فہرست مضامین

پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت

پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت(Occupational Safety and Health)

  1. اس باب کے مقصد کے لیے، صحت کی اصطلاح، کام کے سلسلے میں، صرف بیماری یا کمزوری کی عدم موجودگی کی طرف ہی اشارہ نہیں کرتی۔ اس میں صحت کو متاثر کرنے والے جسمانی اور ذہنی عناصر بھی شامل ہیں جن کا براہ راست تعلق کام کی جگہ پر حفاظت اور حفظانِ صحت سے ہے۔[1]
  2. ایک آجر تمام مزدوروں /محنت کشوں   کے لیے کام کی جگہ پر حفاظت ، صحت اور فلاح و بہبود کو یقینی بنائے گا۔[2]
    1. آجر، جہاں ضروری ہو ، مناسب حفاظتی لباس اور حفاظتی سامان فراہم کرے گا ، اور حتی المقدور حادثات ، خطرات یا صحت پر منفی اثرات ڈالنے والے مواد سے مزدوروں اور دیگر لوگوں کےتحفظ کو یقینی بنائے گا۔[3]
    2. آجر ایسی معلومات ، ہدایات ، تربیت اور نگرانی فراہم کرے گا جو ہر مزدور /محنت کش /ورکر کی حفاظت اور صحت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہو۔[4]
  3. آجر کسی بھی چیز اور مادے کے استعمال ، ہینڈلنگ ، سٹوریج اور ٹرانسپورٹ کے حوالے سے حفاظت اور صحت کے لیے خطرے کی عدم موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے معقول حد تک عملی اقدامات کرے گا۔ [5]
  4. تمام مزدور /محنت کش /ورکر حفاظت ، صحت اور فلاح و بہبود سے متعلق آجر کے وضع کردہ اقدامات اور ہدایات  کی تعمیل کریں گے۔[6]



[1] – اسلام انسانی جان کی حفاظت کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ آیت  نمبر 05:32  میں ہے : ”اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (نازل کی گئی تورات میں یہ حکم) لکھ دیا (تھا) کہ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقیناً زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔“(05:32)

ﵻمِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَﵺ

یہ آیت کام کی جگہ پر بھی لاگو ہوتی ہے ، جس میں مزدور کی زندگی کی اہمیت اور اس کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

ایک اور آیت مبارکہ 05:105 میں مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کا حکم ہے: ”اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو، تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ہدایت یافتہ ہو چکے ہو، تم سب کو اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان کاموں سے خبردار فرما دے گا جو تم کرتے رہے تھے۔“ (05:105)

ﵻ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَﵺ

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حفظانِ صحت اور حفاظت کے دیگر اقدامات  اٹھانا نہایت اہم ہیں ، اور مزدوروں کو چاہئے کہ جہاں ضرورت ہو آجر سے حفاظتی سامان کا تقاضا کریں ۔

مزدوروں /محنت کشوں   کو نہ صرف کام کی جگہ پر پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت کے اصول وضوابط پر عمل کرنا چاہیے بلکہ یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ دوسرے لوگ بھی ایسا  ہی کریں۔ نبی کریم  ﷺ کی ایک حدیث مبارک اس مسئلے پر روشنی ڈال رہی  ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”اللہ کی حدود میں سستی برتنے والے اور اس میں مبتلا ہو جانے والے کی مثال ایک ایسی قوم کی سی ہے جس نے ایک کشتی ( پر سفر کرنے کے لیے جگہ کے بارے میں ) قرعہ اندازی کی۔ پھر نتیجے میں کچھ لوگ نیچے سوار ہوئے اور کچھ اوپر۔ نیچے کے لوگ پانی لے کر اوپر کی منزل سے گزرتے  تھے اور اس سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی۔ اس خیال سے نیچے والا ایک آدمی کلہاڑی سے کشتی کا نیچے کا حصہ کاٹنے لگا ( تاکہ نیچے ہی سمندر سے پانی لے لیا کرے ) اب اوپر والے آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کو ( میرے اوپر آنے جانے سے ) تکلیف ہوتی تھی اور میرے لیے بھی پانی ضروری تھا۔ اب اگر انہوں نے نیچے والے کا ہاتھ پکڑ لیا تو انہیں بھی نجات دی اور خود بھی نجات پائی۔ لیکن اگر اسے یوں ہی چھوڑ دیا تو انہیں بھی ہلاک کیا اور خود بھی ہلاک ہو گئے۔“ (صحیح بخاری:2686)

﴿مَثَلُ الْمُدْهِنِ فِي حُدُودِ اللَّهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا مَثَلُ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا سَفِينَةً، فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَا وَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْلاَهَا، فَكَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَا يَمُرُّونَ بِالْمَاءِ عَلَى الَّذِينَ فِي أَعْلاَهَا، فَتَأَذَّوْا بِهِ، فَأَخَذَ فَأْسًا، فَجَعَلَ يَنْقُرُ أَسْفَلَ السَّفِينَةِ، فَأَتَوْهُ فَقَالُوا مَا لَكَ قَالَ تَأَذَّيْتُمْ بِي، وَلاَ بُدَّ لِي مِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَنْجَوْهُ وَنَجَّوْا أَنْفُسَهُمْ، وَإِنْ تَرَكُوهُ أَهْلَكُوهُ وَأَهْلَكُوا أَنْفُسَهُمْ﴾

صحت اور حفاظت کے علاوہ ، مذکورہ حدیث تمام مزدوروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ٹریڈ یونین ، ایسوسی ایشن یا ورک کونسل کی ضرورت پر بھی زور دیتی ہے ، بصورت دیگر تنظیم یا ادارہ مذکورہ بالا مثال میں کشتی کی طرح ڈوب جائے گا۔اس کے علاوہ صحیح بخاری میں ایک حدیث  ہے جس میں حفاظتی اقدامات کی اہمیت پر زور دیا گیا  ہے۔

یوں تو اگرچہ احرام کی حالت میں جانوروں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں، لیکن  مکہ مکرمہ کی علاقائی حدود کے اندر ، محفوظ اور صحت مند ماحول فراہم کرنے کے لیے ، احرام کی حالت میں بھی کچھ نقصان دہ جانوروں کو مارا جا  سکتا ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں اگر کوئی شخص حالت احرام میں بھی مار ڈالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بچھو، چوہا، کاٹ لینے والا کتا، کوا اور چیل۔“ ( صحیح بخاری:  3314اور3315)

