فہرست مضامین

لیبر مارکیٹ میں ریاست کا کردار

لیبر مارکیٹ میں ریاست کا کردار

اسلامی قانون میں حِسبہ (محتسب / مارکیٹ انسپکٹر) وہ ریاستی ادارہ ہے جو اسلام  کے ذریعہ مقرر کردہ قانون (معروف)کو نافذ کرنے اور غیر قانونی یا ناجائز (منکر) کو روکنے یا اس کی سرکوبی کے لئے قائم کیا گیا ہے، قرآن مجید اسے ہر مسلمان کی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ وہ حِسبہ میں اپنا کردار ادا کرے اور حکم دیتا ہے کہ معاشرے کا کچھ طبقہ اس عمل میں مصروف رہنا چاہیے[1]۔ مختلف  احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺبازاروں کا دورہ کرتے، مصنوعات کے حالات اور معیار کا جائزہ لیتے۔بعد میں  آپﷺ نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں دو مختلف مارکیٹ انسپکٹر / سپروائزر مقرر کئے۔[2]  احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے بازاروں کے لئے انسپکٹرز اور خاص طور پر ایک خاتون کو مدینہ منڈی میں بطور انسپکٹر مقرر فرمایا۔[3] تاہم ، بازاروں کے معائنے کے لئے خصوصی ایجنسیوں کا قیام  پہلی بار اموی خلیفہ  ہشام ابن عبد الملک (متوفی 743 ء) کے زمانے میں ہوا تھا۔

ادارہ حسبہ پر پہلی تحریر الماوردیؒ (متوفی 1058 ء) نے اپنی مشہور کتاب ”الاحکام السلطانیہ“ (حکومتی آرڈیننس) میں لکھی جس میں  ایک مکمل باب اسی موضوع پر ہے۔ ایک اور عالم  دین ابو یعلٰیؒ (متوفی 1066ء) نے انہی ایام میں اپنی کتاب اسی نام  (الاحکام السلطانیہ)سے لکھی جس  میں انہوں نے ایک اسلامی ریاست میں حسبہ کے نام سے ایک  ادارہ  کا ذکر کیا۔ تاہم ، مارکیٹ کے معائنہ پر پہلا مکمل کام امام ابن تیمیہؒ (متوفی 1328ء) نے کیا جنہوں نے نہ صرف پرائس کنٹرول بلکہ مزدوروں کے لیے منصفانہ اجرت کے تصور اور اجتماعی/عوامی مفاد میں اشیاء  کی فراہمی پر زور دیا اور ایک طرح سے کام کاج سے متعلق  اولین  معائنہ  اور نفاذ کےنظام میں ریاستی ذمہ داریوں پر بھی بحث کی۔

الماوردیؒ کے مطابق ، مارکیٹ سپروائزر/ انسپکٹر  جہاں اس بات کو یقینی بناتے ہیں  کہ کہیں آجر مزدوروں پر کام کا زیادہ بوجھ ڈال کر یا مناسب اجرت سے کم دے کر ان کا استحصال تو  نہیں کر رہے ، وہیں مارکیٹ سپروائزر/ انسپکٹرکا کام آجر کو معمول سے زیادہ تنخواہ (اضافی اجرت) کے لیے مزدوروں کے مطالبات سے بھی بچانا ہوتا ہے۔ اگر فریقین میں سے کسی نے سپروائزر/ انسپکٹر سے شکایت کی تو اسے ان دونوں کو انصاف فراہم کرنا ہوگا، مارکیٹ سپروائزر/ انسپکٹر کو رضاکارانہ اور غیر ارادی بے روزگاری کے خلاف بھی کارروائی کرنا ہوگی، حکومت عوام کے لئے فلاحی پروگرام شروع کر سکتی ہے اور لوگوں کو کام پر مجبور بھی کر سکتی ہے۔ ہمارے مطابق حضرت  عمر ؓ کے مندرجہ ذیل اقوال کو اس نقطۂ نظر سے دیکھا جا سکتا ہے ۔

