فہرست مضامین

قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق – تنخواہیں /اجرت

قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق – تنخواہیں /اجرت

قرآن مجید میں ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام نے موسٰی علیہ السلام کو مخصوص مدت یعنی آٹھ سال    یا دس سال کے لئےاپنا ملازم رکھا تھا:  (28: 26-27) [1]

ایک مقام پر  جب لوگوں نے حضرت ذوالقرنین علیہ السلام سے دیوار بنانے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس کے بدلے خراج یا اجرت دینے کو تیار ہیں (18:94) تو حضرت ذوالقرنین علیہ السلام نے   انہیں کہا کہ ميرے پاس اللہﷻ کا دیا ہوا بہت کچھ ہے آپ   لوگ  صرف مجھے دیوار کی تعمیر کے لئے  افرادی قوت مہیا کریں۔  قرآن کریم زکوٰة جمع اور تقسیم کرنے کے لئے  بھی ملازمین  بھرتی کرنے کا حکم دیتا ہے اور ایسے ملازمین کی تنخواہ  زکوٰة کی جمع شدہ رقم میں سے اداکرنے کی بھی اجازت دیتا ہے ۔ (09:60)

نبی کریم ﷺکی حیات مبارکہ میں صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت (اصحاب صفہ) جو مسجد نبوی کے قریب رہائش پذیر تھی ، اور حضور اکرمﷺ کے لئے بطور کلرک اور سفیر کام کرتے،  یہ لوگ اسلامی ریاست کے پہلے سرکاری ملازم بھی تھے۔[2]

اجرت کے تعین اور مقدار مقرر کرنے کے بارے میں  ہم نے قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں مندرجہ ذیل  چھ بڑے اصولوں کی نشاندہی کی ہے  ۔

پہلا اصول :

اجرت  مزدور کا حق ہے ، آجر کی طرف سے احسان نہیں ، آیت مبارکہ میں آتا  ہے: ”جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان کے لئے ختم نہ ہونے والا (دائمی) اجر ہے“ (95:06)[3] معاہدہ ملازمت (چاہے معاہدات واضح ہوں یا مضمر)کے جدید تصورات کی پیش گوئی کرتے ہوئے نبی کریمﷺ نے مزدور کو کام کی اجرت مقرر  کیے بغیر بھرتی کرنے اور کام کروانےسے منع کیا ہے۔[4] قرآن و حدیث سے درج بالا مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ مزدور کو اس کے کام اور اجرت کے بارے میں واضح طور پر آگاہ کیا جانا چاہیے کہ اسے اپنا کام یا مدت ملازمت پوری کرنے پر کیا اجرت ملے گی۔ اجرت کی یہ وضاحت زبانی یا تحریری شکل میں ہوسکتی ہے، تاہم  اگر کسی کام کی کوئی روایتی اجرت مقرر ہو اور دونوں فریق اس سے آگاہ ہوں تو اس صورت میں  اجرت کی وضاحت ضروری نہیں ہے۔

دوسرا اصول:

اجرت کا دوسرا اصول یہ ہے کہ مزدور کیلئے مقرر کردہ اجرت اس کی  بنیادی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے  کافی ہو، یوں اسلام نہ صرف کم از کم بلکہ ایک  ایسی منصفانہ اجرت مقرر کرنے کا حکم د یتا ہے جو اس کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے کافی ہوں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

ﵻوَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِﵺ

” اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے۔“ (02:233)  مذکورہ آیت میں لفظ ”معروف“(مناسب) سے  مراد ” زمان ومکان کا رواج“ ہے، لہذا ، اس آیت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاوضہ کی  کم از کم  مقدار  وہ ہے جس سے بنیادی ضروریات پوری ہوں ،(نزول قرآن کے وقت خوراک اور لباس بنیادی ضروریات تھیں اور خوراک اور لباس کا ذکر کرکے تمام ضروریات زندگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے)۔اس ضمن میں نبی کریمﷺسے متعدد روایات منقول ہیں۔

نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ”ایک ملازم (مرد/عورت) کم از کم درمیانے درجہ کے عمدہ کھانے اور کپڑوں کا حقدار ہے “ اور ”کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے “ [5] اور یہ کہ مقرر کردہ اجرت ”ان (مزدوروں) کی بنیادی ضروریات کے لئے کافی ہو“ [6]   ایک اور موقع پر نبی کریمﷺ نے ارشاد  فرمایا:

