فہرست مضامین

قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق – مزدور اتحاد اور اجتماعی سودے بازی

قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق – مزدور اتحاد اور اجتماعی سودے بازی

اسلام میں مزدور اتحاد اور اجتماعی سودے بازی کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان ہے ، اسلامی فقہ میں اس طرح  کے اتحاد اور سودے بازی کا تصور نہیں ملتا۔  تاہم ، جیسا کہ بلال (2005ء) نے وضاحت کی ہے ، اسلامی فقہ پر کام کرنے والے بیشتر علماء کرام  اور  اسلامی اسکالرز  نے محنت کش طبقے کے مسائل سے پہلو تہی کی، قرآن وحدیث کی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان میں مزدور اتحادوں  کا کوئی حوالہ نہیں ہے اور یہ کہ اس طرح کے اتحاد اسلام سے مطابقت نہیں رکھتے۔ جمال البنا کا کہنا ہے  ”اسلام اور مزدوروں کے مسائل پر معلومات بہت کم ہیں، اس موضوع پر زیادہ تر معلومات اس حقیقت کے گرد گھومتی ہیں کہ بہت سے انبیاء  پیشہ ور مزدور تھے جیسا کہ حضرت نوح  علیہ السلام ایک بڑھئی تھے، حضرت ادریس علیہ السلام ایک درزی تھے ،  حضرت موسٰی علیہ السلام اور ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ بکریاں چرایا کرتے تھے۔“  کام کے بارے میں دو یا تین احادیث اکثر نقل کی جاتی ہیں ، اور یہ روایتی طور پر مسلم مفکرین کا ذخیرہ ہے،مزدوروں کے بارے میں لکھنے والوں میں سے بیشتر نے مزدور اتحاد کے بارے میں ذکر کرنے سے گریز کیا گویا وہ ممنوع ہیں۔

بہر حال ، ہمارے خیال میں  اسلام نہ صرف یونین سازی/اتحاد بنانے کی اجازت دیتا ہے بلکہ اس طرح کے اتحادوں کی حمایت بھی کرتا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا اسلام میں قانون سازی کے بنیادی ذرائع ، قرآن وسنت  اس طرح کے  اتحاد اور اجتماعی سودے بازی کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں ۔[1]

قرآن مجید میں یونین لیڈر (نقیب یعنی کسی بھی گروپ کے ذمہ داران) کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ  یہودیوں کے بارہ لیڈر تھے۔

ﵻوَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًاﵺ

”اور بیشک اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور (اس کی تعمیل، تنفیذ اور نگہبانی کے لئے) ہم نے ان میں بارہ سردار مقرر کئے۔“(05:12)

بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے انصار  (جن میں سے 62 افراد خزرج کے تھے اور 11 افراد اوس کے)سے کہا کہ تم اپنے بارہ ایسے سرکردہ افراد لاؤ جو اپنی قوم کے معاملات سے عہدہ برآ ہونے کی کی اہلیت رکھتے ہوں ، چنانچہ خزرج میں سے نو اور اوس میں سے تین نقبا  متعین کیے گئے[2]اس موقع پر آپؐ نے فرمایا: ” تم لوگ اسی طرح اپنے قبیلوں کے کفیل (ذمہ دار) ہو جس طرح حضرت عیسٰیؑ کے حواری اپنے قبیلوں کے کفیل تھے اور میں پوری قوم کا کفیل ہوں۔“[3]

اسلام اجتماعی عمل کو فروغ دیتا ہے کیونکہ اس کے ماننے والوں کے لئے ایک جگہ جمع ہونا اور نماز باجماعت ادا کرنا ضروری ہے۔[4] اسلام بعض عام اصولوں کے تحت لوگوں کو انجمن سازی اور اجتماعی سودے بازی کی آزادی دیتا ہے ، البتہ اس بات پر ضرور زور دیتا ہے کہ   اس حق کا استعمال  نیکی اور صداقت کی تبلیغ اور لوگوں کو بدی یا برائی  (اور خاص کر کرپشن /دھوکے بازی) سے روکنے کے لیے استعمال کیا جائے۔

