فہرست مضامین

قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق – اوقاتِ کار

قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق – اوقاتِ کار

اسلام مزدور پرکام کا   ناقابلِ برداشت بوجھ  ڈالنے سے منع کرتا ہے، اگر کوئی آجر کسی مزدور سے وقت مقررہ سے زیادہ گھنٹے یا اس کی استطاعت سے بڑھ کام لے تو  وہ اس کو مددگار  مہیا کرےیا  علیحدہ سے معاوضہ ادا کرے۔  قرآن کریم میں ہے :

ﵻلَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَاﵺ

” اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔“ (02:286)

اورحضرت موسٰیٰؑ اور حضرت شعیب علیہما السلام کے قصہ میں آجر (حضرت شعیبؑ) نے حضرت موسٰیٰؑ سے فرمایاتھا:

ﵻوَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَﵺ

” اور میں آپ پر (محنت کا زیادہ بوجھ ڈال کر) آپ کو مشقت نہیں ڈالنا چاہتا،   اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے نیک لوگوں میں سے پائیں گے۔“ (28:27)

مذکورہ بالا دو آیات پر غور کرنے سے واضح  ہوتا ہے کہ  آجر اور اجیر کے لئے بنیادی اصول یہ ہے کہ کسی ملازم پر حد سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے ، اور چونکہ اللہ تعالیﷻ بھی جو انسانوں پر مکمل اختیار رکھتا ہے (ان کا خالق ہے) ، لوگوں پر اپنے احکامات پر عمل کرنے میں بوجھ نہیں ڈالتا، اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ  وہ راستبازی اور عزت حاصل کرنے کے لیے ، اپنے ماتحتوں یا ملازمین کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں۔

یہی بات ایک حدیث شریف سے بھی  واضح ہوتی ہے: نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق – اوقاتِ کار

﴿إِنَّ إِخْوَانَكُمْ خَوَلُكُمْ، جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدَيْهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ، وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلاَ تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَأَعِينُوهُمْ ﴾

” تمہارے ہاں کام کرنے والے ملازمین تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالی نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے، سو جس کا بھی کوئی بھائی اس کے  ماتحت ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔لیکن اگر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالو تو پھر ان کی خود مدد بھی کر دیا کرو ۔“[1]

معروف اسلامی اسکالر ، مناظر احسن گیلانیؒ کہتے ہیں کہ حدیث میں ” مزودر کی صلاحیت/قابلیت سے زیادہ اس پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے“ کے الفاظ  کام کی مدت (دن میں کتنے گھنٹے کام ہو گا) اور نوعیت کے تعین (آسان یا مشکل یا پرخطر کام) کے  لیےاستعمال ہوئے ہیں۔

مذکورہ بالا حدیث سے یہ بات واضح ہے کہ کسی ملازم کو وہ کام نہیں سونپا جا سکتا جس میں معمول سے زیادہ وقت لگے یا جو اس کی صلاحیت سے باہر ہو۔ اگر کام  کے لئے اوور ٹائم لگوانا ہو تو ملازم کو اوور ٹائم کا معاوضہ ضروردیں (اس میں اس کی مدد کی جائے گی)۔ تاہم ، ضرورت سے زیادہ اوور ٹائم اور زیادہ بوجھ کسی مزدور کی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے ، اور کسی بھی چیز کا عمومی حد سے  تجاور کرنا  ناقابل قبول ہے۔[2] ایک اور حدیث کے مطابق ماتحتوں کو کام  میں چھوٹ دینا قیامت کے دن باعثِ اجر  ہوگا۔[3]

قرآن و حدیث دونوں میں ہمیں (حفظانِ صحت  کے تحت خطرے سے خالی)محفوظ ملازمت کے بارے میں  بھی بہت کچھ ملتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:

ﵻوَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَﵺ

”اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔“(02:195)