پہلا قول: ایک  موقع پر  آپؓ نے اپنے ایک نائب کو ہدایت دیتے ہوئے کہا  ”اللہ تعالیﷻ نے ہمیں اپنے بندوں پر مقرر فرمایا تاکہ ہم انہیں بھوک سے بچائیں ، انہیں کپڑے پہنائیں اور ان کے لیے پیشوں کو آسان بنائیں۔“[4] ایک اور موقع پر ، اپنے نائب سے بات کرتے ہوئے انہوں نےبڑے پیمانے پر بے روزگاری اور شہری بدامنی کے بارے میں مندرجہ ذیل الفاظ میں بات کی: ”اللہ تعالیﷻ نے کام کرنے کے لیے ہاتھ بنائے ہیں ، اگر فرمانبرداری میں انہیں کوئی  کام نہیں مل رہا تو وہ  اسے نافرمانی میں ڈھونڈ نکالیں گے ، لہذا  اس کے پہلے کہ وہ کسی نافرمانی کے عمل میں مصروف ہو جائیں تم انہیں فرماں برداری  کے کاموں میں مصروف کر لو۔“  [5]

اسلام عام طور پر حکومت کو  اجازت نہیں دیتا  کہ وہ قیمتوں یا اجرتوں کے تعین میں مداخلت کرے ۔ یہ  دعوٰی ایک حدیث پر مبنی ہے جہاں لوگوں نے رسول اللہ ﷺسے مارکیٹ میں اشیا کی قیمتیں متعین کرنے کی درخواست کی ، لیکن آپﷺ نے انکار کر دیا۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”یہ اللہ ہے جو قیمتوں کو اوپر یا نیچے لے جاتا ہے ، میں ناانصافی کے بوجھ سے اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔“[6]   تاہم ، ابن تیمیہؒ کے خیالات کے مطابق ، پرائس کنٹرول کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو  فروخت کرنے پر زبردستی مجبور کیا جائے، بلکہ  اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بیچنے والے اپنی مصنوعات فروخت کرنا چاہتے ہیں تو وہ مقررہ قیمت سے زیادہ وصول نہیں کر سکتے،  ان کا موقف ہے کہ مدینہ منڈی درآمدات کی منڈی تھی جہاں زیادہ تر کھانے کی مصنوعات درآمد کی جاتی تھیں، لہذا ، بیچنے والے کو ایک مخصوص قیمت پر فروخت کرنے پر  زبردستی مجبور کیا جا سکتا ہے، ان کے خیال  میں پرائس کنٹرول کا مقصد  مناسب قیمت پر فروخت کرنے پر مجبورکرنے  کے علاوہ  اور کچھ نہیں ۔

اگر مارکیٹ کی خامیاں (market      imperfections)مزدوروں کی اجرت میں کمی کا باعث بن رہی ہوں اور مارکیٹ میں توازن بہت کم یا ناقص سطح پر رک  گیا ہو تو ، ریاست آجروں سے مطالبہ کر سکتی ہے کہ وہ ایک معقول اجرت (یعنی وہ عمومی  اجرت جو دوسرے لوگ اس جیسے کام کی ادا کر رہے ہیں) اپنے مزدوروں کو دے،اس کی ایک شکل وہ ہے جسے آج کل  اکثر اوقات  ”مروجہ اجرت“  کہا جاتا ہے۔ ابن تیمیہؒ  (متوفی 1328ء) [7] نے استدلال کیا کہ کئی ایسی مخصوص صنعتیں ہیں جیسا کہ کاشتکاری ، عمارت سازی ، کپڑے کی بُنائی اور دیگر عوامی سہولیات جن میں مارکیٹ (اپنے بگاڑ کی وجہ سے) جلدی جلدی ہاتھ نہیں ڈالتی ، اور  لوگ بھی ان کاموں میں سرمایہ کاری نہیں کرتے ۔ تاہم ، اگر عوام کو ان صنعتوں کی ضرورت ہو تو وہ ایک اجتماعی ذمہ داری بن جاتے ہیں (فرضِ کفایہ) جہاں کچھ افراد کو یہ کام ضروری کرنا ہوتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ لوگوں  کو رضاکارانہ طور پر ان پیشوں کو اختیار لینا چاہیے کیونکہ یہ معاشرے کی ضرورت بن چکے ہیں۔ مارکیٹوں کے معائنہ کا ادارہ  (مارکیٹ انسپکشن آفس) لوگوں کو ایسے پیشوں کے لیے کم از کم اجرت مقرر کرنے کے بعد ان پیشوں کو اپنانے پر بھی مجبور کر سکتا ہے تاکہ آجروں کے ہاتھوں مزدوروں کا استحصال نہ ہو، ابن تیمیہؒ سمجھتے ہیں  کہ ایسی صورت  جس میں عوام کو سہولیات کی فراہمی شامل ہو ، حکومت کو مزدوروں کے لیے معاوضے کی مناسب شرح مقرر کردینی چاہیے، اجتماعی/ عوامی اشیا کے علاوہ معیشت کے دیگر شعبوں میں کم از کم اجرت کا تعین بھی معاون ثابت ہوگا۔