﴿خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ، مَنْ قَتَلَهُنَّ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ: العَقْرَبُ، وَالفَأْرَةُ، وَالكَلْبُ العَقُورُ، وَالغُرَابُ، وَالحِدَأَةُ ﴾

اسی طرح جامع ترمذی کی روایت ہے: ’’ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”محرم (وہ شخص جو حالت احرام میں ہو) ہرسرکش درندے، کاٹ کھانے والے کتے، چوہا، بچھو، چیل اور کوے مار سکتا ہے“ ۔ (جامع ترمذی:838)

﴿يَقْتُلُ المُحْرِمُ السَّبُعَ العَادِيَ، وَالكَلْبَ العَقُورَ، وَالفَأْرَةَ، وَالعَقْرَبَ، وَالحِدَأَةَ، وَالغُرَابَ﴾

نبی کریم ﷺ کی یہ روایات اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ جہاں بھی اور جب بھی ضرورت ہو حفاظت اور صحت کی احتیاطی تدابیر ضروری ہیں۔ اس طرح  کے معاملات میں کسی بھی قسم کی غفلت کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ سنن ابو داؤد میں بیان کی گئی ایک روایت حفاظتی اقدامات کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیتی ہے ، ذکر کیا گیا ہے : ”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”نماز میں دونوں کالوں ( یعنی ) سانپ اور بچھو کو ( اگر دیکھو تو ) قتل کر ڈالو۔“ (سنن ابو داؤد:921)

﴿اقْتُلُوا الْأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ: الْحَيَّةَ، وَالْعَقْرَبَ ﴾

اسی طرح صحیح بخاری میں مندرجہ ذیل روایت بیان کی  گئی ہے ، جس میں  خطرناک کاموں میں  مزدوروں کی حفاظت کے لیے حفاظتی اقدامات اپنانے کی اہمیت  پر زور دیا گیا ہے ۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے: ”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک ٹھنڈی اور برسات کی رات میں اذان دی، پھر یوں پکار کر کہہ دیا «ألا صلوا في الرحال‏» کہ لوگو! اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو۔ پھر فرمایا کہ نبی کریم ﷺ سردی و بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے کہ لوگو ،اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو۔“ (صحیح بخاری: 666)

﴿أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، أَذَّنَ بِالصَّلاَةِ فِي لَيْلَةٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِيحٍ، ثُمَّ قَالَ: أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ المُؤَذِّنَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ ذَاتُ بَرْدٍ وَمَطَرٍ، يَقُولُ: «أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ﴾

قرآن کریم میں بھی تو ایک مقام پر یہی ہدایت دی گئی ہے:”پھر اگر تم حالتِ خوف میں ہو تو پیادہ یا سوار (جیسے بھی ہو نماز پڑھ لیا کرو)، پھر جب تم حالتِ امن میں آجاؤ تو انہی طریقوں پر  اللہ کی یاد کرو جو اس نے تمہیں سکھائے ہیں جنہیں تم (پہلے) نہیں جانتے تھے۔“(02:239)

ﵻفَإنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُواْ اللّهَ كَمَا عَلَّمَكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَﵺ

اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک مزدور /محنت کش /ورکر کی حفاظت اور سلامتی بہت اہم ہے تاکہ کام کی جگہ پر وضع  کردہ پالیسیوں کو تبدیل یا اس میں ترمیم کی جاسکے اور مزدوروں /محنت کشوں   کو مناسب صحت اور جانی تحفظ دے کر ان کی حفاظت  کو یقینی بنایا جائے۔

قرآن کریم  میں ارشاد ہے:” جب تم میں سے (بنو سلمہ خزرج اور بنوحارثہ اوس) دو گروہوں کا ارادہ ہوا کہ بزدلی کر جائیں، حالانکہ اللہ ان دونوں کا مدد گار تھا، اور ایمان والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔“(03:122)

ﵻإِذْ هَمَّت طَّائِفَتَانِ مِنكُمْ أَن تَفْشَلَا وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَﵺ

اس کا مطلب یہ ہے کہ کام کی جگہ پر نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت کابھی  خیال رکھا جائے اور مزدوروں /محنت کشوں   کی ذہنی صحت کے تحفظ پر زور دیا جانا چاہیے کیونکہ یہ کسی مزدور /محنت کش /ورکر کی جسمانی صحت یا صلاحیت کو متاثر کر سکتا ہے ،اور  انہیں اور دوسروں کو خطرناک حالات میں ڈال سکتا ہے۔

[2] – اسلام آجروں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے مزدوروں /محنت کشوں   کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خبردار سن لو! تم میں سے ہر شخص اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن)  اس سے اپنی رعایا سے متعلق بازپرس ہو گی لہٰذا امیر جو لوگوں کا حاکم ہو وہ ان کا نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق بازپرس ہو گی اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے اولاد کی نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا غلام (ملازم) اپنے آقا و مالک (آجر)کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، تو (سمجھ لو) تم میں سے ہر ایک راعی (نگہبان) ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھ گچھ ہو گی۔“(سنن ابو داؤد:2928)

﴿ أَلاَ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ‏‏ ‏‏﴾

اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آجر اپنے ماتحت لوگوں یعنی اپنے مزدوروں /محنت کشوں   کے ذمہ دار ہیں ، اور انہیں اپنے مزدوروں /محنت کشوں   کو کام کی جگہ پر تمام خطرات سے بچانا چاہیے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”انسان کے ہر ایک جوڑ پر صدقہ لازم ہوتا ہے۔ ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے۔ پھر اگر وہ انسانوں کے درمیان انصاف کرے تو یہ بھی ایک صدقہ ہے اور کسی کو سواری کے معاملے میں اگر مدد پہنچائے، اس طرح پر کہ اسے اس پر سوار کرائے یا اس کا سامان اٹھا کر رکھ دے تو یہ بھی ایک صدقہ ہے اور اچھی بات منہ سے نکالنا بھی ایک صدقہ ہے اور ہر قدم جو نماز کے لیے اٹھتا ہے وہ بھی صدقہ ہے اور اگر کوئی راستے سے کسی تکلیف دینے والی چیز کو ہٹا دے تو وہ بھی ایک صدقہ ہے۔“ (صحیح بخاری: 2989)

