فہرست مضامین

کام کاج کی اخلاقیات اور اسلام

قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق – کام کاج کی اخلاقیات اور اسلام

کام کی اخلاقیات (work   ethics)دراصل کام کی ضرورت کے بارے میں خیالات اور مفروضوں کا مجموعہ ہے (کہ کام کیوں کیا جائے) ، کام کی اس ضرورت کے بارے میں لوگوں کے خیالات کہ وہ  کوئی کام کرنے پر کس طرح آمادہ ہوتے ہیں[1]   کام کی اخلاقیات تسلی بخش ملازمت اور تنظیمی وابستگی سے جڑی ہے، کام کاج کی اخلاقیات ہی سے  کام کے بارے میں فرد کا رویہ پتا چلتا ہے جس میں  مالی اور غیر مالی انعامات(incentives) اور معاوضوں کی جستجو ، اونچے عہدے میں ترقی، کسی سرگرمی میں شمولیت وغیرہ شامل ہیں۔

مزدوری کے بارے میں  اسلامی اخلاقیات یا نظریہ قرآن  کریم ، سنت (نبی کریم ﷺکے اقوال اور اعمال) ، نیز صحابہؓ کرام کے اقوال اور اعمال سے اخذ ہوتا ہے، قرآن کریم کام کی اخلاقیات کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کرتا ہے:

﴿وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ﴾

” اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اللہ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)۔“ (53:39)[2] قرآن کریم کی ایک اور آیت میں کام کاج  کو  باعثِ عزت  شمار کرتےہوئے کہا گیا  ہے :

”کہو: کام کرو اور اللہ تمہارا کام دیکھے گا۔“ (09:105) روزی کمانا اتنا ضروری ہے کہ قرآن کریم   حلال رزق کمانے والوں اور جہاد کرنے والوں کا ذکر ایک ہی آیت میں کرتا ہے بلکہ حلال رزق کمانے کیلیے کوشش کرنے والوں کا ذکر مجاہدین سے پہلے کرتا ہے: ”کچھ لوگ زمین میں سفر کرتے ہیں تاکہ  اللہ کا فضل (روزی) تلاش کریں اور کچھ لوگ اللہ تعالی کی راہ میں قتال کرتے ہیں۔“ (73:20) [3]

نبی کریمﷺ نے فرمایا:”اپنے خاندان کی کفالت کے لیے آمدنی کمانے میں مشقت اور تکلیف (محنت) گناہوں کا کفارہ بنتی ہے۔“  [4]اور ”بہترین کمائی وہ ہے جو انسان اپنے ہاتھوں سے کمائے۔“[5]

اسی بات کو خلیفہٴ ثانی حضرت عمرؓ نے یوں فرمایا: ”یہ ایک مسلمان کے لیے بالکل ناپسندیدہ ہے کہ وہ اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے مناسب کوشش نہ کرے اور صرف دعا کرے کہ خدا اسے کھانا دے۔“[6]ایک حدیث کے مطابق طلبِ کسب حلال فرض نمازوں اور دیگر فرائض کے بعد(سب سے اہم) فریضہ ہے۔[7]  اگرچہ کام کاج اور محنت مزدوری کرنا اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ستون نہیں لیکن یہ تمام لوگوں کے لیے فرض ہے ، اور یہ عبادت کی ایک قسم ہے۔”اور اُس سے اچھی بات کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے۔“(41:33)

اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور مکمل عقیدت اور دلجمعی کے ساتھ عبادت میں مصروف رہنا کام کاج  نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺنے ایک آدمی کو مسجد میں ہر وقت عبادت کرتے دیکھا تو پوچھا، اس شخص کی مالی مدد کون کر رہا ہے ، لوگوں نے جواب دیا کہ ہم میں سے ہی  کچھ  لوگ اس کی مدد کر تے ہیں، آپﷺ نے فرمایا کہ” وہ لوگ جو اس  نمازی کی مدد کرتے ہیں وہ اس  نمازی سے بہتر ہیں۔“[8]  کام کاج  کو جہاد فی سبیل اللہ کی ایک شکل بھی کہا گیا ہے ، اور وہ شخص جو اپنے بچوں ، بوڑھے والدین کے لیے روزی روٹی کمانے کی خاطر سخت محنت کرتا ہے یا جو اپنی ذات کے لئے روزی کماتا ہے اس کا مقام  اور رتبہ اللہ تعالیﷻ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے[9]۔ محنت ومشقت سے کمائی گئی روزی کے مقابلے میں    وہ روزی جو کاسہ لیسی یا جو بغیر کسی محنت ومشقت کے کمائی جائے اسلام میں انتہائی ناپسندیدہ ہے۔  اسلام ایک طرف لوگوں کو صدقہ دینے پر آمادہ کرتا ہے جبکہ دوسری طرف سب سے  محنت کا مطالبہ کرتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے ایک شخص لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لاتا اور اسے بیچ کر گزارا کرتا ہے یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے سوال کرے، وہ اسے دے یا انکار کردے۔“[10]   ایک اور حدیث میں ہے کہ”  تندرست آدمی کے لئے صدقہ لینا جائز نہیں۔“[11]  اسی طرح حضرت عمرؓ کا ایک قول ہے کہ ”ایسا پیشہ اختیار کرنا جس میں دنائت (یعنی ظاہری طور پر حقیر) ہو وہ لوگوں سے مانگنے سے بہتر ہے۔“   [12]اگر مقامی طور پر کام کاج یا مزدوری دستیاب نہ ہو تو اسلام کسی ایسی جگہ ہجرت کی اجازت دیتا ہے جہاں کام کاج کے مواقع دستیاب ہوں۔ ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا  کہ ”لوگوں کو معاش یا خاندانی فلاح و بہبود کی تلاش میں دوسرے ممالک ہجرت کرنے کی اجازت ہے۔“ اس کی تائید قرآن کریم کی کچھ آیات سے بھی ہوتی ہے: ”وُہي ہے جس نے تمہارے لئے زمين کو نرم و مسخر کر ديا، سو تم اس کے راستوں ميں چلو پھرو، اور اُس کے (دئيے ہوئے) رِزق ميں سے کھاؤ، اور اُسي کي طرف (مرنے کے بعد) اُٹھ کر جانا ہے۔“ (67:15) اور  ”جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا، وہ زمین میں پناہ کے لیے بڑے ٹھکانے اور بڑی گنجائش پائے گا۔“ (04:97-100)، اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کسی بہتری کے لیے ہجرت کرنے کوپسند فرماتا ہے (چاہے وہ  بہتری روحانی ہو یا دنیاوی کیونکہ اسلام دینی اور دنیاوی سرگرمیوں میں فرق نہیں کرتا)۔ جب کسی شخص کی زندگی یا  عقائد خطرے میں ہوں تو اس کے لئے ہجرت ضروری ہو جاتی ہے ۔ اسلام میں کام کاج  کا مقصد خود انحصاری اور خود کفالت حاصل کرنا ہے، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے پتا چلتا ہے کہ ”اسلام لوگوں سے کہتا ہے کہ وہ اپنے کام پر فخر کریں چاہے  انہیں اس کا معاوضہ بہت کم مل رہا ہو اور حلال کمائی کے حصول کیلیے کوئی پیشہ  بھی حقیر نہی“ ایک اور حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے  کہ نبی کریم ﷺ ہمیشہ کمائی کی اہمیت پر زور دیتے اور پھر ایسی مثالیں دیتے جن  سے پتا چلتا کہ  انبیاء  کرامؑ بھی اپنے لیے کمائی کیا کرتے۔ کیونکہ قرآن بھی  اسی کی تائید کرتاہے کہ ﵻفَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْﵺ ”سو تو انکے طریقے پر چل۔“[13] 

رسول اللہ ﷺنے فرمایا ”کسی انسان نے اس شخص سے بہتر روزی نہیں کھائی، جو خود اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ سے کام کر کے روزی کھایا کرتے تھے۔“[14]

