فہرست مضامین

یونین یا انجمن سازی کی آزادی

یونین یا انجمن سازی کی آزادی(Freedom of Association)

  1. مزدور اور آجر دونوں کو بغیر کسی تفریق کے پیشگی اجازت کے بغیر اپنی پسند کی تنظیموں کو قائم کرنے اور ان میں شامل ہونے کا حق حاصل ہوگا۔[1]
  2. حقوق کے استعمال میں ، مزدور اور آجر اور ان کی متعلقہ تنظیموں کو ملکی قانون کا احترام کرنا ہوگا۔[2]
  3. آجر کی جانب سے ملازمین کے ساتھ  غیر منصفانہ رویہ(Unfair       labour       practices)۔ کسی آجر کو اس بات کی ہر گز اجازت  نہیں  ہوگی کہ وہ:
    1. معاہدہ ملازمت میں کوئی ایسی شرط عائد کرے جو متعلقہ مزدور کے کسی ٹریڈ یونین میں شمولیت یا اس کی رکنیت جاری رکھنے کے حق میں مانع ہو۔
    2. کسی بھی مزدور کو ٹریڈ یونین کا رکن ہونےپر ملازمت پر رکھنے سے انکار کرے۔ [3]
    3. کسی بھی مزدور کے ساتھ دورانِ ملازمت کسی ٹریڈ یونین کا رکن  ہونےیا اس کی ایگزیکٹو باڈی کا ممبر ہونے کی وجہ سے کوئی  امتیازی سلوک کرے۔ یا
    4. کسی غیر قانونی ہڑتال یا لاک آؤٹ کو شروع کروائے ،جاری رکھے یا دوسروں کو لاک آؤٹ میں حصہ لینے کے لیے اکسائے۔
  4. مزدوروں/ٹریڈ یونینوں کی جانب سے غیر منصفانہ اقدامات۔ کوئی بھی مزدور یا مزدوروں کی ٹریڈ یونین یا کوئی بھی شخص ایسی ٹریڈ یونین کے لئے کام نہیں کرے گا جو :
    1. کسی بھی مزدورکو ٹریڈ یونین کا ممبر یا آفیسر بننے یا نہ بننے پر ڈرائے یا ممبر یا آفیسر رہنے پر زور دے یا اسے ایسے کام میں شرکت سے  روکے رکھے۔ [4]
    2. غیر قانونی ہڑتال شروع کرنے،جاری رکھنے، کام میں سست روی، یا دوسروں کو اس میں حصہ لینے پر اکسائے[5]۔ یا
    3. ٹریڈ یونین کے کسی بھی مطالبے یا مظاہرے کی تائید میں جلاؤ گھیراؤ ، ٹرانسپورٹ یا مواصلاتی نظام میں رکاوٹ ڈالے یا املاک کو نقصان پہنچائے۔[6]
  5. آجر ہر ادارے میں ایک ورکس کونسل تشکیل دے گا جس میں آجر اور مزدوروں کے  برابرنمائندے شامل ہوں گے/ نمائندوں کی تعداد برابر ہو گی۔[7] ورکس کونسل کی ذمہ داریاں مندرجہ ذیل ہوں گی:
    1. آجر اور ملازمین کے مابین اعتماد و اتحاد ، افہام و تفہیم اور باہمی تعاون کا فروغ ۔ [8]
    2. دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے اختلافات کے حل کو فروغ دینا۔[9]
    3. لیبر قوانین کا اطلاق یقینی بنانا۔
    4. احساسِ ذمہ داری اور نظم و ضبط کو فروغ دینا ۔ حفاظت ، پیشہ ورانہ صحت اور کام کرنے کے حالات کو بہتر اور برقرار رکھنا۔
    5. پیشہ ورانہ تربیت اور مزدوروں /محنت کشوں  کی تعلیم کی حوصلہ افزائی
    6. پیداواری (production) ہدف کو پورا کرنا ، پیداواری صلاحیت میں اضافہ ، پیداواری لاگت میں کمی ، ضیاع کو روکنا اور مصنوعات کا معیار بلند کرنا۔ اور
    7. لیبر اورمینجمنٹ کے درمیان باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے باہمی دلچسپی کے دیگر امور پر تبادلہ خیال کرنا۔
  6. حکومت ایک کمیشن، جسے مصالحتی ، ثالثی مفاہمتی کمیشن (CMAC)[10] کے نام سے جانا جائے گا، کا قیام عمل میں لائے گی ، جس میں سہ فریقی اسٹیک ہولڈرز (حکومت ، ملازمین اور آجروں) کی مساوی نمائندگی ہوگی یہ کمیشن ایک چیئرمین ( جسےحکومت مقرر کرے گی) کی سربراہی میں کام کرے گا اور اس کا مقصد ملازمین اور آجروں کے درمیان تنازعات کو حل کرنا ہوگا  ۔[11] کمیشن مندرجہ ذیل امور یا سرگرمیاں سرانجام دے گا:
    1. مصالحت کے ذریعے تنازعات کا حل ۔[12]
    2. اگر کوئی امر تصفیہ/ سمجھوتے  کے بعد  بھی حل نہ ہو تو فریقین کے مابین معاہدہ کی روشنی میں  تنازعات کی ثالثی کرانا۔ اور
    3. فریقین میں سے کسی کی درخواست پر نیک نیتی سے مذاکرات کا حکم دینا ۔

صلح ایک رضاکارانہ عمل ہے جس میں ایک پیشہ ور سہولت کار ، جسے ثالثی کمیشن مقرر کرتا ہے ، آجروں اور مزدوروں /محنت کشوں    کے مابین اس وقت تنازعات حل کرنے میں مدد دیتا ہے جب ان کی تنازعات  کو حل کرنے کی تمام باہمی کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں۔ یہ عمل متنازعہ فریقین کے مابین معاہدے کی روشنی میں مذاکرات کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

جب مفاہمت اور ثالثی کی کوششیں ناکام ہوجائیں  تومزدوروں اور ٹریڈ یونینز کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہڑتال کا حق حاصل ہوگا۔[13] قانون ہڑتال کے حق کے استعمال کو باقاعدہ بنائے گا اور ہڑتال کا حق استعمال کرنے کی  حدود متعین کرے گا۔ اسی طرح آجروں کو بھی لاک آؤٹ کا حق حاصل ہوگا۔