علامہ یوسف القرضاوی ؒ نے اپنے فتاوٰی (جلد اول) میں مزدوروں کی اجرتوں کے تعین کے بارے میں لکھا ہے کہ ”اسلامی حکومت کے فرائض میں ہر وہ پالیسی یا اقدام شامل ہے جس کے ذریعے عدل وانصاف قائم ہو،ظلم کی بیخ کنی ہو،لوگوں کو نقصان سے بچایا جائے اور لوگوں کے آپسی تنازعات کوطے کیاجائے تاکہ ایک صالح معاشرہ وجود میں آسکے۔چنانچہ حکومت کی ذمے داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ مزدور اور اس کے مالک کے باہمی معاملات کی نگہداشت کرے اور اگر مزدور کی حق تلفی ہورہی ہو تو اس کا حق دلوانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اُٹھائے۔“ اس میں وہ قرآن و حدیث سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ﴿كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤول عَنْ رَعِيَّتِهِ، الإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ﴾ (متفق علیہ)کے مطابق   امام وقت یا بالالفاظ دیگر حکمران وقت کی ذمہ داریوں کو خاص اور محدود نہیں بلکہ عام اور لامحدود بتایا گیا ہے۔چنانچہ حکمران وقت اپنی رعایا کی تمام باتوں کاذمہ دار ہے۔

ﵻلَقَد أَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَيِّنـٰتِ وَأَنزَلنا مَعَهُمُ الكِتـٰبَ وَالميزانَ لِيَقومَ النّاسُ بِالقِسطِﵺ (57:25)کے  مطابق لوگوں کی زندگیوں میں عدل وانصاف قائم کرنا اسلام کے عظیم ترین مقاصد میں سے ایک ہے۔اوراسی عدل وانصاف  کی خاطر رسولوں کو لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے۔

ﵻإِنَّ اللَّهَ يَأمُرُكُم أَن تُؤَدُّوا الأَمـٰنـٰتِ إِلىٰ أَهلِهاﵺ(04:58) کے مطابق اگر مزدوروں کو انکے کام کے مطابق مناسب اجرت نہیں دی جا رہی یا انکے حقوق محفوظ نہ ہوں تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان حقوق کی پاسداری کو یقینی بنائے۔ [8]

اسلامی شریعت کاقاعدہ ہے کہ نقصان ہونے سے قبل نقصان کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں اور اگر نقصان واقع ہوجاتا ہے تو اسے دور کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کی جائے۔ ﴿لاَ ضَرَرَ وَلاَ ضِرَارَ﴾
”نہ نقصان اٹھاؤ اور نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ“ یا ”(اسلام میں) مضرت رسانی جائز نہی، نہ ابتدا  میں نہ جواب میں۔“
(سنن ابن ماجہ: 2341)کے اصول کی بنیاد پر اسلامی شریعت کےمتعدد احکام وقوانین کی عمارت قائم ہے۔چنانچہ اسلامی حکومت کے قوانین میں ایسا قانون ضرور ہونا چاہیے۔جس کے ذریعے سے رعایا کو پہنچنے والے نقصان کو روکا جاسکے یا نقصان کی تلافی کی جاسکے۔

اسلامی شریعت کی رو سے اسلامی حکومت کا دائرہ اختیار بہت وسیع ہے۔ اسلامی حکومت ہر وہ اقدام کرسکتی ہے اور ہروہ پالیسی وضع کرسکتی ہے جو معاشرہ کے مفاد میں ہو،جس سے عدل وانصاف قائم ہو اور معاشرہ میں ظلم وفساد کی بیخ کنی ہو۔شرط یہ ہے کہ کوئی بھی پالیسی قرآن وسنت کے خلاف نہ ہو۔