”تمہارے ہاں کام کرنے والے ملازمین تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالی نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے، سو جس کا بھی کوئی بھائی اس کے  ماتحت ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے۔“[7]

ایک اور موقع پر رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ ”ہر انسان کے کم از کم تین حقوق ہیں: رہنے کیلیے گھر، تن ڈھکنے کیلیے کپڑا/لباس، اور پانی اور روٹی کا ٹکڑا۔“ [8]

سورہ طٰہ کی کچھ آیات کے مطالعے سے بھی  ظاہر ہوتا ہے کہ بنیادی ضروریات چار ہی ہیں جنکی جنت میں فراہمی آدمؑ کیلیے آسان بنا دی گئی تھی۔ اور وہ روٹی، پانی، کپڑا اور مکان ہی ہیں۔” اس پر ہم نے آدمؑ سے کہا کہ ”دیکھو، یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہےکہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنتی زندگی سے نکال باہر کرے۔(اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم زندگی کی ضروریات سے‘ جو تمہیں اس وقت اس آسانی سے فراواں میسر ہیں‘ محروم ہوجاؤگے۔ اور پھر ان کے حصول کے لئے) تم جگر پاش مشقتوں (فَتَشقٰی) میں پڑ  جاوٴ گےیہاں تو تمھیں یہ آسایش ہے کہ نہ اِس میں بھوکے (تَجُوعَ) رہتے ہو نہ لباس( تَعرٰی) کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ پیاس ( تَظمَؤُا) کا خوف ہے‘ نہ سورج کی تپش ( تَضحٰی)کا۔ (تمہارے لئے کھانے کو روٹی۔ پینے کو پانی۔ پہننے کو کپڑا اور رہنے کومکان۔ سب کچھ بلا مشقت موجود ہے)۔“(20:117-119)(مفہوم القرآن)

ابتدائے اسلام کے تاریخی مطالعے سےیہ بات  ثابت ہوتی ہے کہ حضرت عمر  ؓنے فوجی جوانوں کے لئے اجرت مقرر فرمائی تھی اس اجرت  پر   دورانِ ملازمت  مختلف معیارات جیسا کہ مدت ملازمت، بہترین کارکردگی اور علمی قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نظر ثانی کی جاتی ۔[9]

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں کم سے کم اور   زیادہ سے زیادہ اجرت دونوں کے بارے میں رہنمائی موجود ہے ، اس میں کم سے کم اجرت کی تو  وضاحت کر دی گئی ہے تاکہ کسی مزدور کی بنیادی ضروریات کما حقہ پوری ہوسکیں۔ اسی طرح  انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے  میں جس طرح ”انصاف پسند اور مناسب معاوضہ“  کی بات کی گئی ہے اسی طرح ، اسلام کا موقف ہے کہ ملازمین   کو اتنی تنخواہ ملنی  چاہئے کہ اس سے بتقاضائے بشری اس کی او راس  کے خاندان کی تمام ضروریات پوری ہو سکیں۔

ایک اور حدیث میں ہے :” سرکاری ملازم کے پاس اگر اپنا کوئی مکان نہیں ہے ، تو اسے مکان ملنا چاہئے (یعنی حکومت اسے رہائش فراہم کرے)،اگر وہ شادی شدہ نہیں ہے تو ، اس کی شادی کرائی جائے(یعنی اسکی شادی کے اخراجات حکومت ادا کرے)، اور اگر اس کے پاس سواری نہیں تو اسے سواری دی جائے اور یہ  (حکومت کی ذمہ داری ہے) ۔“[10]

اجرتوں کے مقرر کرنے میں  حالات و زمانہ کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے اور درج ذیل آیات کو مدِنظر رکھتے ہوئے آجر زیادہ مہنگائی کی صورتوں اور نفع ہونے کی صورت میں اجرتوں کو بڑھا سکتا ہے:

وَأَنفِقُواْ مِمَّا جَعَلَكُم مُّسۡتَخۡلَفِينَ ”اور خرچ کرو اس مال میں سے جس میں اس نے تم کو امین بنایا ہے۔“ (57:07)

كَيۡ لَا يَكُونَ دُولَةَۢ بَيۡنَ ٱلۡأَغۡنِيَآءِ مِنكُمۡۚ ”تاکہ مال و دولت کی گردش تمہارے مال داروں ہی کے اندر محدود ہو کر نہ رہ جائے۔“ (59:07)

وَيَسۡـَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَۖ قُلِ ٱلۡعَفۡوَۗ ﵺ ”اور وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں کہہ دو کہ جو ضروریات سے بچ رہے۔“ (02:219)