 

[1] – اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اجتماعیت اور افراد کے درمیان امتزاج  پر زور دیتا ہے۔ جماعت اور دوسروں کے ساتھ وابستگی اس قدر اہم ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ:  ”جماعت کی نماز اکیلے کی نماز سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔“ (صحیح بخاری : 649)۔ اسلام اپنے ماننے والوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اچھے کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ آیت مبارکہ میں ہے:”اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔“(05:02)

ﵻ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚﵺ

انٹرپرائز ورک فورس  (کسی بھی جگہ پر کام کرنیوالوں) میں سے کچھ ایسے بھی ہونے چاہئیں جو ٹریڈ یونین کے نمائندوں کے طور پر کام کریں جو کام کی جگہ کے مسائل کے بارے میں اچھی طرح تربیت یافتہ ہوں اور مزدوروں /محنت کشوں   کو ان کے حقوق کے حصول میں مدد دے سکیں۔ اسی طرح کی دلیل OSH کمیٹی ، ورکس کونسل اور دیگر کمیٹیوں کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے جو کام کی جگہ پر بنائی جاتی ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے:” اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے مسلمان (ایک ساتھ) نکل کھڑے ہوں، تو ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تاکہ وہ (گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے) بچیں۔“(09:122)

ﵻوَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَﵺ

مزید یہ کہ ، یونین کے بنیادی کام ورکرز کے لیے مفید کاموں (کام کی جگہ کے حقوق کا احترام) اور کام کی جگہ کے تناظر میں آجر اور افرادی قوت کی طرف سے ورکرز کے لیے نقصان دہ کاموں (مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی) سے منع کرنا ہیں۔
قرآن کریم میں مندرجہ ذیل ارشاد  ہے: ” اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں۔“(03:104)

ﵻوَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَﵺ

ٹریڈ یونینز کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ دوسروں کے حقوق کے لیے کوشش کریں۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے:”اور  اللہ (کی محبت و طاعت اور اس کے دین کی اشاعت و اقامت) میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کا حق ہے۔ “(22:78)

ﵻوَجَاهِدُوا فِى اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهﵺ

مولانا مودودی ؒ       تفہیم القرآن میں لکھتے ہیں  :”عربی لفظ جہاد بہت جامع ہے۔ اس میں ہر قسم کی کوشش ، محنت ، تنازعہ اور جنگ شامل ہے۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کی رضامندی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا جائے  اور اس کے خلاف کیا جائے جو دوسروں کو اللہ کے راستے پر چلنے سے روکتا ہے۔“   کام کی جگہ کے تناظر میں ، اس طرح کا جہاد ٹریڈ یونینوں اور مزدوروں /محنت کشوں   کے ذریعہ انجام دیا جاتا ہے۔  اسی طرح مولانا امین احسن اصلاحیؒ تدبر قرآن میں لکھتے ہیں : جہاد سے مراد یہاں قتال نہیں ہے۔ وہ مشروط بشرائط و حالات ہے۔ اس کا ذکر آیات ۳۸-۴۱ میں گزر چکا ہے۔ یہاں اس سے مراد ہر وہ جدوجہد ہے جو اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے بندے کے امکان میں ہواور یہ جدوجہد نیم دلی اور کمزوری کے ساتھ مطلوب نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے جی جان کی بازی لگا دی جائے۔ اور لوگوں کو قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دی گئی ہے: ” تم ہلکے اور گراں بار (ہر حال میں) نکل کھڑے ہو اور اپنے مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم (حقیقت) آشنا ہو۔“(09:41)

ﵻانْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَﵺ

کام کی جگہ پر یونین کا قیام اس لئے بھی  ضروری ہے تاکہ آجر کی بے لگام طاقت اور مزدوروں /محنت کشوں   کی   کمزوری کے درمیان توازن پیدا ہو۔ قرآن کریم میں ہے:” اور اگر  اللہ لوگوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے نہ ہٹاتا رہتا تو زمین (میں انسانی زندگی بعض جابروں کے مسلسل تسلّط اور ظلم کے باعث) برباد ہو جاتی۔“(02:251)

ﵻوَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُﵺ

کام کی جگہ پر  بنائی جانے والی یونین کا کام  ہوتا ہے کہ وہ مزدوروں کے حقوق (جن میں بنیادی حق  اجرت کا ہے) اور آجر کے سامنے مزدوروں کی نمائندگی کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”اللہ کے نزدیک سب سے افضل عمل وہ خوشی ہے جو تم کسی  اپنے مومن ساتھی کو پہنچاتے ہو ، یا تو اس کی بھوک دور کر کے یا اس کی پریشانی کو دور کر کے۔“  (الکافی  ج:2 ، صفحہ 191 ، نمبر 11) (سلسلہ احادیث الصحیحہ: 2593)

﴿أحَبُّ الأعمالِ إلَى اللّه‏ سُرورٌ (الذي) تُدخِلُهُ عَلَى المُؤمِنِ ، تَطرُدُ عَنهُ جَوعَتَهُ أو تَكشِفُ عَنهُ كُربَتَهُ﴾

ٹریڈ یونین کےبنیادی کام مکمل طور پر رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کے مطابق ہیں: ”مظلوموں (بے کسوں) کی مدد کرو اور ان لوگوں کو رستہ دکھاؤ جو بھٹک گئے ہیں۔“ (سنن ابوداؤد ، کتاب عمومی سلوک (کتاب الادب: 4817)

﴿وَتُغِيثُوا الْمَلْهُوفَ وَتَهْدُوا الضَّالَّ﴾

رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ سب سے اچھا عمل کونسا ہے تو آپؐ نے فرمایا: ”کسی مسلمان کا دل خوش کر دینا بڑے ثواب کا کام ہے، اگر بھوکا ہے تو اسے کھانا کھلانا، اگر اسکے پاس کپڑے نہ ہوں تو اسے کپڑے دینا/پہنانا، یا اگر اسکی کوئی ضرورت اٹکی ہوئی ہو تو اسے پورا کرنا ، ا‏‏‏‏س کا قرضہ چکانا، اور اس سے کسی مصیبت کو دور کرنا ۔“ (شعب الإيمان :7273 اور 7274)