ﵻ وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِﵺ

”اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں، وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔“(09:71)

قرآن کریم اہل ایمان سے یہ بھی تقاضا کرتا ہے کہ وہ نیکی میں ایک دوسرے کی مدد کریں اوربرائی میں بالکل مدد نہ کریں۔

ﵻوَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِﵺ

”اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔“(05:02)

قرآن مجید نے  نہ صرف مومنین کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ اسے ایک مومن معاشرے کی امتیازی خصوصیت بھی بتایا ہے  کہ ایک مؤمن نیکی کا حکم کرتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے۔

ﵻ  كُنتُمۡ خَيۡرَ أُمَّةٍ أُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِ وَتُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِۗ  ﵺ

”تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔“(03:110)

ایک حدیث میں ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص اگر کسی  برائی کو دیکھے تو اسے ہاتھ سے(طاقت کے ذریعے)  روکے، اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے (اس کے خلاف  بولے) اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو پھر اپنے دل میں برا سمجھے (اور یہ  ایمان  کا سب سے کمزور پہلو ہے)۔“ [5]

جائے ملازمت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یونین  ہی  وہ واحد ادارہ ہے جو مالک کی (ناجائز) خواہشات کے خلاف بولنے کا اختیار رکھتا ہے جو مناسب بات کا  حکم دینے اور نامناسب کی روک تھام کے ذریعے مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرسکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم  پوری امت میں سے ایک ایسی جماعت کی تشکیل ضروری  سمجھتا ہے  جو دوسروں کو نیکی کی دعوت دے ، جو مناسب ہے اس کا حکم دے اور جو نا مناسب ہے اس سے منع کرے۔[6]

”اور چاہیے کہ تمھارے اندر سے کچھ لوگ مقرر ہوں جو نیکی کی دعوت دیں، بھلائی کی تلقین کریں اور برائی سے روکتے رہیں۔ (تم یہ اہتمام کرو) اور (یاد رکھو کہ ) جو یہ کریں گے، وہی فلاح پائیں گے۔“ (03:104)

اسلام نہ صرف لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کی تلقین کرتا ہے ، بلکہ اس سلسلے میں اجتماعی کوششوں کی بھی حمایت کرتا ہے۔ نبی کریمﷺ کا ایک فرمان ہےکہ ” مسلمان وہ ہے جو دوسرے مسلمان کی مدد کرے چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔“ جب آپ ﷺسے پوچھا گیا کہ (مظلوم کی مدد تو سمجھ آتی ہے) لوگ ظالم کی مدد کیسے کر سکتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ ”مظلوم کی مدد کر کے ظلم کے خلاف اس کی مدد کریں اور ظالم کو ظلم سے روک کراس  کی مدد کریں۔“[7]

آنحضرتﷺ نے  یہ بھی فرمایا کہ: ”جب لوگ کسی ظالم کو دیکھتے ہیں لیکن اسے برے کاموں سے منع نہیں کرتے تو قوی امکان ہے  اللہ  تعالی ان سب کو سزا دے۔“[8]  اسلام لوگوں کو متحد رہنے کا حکم دیتا ہے اور تقسیم سے منع کرتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ متحد ہو کر کام کرنے کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔

قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق – مزدور اتحاد اور اجتماعی سودے بازی

ﵻوَٱعْتَصِمُوا بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُواﵺ

” اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔“  (03:103)

ایک  حدیث  شریف سے ظاہر ہوتا ہے کہ ” اللہ  تعالی کی مدد  و نصرت جماعت کے ساتھ ہے۔“ [9]  اس حدیث مبارکہ میں لوگوں کو ایک جماعت کا حصہ بننے کی ترغیب دی گئی ہے۔