”پیغمبر حضرت زکریا علیہ السلام  ترکھان تھے۔“ [15]

رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ ”اللہ  تعالی نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں “،صحابہ کرامؓ  ﷢نے پوچھا ، ”کیا آپﷺ نے بھی ایسا ہی کیا؟ “ آپ ﷺنے فرمایا: ”ہاں ، میں کچھ قیراط (تانبے کے سکے)کے لیے اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا۔“ [16]

ایک موقع پر جب اونٹوں والے اور بکریوں والے آپس میں فخر کرنے لگے تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: ”موسٰی علیہ السلام مبعوث کئے گئے تو وہ بکریوں کے چرواہے تھے، اور داؤد علیہ السلام مبعوث کئے گئے تو وہ چرواہے تھے اور مجھے اس حال میں مبعوث کیا گیا کہ میں مقام اجیاد میں اپنے گھر والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔“ [17]

محنت پر اس قدر زور کے باوجود بھی ، اسلام آخرت کی اہمیت پر توجہ دیتا ہے۔انسان اس دنیا میں جو بھی اعمال  کرتا ہے  ضروری نہیں کہ اس کا صلہ اُسے  اسی دنیا میں ملے بلکہ اعمال کاحقیقی صلہ تو صرف آخرت میں دیا جائے گا۔ نیز یہ کہ اسلام نتائج کی بجائے  نیت اور محنت پر زیادہ توجہ دیتا ہے ، ایک حدیث شریف میں ہے  آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔“[18] ”جیسا کہ مزدوروں کے ساتھ ناروا سلوک کی اصل سزا آخرت میں ملےگی۔“[19] تاہم  ریاست پر لازم ہے کہ وہ  مزدوروں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے قوانین بنائے ، اس کے ساتھ ہی اسلام نے  روزگار کے مواقع فراہم کرنے کو بہت  اہمیت دی  ہے قرآن کریم میں  ہے کہ” کچھ لوگوں  کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ وسائل سے نوازنے کا مقصد   روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔“[20]


 

[1]Bayat, A. 1992. Work ethics in Islam: A comparison with Protestantism. The Islamic Quarterly 36 (01):05– 27

[2]–  یہی بات  ایک اور  مقام میں یوں بیان کی گئی ہے: ”(یہ سارا رِزق اصلًا) تمام طلب گاروں (اور حاجت مندوں) کے لئے برابر ہے۔“ (41:10)

ﵻوَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَﵺ

[3] ﵻوَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ﵺ

[4] ﴿اِنَّ مِنَ الذُّنُوْبِ ذُنُوْبًا، لاَ تُکَفِّرُھا الصَّلٰوةُ وَلاَ الصِّیَامُ وَلاَ الْحَجُّ وَلاَ الْعُمْرَةُ، قَالُوْا: فَمَا یُکَفِّرُھَا یَا رَسُوْلَ اللہِ؟! قَالَ: اَلْہُمُوْمُ فِيْ طَلَبِ الْمَعِیْشَةِ﴾ مجمع الزوائد: 6239

کام کاج کی اخلاقیات اور اسلام

[5] ﴿مَا كَسَبَ الرَّجُلُ كَسْبًا أَطْيَبَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ، وَمَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى نَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَهْلِهِ وَوَلَدِهِ وَخَادِمِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَهُوَ صَدَقَةٌ .﴾

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:” آدمی کی کوئی کمائی اس کمائی سے بہتر نہیں جسے اس نے اپنی محنت سے کمایا ہو، اور آدمی اپنی ذات، اپنی بیوی، اپنے بچوں اور اپنے خادم پر جو خرچ کرے وہ صدقہ ہے۔“  سنن ابن ماجہ :  2138