﴿مِنْ أَفْضَلِ الْعَمَلِ إِدْخَالُ السُّرُورِ عَلَى الْمُؤْمِنِ: تقْضِي عَنْهُ دَيْنًا، تقْضِي لَهُ حَاجَةً، تنَفِّسُ عَنْهُ كُرْبَةً﴾

ٹریڈ یونین کا بنیادی مقصد ان لوگوں کے حقوق کے لیے لڑنا ہے جو روزگار کے سلسلے میں سودے بازی کرنے میں کمزور ہیں ، یعنی مزد ورپیشہ لوگ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالی ایسی قوم کو برکت نہیں دیتا جس میں کمزور آدمی کو اس کا حق نہیں دیا جاتا۔“ (مشکوٰة المصابیح: 3004) اسی حدیث میں نبی کریم ﷺ نے اپنی نبوت کا ایک مقصد کمزوروں کو انکے حقوق دلانا قرار دیا ہے۔ (فلم ابتعثني الله إذا؟)

﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يُقَدِّسُ أُمَّةً لَا يُؤْخَذُ لِلضَّعِيفِ فِيهِمْ حَقُّهُ﴾

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ”اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو ( یہی اس کی مدد ہے ) ۔“ (صحیح بخاری:2444)

﴿انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا ‏‏‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا نَنْصُرُهُ مَظْلُومًا، فَكَيْفَ نَنْصُرُهُ ظَالِمًا قَالَ ‏‏ تَأْخُذُ فَوْقَ يَدَيْهِ﴾

ٹریڈ یونین کے عہدیداروں کو مزدوروں کے حقوق کے لیے کوشاں ہونا چاہیے ، جس میں ٹریڈ یونین کے اراکین کے حقوق بھی شامل ہیں تاہم ، یہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہیے۔ اور انہیں اس بارے میں  الزام تراشیوں  اور بہتان طرازیو ں سے اجتناب کرنا چاہیے۔

عبادہؓ بن صامت بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات پر بیعت کی کہ مشکل اور آسانی میں، خوشی اور غمی میں اور خود پرترجیح دیے جانے کی صورت میں بھی سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔ اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم اقتدار کے معاملے میں اصحاب اقتدار سے تنازع نہیں کریں گے۔ (آپؐ نے فرمایا:) ”سوائے اس کے کہ تم اس میں کھلم کھلا کفر دیکھو، جس کے (کفر ہونے پر) تمھارے پاس (قرآن اور سنت سے) واضح آثار موجود ہوں! نیز اس بات پر بیعت کی کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں گے، حق بات کہیں گے اور اس معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کریں گے۔“ (صحیح بخاری: 7199)

﴿ بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْيُسْرِ وَالْعُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ وَأَنْ لاَ نُنَازِعَ الأَمْرَ أَهْلَهُ وَأَنْ نَقُومَ بِالْحَقِّ حَيْثُ كُنَّا لاَ نَخَافُ لَوْمَةَ لاَئِمٍ ‏﴾

مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ، ٹریڈ یونینز بنائی جا سکتی ہیں ، اور دیگر حقوق پر مبنی تنظیموں کے ساتھ اتحاد قائم کیا جا سکتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں مظلوموں کی حمایت کے لیے قریش کے قبیلوں کے مابین اعلان کردہ ایک معاہدہ حِلفُ الفضول یہاں ذکر کرنا مناسب ہوگا۔  نبی کریم ﷺنے اپنے   چچاوٴں  کے ساتھ معاہدے میں بھی حصہ لیا، نبی کریمﷺ کی عمر اس  وقت بیس سال تھی اور اس معاہدے کی طرف  سب سے پہلے بنی ہاشم متوجہ ہوئے ، آپ کے چچا ، زبیر بن عبدالمطلب نے سب کو  کھانے کی دعوت دی  جس میں بنی ہاشم، بنی زہرہ اور بنی تمیم کے لوگ عبداللہ بن جدعان کے گھر پر جمع ہوئے اور اللہ کے نام پر عہد کیا۔

آپؐ نے فرمایا:” میں عبداللہ بن جدعان کے گھر میں ایسے معاہد ے میں حاضر ہوا کہ اگر اس سے غیر حاضری پر مجھے سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیئے جاتے تو میں پسند نہ کر تا اور آج اسلام میں بھی اگر کوئی مظلوم معاہدہ حلف الفضول کی نام سے مجھے پکارے تو میں مددکرنے کو تیار ہوں۔“ (سنن الکبریٰ  از بیہقی: 12114)

نبی کریم ﷺکی طرف سے یہ اِس بات کا اظہار ہے کہ اِس معاہدے میں آپ کو اپنی شرکت کس قدر پسند تھی اور  چونکہ اس معاہدے میں مظلوم کی حمایت کی بات کی گئی تھی اس لیے آپ نے اسے ہمیشہ پسند فرمایا۔ اسی معاہدے کے متعلق ”ابن سعد“ اپنی کتاب ”طبقات“ میں رقمطراز ہیں: ”انہوں نے حلف لیا اور ایک معاہدہ کیا جس میں کہا گیا: اللہ کی قسم! جب تک دریا میں صوف کے بھگونے کی شان باقی ہے (مطلب ہمیشہ کے لیے) ، ہم مظلوم کے ساتھ رہیں گے جب تک کہ اسے اس کاحق نہ مل جائے اور ہم دیکھیں گے کہ سب کو (معاش کے معاملات میں)یکساں سلوک ملے گا (اور معاش میں اسکی خبر گیری اور مواسات کریں گے)۔“

ابن ہشام، سیرة النبیؐ، میں  لکھتے ہیں ، ”انہوں نے وعدہ کیا اور یہ  عہد کیا کہ وہ اپنے لوگوں میں سے کوئی بھی غلط شخص رہنے نہیں دیں گے نہ ہی کوئی غلط شخص مکہ میں داخل ہونے دیں گے ، بلکہ جو بھی داخل ہوگا وہ ان مظلوموں کی حمایت کریں گے۔  اور جب تک مظلوموں کے حقوق بحال نہیں ہوتے وہ سب ان حقوق تلفی کرنے والوں  کے خلاف کھڑے رہیں گے۔“