اس وسیع دائرہ کار اور دائرہ اختیار میں یہ بھی شامل ہے کہ اسلامی حکومت بازار میں اشیاءکی قیمتوں پر کنٹرول کرے۔مکانوں اوردکانوں کے کرایہ پر کنٹرول کرے اور مختلف خدمتوں کے لیے مزدوری یااجرت کی تعین کرے۔مصالح عامہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے قیمتوں،کرایوں اور اجرتوں کے تعین کے لیے اسلامی حکومت کوئی قانون بھی بناسکتی ہے۔ اگر اس کی ضرورت ہو اور مصالح عامہ کاتقاضا ہو اور اس غرض کے لیے ان ماہرین سے مدد لی جاسکتی ہے،جو عدل پر مبنی قوانین وضع کرسکتے ہوں۔ان قوانین کااطلاق صرف مزدوری اور اجرت پر نہیں ہوگا بلکہ ڈیوٹی  یعنی کام کے اوقات،سالانہ اور ہفتہ واری چھٹی اور ان جیسے دوسرے معاملات پر بھی ہوگا۔اور اس قانون پر عمل کرنا رسول کریم ﷺ کے اس فرمان کے مطابق ضروری ہو گا۔

﴿السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ ﴾ ( صحیح بخاری:7144)

”ذمہ داروں کی بات سننا اور اطاعت کرناہرمسلمان شخص پر واجب ہے۔اپنی پسند اور ناپسند سب میں بشرطیکہ اسے گناہ کا حکم نہ دیاجائے۔“

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ نے اپنی کتاب ، اسلام کا نظریہٴ ملکیت، میں جو  لکھا ہےاسکا خلاصہ یہ ہے کہ مخصوص حالات میں ریاست کو تسعیر (قیمتوں، اجرتوں، کرایوں اور منافع کی شرح کی  تعیین) کا اختیار حاصل ہے اور اس اختیار کی بنیاد یہ اصول ہے کہ ”ضرر کا ازالہ ضروری ہے۔“ تسعیر سے متعلقہ احادیث ( سنن ابوداوٴد: 3451؛ جامع ترمذی: 1314؛ اور سنن ابن ماجہ: 2200) کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ نرخوں کی گرانی کے سبب رسول کریمﷺ سے نرخ مقرر کرنے کی درخواست کی گئی تھی لیکن آپؐ نے نرخ متعین کرنے سے انکار کیا ، کیونکہ اس گرانی کے اسباب قدرتی تھے اور یہ تاجروں کی ذخیرہ اندوزی اور بے جا نفع اندوزی کے باعث نہیں تھا، ایک اور روایت میں تو یہ بھی ہے کہ وہ قحط کا زمانہ تھا ، اس صورت میں جب قحط کے  سبب اجناس کی پیداوار اور مدینہ کے بازار میں انکی رسد قدرتی طور پر کم ہوگئی ہو اور کاشت کار اور باہر سے مال لانیوالے نرخ بڑھانے پر مجبور ہوں  تو نرخ متعین کرنا اور مقامی تاجروں سے  اس نرخ پر بیچنے پر مجبور کرنا ناجائز ہوتا۔

لیکن اگر قیمتیں بڑھ جانے کاسبب قدرتی عوامل کی بنا پر زرعی اجناس کی پیداوار میں کمی کے بجائے تاجروں کی ذخیرہ اندوزی، یا متعلقہ صنعت میں اجارہ داری کی صورت میں قیمتیں چڑھانے کیلیے پیداوار یا رسد میں دانستہ کمی ہو  تو ان صورتوں میں مذکورہ بالا احادیث  سےیہ استدلال صحیح نہیں ہو گا کہ قیمتوں کی تعیین خلافِ شریعت ہے۔ تاجروں کو ایک متعین قیمت  (جس میں معروف شرح کے مطابق نفع بھی شامل ہو) کے عوض اشیا کے فروخت کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے ، خریداروں اور فروخت کنندگان کو ایک دوسرے کے ظلم اور ضرر رسانی سے بچانا ریاست کی ذمہ داری ہے اور قیمتوں کے تعین کا فیصلہ مصالح عامہ اور ضرورت کی بنیاد پر کرنا چاہیئے۔

انہی اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اجرت اور معاوضوں کی تعیین بھی کی جا سکتی ہے ، محنت کی خریدوفروخت میں عام طور پر فروخت کنندہ (یعنی مزدور) کی حیثیت کمزور ہونے کی وجہ سے خریدار(آجر) بے جا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور شاید انہیں بہت کم معاوضوں  پر ملازمت کیلیے رکھیں ، اسی طرح مزدور اپنے باہمی اتحاد کے ذریعے سے بہت اونچی اجرتوں کا مطالبہ کر سکتے ہیں، اس صورتحال میں ریاست کی جانب سے کم از کم اجرتوں کی تعیین کی بہت اہمیت ہے اور اسی طرح مزدوروں کے اتحاد  کو ریگیولیٹ (منظم ) کرنے کی بھی ضرورت ہے۔