ایک اور موقع پر  نبی کریمﷺ نے فرمایا: ” ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے“، صحابہ نے عر ض کیا: اگر کسی کے پاس (صدقہ کرنے کے لئے ) کچھ نہ ہو تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر اپنے دست بازو سے محنت کرے خود بھی  فائدہ اٹھائے اور صدقہ بھی کرے“، صحابہ ﷢ نے عرض کیا اگر وہ اس کی طاقت نہ رکھےیا نہ کر سکے تو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر لوگوں کو نیکی اور بھلائی کا حکم دے“، صحابہ نے عرض کیا: اگر وہ بھی نہ کرسکے؟ پ ﷺ نے فرمایا: ”پھر وہ برائی سے باز رہے بلا شبہ یہ بھی اس کے لئے صدقہ ہے۔“ (ادب المفرد :225 )

﴿قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم‏:‏ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ، قَالُوا‏:‏ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ‏؟‏ قَالَ‏:‏ فَيَعْتَمِلُ بِيَدَيْهِ، فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ، وَيَتَصَدَّقُ، قَالُوا‏:‏ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ، أَوْ لَمْ يَفْعَلْ‏؟‏ قَالَ‏:‏ فَيُعِينُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ، قَالُوا‏:‏ فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ‏؟‏ قَالَ‏:‏ فَيَأْمُرُ بِالْخَيْرِ، أَوْ يَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ، قَالُوا‏:‏ فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ‏؟‏ قَالَ‏:‏ فَيُمْسِكُ عَنِ الشَّرِّ، فَإِنَّهُ لَهُ صَدَقَةٌ﴾

کنز العمال (9852) میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نےایک جوان کو مسجد میں اعلان کرتے دیکھا کہ جہاد پر جانے میں کون اسکی مدد کر سکتا ہے تو جناب عمر ؓ نے اسکو بلا لیا اور اسے ایک انصاری کے پاس اجرت پر ملازم لگوا دیا کچھ عرصہ بعد آپؓ نے ان انصاری سے اس جوان کا پوچھا اور کہا کہ اسے بھی بلائیں اور جو اجرت دینی ہے وہ بھی لیتے آئیں، وہ انصاری اس جوان کو اور دراھم کی ایک تھیلی لےکر آپؓ کے پاس آئے تو  آپ نے اس جوان سے فرمایا: ”یہ تھیلی لے کر چاہے جہاد کرو اور چاہو تو گھر میں بیٹھے رہو۔“

[6] – ایک اور موقع پر حضرت عمرؓنے فرمایا کہ ”اللہ تعالیﷻ کے فضل کی امید لے کر میں  اپنے کام کاج  میں جدوجہد کرتے ہوئے مارا جاؤں یہ میرے لیے اللہ کی راہ  جہاد کرتے ہوئے مارے جانے سے بھی بہتر ہے۔“ (الشیبانی) (ال اشکر اور ولسن (2006 – 107)۔(کنزالعمال: 9853 )میں بھی اسی قسم کا مضمون ہے کہ حضرت  عمرؓ نے فرمایا کہ” اگر میری موت جہاد میں نہ آئے تو میں یہ پسند کروں گا کہ میری موت آئے اور میں اپنے دونوں کجاووں کے درمیان(یعنی تجارت اور سفر کرتے  ہوئے) اللہ کا فضل اور رزق تلاش کر رہا ہوں“ اور پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی  ”اور دوسرے لوگ جو زمین میں چل پھر کر اپنا رزق تلاش کرتے ہیں۔“)

[7] – ﴿طلب كسب الحلال فريضة بعد الفريضة﴾ ”حلال کمائی کی تلاش فرائض (فرض نماز اور دیگر فرائض) کے بعد اہم  فرض ہے۔“ (مجمع الزوائد ، جلد 10 صفحہ 291 اور فی القادر ، حدیث: 5271 بیہقی شعب الایمان: 8741)  ۔

رسول اللہ ﷺنے ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿طلب الحلال واجب على كل مسلم﴾”حلال روزی کمانا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ “(مجمع الزوائد ، جلد 10 صفحہ 291 اور ترغیب ، جلد 2 صفحہ 546)