مصری نژاد یونین رہنما جمال البنا [10]نے اسلام میں یونین او راتحاد کے جواز پر بہت کچھ لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام اور ٹریڈ یونین دونوں کے مقاصد انصاف ہیں ، لہذا وہ نہ صرف مطابقت رکھتے ہیں ، بلکہ اسلام یونین ازم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ، جیسا کہ قرآن اور حدیث کے سابقہ حوالوں سے ظاہر ہے۔ ٹریڈ یونینز پر اپنے کام میں جمال   البنا کا کہنا  ہے کہ اسلام ہر ایک کو اچھی زندگی کا حق دیتا ہے ، جیسا کہ ان  آیات میں بیان کیا گیا ہے (28:77)،( 51:19)  اور (70:24–25) اور یہ حق بھوک یا خوف کے بغیر دیا گیا ہے جو کہ  تندہی سے اللہ تعالی کی پرستش اور عبادت کا سبب بھی بنتا ہے(106:4)۔ اس آیت کو دیکھتے ہوئے ، یہ سمجھ آتا ہے کہ یونینوں کی بنیادی جدوجہد دو مادی ضروریات کےلیے  ہوتی ہے: ”بھوک کے بجائے خوراک کی فراہمی “  ( اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْ عٍ)اور ”خوف کے بجائے امن اور حفاظت“ (وَّ اٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ)، ان کا خیال ہے کہ اسلام غریبوں کے ساتھ کھڑا ہے اور مزدوروں کا حامی ہے کیونکہ غریبوں اور محنت کش طبقے کا خیال رکھنے کے لیے ہی امیروں پر زکوٰة فرض کی گئی ہے۔(09:60) ۔قرآن کی مذکورہ بالا آیات سے واضح ہوتا ہے  کہ دو بنیادی حقوق کی حفاظت ضروری ہے جو کہ یونین کے ذریعے ہی ممکن ہیں، اس سے  مزدور  اتحاد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

مسلم تاریخ کو دیکھتے ہوئے  ہمیں قرون وسطٰی میں گِلڈ (قُرُون وسطیٰ میں تاجروں کی تَنظیم / ہم پیشہ یا ہم مُفاد لوگوں کی انجمن جو اِمدادِ باہمی کے لیے بنائی گئی تھی) کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔ مسلم دنیا میں گلڈ نویں صدی میں بھی موجود تھے۔[11] مشہور مراکشی سیاح ابن بطوطہ  کے سفرنامے میں اناطولیہ ، ترکی میں چودھویں صدی میں ان کرافٹ ایسوسی ایشنز (جو بھائی چارے کے طور پر کام کرتی تھیں) کے وجود کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔ گلڈز یا کرافٹ ایسوسی ایشنز نہ صرف سماجی بلکہ معاشی لحاظ سے بھی نمایاں تھیں۔ یہ تنظیمیں نہ صرف تجارتی سرگرمیوں بلکہ کاریگری  ، صنعتی وحرفتی سرگرمیوں کا بھی خیال رکھتیں۔[12]

قرون وسطیٰ کی اسلامی دنیا کے گِلڈ نہ صرف تکنیکی طور پر (تجارتی لحاظ سے) بلکہ جغرافیائی لحاظ سے بھی تقسیم تھے۔ گِلڈز کی  درجہ بندی کچھ ایسے کی گئی تھی کہ ان میں زیرِ تربیت اپرنٹس(مبتدی) سے لیکر  صانع  (ایک کاریگر جس نے اپرنٹس شپ کے ذریعے ترقی کی ہو اور اپنے پیشے میں مہارت حاصل کی ہو) اور سب سے اوپر  ماہر کاریگر (معلم) ہوا کرتے تھے۔ ان کی سربراہی ایک شیخ، کرافٹ آرگنائزیشن کے سربراہ کے طور پر کرتے ، جس کا انتخاب  گِلڈ ممبران کرتےاور پھر مقامی حکام ، عام طور پر محتسب/مارکیٹ سپروائزر کی طرف سے اس کی منظوری دی جاتی،اقتصادی شعبے میں گِلڈز کا کردار ”سامان کی پیداوار کو منظم کرنا ، پیشہ ورانہ ضابطۂ اخلاق کو برقرار رکھنا ، خاص طور پر بحران کے وقت قیمتوں کی نگرانی کرنا ، ممبروں کے درمیان اچھے تعلقات کو برقرار رکھنا اور مزدوروں کی بروقت فراہمی“ تھا۔

دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ شیخ کی یہ بھی ذمہ داری ہوتی کہ وہ مزدوروں کی شرائط و ضوابط کو منظم کرے ، نئے کام شروع کرنے والوں اور مالکان کوپیشہ ورانہ لائسنس دے، اس کے ساتھ  حکومت کے ساتھ تمام معاملات نمٹانا بھی گِلڈ کے سربراہ  کی ذمہ داری ہوتا۔  جیسا کہ ایسپوزیتو (2007)  نے  ذکر کیا ہے کہ گِلڈز نہ صرف  مذہبی احکامات اور تصوف کے  پیروکار ہوتے  بلکہ وہ محتسب / مارکیٹ سپروائزر سے منسلک اوراحکامات ماننے میں  ان کے تابع   ہوتے۔

جیسا کہ البنا (الفاروقی اور البنا 1984) نے استدلال کیا ، ایک طرف  ان گِلڈز  کی تصوف پسندی اور دوسری جانب محتسب کےادارے کے  ساتھ گروہی ربط اور  گروہ بندی یہ ثابت کر  تی ہے کہ وہ نہ صرف اسلام کے عین مطابق تھے بلکہ جائز  او رریاست کی طرف سے منظور شدہ بھی تھے ۔

جہاں تک تعلق  ہے  ہڑتالوں اور لاک ڈاؤن کا تو قرآن وسنت  دونوں ہی لوگوں کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ ناانصافی کے خلاف اپنے حقوق کا دفاع کریں اور جو لوگ ناانصافی کے خلاف لڑتے ہوئے مارتے جاتے ہیں وہ  خدا کی راہ میں شہید کا درجہ پاتے ہیں (قطب: 2000 ء ،صفحہ 33 )۔

ایک حدیث  مبارکہ میں ہے ”جو شخص اپنے حقوق  کے لئے(اپنی ذات ،اپنےخاندان ، مال یا  مذہب) کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے۔“[13]

قرآن مجید  ناانصافی کے خلاف (اپنے حقوق  حاصل کرنے کے لیے لڑنے کو) جہاد کہتا ہے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ جب مزدوروں کے ساتھ ناانصافی ہو تو ”مزدوروں کی ایک یونین یا گروپ ہڑتال کر سکتا ہے۔ “ ایسے مزدور جن کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے ان کو   سورۃ حج میں مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ اجازت ہے کہ وہ ہڑتال کریں:

”(اپنے دفاع میں لڑنے کی) اجازت دی گئی ہے  ان لوگوں کو جن کے خلاف (جارحانہ) جنگ چھیڑی گئی ہے، (یہ اجازت ان کو اس لیے دی گئی ہے) کیونکہ وہ مظلوم تھے  (ان پر ظلم کیا گیا)اور اللہ بلا شبہ ان (مظلوموں) کی مدد کرنے پر قادر ہے۔“(22:39)

ﵻأُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌﵺ

اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کچھ مزدور اپنے جائز حقوق مانگ رہے ہوں  اور انہیں ان کے حقوق نہ دیے جا رہے ہوں۔تو ایسے مزدوروں کے پاس اس طرح کی ناانصافی کے خلاف ہڑتال یا ایک مشترکہ جدوجہد کرنے کا اختیار ہے۔

اس کے علاوہ ، قرآن  کریم ان لوگوں کو ”خود پر ظلم کرنے والے “  (ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ)کے طور پر بیان کرتا ہے جو اپنے بنیادی حقوق سے دستبردار ہو جاتے ہیں یا دوسروں کو  اس امر کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ ان کے خلاف ناانصافی کریں۔ چھوٹ صرف ان لوگوں کیلیے ہے جو واقعی بے بس اور لاچار ہوں  (مُسْتَضْعَفِينَ)۔ (04:97)

اس آیت میں لوگوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ناانصافی کے خلاف جہاد(کاروائی)  کریں اور  اگر وہ جہاد کرنے کے قابل نہیں ہیں  تواس صورت میں انہیں کسی دوسری جگہ منتقل ہوجانا چاہیے جہاں ان کو بنیادی حقوق حاصل ہوں۔