اسی معاہدے کو دیگر روایات میں حلف المطیبین یعنی اچھائی كرنے والوں كا عہد بھی كہا گیا ہے۔ تفسیر طبری میں ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا: ”اسلام میں كسی حلف كی ضرورت نہیں رہی(کیونکہ اب لوگوں کے حقوق کی رکھوالی صرف چند اچھے انسانوں کی نہیں بلکہ نظم اجتماعی یعنی ریاست کی ذمہ داری ہے) ۔ رہے دور جاہلیت كے حلف تو اسلام نے اُنھیں اور بھی پختہ کر دیا ہے۔ دار الندوہ میں جو حلف ہوا تھا، اُس کو توڑنے کے عوض مجھے سرخ اونٹ بھی دیے جائیں تو کبھی خوش نہ آئیں گے۔“

حضرت خباب بن ارتؓ لوہار کا کام کرتے تھے ، انہوں نے عاص بن وائل کیلیے تلوار تیار کی اور جب اس سےقیمت چکانے کا کہا تو عاص نے کہا کہ   جب تک تم محمدﷺ سے نہ پھر جاؤ گے تمہارا قرض نہیں دوں گا، میں نے کہا کہ میں نبی کریمﷺ کے دین سے ہرگز نہیں پھروں گا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تجھے مار دے اور پھر زندہ کر دے۔ اس نے کہا کیا موت کے بعد میں دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا پھر تو مجھے مال و اولاد بھی مل جائیں گے اور اسی وقت تمہارا قرض بھی ادا کر دوں گا۔ (صحیح بخاری: 4735) ۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اگرچہ حلف الفضول کچھ دہائیاں قبل ہی ہوا تھا لیکن طاقتور لوگ کمزوروں کے مال ہتھیا لیتے تھے۔

علامہ علی ابن برہان الدین حلبیؒ نے ـ”سیرت حلبیہ یعنی ام السیر“ میں لکھا ہے کہ چونکہ معاہدے میں شامل لوگوں نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ زبردستی چھینا گیا مال اسکے حقدار تک پہنچائیں گے اسلیے اس معاہدے کو حِلف الفُضول کہا جا تا ہے۔  اس دور میں  قبائلی عصبیت سے ہٹ کرمظلوموں کی حمایت ونصرت کا یہ ایک انوکھا اتحاد تھا۔ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ عربوں کے اس معاشرے میں حق و انصاف کی دہائی کے لیے حلف الفضول کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی چنانچہ حضرت حسینؓ نے ایک موقع پر امیر مدینہ ولید بن عتبہ بن ابوسفیان کے ساتھ اپنے ایک قضیہ میں ان الفاظ سے عوامی مدد طلب کی :”تم میرے ساتھ حق و انصاف کا معاملہ کرو ورنہ میں اپنی تلوار لوں گا اور مسجدِ رسولؐ میں کھڑے ہوکر حلف الفضول کی دہائی دوں گا“۔
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور دیگر لوگوں نے حضرت حسینؓ کی حمایت پر آمادگی ظاہر کی اور یوں ولید حضرت حسینؓ کا حق دینے پر راضی ہوا۔  اسی طرح کے معاہدات آج بھی کیے جا سکتے ہیں جن کا مقصد (مظلوم)مزدوروں کو انکے حقوق دلانا ہو یا سماجی انصاف کا قیام ہو۔ (coalitions   for   workers’   rights   or   social   justice)

[2] – ٹریڈ یونینز کو چاہئے کہ وہ ملکی قانون پر عمل کریں اور ایسی سرگرمیوں میں شریک نہ ہوں  جو ٹریڈ یونین کے جائز مقاصد کے خلاف ہوں۔ ایک ایسی  ٹریڈ یونین جو صرف مزدوروں کو تقسیم کرنے کے لیے بنائی گئی ہے اور جس کا مقصد   (پاکٹ یونین یا زرد یونین) یا جس کا مقصد بڑے پیمانے پر انتشار اور افراتفری پیدا کرنا ہے ضروری تحقیقات اور مناسب عمل کے بعد اسے ختم کیا جا سکتا ہے۔

یہاں تک کہ ایک بظاہر اچھا عمل ، جو غلط مقاصد اور ارادوں پر مبنی ہے ، غیر قانونی ہو سکتا ہے۔ اسلام میں ایک بنیادی اصول ہے کہ:
”بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔“ (ریاض الصالحین:01)

﴿إنَّما الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وإنَّما لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى﴾

قرآن مجید نے مسجد ضرار کے واقعے کو ذکر کرتے ہوئے اسے مسمار کرنے کا حکم دیا ہے۔ مدینہ میں پہلے ہی دو مساجد تھیں ، ایک قبا میں اور دوسری شہر میں (مسجد نبویﷺ)۔ ، اس لیےتیسری مسجد کی ضرورت نہیں تھی۔ منافقین نے وجوہات ایجاد کرنے کی کوشش کی تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ تیسری مسجد کی ضرورت ہے۔جس کے لیے  وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے اور کہا”ہمیں ایک اور مسجد کی ضرورت ہے کیونکہ اس علاقے کے لوگوں کے لیے خاص طور پر بوڑھوں ، بیماروں اور معذوروں کے لیے سردیوں کے موسم اور بارش کے دوران دونوں مسجدوں میں پانچ نمازیں پڑھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لہذا ، ہم صرف ان لوگوں کی سہولت کے لیے ایک نئی مسجد بنانا چاہتے ہیں جوان  دو مساجد سے کچھ فاصلے پر رہتے ہیں اور وہ  باجماعت نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔“ تاہم ، ان کا ارادہ اسلام کے خلاف سازش کرنا اور اسے جلسہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے نبی ﷺسے درخواست کی کہ وہ مسجد کی افتتاحی تقریب کے طور پر نماز کی امامت کریں تاکہ اس مسجد کو کھولنے کا جواز ملے۔ نبی کریم ﷺ نے تبوک سے واپسی تک معاملہ ملتوی کر دیا۔ واپسی پر رسول اللہ ﷺ کو درج ذیل وحی ملی جس  پر صحابہ  کرامؓ نے اس نام نہاد مسجد کو مسمار کر دیا۔

ﵻوَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ۝ لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا ۚ لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ ۚ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا ۚ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَﵺ

” اور (منافقین میں سے وہ بھی ہیں) جنہوں نے ایک مسجد تیار کی ہے(مسلمانوں کو) نقصان پہنچانے اور کفر (کو تقویت دینے) اور اہلِ ایمان کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے اور اس شخص کی گھات کی جگہ بنانے کی غرض سے جو  اللہ اور اس کے رسول ﷺسے پہلے ہی سے جنگ کر رہا ہے، اور وہ ضرور قَسمیں کھائیں گے کہ ہم نے (اس مسجد کے بنانے سے) سوائے بھلائی کے اور کوئی ارادہ نہیں کیا، اور  اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں، (اے حبیبﷺ!) آپ اس (مسجد کے نام پر بنائی گئی عمارت) میں کبھی بھی کھڑے نہ ہوں۔ البتہ وہ مسجد، جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقوٰی پر رکھی گئی ہے، حق دار ہے کہ آپ اس میں قیام فرما ہوں۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو (ظاہراً و باطناً) پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں، اور  اللہ طہارت شعار لوگوں سے محبت فرماتا ہے۔“(09:107-108)

ٹریڈ یونینز کا قیام اس اصول پر مبنی ہونا چاہئے کہ تمام مومنین ایک عمارت کی طرح ہیں جس کے مختلف حصے  ایک دوسرے کو مضبوط بناتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:”تم مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و محبت کا معاملہ کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ لطف و نرم خوئی میں ایک جسم جیسا پاؤ گے کہ جب اس کا کوئی ٹکڑا بھی تکلیف میں ہوتا ہے، تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے ایسا کہ نیند اڑ جاتی ہے اور جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔“ (صحیح بخاری: 6011)

نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ ”ایک مومن دوسرے مومن کے لیے اس طرح ہے جیسے عمارت کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تھامے رہتا ہے ( گرنے نہیں دیتا ) پھر آپ ﷺنے اپنی انگلیوں کو قینچی کی طرح کر لیا۔“ (صحیح بخاری: 6026)

[3] – قرآن دوسروں کے حقوق غصب کرنے سے منع کرتا ہے۔ کسی شخص کے خلاف اس کی ٹریڈ یونین کی رکنیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک یا آجر یا ٹریڈ یونین کی طرف سے اس کی تنخواہ میں  کمی ایک غلط اقدام ہے جس کی اسلام میں ممانعت ہے: ”فرما دیجئے کہ میرے ربّ نے (تو) صرف بے حیائی کی باتوں کو حرام کیا ہے جو ان میں سے ظاہر ہوں اور جو پوشیدہ ہوں (سب کو) اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کو اور اس بات کو کہ تم  اللہ کا شریک ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری اور (مزید) یہ کہ تم  اللہ (کی ذات) پر ایسی باتیں کہو جو تم خود بھی نہیں جانتے۔“(07:33)

ﵻقُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَﵺ

[4] – ٹریڈ یونین مزدوروں /محنت کشوں   کو یونین کی سرگرمیوں میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ اسی طرح ایک آجر مزدوروں کو ٹریڈ یونین میں شمولیت سے روک نہیں کر سکتا یا ان سے کسی مخصوص یونین/ایسوسی ایشن میں شمولیت کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ اگر مذہبی معاملات میں جبر نہیں ہے تو روزگار کے معاملات میں جبر نہیں ہو سکتا۔ یونین کی رکنیت (یا  زبردستی رکنیت) یا یونین کی رکنیت سے ممانعت ملازمت دینے میں شرط نہیں ہو سکتی۔ ایک بنیادی اسلامی اصول ہےکہ: ”دین میں کوئی زبردستی نہیں۔“(02:256)

ﵻلَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِﵺ

ایک مزدور ، جو ٹریڈ یونین کے فوائد جاننے کے باوجود ، ٹریڈ یونین کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کرتا ہے اسے ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسا حضرت نوح  علیہ السلامنے اپنی قوم سے کہا تھا:  ”(نوح علیہ السلام نے) کہا: اے میری قوم! بتاؤ تو سہی اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر بھی ہوں اور اس نے مجھے اپنے حضور سے (خاص) رحمت بھی بخشی ہو مگر وہ تمہارے اوپر (اندھوں کی طرح) پوشیدہ کر دی گئی ہو، تو کیا ہم اسے تم پر جبراً مسلّط کر سکتے ہیں جبکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو۔“(11:28)

ﵻقَالَ يَـٰقَوْمِ أَرَءَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّى وَءَاتَىٰنِى رَحْمَةً مِّنْ عِندِهِۦ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ أَنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنتُمْ لَهَا كَـٰرِهُونَﵺ

[5] –  جب مزدوروں یا ٹریڈ یونینز کو کسی تخریبی سرگرمی یا غیر قانونی ہڑتال کی سزا دی جائے تو اس میں انصاف کرنا چاہیے۔ اسی طرح مزدوروں اور ٹریڈ یونینز کی ہڑتال سے مالکان کو اتنا نقصان نہیں پہنچناچاہیے جس سے عام لوگوں کو تکلیف پہنچے۔ارشاد باری تعالی ہے: ”اور اگر تم سزا دینا چاہو تو اتنی ہی سزا دو جس قدر تکلیف تمہیں دی گئی تھی، اور اگر تم صبر کرو تو یقیناً وہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہے۔“(16:126)

ﵻوَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِۦ  وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّـٰبِرِينَﵺ

اسی طرح کا  ایک پیغام اس آیت مبارکہ میں  بھی ہے: ”پس اگر تم پر کوئی زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو مگر اسی قدر جتنی اس نے تم پر کی، اور  اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ  اللہ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔“(02:194)

ﵻفَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَﵺ

یہاں تک کہ ہڑتالوں یا لاک ڈاؤن میں بھی ، کسی کو حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ قرآن کریم  نے مومنوں کی خوبیوں کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:

