزید معلومات کے لیے ، محمد نجات اللہ صدیقی ؒ کی شرعی شراکت اور اسلامی قانون میں شراکت اورمولانا محمد تقی عثمانی کی اسلامی مالیات ملاحظہ کریں ۔
[3] صحیح بخاری2557 ۔ اسی طرح صحیح بخاری کی ایک اور حدیث 5460 میں موجود ہے۔
﴿إِذَا أَتَى أَحَدَكُمْ خَادِمُهُ بِطَعَامِهِ، فَإِنْ لَمْ يُجْلِسْهُ مَعَهُ فَلْيُنَاوِلْهُ أُكْلَةً أَوْ أُكْلَتَيْنِ، أَوْ لُقْمَةً أَوْ لُقْمَتَيْنِ، فَإِنَّهُ وَلِيَ حَرَّهُ وَعِلاَجَهُ ﴾
[4] مجمع الزوائد
[5] – رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”جب تمہارا کوئی خادم تمہارے لیے کھانا لائے تو اگر تم اسے اپنے ساتھ نہیں بٹھاسکتے تو تمہیں اس میں سے کم از کم اسے ایک یا دو ٹکڑے دینے چاہیں کیونکہ اس نے اسے خود تیار کیا ہے۔“ (ریاض الصالحین: 1361)
﴿إذا أتى أحدكم خادمه بطعامه، فإن لم يجلسه معه فليناوله لقمة أو لقمتين أو أُكلة أو أُكلتين فإنه ولي علاجه﴾