﴿كُلُّ سُلاَمَى مِنَ النَّاسِ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ كُلَّ يَوْمٍ تَطْلُعُ فِيهِ الشَّمْسُ، يَعْدِلُ بَيْنَ الاِثْنَيْنِ صَدَقَةٌ، وَيُعِينُ الرَّجُلَ عَلَى دَابَّتِهِ، فَيَحْمِلُ عَلَيْهَا، أَوْ يَرْفَعُ عَلَيْهَا مَتَاعَهُ صَدَقَةٌ، وَالْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ خَطْوَةٍ يَخْطُوهَا إِلَى الصَّلاَةِ صَدَقَةٌ، وَيُمِيطُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ ﴾

اس سے (کام پر خطرناک حالات سے بچنے کے لیے)حفاظتی اقدامات اختیار  کرنے کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے  اور آجروں پر ضروری ہے کہ وہ  مزدوروں کو ذاتی حفاظتی سامان فراہم کریں۔ صحیح مسلم میں خثیمہ سے روایت ہے کہا: ہم حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کے پاس بیٹھے ہو ئے تھے کہ اچا نک ان کا  کا رندہ (مینیجر) ان کے پاس آیا وہ اندر داخل ہوا تو انھوں نے پو چھا: کیا تم نے غلا موں کو ان کا روزینہ دے دیا ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں انھوں نے کہا: جا ؤ انھیں دو۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” آدمی کے گنہگار ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ  اس آدمی کا رزق روک لے جس کا وہ مالک ہے۔“ (اور ایک اور حدیث میں یہ ہے کہ جن لوگوں کو خوراک فراہم کرنا اس کی ذمہ داری ہے، وہ انہیں ضائع کردے یعنی ان کی ضرو ریات کا بند و بست نہ کرے یا  وہ ان لوگوں کو جن کے اخراجات کی ذمہ داری اس کے اوپر ہے ضائع کر دے) (ریاض الصالحین: 294،  سنن ابوداؤد: 1692)

﴿كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يَحْبِسَ عَمَّنْ يَمْلِكُ قُوتَه‎ ﴾

یعنی اپنے زیر ِکفالت  افراد (بیوی، بچے، والدین، عزیز و اقارب، ملازمین وغیرہ)ا کو ان کے مالی حقوق نہ دینا یا کم دینا یا بلاوجہ تاخیر کر کے دینایا ان کو چھوڑ کر دوسروں پر صدقہ کرتے پھرنا اور ان کا خیال نہ رکھنا انہیں ضائع کرنے کے مترادف ہے۔اس حدیث  سے فرائض کی ادائیگی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور  آجروں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ  اپنے مزدوروں /محنت کشوں   تئیں اپنی تمام ذمہ داریاں بروقت پوری کریں ۔ آجر ذمہ دار ہے کہ وہ متعلقہ حفاظتی اقدامات کے ذریعے کام کی جگہ پر مزدوروں /محنت کشوں   کی صحت اور حفاظت کو یقینی بنائے۔

آیت   مبارکہ نمبر 02:195 میں ہے: ”اور  اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی اختیار کرو، بیشک  اللہ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔“(02:195)

ﵻوَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ  وَأَحْسِنُوا  إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَﵺ

اس آیت کا مطلب ہے کہ آجروں کو کام کی جگہ پر صحت اور حفاظت کے اقدامات اور تربیت فراہم کرنی چاہیے اور کام کے مقام پر صحت اور حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے رقم خرچ کی جانی چاہیے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ مزدوروں /محنت کشوں   کو کام کی جگہ پر صحت اور حفاظت کے ضوابط پر عمل کرنا چاہیے اور اپنی غفلت سے اپنا یا دوسروں کا نقصان نہیں کرنا چاہیے۔ آیت نمبر 27:07 کو یہاں بھی منطبق کیا جا سکتا ہے ، جس میں ارشاد باری تعالی ہے: ”(وہ واقعہ یاد کریں) جب موسٰی (علیہ السلام) نے اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ میں نے ایک آگ دیکھی ہے (یا مجھے ایک آگ میں شعلۂ انس و محبت نظر آیا ہے)، عنقریب میں تمہارے پاس اس میں سے کوئی خبر لاتا ہوں (جس کے لئے مدت سے دشت و بیاباں میں پھر رہے ہیں) یا تمہیں (بھی اس میں سے) کوئی چمکتا ہوا انگارا لا دیتا ہوں تاکہ تم (بھی اس کی حرارت سے) تپ اٹھو۔“

ﵻإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِأَهْلِهِ إِنِّي آنَسْتُ نَارًا سَآتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ آتِيكُم بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَﵺ

اس سے پتہ چلتا ہے کہ آجر کو موسمی ضروریات کے مطابق مزدوروں کی صحت اور حفاظت کی سہولیات اور ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ صحیح مسلم کی ایک روایت ہے جس میں ہے کہ :رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ”طاعون عذاب کی علامت ہے،اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں کچھ لوگوں کو طاعون میں مبتلاکیا،جب تم طاعون کے بارے میں سنو تو وہاں مت جاؤ اور جب اس سرزمین میں طاعون واقع ہوجائے جہاں تم ہوتو وہاں سے مت بھاگو۔“(صحیح مسلم:5773)

﴿إِنَّ هَذَا الطَّاعُونَ رِجْزٌ سُلِّطَ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، أَوْ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَإِذَا كَانَ بِأَرْضٍ فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا فِرَارًا مِنْهُ، وَإِذَا كَانَ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوهَا﴾

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کام کی جگہ پر صحت اور حفاظت کی پالیسیاں ہونی چاہئیں۔ کام کی جگہ پر صحت اور حفاظت کی تمام احتیاطی تدابیر مزدوروں /محنت کشوں   کی فلاح و بہبود کے لیے اختیار کی  جائیں۔ آجر کو  چاہئے کہ وہ اپنا کوئی ذاتی  فائدہ حاصل کرنے کے لیے مزدوروں کی حفاظت میں تاخیر نہ کرے۔نیز ، نبی کریم ﷺ کی ایک اور حدیث کام کی جگہ پر حفاظت اور صحت کے اقدامات کی ضرورت کو ظاہر کرتی ہے۔ حدیث نمبر 3316 میں ہے: ”نبی کریم ﷺنے فرمایا ”پانی کے برتنوں کو ڈھک لیا کرو، مشکیزوں ( کے منہ ) کو باندھ لیا کرو، دروازے بند کر لیا کرو اور اپنے بچوں کو اپنے پاس جمع کر لیا کرو، کیونکہ شام ہوتے ہی جنات ( روئے زمین پر ) پھیلتے ہیں اور اچکتے پھرتے ہیں اور سوتے وقت چراغ بجھا لیا کرو، کیونکہ موذی جانور ( چوہا ) بعض اوقات جلتی بتی کو کھینچ لاتا ہے اور اس طرح سارے گھر کو جلا دیتا ہے۔“(صحیح بخاری:3316)