یونین کے احتجاج کے حق میں قرآن کریم میں ہے کہ اگر مزدوروں کو ان کا حق نہ مل رہا ہو تو وہ احتجاج اورہڑتال کر سکتے ہیں:

ﵻلَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ ﵺ

” اللہ کسی (کی) بری بات کا بآوازِ بلند (ظاہراً و علانیۃً) کہنا پسند نہیں فرماتا سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہو (اسے ظالم کا ظلم آشکار کرنے کی اجازت ہے)۔“ (04:148)

اسلام ہڑتال کا حق اس لئے  دیتا ہے ، کیونکہ یہ ناانصافی کو ختم کرنے کا ایک  ذریعہ ہے ، لیکن اسلام میں  اس حق  کے استعمال میں بھی کچھ حدود وقیود ہیں ، کیونکہ اسلام حدود سے تجاوز کرنے والوں کے حق میں نہیں ہے (02:190)۔ اسلام معاشرے میں فتنہ وفساد کو پسند نہیں کرتا  (05:64, 26:152)، اسی طرح اگر یونین  حالات خراب اور امن و امان کے مسائل پیدا کرتی ہے  تو یہ (فساد فی الارض) کے زمرے میں آتا ہے جو حرام ہے۔ ایسی صورت میں ، ٹریڈ یونینوں کو کالعدم یا ان کی رجسٹریشن کو  لیبر کورٹ کے آرڈرز کے ذریعے سے منسوخ  کیا جا سکتا ہے (05:33)۔

فقہاء  کرام کا خیال ہے کہ اگرچہ اسلامی قانون کے بنیادی مقاصد ”نفع عام (عوام کا فائدہ) “ اور ”رفع مضرت  (عوامی نقصانات کا ازالہ) “ ہیں ،  اس لئے مسبوق الذکر(یعنی رفع مضرت) مقصد مؤخر الذکر
(نفع عام)سے زیادہ اہم ہے ،  اس صورت میں معاشرے کے اجتماعی مفاد کو انفرادی یا کسی ایک  گروہ کے مفادات پر فوقیت حاصل ہوگی۔

جہاں تک اجتماعی سودے بازی کا تعلق ہے ، تو ہمیں اس بارے میں  قرآن  کریم سے کچھ دلائل  ملتے ہیں ، اجتماعی سودے بازی معاہدے کا اصول ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا معاہدہ صرف اس صورت میں درست ہوگا جب معاہدہ کرنے والے فریقین کو معاہدے کی شرائط پر بات چیت کرنے کی مکمل آزادی ہو ، سودے بازی روا ہو ، کسی قسم کا کوئی جبر واکراہ نہ ہو ، اور معاہدے کی  تمام شرائط اسلامی اقدار اور تعلیمات کے مطابق ہوں۔

آجر اور انفرادی ملازم کے درمیان عموماً ملازمت کے معاہدے  برابری کی بنیاد پر نہیں ہوتے کیونکہ آجر کے پاس سودے بازی کی طاقت زیادہ ہوتی ہے، ایک مزدور جسے روزگار کی سخت ضرورت ہو وہ ان شرائط کو قبول کرنے کے لیے بھی  تیار  ہو جاتا ہے جو شاید اس کے حق میں نہ ہوں۔اسلام کی نظر میں ایسے یکطرفہ معاہدوں کی پابندی ضروری نہیں (الفاروقی اور البنا: 1984)، اسلام کمزور فریق کی مدد کے لیے سرپرست کے تعین کا مطالبہ کرتا ہے اگر معاہدے میں شامل دوسرا  فریق معاشی ، جسمانی یا فکری فائدہ کی وجہ سے نسبتا بہتر پوزیشن میں ہو (02:282)۔ یہ سرپرست یا گارڈین (guardian)، مزدوروں کے معاملے میں ، وہ یونین ہوتی ہے جو آجر کے ساتھ معاہدے پر بات چیت کرتے ہوئے مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرے گی ، کیونکہ یونین آجر کا مقابلہ برابری کی بنیاد پر کر سکتی ہے۔ اجتماعی سودے بازی سے متعلق ایک تصور مزدوروں اور ان کی نمائندہ یونینوں سے مشاورت ہے۔ قرآن مندرجہ ذیل الفاظ میں مشاورت کی اہمیت اجاگر کرتا ہے :

ﵻوَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِﵺ

”اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں۔“(03:159)

ﵻوَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْﵺ

”انکے معاملات (کاروبار) آپس میں مشاورت کے ذریعے چلائے جاتے ہیں۔“(42: 38)

ﵻوَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍﵺ

” اور ایک دوسرے سے نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو۔“(65:06)

قرآن نہ صرف مشاورت کی اجازت دیتا ہے ، بلکہ ،ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتا جو شراکت داروں سے مشاورت کے بعد اپنے معاملات چلائیں۔

اداروں یا کمپنیوں میں مزدوروں سے مشاورت کے حوالے سے ، اسلام ریفرنڈم کرانے اور سب سے رائے لینے کے بجائے مزدور نمائندوں سے مشاورت کی حمایت کرتا ہے[14]۔

مشاورت کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ  مزدوروں اور آجروں کے درمیان تعاون بڑھے گا ۔ روزگار کے تعلقات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ آیات اور احادیث آجروں کو نہ صرف مزدوروں اور مزدور رہنماؤں سےمشورہ لینے پر زور دیتی ہیں بلکہ یونین کے ساتھ معاملات کو مل جل کر سلجھانے کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔

تاہم ، اسلام یونین پر یہ ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے کہ وہ آجروں کے کاروباری راز کو راز  ہی رکھیں اور بلیک میلنگ یا حریفوں کو معلومات دینے سے گریز کریں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”وہ شخص  جس سے مشورہ لیا جاتا ہے اس کو امانت دار ہونا چاہیئے “ اور یہ کہ ”مجالس کی باتیں امانت ہیں۔“[15]


</br >
[1] نبی  کریم ﷺ کی ایک روایت ہے ، جو واضح طور پر کسی عمل کی قانونی حیثیت یا ناجائز ہونے  کی وضاحت کرتی ہے، روایت کے مطابق ، ”حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا ہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالی نے حرام کیا ہے ، اور جس کے بارے میں وہ خاموش ہے اس نے تم پر احسان کیا ہے۔“ (الترمذی: 1726 اور ابن ماجہ: 3367)
(مشکوة المصابیح: 4156)اور کیونکہ ، اللہ نے قرآن میں مزدوروں  کے اتحاد کو غیر قانونی نہیں بتایا ، اس لیے اس کی اجازت ہے۔

﴿ الحلالُ ما أحل اللهُ في كتابهِ، والحرامُ ما حرم اللهُ في كتابهِ، وما سكت عنهُ ؛ فهو مما عفا عنهُ﴾

[2]  ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقیؒ اپنی کتاب (عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت) میں لکھتے ہیں کہ نقیبوں کے ناموں کا انتخاب خود
رسول کریمﷺ کی بجائے نمائندگانِ یثرب نے کیا تھا اور اسعد بن زرارہؓ کو ان سب پر نقیب النقبا مقرر کیا گیا۔

[3] روایات سیرت کا تنقیدی جائزہ: علامہ محمد ناصرالدین البانیؒ

[4] نبی اکرم ﷺنے فرمایا:”اکیلے نماز پڑھنے سے باجماعت نماز ادا کرنا ستائیس گنا بہتر ہے۔“ (صحیح بخاری: 649)

[5] (صحیح مسلم: 49 الف)

﴿مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ﴾

[6] ۔ ﵻوَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَﵺ

[7] اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: ”اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔“  لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! اگر وہ مظلوم ہے تو اس کی مدد کرنا درست ہے ، لیکن اگر وہ ظالم ہے تو ہم اس کی مدد کیسے کریں؟ آپ ﷺنے فرمایا: ”اسے دوسروں پر ظلم کرنے سے روکنا۔“  (صحیح بخاری: 2444)