[1]– قرآن کریم (03:110), (09:71)

[2] ۔ایک روایت کے مطابق حضرت عمر فاروقؓ کو مدینہ منورہ اور حضرت سعید بن العاصؓ کو مکہ مکرمہ میں محتسب مقرر کیا گیا تھا۔  (مزید تفصیلات کے لیے لیبر انسپکشن کا باب دیکھیں)

[3] ۔ اسی طرح ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے مطابق حضرت عمر فاروق ؓ نے عبداللہ بن غبتہ  بن مسعود الھندلیؒ (مشہور تابعی ہیں) کو مدینہ (اور تمام اسلامی ریاست کا محتسب اعلیٰ) اور سائبؓ بن یزید کو نائب محتسب اعلیٰ مقرر فرمایا۔ (ادب القاضی، 1999)

[4] – El-Ashker, A. A., And R. Wilson, 2006. Islamic Economics: A Short History. Leiden; Boston: Brill.

[5] ibid.

لیبر مارکیٹ میں ریاست کا کردار

[6] ﴿قَالَ النَّاسُ يَا رَسُولَ اللهِ غَلاَ السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ إِنَّ اللهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ وَإِنِّي لأَرْجُو أَنْ أَلْقَى اللهَ وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ يُطَالِبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلاَ مَالٍ﴾

ترجمہ: حضرت انس ؓکہتے ہیں کہ   لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! گرانی بڑھ گئی ہے لہٰذا آپ (کوئی مناسب) نرخ مقرر فرما دیجئیے، تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، (میں نہیں) وہی روزی تنگ کرنے والا اور روزی میں اضافہ کرنے والا، روزی مہیا کرنے والا ہے، اور میری خواہش ہے کہ جب اللہ سے ملوں، تو مجھ سے کسی جانی و مالی ظلم و زیادتی کا کوئی مطالبہ کرنے والا نہ ہو (اس لیے میں بھاؤ مقرر کرنے کے حق میں نہیں ہوں) ۔“ سنن ابو داؤد: 3451

[7] – ابن تیمیہؒ ، امام تقی الدین احمد ، 2006. اسلام کا نظام ِ حسبہ  (اردو ترجمہ و حواشی: ڈاکٹر حافظ اکرام الحق یٰسین، شریعہ اکیڈمی، اسلام آباد)

Ibn Taimiyyah, Imam Taqi al Din al Ahmad 1983. Public duties in Islam. [al-Risala fi al-Hisba] (M. Holland Trans.). Wiltshire, UK: The Islamic Foundation.

[8] ۔  امین احسن اصلاحیؒ نے تدبرِقرآن میں فرمایا ہے: ’امانت‘ کا لفظ اپنے وسیع مفہوم میں: ’امانت‘ کا لفظ یہاں اپنے محدود مفہوم میں نہیں ہے بلکہ جس طرحﵻ إِنَّا عَرَضْنَا ٱلْأَمَانَةَ عَلَى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ﵺ(ہم نے امانت کو پیش کیا آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر) والی آیت میں یہ آیا ہے اسی طرح یہاں بھی نہایت وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ تمام حقوق و فرائض، خواہ حقوق اللہ سے تعلق رکھتے ہوں یا حقوق العباد سے، انفرادی نوعیت کے ہوں یا اجتماعی نوعیت کے، اپنوں سے متعلق ہوں یا بے گانوں سے، مالی معاملات کی قسم سے ہوں یا سیاسی معاہدات کی قسم کے، صلح و امن کے دور کے ہوں یا جنگ کے۔ غرض جس نوعیت اور جس درجے کے حقوق و فرائض ہوں وہ سب امانت کے مفہوم میں داخل ہیں اور مسلمانوں کو شریعت اور اقتدار کی امانت سپرد کرنے کے بعد اجتماعی حیثیت سے سب سے پہلے جو ہدایت ہوئی وہ یہ ہے کہ تم جن حقوق و فرائض کے ذمہ دار بنائے جا رہے ہو ان کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنا“۔