﴿خَمِّرُوا الآنِيَةَ، وَأَوْكُوا الأَسْقِيَةَ، وَأَجِيفُوا الأَبْوَابَ، وَاكْفِتُوا صِبْيَانَكُمْ عِنْدَ الْعِشَاءِ، فَإِنَّ لِلْجِنِّ انْتِشَارًا وَخَطْفَةً، وَأَطْفِئُوا الْمَصَابِيحَ عِنْدَ الرُّقَادِ، فَإِنَّ الْفُوَيْسِقَةَ رُبَّمَا اجْتَرَّتِ الْفَتِيلَةَ فَأَحْرَقَتْ أَهْلَ الْبَيْتِ﴾

اسی طرح سنن ابن ماجہ میں ایک حدیث نقل کی گئی ہےجس سے احتیاطی تدابیر لینے  کی اہمیت مزید واضح  ہوتی ہے: ”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”برتن ڈھانک دو،مشکیزے کامنہ باندھ دو،کیونکہ سال میں ایک رات ایسی ہوتی ہے جس میں وبا نازل ہوتی ہے۔ پھر جس بھی ان ڈھکے برتن اور منہ کھلے مشکیزے کے پاس سے گزرتی ہے۔تو اس وبا میں سے(کچھ حصہ) اس میں اُتر جاتا ہے۔“ (سلسله احاديث صحيحه :1902، سنن  ابن ماجہ: 3410)

﴿غطوا الإناءَ ، وأوكوا السّقاءَ ، فإن في السنةِ ليلةٌ ينزلُ فيها وباءٌ ، لا يمرّ بإناءٍ ليسَ عليهِ غطاءٌ ، أو سقاءٌ ليسَ عليهِ وِكاءٌ إلا نزلَ فيهِ من ذلكَ الوباءِ﴾

حضرت جابر ؓسے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے سنا کہ جب تم رات میں کتوں کا بھونکنا یا گدھوں کا  رینکنا (ڈھیچوں ڈھیچوں کرنا) سنو تو مردود شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھتے ہیں جو تم نہیں دیکھتے  اور جب قدم ٹھہر جائیں تو نکلنا کم کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی رات میں اپنی مخلوق میں سے جسے چاہے پھیلاتا ہےاور دروازے بندکرو اور اس پر اللہ کا نام  پڑھ لو کیونکہ شیطان  ایسا دروازہ نہیں کھولتا جسے بند کرتے وقت  اللہ کا نام لیا جائے  اور گھڑے ڈھک دو برتن اوندھے کردو مشکیزہے کا منہ باندھ دو۔(مشکوٰۃ المصابیح:4302)

﴿إذا سَمِعْتم نُباحَ الكلابِ ، ونَهِيقَ الحَمِيرِ من الليلِ ؛ فتَعَوَّذُوا باللهِ من الشيطانِ ؛ فإنهن يَرَيْنَ ما لا تَرَوْنَ ، وأَقِلُّوا الخروجَ إذا هَدَأَتِ الأَرْجُلُ ؛ فإنَّ اللهَ – عَزَّ وجَلَّ يَبُثُّ من خلقِه في ليلِه ما يشاءُ ، وأَجِيفُوا الأبوابَ ، واذكروا اسمَ اللهِ عليها ؛ فإنَّ الشيطانَ لا يفتحُ بابًا إذ أُجِيفَ وذُكِرَ اسمُ اللهِ عليه ، وغَطُّوا الجِرَارَ ، وأَكْفِئُوا الآنيةَ ، وأَوْكُوا القِرَبَ﴾

مذکورہ بالا  احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صحت اور حفاظت کی احتیاطی تدابیر آجروں کی طرف سے ہونی چاہئیں اور مزدوروں /محنت کشوں   کو ان  پر عمل کرنا چاہیے۔

مزید یہ کہ کچھ روایات بتاتی ہیں کہ مؤثر کام کے لیے حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے ، اور مناسب تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔ اور یہ کہ مزدوروں /محنت کشوں   کی حفاظت کے لیے کچھ عام قوانین میں نرمی کی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: ” سیدنا شرید بن سوید ثقفی ‌ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌ﷺ کے پاس بنو ثقیف میں سے ایک کوڑھ زدہ آدمی آیا تاکہ آپﷺ سے بیعت کرے، میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی کہ ایک جذام زدہ آدمی آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے، آپؐ نے فرمایا: تم اس کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ میں نے اس کی بیعت قبول کرلی ہے، وہ وہیں سے واپس چلا جائے۔“ (سنن ابن ماجہ: 3544)

﴿عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ فِي وَفْدِ ثَقِيفٍ رَجُلٌ مَجْذُومٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ فَارْجِعْ﴾

چونکہ بیعت کا عمل ہاتھ پکڑ کر لیا جاتا تھا تاہم دوسروں کی حفاظت کے لیےاس  اصول میں نرمی کی گئی، ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ: ” کوئی شخص بیماری میں مبتلا مویشی (بھیڑ ، گائے ، اونٹ وغیرہ) کو صحت مند مویشیوں میں نہ لے جائے۔“  (یا فرمایا: ”کسی صحت مند شخص کے ساتھ  کسی مریض  کو نہ رکھا جائے“،  احتیاط کے طور پر)۔ (صحیح بخاری: 5771)

﴿لاَ يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ﴾

کام کی جگہوں پر ، صحت مند کو بیمار سے الگ کرنا ضروری ہے بہتر ہے کہ بیمار شخص کو بیماری کی رخصت  دے کر  بھیج دیا جائے ۔ اسی طرح ایک اور روایت میں ہے : ”فروہ بن مسیک ؓکہتے ہیں کہ   میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس ایک زمین ہے جسے اَبیَن کہا جاتا ہے یہی ہمارا کھیت ہے جہاں سے ہمیں غلہ ملتا ہے لیکن یہ وبا والی زمین ہے یا کہا کہ اس کی وبا سخت ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم اس زمین کو اپنے سے علیحدہ کر دو کیونکہ اس کے ساتھ وبا لگی رہنے سے ہلاکت ہے۔“
(سنن ابو داؤد:3923)