اس آیت سے مراد یہ ہے کہ  انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ کام کی جگہ پر محفوظ حالات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ ابنِ حزمؒ کی روایت  کردہ ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے:” آجروں پرلازم ہے کہ وہ اپنے ملازمین سے صرف وہی کام لیں جو وہ آسانی سے کر سکیں، ان سے اس قدر مشقت والا کام نہ لیا جائے کہ ان کی صحت متاثر ہو۔“[4] ایک اور روایت یہ ہے کہ ”اپنے مزدور یا ملازم پر  کام کا اتنا  بوجھ نہ ڈالو جسے وہ برداشت نہ کر سکے۔“[5]

قرآن کریم  میں  آرام وتفریح  اور پرائیویسی سے متعلق عمومی ہدایات بھی ہیں جسے  ایک مزدور کا بنیادی حق کہا گیا ہے۔(28:73; 33:53)۔ ایک حدیث میں  ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کے جسم کا اس پر حق ہے (کہ حد سے زیادہ  محنت اور توانائی صرف نہ کرے) ، اسکی بیوی  (خاندان)کا اس پر حق ہے  ، اسکی  آنکھ کا اس پر (نفسیاتی یا جمالیاتی حسن اور اطمینان کا) حق ہے اور اسکے ملاقاتیوں (یعنی دوست احباب کا) کا بھی اس پر حق ہے۔“[6]   مذکورہ بالا حوالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام تفریح اور آرام کو مزدوروں کے بنیادی حقوق میں سے ایک  حق سمجھتا ہے۔

جائز تفریح اور لطف اندوزی کے بارے  میں کوئی مذہبی پابندی نہیں ، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ”اللہ اپنی مخلوقات پر اپنے فضل کی نشانی دیکھنا پسند کرتا ہے۔“[7]  جس کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام  لوگوں کو پیسے خرچ کرنے اور اپنی زندگی سے لطف اندوز ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ جہاں تک اس اصول کے عملی اطلاق کا تعلق ہے ،  تو دور دراز مقامات پر تعینات فوجیوں کو سالانہ کم از کم ایک یا دو بار چھٹی دی جاتی تھی، جنابِ عمرؓ ﷜نے حکم نامہ جاری فرمایا تھا کہ کسی فوجی کو اپنے گھر/خاندان سے چار ماہ سے زیادہ دور رہنے پر مجبور نہ کیا جائے[8]۔


 

[1] (صحیح مسلم: 1661 الف) (ادب المفرد: 189)

[2] قرآن  کریم نے ایک قاعدہ  وکلیہ بیان کیا ہے کہ بعض اوقات بظاہر اچھا کام منفی نتائج پیدا کر سکتا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کوئی بھی کام کرتے ہوئے اسکے عواقب و نتائج کو جاننا اور سمجھنا ضروری ہے ، کیونکہ اہم چیزحتمی نتیجہ  ہوتی ہے (06:108)۔

[3] کنز العمال ، مجمع الزوائد۔ ﴿مَا خَفَّفْتَ عَنْ خَادِمِکَ مِنْ عَمَلِه کَانَ لَکَ أَجْرًا فِي مَوَازِيْنِکَ ﴾
(صحیح ابن حبان، کتاب العتق، باب صحبة المماليک4314)

نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ”تم اپنے خادم یا ملازم کی ذمہ داریوں میں جتنی تخفیف کرو گے، اُس کے بدلہ میں اتنا ہی تمہارے نامہ اعمال کے پلڑے میں اُس کا اجر ہو گا۔ “

[4] منان سے اقتباس (1986 ،ص 89)۔

[5] موطا امام مالکؒ ، صحیح مسلم۔

[6] صحیح بخاری: 5199 اور 1974

[7] شعب الایمان: 5719۔ ﴿إنَّ اللهَ تعالى إذا أنعَم على عبدٍ نعمةً ، يحبُّ أن يرى أثرَ النِّعمةِ عليه ، ويكره البُؤسَ والتَّباؤسَ ، ويُبغِضُ السائلَ الملْحِفَ ، ويحبُّ الحييَّ العفيفَ المتعفِّفَ﴾ </سپن>

[8] شبلی نعمانیؒ: الفاروق (حضرت عمرؓ کی سوانح عمری)