[8] مسند احمد

امام غزالیؒ نے اپنی کتاب احیاءالعلوم میں اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے جس میں انہوں نے ایک شخص سے سوال کیا کہ تم کیا کرتے ہو، اس نے عرض کیا کہ میں عبادت کرتا ہوں، اس پر آپ نے استفسار فرمایا کہ تمھاری کفالت کون کرتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ میرا بھائی، اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ”تمھارا بھائی تم سے بڑا عبادت گزار ہے۔“ (احیاءالعلوم، جلد دوم، کسب کی اقسام اور تجارت و کاریگری کے آداب)

امام ماوردیؒ نے اپنی کتاب ادب الدین والدنیا میں یہ حدیث روایت کی ہے: نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک شخص کا ذکرِخیر کیا گیا اور لوگوں نے اسکے بارے میں کہا کہ : اے اللہ کے رسولؑ! وہ آدمی ہمارے ساتھ حج کیلیے نکلا ، پس جب ہم کسی جگہ پڑاوٴ کیلیے اترتے تو وہ نماز میں مشغول ہو جاتا یہاں تک کہ ہم وہاں سے کوچ کرتے، جب ہم سواریوں پر سوار ہوتے تو وہ اللہ کے ذکر میں مشغول رہتا، یہاں تک کہ ہم کسی جگہ پڑاوٴ کرتے، آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ اسکی اونٹنی کو چارہ کون ڈالتا تھا اور اسکا کھانا کون تیار کرتا تھا؟ تو صحابہؓ نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسولؑ، ہم سب یہ کام کرتے تھے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم سب اس سے بہتر ہو  (کیونکہ کسی ذاکر کی دنیاوی اور معاشی ضروریات کیلیے محنت  کرنے والا اس ذاکر سے بہتر ہے)( امام ماوردیؒ ،ادب الدین والدنیا، فصل البر)

﴿ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَذَكَرَ فِيهِ خَيْرًا ، فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ خَرَجَ مَعَنَا حَاجًّا فَإِذَا نَزَلْنَا مُنْزِلًا لَمْ يَزَلْ يُصَلِّي حَتَّى نَرْحَلَ ، فَإِذَا ارْتَحَلْنَا لَمْ يَزَلْ يَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى نَنْزِلَ .فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : (فَمَنْ كَانَ يَكْفِيهِ عَلَفَ نَاقَتِهِ وَصُنْعَ طَعَامِهِ؟)
قَالُوا كُلُّنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ .قَالَ : (كُلُّكُمْ خَيْرٌ مِنْهُ) ﴾  رواه أبو داود في ((المراسيل))، وقال الألباني في ضعيف الترغيب والترهيب
(1578)

[9] – طبرانی ، مجمع الکبیر: 282:بیہقی، شعب الایمان : 4853

ایک روز صبح سویرےنبی کریمﷺ صحابہ کرامؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ صحابہ کرام ؓنے ایک طاقتور اور مضبوط جسم والے نوجوان کو روزگار کے لئے بھاگ دوڑ کرتے دیکھ کر کہا؛ کاش اس کی جوانی اور طاقت اللہ کی راہ میں خرچ ہوتی تو رحمت ِعالمﷺ نے ارشاد فرمایا”ایسا مت کہو۔کیونکہ اگر وہ محنت و کوشش اس لئے کرتا ہے کہ خود کو سوال کرنے (مانگنے) سے بچائے اور لوگوں سے بےپرواہ ہوجائے تو یقینا وہ اللہ کی راہ میں ہے۔ اور اگر وہ اپنے ضعیف والدین اور کمزور اولاد کے لئے محنت کرتا ہے تاکہ انہیں لوگوں سے بےپرواہ کردے اور انہیں کافی ہوجائے تو بھی وہ اللہ کی راہ میں ہے اور اگر وہ فخر کرنے اور مال کی زیادہ طلبی کے لئے بھاگ دوڑ کرتا ہے تو (پھر)وہ شیطان کی راہ میں ہے۔“