﴿فَرْوَةَ بْنَ مُسَيْكٍ، قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرْضٌ عِنْدَنَا يُقَالُ لَهَا أَرْضُ أَبْيَنَ هِيَ أَرْضُ رِيفِنَا، وَمِيرَتِنَا، وَإِنَّهَا وَبِئَةٌ، أَوْ قَالَ وَبَاؤُهَا شَدِيدٌ فَقَالَ النَّبِيُّ: دَعْهَا عَنْكَ، فَإِنَّ مِنَ القَرَفِ التَّلَف﴾

آیت مبارکہ میں ہے: ”اے ایمان والو! اپنی حفاظت کا سامان لے لیا کرو پھر (جہاد کے لئے) متفرق جماعتیں ہو کر نکلو یا سب اکٹھے ہو کر کوچ کرو۔“ (04:71)

ﵻيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ خُذُواْ حِذْرَكُمْ فَانْفِرُواْ ثُبَاتٍ أَوِ انْفِرُواْ جَمِيعًاﵺ

اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کسی قسم کا خطرناک کام کرنے سے پہلے تمام ضروری حفاظتی اور صحت کے اقدامات کیے جائیں۔ سنن ابو داؤد  میں ہے، نبی کریم ﷺنے فرمایا:” گھوڑوں کو سرحد کی حفاظت کے لیے تیار کرو، اور ان کی پیشانیوں اور پٹھوں پر ہاتھ پھیرا کرو، اور ان کی گردنوں میں قلادہ ( پٹہ ) پہناؤ، اور انہیں ( نظر بد سے بچنے کے لیے ) تانت کا قلادہ نہ پہنانا۔“
(سنن ابو داؤد:2553)

﴿ارْتَبِطُوا الْخَيْلَ، وَامْسَحُوا بِنَوَاصِيهَا وَأَعْجَازِهَا – أَوْ قَالَ: «أَكْفَالِهَا» – وَقَلِّدُوهَا وَلَا تُقَلِّدُوهَا الْأَوْتَارَ﴾

اس حدیث سے مراد حفاظتی تدابیر بھی ہیں جو کوئی بھی خطرناک  کام  کرنے سے پہلے لی جائیں۔ ‏‏‏‏ ”ابوبشیر انصاری ؓسے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے ۔ توآپ ﷺ نے ایک پیام پہنچانے والے کو بھیجا۔ عبداللہ بن ابی بکر نے کہا: میں سمجھتا ہوں لوگ اس وقت اپنی آرام گاہوں میں تھے اور حکم دیا کہ کسی اونٹ کے گلے میں تانت کا ہار یا ہار نہ رہے، اور اس کو کاٹ ڈالیں۔ امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے کہا: میں سمجھتا ہوں  لوگ یہ نظر نہ لگنے کے خیال سے ڈالتے تھے۔“
(صحیح مسلم:5549)

﴿أَنَّ أَبَا بَشِيرٍ الأَنْصَارِيَّ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ – قَالَ – فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَسُولاً قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ وَالنَّاسُ فِي مَقِيلِهِمْ ‏ ‏ لاَ تَبْقَيَنَّ فِي رَقَبَةِ بَعِيرٍ قِلاَدَةٌ مِنْ وَتَرٍ أَوْ قِلاَدَةٌ إِلاَّ قُطِعَتْ ‏﴾

یہ حدیث کام کی جگہ پر حفاظتی اقدامات کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3005  جو اللہ کی راہ میں لڑنے والوں (جہاد)  کرنے والوں کے متعلق  ہے  ہماری سابقہ بیان کردہ  حدیث کی تائید کرتی ہے۔اسلامی تعلیمات کی رو سے اللہ تعالیﷻ کے حکم کو قبول کرنے اور اللہ پر بھروسہ کرنے سے پہلے متعلقہ احتیاطی اور حفاظتی اقدامات کر لئے جائیں۔  حضرت انس ؓبن مالک سے مروی ہے: ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! کیا میں اونٹ کو پہلے باندھ دوں پھر اللہ پر توکل کروں یا چھوڑ دوں پھر توکل کروں؟ آپﷺ نے فرمایا: ”اسے باندھ دو، پھر توکل کرو۔“ (جامع ترمذی: 2517)

﴿ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْقِلُهَا وَأَتَوَكَّلُ أَوْ أُطْلِقُهَا وَأَتَوَكَّلُ قَالَ ‏ اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ ‏‏﴾

اس حدیث سے  ظاہر  ہوتا ہے کہ آجر اور مزدور /محنت کش /ورکر دونوں  کو کام کی جگہ پر متعلقہ صحت اور حفاظت کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ آیت نمبر:  13:11 میں ہے: ”(ہر) انسان کے لئے یکے بعد دیگرے آنے والے (فرشتے) ہیں جو اس کے آگے اور اس کے پیچھے  اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔ بیشک  اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں، اور جب  اللہ کسی قوم کے ساتھ (اس کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے) عذاب کا ارادہ فرما لیتا ہے تو اسے کوئی ٹال نہیں سکتا، اور نہ ہی ان کے لئے  اللہ کے مقابلہ میں کوئی مددگار ہوتا ہے۔“  (13:11)

ﵻلَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلاَ مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍﵺ

یہ آیت اس خیال کی بھی تائید کرتی ہے کہ آجروں کے ساتھ ساتھ مزدوروں /محنت کشوں   کو بھی متعلقہ حفاظتی اقدامات اٹھانے چاہئیں بجائے اس کے کہ جان بوجھ کر غفلت برتیں اور پھر کام کی جگہ پر کوئی حادثہ پیش آنے پر قسمت یا ایک دوسرے پر الزام لگانا شروع کردیں۔ قرآن کریم کی آیت نمبر 12:67 میں حضرت یعقوب علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں  : ”اور فرمایا: اے میرے بیٹو! (شہر میں) ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے (تقسیم ہو کر) داخل ہونا، اور میں تمہیں  اللہ (کے اَمر) سےکچھ نہیں بچا سکتا کہ حکم (تقدیر) صرف  اللہ ہی کے لئے ہے۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔“ (12:67)

ﵻوَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ  وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ  إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ  عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ  وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَﵺ

صحیح مسلم کی ایک روایت ہے:”رسول اللہﷺ نےفرمایا: جب رات ہو جائے  – شام کا وقت ہو جائے- تو اپنے بچوں کو (گھروں میں) روک لو، کیونکہ اس وقت شیطان پھیل جاتے ہیں ، پھر جب کچھ رات گزر جائے تو بچوں کو چھوڑ دو اور اللہ کا نام لے کر دروازے بند کر دو کیونکہ شیطان بن دروازے نہیں کھولتا، اور اللہ کا نام لے کر اپنے مشکیزوں کا منہ باندھ لو اور اللہ کا نام لے کر اپنے برتنوں کو دھانک لو ، اور اگر (ڈھانکنے کو کچھ نہ ملے تو)  ان برتنوں پر کوئی لمبی سے چیز رکھ دو یہی کافی ہے،  اور اپنے چراغوں کو بجھا دو۔“
(صحیح مسلم:5250)

﴿إِذَا كَانَ جُنْحُ اللَّيْلِ – أَوْ أَمْسَيْتُمْ – فَكُفُّوا صِبْيَانَكُمْ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْتَشِرُ حِينَئِذٍ، فَإِذَا ذَهَبَ سَاعَةٌ مِنَ اللَّيْلِ فَخَلُّوهُمْ، وَأَغْلِقُوا الْأَبْوَابَ، وَاذْكُرُوا اسْمَ اللهِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَفْتَحُ بَابًا مُغْلَقًا، وَأَوْكُوا قِرَبَكُمْ، وَاذْكُرُوا اسْمَ اللهِ، وَخَمِّرُوا آنِيَتَكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللهِ، وَلَوْ أَنْ تَعْرُضُوا عَلَيْهَا شَيْئًا، وَأَطْفِئُوا مَصَابِيحَكُمْ﴾

مذکورہ بالا شواہد (آیات اور احادیث) سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کام کی جگہ پر صحت اور حفاظت کے تمام اقدامات آجر اور مزدور /محنت کش /ورکر دونوں کی ذمہ داری ہے ، اور اگر وہ مطلوبہ احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کرتے تو دونوں  فریقین قصوروار ہوں گے۔ کام کی جگہ سے مضر مواد اور فضلہ نکالنا بھی آجر کی ذمہ داری ہے۔ پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت پر خرچ کرنا بھی ایک نیک عمل ہے۔ ایک صحابی ؓنے رسول اللہ ﷺ سے ایسے عمل کے بارے میں پوچھا جو جنت میں داخل کرنے والا ہے  تو آپ ﷺ نے فرمایا:”لوگوں کے رستے سے ان چیزوں کو ہٹا دیا کرو  جو انہیں تکلیف (زخمی) کرتی  ہیں (یعنی نقصان دہ مواد)۔“ (ادب المفرد:228)

﴿أَمِطِ الأَذَى عَنْ طَرِيقِ النَّاسِ﴾

ایک اور مقام پر نبی کریمﷺ نے فرمایا: ”ایک آدمی راستے میں ایک کانٹے کے  پاس سے گزرا اس نے دل میں کہا میں اس کانٹے کو راستے سے ہٹا دیتا ہوں تاکہ یہ کسی مسلمان کو تکلیف نہ دے، چنانچہ  (اسی عمل سے) اس کی مغفرت کر دی گئی۔“
(ادب المفرد:229)ایک اور جگہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ”میری امت کے اچھے اعمال میں  راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا بھی  ہے۔“ (ادب المفرد:230)

[3] –  قرآن کریم کی آیت نمبر 07:26 میں ہے:  ”اے اولادِ آدم! بیشک ہم نے تمہارے لئے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے اور (اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اتارا ہے اور وہی) تقوٰی کا لباس ہی بہتر ہے۔ یہ (ظاہر و باطن کے لباس سب)  اللہ کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں۔“ (07:26)

ﵻيَٰبَنِىٓ ءَادَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَٰرِى سَوْءَٰتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ ٱلتَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ ءَايَٰتِ ٱللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَﵺ

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حفاظت اور صحت سے متعلق احتیاط کے پیش ِنظر ذاتی حفاظتی سامان/ لباس   / پوشاک (personal protective         equipment) کا ہونا ضروری ہے۔ لہذا ، کام کی جگہ پر کپڑوں /یونیفارم اورحفاظتی  سامان انسانی جسم کو متعلقہ خطرات  سے بچانے کا قابل ہونا چاہیے۔ ذاتی حفاظتی سازوسامان  اچھی حالت میں رکھا جائے۔ آیت 16:81 میں ہے ”اور اللہ ہی نے تمہارے لئے اپنی پیدا کردہ کئی چیزوں کے سائے بنائے اور اس نے تمہارے لئے پہاڑوں میں پناہ گاہیں بنائیں اور اس نے تمہارے لئے (کچھ) ایسے لباس بنائے جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں اور (کچھ) ایسے لباس جو تمہیں شدید جنگ میں (دشمن کے وار سے) بچاتے ہیں، اس طرح اللہ تم پر اپنی نعمتِ (کفالت و حفاظت) پوری فرماتا ہے تاکہ تم (اس کے حضور) سرِ نیاز خم کر دو۔“

ﵻوَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّمَّا خَلَقَ ظِلَالًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ الْجِبَالِ أَكْنَانًا وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِيلَ تَقِيكُم بَأْسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَﵺ

اس آیت مبارکہ میں  خطرناک  کاموں  کے  لئے ذاتی حفاظتی سامان کے استعمال کی تلقین کی گئی ہے۔ لہذا ذاتی حفاظتی سامان کی فراہمی آجر کی ذمہ داری ہے۔اب جہاں حفاظتی سامان مہیا کرنا آجر کی ذمہ داری بنتی ہے ، مزدور /محنت کش /ورکر کو بھی چاہئے کہ اس  کا بھر پور استعمال کرے۔ قرآن مجید مندرجہ ذیل الفاظ میں  اسی جانب رہنمائی کرتا ہے:”اور تم پر کچھ مضائقہ نہیں کہ اگر تمہیں بارش کی وجہ سے کوئی تکلیف ہو یا بیمار ہو تو اپنے ہتھیار (اُتار کر) رکھ دو اور اپنا سامانِ حفاظت (ہر وقت اپنے ساتھ لیے رہو)(اور خطرات کے خلاف مکمل تیاری میں رہو) ۔“(04:102)