﴿ انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا ‏‏‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا نَنْصُرُهُ مَظْلُومًا، فَكَيْفَ نَنْصُرُهُ ظَالِمًا قَالَ ‏‏ تَأْخُذُ فَوْقَ يَدَيْهِ ﴾

[8] جامع ترمذی: 2168     ﴿ إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ ﴾

[9]َ جامع ترمذی: 2166   ﴿ يَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ﴾ اور مشکوٰۃ المصابیح:173 ﴿يد الله على الجماعة﴾

[10] ۔ یہ مشہور مصری مفکر اور اخوان المسلمون کے بانی حسن البناؒ کے چھوٹے بھائی ہیں اور انہوں نے 2013 میں وفات پائی۔

[11] Lewis, B. 1937. The Islamic guilds. The Economic History Review 8 (1):20–37۔

[12] Esposito, J. L., M. A. Abdel Haleem, A. J. Arberry, and H. E. Kassis, eds. 2007. The Oxford encyclopedia of the Islamic world. Oxford; New York: Oxford University Press.

[13] سعیدؓ بن زید سےمروی ہے:”جو اپنے مذہب کے دفاع میں مارا گیا وہ شہید ہے ، جو اپنے دفاع میں مارا گیا وہ شہید ہے ، جو  اپنے مال کے دفاع میں مارا گیا وہ شہید ہے ، اور جو اپنے خاندان کے دفاع میں مارا گیا ایک شہید ہے۔“ (مشکوٰۃالمصابیح: 3529)

﴿مَنْ قُتِلَ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ﴾

ایک اور حدیث میں ہے کہ ”بہترین موت یہ ہے کہ انسان اپنے حق کی خاطر لڑتا ہوا مارا جائے۔“  (سلسلہ احادیثِ صحیحہ: 697)

[14] جب مسلمانوں نے ہوازن کے اسیروں کو آزاد کرنے کی اجازت دی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”میں نہیں جانتا کہ تم میں سے کس نے اجازت دی اور کس نے اجازت نہیں دی۔ پس ، واپس چلے جاؤ تاکہ تمہارے نمائندہ سردار تمھارا فیصلہ  ہمارے سامنے پیش کر سکیں۔“  لوگ واپس چلے گئے اور ان کے سرداروں نے ان سے بات کی اور رسول اللہﷺ کے پاس واپس آئے اور انہیں بتایا کہ لوگوں نے رضامندی سے اس کی اجازت دی ہے جس پر آپ ﷺنے بھی  اجازت مرحمت فرمادی ۔
(صحیح بخاری:2307 اور 2308 )۔اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ  جب کوئی اجتماعی معاملہ درپیش ہوتو انفرادی طور پر مزدوروں /محنت کشوں   سے بات چیت کی بجائے اجتماعی طور پر انکے نمائندوں سے بات کرنا مناسب ہے۔اور کام کی جگہ سے متعلق کسی بھی مسئلے کو ان نمائندوں کے ذریعے سے حل کیا جائے۔

[15] جامع ترمذی: 2822.  ﴿الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ﴾</span >    یعنی امانت داری کا تقاضہ یہ ہے کہ ٹریڈ یونین کے نمائندے ایمانداری سے مشورہ دیں اور مشورہ دینے کے بعد مشورہ لینے والے یعنی کمپنی کے راز دوسروں پر ظاہر نہ کریں۔

اسی طرح آپﷺ نے سنن ابوداؤد (4869)میں فرمایا کہ: ”مجلسیں امانت داری کے ساتھ ہیں (یعنی ایک مجلس کی بات دوسری جگہ جا کر بیان نہیں کرنی چاہیئے) سوائے تین مجلسوں کے، ایک جس میں ناحق خون بہایا جائے، دوسری جس میں بدکاری کی جائے اور تیسری جس میں ناحق کسی کا مال لوٹا جائے۔“

﴿المجالس بالامانة إلا ثلاثة مجالس: سفك دم حرام، او فرج حرام، او اقتطاع مال بغير حق﴾