” اور وہ لوگ کہ جب انہیں (کسی ظالم و جابر) سے ظلم پہنچتا ہے تو (اس سے) بدلہ لیتے ہیں، اور برائی کا بدلہ اسی برائی کی مِثل ہوتا ہے، پھر جِس نے معاف کر دیا اور (معافی کے ذریعہ) اصلاح کی تو اُس کا اجر اللہ کے ذمّہ ہے۔ بیشک وہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا، اور یقیناً جو شخص اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد بدلہ لے تو ایسے لوگوں پر (ملامت و گرفت) کی کوئی راہ نہیں ہے، بس (ملامت و گرفت کی) راہ صرف اُن کے خلاف ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی و فساد پھیلاتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے، اور یقیناً جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو بیشک یہ بلند ہمت کاموں میں سے ہے ۔“(42:39-43)

ﵻوَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ ۝وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ  ۝وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُوْلَئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ  إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۝ وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِﵺ

اسی طرح ایک اور آیت مبارکہ میں بھی ہے: ”اور  اللہ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک  اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔“ (02:190)

ﵻوَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَﵺ

[6] –  قرآن کریم نے ایک عام اصول بیان کرتے ہوئے ذکر کیا: ”او ر البتہ جو کچھ لوگوں کے لئے نفع بخش ہوتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے۔“(13:17)

ﵻوَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِﵺ

اور اسی طرح حدیث میں خیر خواہی اور نفع رسانی کا اصول بتلایا گیا:”مخلوق اللہ کی عیال (یعنی اللہ کا کنبہ) ہے، اور مخلوق میں سے وہ شخص اللہ کو زیادہ پسند ہے جو اس کی عیال سے اچھا سلوک کرتا ہے  (اور ایک اور حدیث میں اس شخص کو پسندیدہ قراردیا گیا جو خدا کے کنبے کیلیے زیادہ فائدہ مند ہو) ۔“ )مشکوٰۃ المصابیح: 4998)

﴿الخلق عيال الله فاحب الخلق إلى الله من احسن إلى عياله﴾

ایک یونین اس وقت تک رجسٹرڈ رہے گی جب تک وہ مزدوروں کے لیے فائدہ مند رہے اور اپنے قانونی مقاصد کے مطابق کام کرے۔ جب یہ غیر منصفانہ امور (unfair labour practices) میں ملوث  ہو جائے تو اس کے خلاف تادیبی کاروائی کی جا سکتی ہے۔ جب بھی کوئی ٹریڈ یونین یا آجروں کی تنظیم بدعنوانی یا املاک کی تباہی میں ملوث ہوگی اور خرابی پیدا کرنے کی کوشش کرے گی تو اس کے خلاف تادیبی کاروائی کی جا سکتی ہے۔ قرآن ایسے گروہوں کی سرگرمیوں کو مندرجہ ذیل الفاظ میں نمایاں کرتا ہے:

”اور جب وہ (آپ سے) پھر جاتا ہے تو زمین میں (ہر ممکن) بھاگ دوڑ کرتا ہے تاکہ اس میں فساد انگیزی کرے اور کھیتیاں اور جانیں تباہ کر دے، اور  اللہ فساد کو پسند نہیں فرماتا۔“(02:205)

ﵻوَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَﵺ

جب تحقیقات کے بعد یہ ثابت ہو جائے کہ کہ ٹریڈ یونین کے اراکین تشدد اور گھیراؤ جلاؤ اورعوامی املاک کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے ہیں تو  ایسے ٹریڈ یونین کے عہدیداروں/ممبران کا معاہدہ ملازمت ختم کیا جا سکتا ہے ، اور انہیں قید بھی کیا جا سکتا ہے۔ کچھ امور میں  کام کی جگہ پر ان کے داخلے کو محدود کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ، اگر فریقین کے درمیان کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو  ان کے خلاف  کوئی اور تادیبی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ زمین میں فساد پھیلانے والوں کے لیے قرآن مندرجہ ذیل سزا  تجویز کرتا ہے:”بیشک جو لوگ  اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے، مگر جن لوگوں نے، قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پا جاؤ، توبہ کرلی، سو جان لو کہ  اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔“(05:33-34)

ﵻإِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ  ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ  ۝إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن قَبْلِ أَن تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ  فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌﵺ

مزدوروں /محنت کشوں   کو بھی حکم دیا  گیاہے کہ وہ ان لوگوں کی ہدایات پر عمل نہ کریں جو محض انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں اور خلل ڈالنے والی سرگرمیوں میں ملوث ہیں:” اور حد سے تجاوز کرنے والوں کا کہنا نہ مانو، جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور (معاشرہ کی) اصلاح نہیں کرتے۔“(26:151-152)

ﵻوَلَا تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ ۝الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَﵺ

نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ عصبیت کیا چیز ہے تو آپ نے فرمایا کہ: ”عصبیت یہ ہے کہ تم ظلم میں اپنی قوم کی مدد کرو۔“ (سنن ابن ماجہ: 3949)

﴿ سالت النبي صلى الله عليه وسلم , فقلت: يا رسول الله , امن العصبية ان يحب الرجل قومه , قال:” لا , ولكن من العصبية ان يعين الرجل قومه على الظلم﴾

اگر  یونین مزدوروں کو ادارے سے متعلق کسی جائز وجہ کے بغیر بدگمان کرتی ہے تو اس عمل کو اچھا نہیں سمجھا جائے گا، کسی کے گھر یا ادارے کے نظام میں خواہ مخواہ بدگمانیاں پیدا کرنا  فساد کا کام ہے ۔  رسول اللہﷺ نے فرمایا:”جو شخص کسی عورت کو اس کے شوہر سے یا غلام (نوکر یا مزدور) کو مالک (یعنی آجر) سے برگشتہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔“(سنن ابوداوٴد:2175)

﴿ليس منا من خبب امراة على زوجها او عبدا على سيده﴾

[7] – اسلام فریقین کے مابین باہم مشاورت کا تقاضا کرتا ہے۔ نبی کریمﷺ کو قرآن کریم میں یہ نصیحت کی گئی ہے:”اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں۔“(03:159)

ﵻوَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِﵺ

اہل ایمان کی ایک صفت  جو قرآن میں بیان کی گئی  وہ یہ ہے: ” اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے ۔“(42:38)

ﵻوَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْﵺ

لہذا ، آجروں کو چاہئےٍ کہ ٹریڈ یونینوں کے ساتھ یا ورک کونسل میں منتخب مزدوروں /محنت کشوں   کے نمائندوں سے کاروبار سے متعلقہ تمام امور پر مشورہ کیا کریں۔ نبی ﷺ نے ارشاد  فرمایا:”جو شخص دوسروں سے معاملات کے بارے میں مشورہ کرتا ہے وہ کبھی شرمندہ نہیں ہوتا“ ”اپنے معاملات میں مشاورت کے ساتھ مدد طلب کریں۔“ (طبرانی، معجم الاوسط: 6627)

اسلام ان تمام اہم معاملات میں  جو دوسروں کے حقوق سے متعلق ہوں کے بارے میں ”باہمی رضامندی“ کے ساتھ ساتھ ”مشاورت“ کا حکم دیتا ہے ۔ قرآن  کریم میں ہے:”پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضا مندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔“(02:233)

ﵻفَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَاﵺ

حضرت علیؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولؐ، کبھی ہمارے سامنے ایسا معاملہ آ جاتا ہے جس کے بارے میں نہ تو قرآن نازل ہوا نہ آپ کی طرف سے کوئی سنت قائم ہوئی (تو ہم کیا راہ اختیار کریں؟)، آپﷺ نے فرمایا: اس معاملہ (میں فیصلہ) کیلیے مسلمانوں میں سے عالم لوگوں (یا فرمایا، عبادت گزار لوگوں) کو بلاوٴ اور مشورے سے طے کرو، کسی ایک کی رائے پر فیصلہ کا مدار نہ ہو۔ (سنن دارمی)

اسی طرح آپﷺ نے معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجتے ہوئے جو نصیحت فرمائی اس میں یہ بات سرفہرست ہے: جو فیصلہ کرنا، یا جو بات بولنا ، علم کے بغیر نہ ہو ۔ اگر کوئی اشکال وارد ہو تو بے جھجھک (کسی سے) پوچھنا اور مشورہ کرنا کیونکہ  مشورہ کرنے والے کی (من جانب اللہ)مددہوتی ہے۔ (ابن عساکر)

ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ میں نے تم لوگوں میں سے کسی کو اپنے ساتھیوں سے اسقدر  مشورہ کرتے نہیں دیکھا جسقدر کہ رسول اللہﷺ کرتے تھے۔ (جامع ترمذی: 1714)

نبی کریمﷺ نے اجتماعی معاملات میں ہمیشہ مشورہ کیا جیسے کہ اذان کے بارے میں ،  غزوۂ بدر کے موقع پر آگے بڑھ کر قریش کو مزاحمت دینے کا فیصلہ ، غزوۂ بدر کے قیدیوں کے متعلق فیصلہ، غزوۂ احد کے وقت مدینہ کے اندر یا شہر سے باہر نکل کے لڑنے کا فیصلہ، صلح حدیبیہ کے بعد ام الموٴمنین ام سلمہؓ سے مشورہ (اور اسکو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کا قربانی  کرنا اور سر منڈانا)۔

سیدنا عمر بن خطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کے کسی معاملے میں سیدنا ابوبکر ؓ کے ساتھ رات کو گفتگو کرتے تھے اور میں دونوں کے پاس موجود ہوتا تھا۔(سلسلہ احادیث صحیحہ: 1342)

آپﷺ نے فرمایا: جس سے مشورہ لیا جائے وہ امانت دار ہے (لہٰذا وہ ایمانداری سے مشورہ دے) (سنن ابن ماجہ: 3745) اور ایک حدیث میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ :جب  وہ تجھ سے مشورہ چاہے تو تو اسے  اچھی صلاح دے۔ (صحیح مسلم: 5651)

﴿وإذا استنصحك فانصح له﴾

[8] – کسی تنازع کو حکومت کے سامنے لانے سے پہلے ، مزدوروں اور مالکان کو اپنے تنازعات کو باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اس بارے میں  قرآنی ہدایت مندرجہ ذیل الفاظ میں موجود ہے:”سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی معاملات کو درست رکھا کرو اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرو اگر تم ایمان والے ہو۔“(08:01)

ﵻفَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَﵺ

ہڑتال کے دوران یا اس سے پہلے بھی اگر کوئی فریق معاملات کو حل کرنا چاہتا ہے تو دوسرے فریق کو بھی امن کی تجویز کو قبول کرنا چاہیے:”اور اگر وہ (کفار) صلح کے لئے جھکیں تو آپ بھی اس کی طرف مائل ہوجائیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ بیشک وہی خوب سننے والا جاننے والا ہے۔“(08:61)

ﵻوَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِﵺ

[9]–  دونوں اطراف سے خود پسندانہ رویوں کے باوجود ، باہمی مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنا ترجیحی راستہ ہے:”اور صلح (حقیقت میں) اچھی چیز ہے اور طبیعتوں میں (تھوڑا بہت) بخل (ضرور) رکھ دیا گیا ہے۔“(04:128)

ﵻ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۗ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ ۚﵺ

[10]  Conciliation,   Mediation    and   Arbitration    Commission

[11] – کسی بھی مصالحت یا ثالثی کمیٹی میں مزدور اور آجر دونوں  کی طرف سے نمائندگی ہونی چاہیے۔  جس کے بارے میں ہدایت چوتھی سورہ کی آیت 35 میں ہے:”اور اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان مخالفت کا اندیشہ ہو تو تم ایک مُنصِف مرد کے خاندان سے اور ایک مُنصِف عورت کے خاندان سے مقرر کر لو، اگر وہ دونوں (مُنصِف) صلح کرانے کا اِرادہ رکھیں تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، بیشک اللہ خوب جاننے والا خبردار ہے۔“(04:35) اسطرح سے اسلام (alternative   dispute    resolution) کی بھی حمایت کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ لوگ اپنے مسائل باہمی طور پر حل کریں۔

ﵻوَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا  إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًاﵺ

”نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ( غزوہ حنین کے بعد ) جب قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر حاضر ہوا تو انہوں نے درخواست کی کہ ان کے مال و دولت اور ان کے قیدی انہیں واپس کر دیئے جائیں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ سچی بات مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے۔ تمہیں اپنے دو مطالبوں میں سے صرف کسی ایک کو اختیار کرنا ہو گا، یا قیدی واپس لے لو، یا مال لے لو، میں اس پر غور کرنے کی وفد کو مہلت بھی دیتا ہوں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے طائف سے واپسی کے بعد ان کا ( جعرانہ میں ) تقریباً دس رات تک انتظار کیا۔ پھر جب قبیلہ ہوازن کے وکیلوں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ ان کے مطالبہ کا صرف ایک ہی حصہ تسلیم کر سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم صرف اپنے ان لوگوں کو واپس لینا چاہتے ہیں جو آپ کی قید میں ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا، امابعد! یہ تمہارے بھائی توبہ کر کے مسلمان ہو کر تمہارے پاس آئے ہیں۔ اس لیے میں نے مناسب جانا کہ ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ایسا کرنا چاہے تو اسے کر گزرے۔ اور جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا حصہ باقی رہے اور ہم اس کے اس حصہ کو ( قیمت کی شکل میں ) اس وقت واپس کر دیں جب اللہ تعالیٰ ( آج کے بعد ) سب سے پہلا مال غنیمت کہیں سے دلا دے تو اسے بھی کر گزرنا چاہئے۔ یہ سن کر سب لوگ بول پڑے کہ ہم بخوشی رسول اللہ ﷺ کی خاطر ان کے قیدیوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح ہم اس کی تمیز نہیں کر سکتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ اس لیے تم سب ( اپنے اپنے ڈیروں میں ) واپس جاؤ اور وہاں سے تمہارے وکیل (سردار) تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔ چنانچہ سب لوگ واپس چلے گئے۔ اور ان کے سرداروں نے ( جو ان کے نمائندے تھے ) اس صورت حال پر بات کی پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایا کہ سب نے بخوشی دل سے اجازت دے دی ہے۔“(صحیح بخاری: 2307-2308)

اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایک عورت نبی کریم ؐ کی خدمت میں حاضرہو ئی اور عرض کیا کہ عورتوں نے مجھے ایک مسئلے کی وضاحت کیلیے آپؐ کے پاس  اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا  ہے  (اور پھر اس نے جہاد کے متعلق سوال کیا تھا)۔ (ترغیب وترہیب)

﴿أنا وافدة النساء إليك﴾

اجتماعی معاہدوں میں ایک ایسی  شق بھی  شامل کی جا سکتی ہے جس میں اجتماعی معاہدے کے دوران صنعتی امن (industrial   peace   clause)کو برقرار رکھا جاسکے ۔ صلح حدیبیہ (628ء)  کے موقع پر جو سمجھوتہ مسلمانوں اور قریش مکہ کے رہنماؤں کے درمیان طے پایا تھا اس میں مسلمانوں کی مساوات کو بطور شراکت داری تسلیم کیا گیا اور 10 سالہ جنگ بندی کا اعلان کیاگیا تھا۔ ”دونوں  نے اس بات پر صلح کی کہ دس برس تک لڑائی بند رہے گی، اس مدت میں لوگ امن سے رہیں گے، طرفین کے دل ایک دوسرے کے بارے میں صاف رہیں گے اور نہ اعلانیہ لوٹ مار ہو گی نہ چوری چھپے۔“(سنن ابو داؤد:2766)

[12] –  ثالثی اور مفاہمت میں ریاست کا کلیدی کردار  ہوتا ہے۔ اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ حملہ آور یعنی وہ پارٹی جو دوسروں کی حق تلفی کر رہی ہے کے خلاف کارروائی کرے گی ،  قرآن کریم میں ہے:”اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کریں تو اُن کے درمیان صلح کرا دیا کرو، پھر اگر ان میں سے ایک (گروہ) دوسرے پر زیادتی اور سرکشی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کا مرتکب ہو رہا ہے یہاں تک کہ وہ  اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، پھر اگر وہ رجوع کر لے تو  دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو، بیشک  اللہ انصاف کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے۔“(49:09)

ﵻ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَﵺ

مذکورہ بالا آیت کی رو سے  مزدور ہڑتال بھی کر سکتے ہیں تاکہ آجر کو قانون اور اجتماعی معاہدے کی تعمیل پر مجبور کیا جا سکے۔

[13]-  معاہدہ کی خلاف ورزی اور حقوق سے محرومی کے خلاف احتجاج اور ہڑتال کی جا سکتی ہے۔ قرآن  کریم میں ہے: ”  اللہ کسی (کی) بری بات کا بآوازِ بلند (ظاہراً و علانیۃً) کہنا پسند نہیں فرماتا سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہو (اسے ظالم کا ظلم آشکار کرنے کی اجازت ہے)، اور  اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔“(04:148)

ﵻلَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًاﵺ

ٹریڈ یونین کو ہڑتال کرنے کا حق ہے ، اور اگر دوسرا فریق اپنے متعلقہ حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو آجر کو لاک ڈاؤن کا حق حاصل ہے: ” ایک شخص نبی کریم ﷺ سے   (اپنے قرض کا ) تقاضا کرنے آیا، اور سخت گفتگو کرنے لگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غصہ ہو کر اس کی طرف بڑھے لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ کیونکہ جس کا کسی پر حق ہو تو وہ ( بات ) کہنے سننے کا بھی حق رکھتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے قرض والے جانور کی عمر کا ایک جانور اسے دے دو۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! اس سے زیادہ عمر کا جانور تو موجود ہے۔ ( لیکن اس عمر کا نہیں ) آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے وہی دے دو۔ کیونکہ سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو دوسروں کا حق پوری طرح ادا کر دے ۔“(صحیح بخاری:2306)

﴿دَعُوهُ، فإنَّ لِصَاحِبِ الحَقِّ مَقَالًا﴾