ﵻ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ كَانَ بِكُمْ أَذًى مِنْ مَطَرٍ أَوْ كُنْتُمْ مَرْضَىٰ أَنْ تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ ۖ وَخُذُوا حِذْرَكُمْ ۗﵺ

اس کے علاوہ ، خلیفۂ راشد حضرت علیؓ کا ایک فرمان ہے  جس  کے مفہوم سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ    کام کی جگہ پر کام کی مناسبت سے  حفاظتی لباس کی اہمیت  پر زور دیا جا رہا ہے: ” ہر زمانے کا بہترین لباس وہ ہے جو اس وقت کے لوگ پہنتے ہیں۔“ (الکافی ، ج 6 ، ص 444 ، نمبر 15)

﴿فخَيرُ لِباسِ كُلِّ زمانٍ لِباسُ أهلِهِ﴾

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہر موقع (جگہ اور وقت) کی مناسبت سے کپڑے پہننا ضروری ہے۔ لہذا ، ہر کام کی جگہ کے   لئے مختلف قسم کے حفاظتی اقدامات اور ذاتی حفاظتی سازوسامان  کی ضرورت ہوتی ہے ، جو کام کی نوعیت کے مطابق ہوتے ہیں۔

صحیح بخاری میں ہے  کہ  نبی  کریم ﷺ نے فرمایا :”جب تم میں سے کوئی شخص بسترپر لیٹے تو پہلے اپنا بستر اپنی چادر کے کنارے سے جھاڑ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کی بےخبری میں کیا چیز اس  میں داخل ہوگئی ہے۔“ (صحیح بخاری:6320)

﴿إِذَا أَوَى أَحَدُكُمْ إِلَى فِرَاشِهِ فَلْيَنْفُضْ فِرَاشَهُ بِدَاخِلَةِ إِزَارِهِ، فَإِنَّهُ لاَ يَدْرِي مَا خَلَفَهُ عَلَيْهِ﴾

اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کام کی جگہ پر حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کام کے سامان اور حفاظتی پوشاک کی دیکھ بھال ضروری ہے۔

[4] –  قرآنی آیات 12:05 اور 15:80 کام کی جگہ پر صحت اور حفاظتی ہدایات کی اہمیت پر زور  دیتی ہیں۔ آیت 12:05 میں ہے :

” انہوں (حضرت یوسف علیہ السلام کے والد )نے (اپنے بیٹے سے)کہا: اے میرے بیٹے! اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا، ورنہ وہ تمہارے خلاف کوئی پُر فریب چال چلیں گے۔ بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔“(12:05)

ﵻقَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَىٰ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِينٌﵺ

حضرت یعقوب  علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کو ہدایت کی تھی  کہ وہ اپنے بھائیوں کو اپنی حفاظت/سلامتی کی خاطر اپنا خواب  نہ سنائیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مزدوروں /محنت کشوں   کے تحفظ کے لیے کام کی جگہ پر صحت اور حفاظت کی تربیت ضروری ہے۔

تبوک کی مہم کے دوران ، نبی کریم  ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو وادی حجر کا پانی پینے اور کھانا پکانے کے لیے استعمال کرنے سے منع کیا کیونکہ اس وادی میں ثمود تباہ ہو ئے تھے۔ یہ حدیث کام کی جگہ پر صحت اور حفاظت کی ہدایات کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے ، جو اگر فراہم نہیں کی گئی یا اس پر عمل نہیں کیا گیا تو مزدوروں /محنت کشوں   کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ صحت اور حفاظت کے اقدامات پینے کے پانی اور خوراک کی فراہمی کے ساتھ ساتھ کام کے ماحول اور آلات میں بھی اہم ہیں۔  روایت ہے کہ ”رسول اللہ ﷺ نے جب حجر(ثمود کی بستی)میں غزوۂ تبوک کے لیے جاتے ہوئے پڑاؤ کیا تو آپﷺ نے صحابہؓ  کو حکم فرمایا کہ یہاں کے کنوؤں کا پانی نہ پینا اور نہ اپنے برتنوں میں ساتھ لینا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ ہم نے تو اس سے اپنا آٹا بھی گوندھ لیا ہے اور پانی اپنے برتنوں میں بھی رکھ لیا ہے۔ نبی کریم ﷺنے انہیں حکم دیا کہ گندھا ہوا آٹا پھینک دیا جائے اور  ایک اور روایت میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو پانی انہوں نے اپنے برتنوں میں بھر لیا ہے اسے انڈیل دیں اور گندھا ہوا آٹا جانوروں کو کھلا دیں۔ اور انہیں یہ حکم دیا کہ اس کنویں سے پانی لیں جس سے صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی ۔“
(صحیح بخاری: 3378، 3379)

نیز صحیح بخاری میں ہے: ”حضرت  عائشہؓ نے فرمایا کہ  رسول اللہﷺ کے صحابہؓ اپنے کام اپنے ہی ہاتھوں سے کیا کرتے تھے اور ( زیادہ محنت و مشقت کی وجہ سے ) ان کے جسم سے ( پسینے کی ) بو آ جاتی تھی۔ اس لیے ان سے کہا گیا کہ اگر تم غسل کر لیا کرو تو بہتر ہو گا۔“ (صحیح بخاری: 2071)

﴿ كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عُمَّالَ أَنْفُسِهِمْ، وَكَانَ يَكُونُ لَهُمْ أَرْوَاحٌ فَقِيلَ لَهُمْ لَوِ اغْتَسَلْتُمْ ‏﴾

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو کام  بھی کیا جائے اس  میں  مزدوروں /محنت کشوں   کی صحت کے بارے میں  ہدایات دینا  اور ان ہدایات پر عملدرآمد کو یقینی بنانا آجر کی ذمہ داری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ”صفائی نصف ایمان ہے۔“ (صحیح مسلم: 223) صفائی ایک محفوظ اور صحت مند جائے کارکی جانب پہلا قدم ہے۔

﴿الطُّهُورُ شَطْرُ الإِيمَانِ﴾

قرآن کریم کی رو سے اپنے آپ کو اور اپنے کپڑوں کو صاف رکھنا بھی ضروری ہے: ”اور اپنے (ظاہر و باطن کے) لباس (پہلے کی طرح ہمیشہ) پاک رکھیں۔“(74:04)