﴿عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ: مَرَّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَرَأَى أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جَلَدِهِ ونَشَاطِهِ مَا أَعْجَبَهُمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ كَانَ هَذَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ كَانَ خَرَجَ يَسْعَى عَلَى وَلَدِهِ صِغَارًا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَإِنْ خَرَجَ يَسْعَى عَلَى أَبَوَيْنِ شَيْخَيْنِ كَبِيرَيْنِ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَإِنْ كَانَ يَسْعَى عَلَى نَفْسِهِ يَعِفُّها فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَإِنْ كَانَ خَرَجَ رِيَاءً وتَفَاخُرًا فَهُوَ فِي سَبِيلِ الشَّيْطَانِ﴾

[10] ﴿لأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُم أَحبُلَهُ، ثُمَّ يَأْتِيَ الجَبَلَ، فَيَأْتِي بحُزْمَةٍ مِن حَطَبٍ عَلى ظَهْرِهِ فَيَبيعَهَا، فَيَكُفَّ اللَّه بِهَا وَجْهَهُ؛ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَن يَسأَلَ النَّاسَ أَعْطَوْهُ، أَوْ مَنَعُوهُ﴾ (ریاض الصالحین:  539)

[11] ﴿لاَ تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ وَلاَ لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ﴾  ”کسی امیر ، توانا اور صحت مند شخص کے لیے صدقہ لینا جائز نہیں۔ “ (سنن ابن ماجہ: 1839)

[12]  کنزالعمال: 9850

[13]  (06:90)

[14]  ﴿مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ دَاوُدَ ـ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ـ كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ﴾      (صحیح بخاری: 2072)

[15] ﴿كَانَ زَكَرِيَّاءُ نَجَّارًا﴾ (صحیح مسلم:2379)

[16]  ﴿مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلاَّ رَعَى الْغَنَمَ ‏‏‏.‏ فَقَالَ أَصْحَابُهُ وَأَنْتَ فَقَالَ ‏‏ نَعَمْ كُنْتُ أَرْعَاهَا عَلَى قَرَارِيطَ لأَهْلِ مَكَّةَ﴾ (صحیح بخاری:2262)

جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ بکریاں نہ ملنے پر رسول کریمﷺ نے حضرت خدیجہؓ کی ایک  بہن کے اونٹ بھی اجرت پر چَرائے تھے۔ (مجمع الزوائد: جلد 9)

[17]  ﴿تَفَاخَرَ أَهْلُ الإِبِلِ وَأَصْحَابُ الشَّاءِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم‏:‏ بُعِثَ مُوسَى وَهُوَ رَاعِي غَنَمٍ، وَبُعِثَ دَاوُدُ وَهُوَ رَاعٍ، وَبُعِثْتُ أَنَا وَأَنَا أَرْعَى غَنَمًا لأَهْلِي بِأَجْيَادِ﴾ (ادب المفرد:577)

امام ابن حجر عسقلانیؒ نے اپنی کتاب (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ) میں حضرت سعد انصاریؓ کے متعلق لکھا ہے کہ نبی کریمﷺ نے جب ان سے مصافحہ کیا اور انہوں نے بتایا کہ ”میں پھاوڑا (یا ہتھوڑا) چلاتا ہوں، محنت مزدوری کرتا ہوں اور اس سے اپنے گھر والوں کو کھلاتا ہوں“ تو آپؐ نے ان کے ہاتھ چومتے ہوئے فرمایا: ”یہی وہ ہاتھ ہے جس سے اللہ اور اسکا رسولؐ محبت کرتے ہیں۔“

[18] ﴿إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى﴾ (صحیح بخاری:1)

[19] نبی اکرم ﷺکا ارشاد ہے: ” وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جو ماتحت لوگوں (خادموں اور ملازمین) کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے۔“ (جامع ترمذی: 1963)

[20] ﵻنَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّاﵺ

” ہم اِن کے درمیان دنیوی زندگی میں ان کے (اسبابِ) معیشت کو تقسیم کرتے ہیں اور ہم ہی ان میں سے بعض کو بعض پر (وسائل و دولت میں) درجات کی فوقیت دیتے ہیں، تاکہ وہ باہمدگر ایک دوسرے سے کام لے سکیں (اور اس طرح روزگار کے مواقع پیدا ہوں) “۔ (43:32)