ﵻوَثِيَابَكَ فَطَهِّرْﵺ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ” ہمارے پاس رسول اللہ  ﷺ  تشریف لائے تو ایک پراگندہ سر آدمی دیکھا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے تو فرمایا: کیا اسے کوئی چیز نہیں ملتی تھی جس سے اپنے  بال ساکن کر لے (یعنی بکھرنے سے روک لے اور انکو سنوار لے )۔ ایک اور آدمی دیکھا جس نے میلے کپڑے پہنے ہوئے تھے تو فرمایا کیا اسے پانی نہیں ملتا تھا کہ اس سے اپنے کپڑے دھو لیتا۔“ (سلسلہ احادیثِ صحیحہ: 493؛ سنن ابو داوٴد: 4062)

﴿أما كان يَجِدُ هذا ما يُسَكِّنُ به شعرَه و رأى رجلًا آخرَ وعليه ثيابٌ وَسِخَةٌ فقال أما كان هذا يجدُ ماءً يغسلُ به ثوبَه﴾

[5] – قرآن کریم کی  آیت 02:185 میں  ہے: ”رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے،  اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لئے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لئے کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔“

ﵻشَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَﵺ

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جائے ملازمت کے قواعد و ضوابط مزدوروں /محنت کشوں   کو اپنی صحت کے تحفظ کے خاطر اسلوب عمل تبدیل  کرلینے کی اجازت ہے۔ اسی طرح آیت 05:06  میں  ذکر ہے : ”…  اللہنہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔“

ﵻمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيَجۡعَلَ عَلَيۡكُم مِّنۡ حَرَجٖ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمۡ ﵺ

یہاں ، قرآن کریم میں مختلف احکامات کے بنیادی مقصد کی طرف ایک بار پھر اشارہ ہے۔ مقصد صرف لوگوں کو پاک کرنا ہے۔ ذاتی حفاظتی ساز وسامان کی فراہمی اور کام کی جگہ پر دیگر حفاظتی تدابیر کو یقینی بنانا آجر کی ذمہ داری  ہے لیکن اگر یہ بار بن جائے تو  پھر  قرآن  کریم نے ایسی صورتحال کیلیے اصول وضع کرتا  ہے  کہ وہی کیا جائےجو ”معقول حد تک قابل عمل“ ہو۔ مزدوروں /محنت کشوں   کی حفاظت کے لیے ، آجروں کو صحت اور حفاظت کے بنیادی رہنما اصولوں پر عمل کرنا چاہیے اور پھر وہ کرنا چاہیے جو ”معقول حد تک قابل  عمل“ ہو۔

[6] – قرآن کریم کی آیت نمبر 02:195 میں ہے: ”اور  اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی اختیار کرو، بیشک  اللہ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔“

ﵻوَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَﵺ

اس سے پتہ چلتا ہے کہ مزدوروں /محنت کشوں   کو کام کی جگہ پر صحت و سلامتی کے تمام اقدامات پر عمل کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے آپ کو نقصان سے بچا سکیں اور جان بوجھ کر غفلت نہ برتیں۔ سنن ابو داؤد میں ہے : ”رسول اللہﷺنے فرمایا: جو شخص سو جائے اور اس کے ہاتھ میں گندگی اور چکنائی ہو اور وہ اسے نہ دھوئے پھر اس کو کوئی نقصان پہنچے تو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے ۔“
(سنن ابو داؤد:3852)

﴿مَنْ نَامَ وَفِي يَدِهِ غَمَرٌ، وَلَمْ يَغْسِلْهُ فَأَصَابَهُ شَيْءٌ، فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ﴾

اس حدیث سے مراد وہ مزدور  بھی ہیں جو صحت اور سلامتی کی ہدایات پر عمل نہیں کرتے یا آجر  نے انہیں  جوحفاظتی سامان دیا ہے اسے استعمال نہیں کرتے ہیں یا غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسے مزدور /محنت کش /ورکر خود کو پہنچنے والے کسی نقصان کا ذمہ دار  آجر کو نہیں ٹھہرا سکتے ۔ اسی طرح آیت 04:59 میں اللہ تعالیﷻ  کا ارشاد ہے: ”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ﷺ  کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔“(04:59)

ﵻيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًاﵺ

اس سے پتہ چلتا ہے کہ مزدوروں /محنت کشوں   کو کام کی جگہ پر آجر کے قائم کردہ سلامتی اور صحت کی پالیسیوں اور طریقہ کار پر عمل کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ سنن ابو داؤد کی حدیث نمبر  5041 میں مروی ہے: ”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص گھر کی ایسی چھت پر سوئے جس پر پتھر ( کی منڈیر ) نہ ہو ( یعنی کوئی چار دیواری نہ ہو تو اس سے ( حفاظت کا ) ذمہ اٹھ گیا ( گرے یا بچے وہ جانے )۔“(سنن ابو داؤد: 5041)

﴿مَنْ بَاتَ عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ لَيْسَ لَهُ حِجَارٌ، فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ﴾

ایک اور مقام پر آپﷺ نے فرمایا: ”جس نے ایسی  چھت پر رات گزاری جس کی دیوار نہ ہو اور پھر اس سے نیچے گر گیا تو اس سے ذمہ اٹھ گیا ، جس نے طغیانی کے وقت سمندر کا سفر کیا پھر ہلاک ہو گیا تو اس سے بھی ذمہ اٹھ گیا۔“  (ادب المفرد:1194)

﴿مَنْ بَاتَ عَلَى إِنْجَارٍ فَوَقَعَ مِنْهُ فَمَاتَ، بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ، وَمَنْ رَكِبَ الْبَحْرَ حِينَ يَرْتَجُّ، يَعْنِي‏:‏ يَغْتَلِمُ، فَهَلَكَ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ﴾

اس سے پتہ چلتا ہے کہ مزدوروں /محنت کشوں   کو کام کی جگہ پر ہدایت کردہ حفاظتی اقدامات پر عمل کرنے کی  اشد ضرورت ہے۔ آجر صرف اس صورت میں ذمہ دار ہوسکتے ہیں جب انہوں نے ذاتی حفاظتی سامان کی فراہمی اور کام کی جگہ پر صحت اور حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات نہ کیے ہوں یا مزدوروں /محنت کشوں   کو کام کے دوران خطرات کے بارے میں تربیت  نہ دی ہو۔