 

مذکورہ بالا احادیث کے احکامات کو یکجا کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام نے آجروں  کو  حکم دیا ہے  کہ وہ مزدوروں کی رہائش ، طبی سہولیات ، ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت ، نقل و حمل اور کھانا فراہم کریں۔ ضروریات زندگی اور رہائش کی کم سے کم مقدار مقرر کرنے کی وجہ  (جو حالات وواقعات کے حساب سے مختلف ہو سکتی ہے تاکہ وضاحت میں آسانی ہو)  اسلام  کی زیادہ توجہ حقیقی اجرت پر ہے جسے میں ظاہری اجرت کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب مقدار میں بڑھایا  یا کم یا پھر اپنی مقدار میں برقرار رکھا جا سکتا ہے۔([11])خلاصۂ کلام یہ کہ  ایک ” مناسب “ ، ” معقول “ یا ” مثالی “ اجرت کی کم سے کم مقدار کا تعین کرنا اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہے۔اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قابلِ گزارہ یا کفافی اجرت(living wage)  اور اجرتِ صحیحہ (real wage) کا تعین اسلامی اصولوں کےعین  مطابق  ہے۔

تیسرا اصول

اجرتوں کے تعین میں تیسرا اصول یہ ہے کہ موجودہ حالات جیسے کہ مہنگائی ، علاقائی قیمتوں میں تفاوت اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اجرت طے کی جانی چاہئے۔ حضرت عمرؓ ﷜شہر میں مروجہ حالات اور ملازمین کی ذاتی ضروریات کو مد نظر رکھ کر اجرتوں  کا تعین فرمایا کرتے۔ ایک روایت سے یہ  بھی ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ غیر شادی شدہ افراد کے مقابلے میں شادی شدہ اور اہل وعیال والوں کو مال فئے میں سے دوگنا حصہ دیا کرتے۔[12]

چوتھا اصول

چوتھا اصول اجرت کی بروقت  اور پوری پوری  ادائیگی ہے۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا:” مزدور کو اس  اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو “ [13]، اسی بارے میں  ایک اور حدیث ہے ،
رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ” امیر شخص کا دولت پاس  ہوتے ہوئے بھی  مزدور(قرض خواہ) کی ادائیگی میں تاخیر کرنا ظلم ہے (اور جرم ہے)۔“ [14]یہ احادیث ایک عام اصول کو ظاہر کرتی ہیں کہ اجرت کا فوری ادا کرناضروری ہے ، اورکوئی  آجر ملازم کی اجرت کو غیر ضروری طور پر نہیں روک سکتا۔تاہم ، مزدور اور آجر روزانہ ، ہفتہ وار ، پندرہ  روزہ یا ماہانہ بنیادوں پر اجرت کی ادائیگی کو  باہمی طور پر طے کر سکتے ہیں۔

پانچواں اصول

اجرت کی ادائیگی کے حوالے سے پانچواں اصول اس کی یکمشت ادائیگی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:” میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت۔“ (03:195)نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰﷻ فرماتے ہیں: ”تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ روز قیامت میں خود ان سے جھگڑوں گا:”ایک وہ آدمی جو میرا نام لے کر عہد کرے پھر اسے توڑ ڈالے، دوسرا وہ شخص جو کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائے، اور ایک وہ آدمی جو کسی مزدور کو اجرت پر رکھے تو اس سے پورا کام لے لیکن اسے اجرت نہ دے۔“[15]اس حدیث میں تیسرے شخص کا موازنہ اس شخص  سے کیا گیا ہے جس نے ایک آزاد شخص کو غلام بنایا اور اسے پیسوں کے عوض بیچا۔ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مزدور (مرد/ عورت)  کو نہ صرف اس کے کام کی پوری مزدوری ملنی چاہئے بلکہ اس حدیث میں جبری مشقت کی بھی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔  کسی مزدور کی اجرت روکنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے ۔ اس حدیث  میں اجرت کم ادا  کرنے (underpayment of wages) اور اجرتوں کے سرقے (wage theft) کے مسئلے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے[16]۔

رسول اللہ ﷺکے بارے میں روایت ہے کہ آپ نے کبھی کسی مزدور کو اس کے حق سے کم نہیں دیا[17]۔

قرآن کریم  کی مختلف آیات اس موضوع کو کافی واضح انداز میں پیش کرتی ہیں، ایک جگہ ارشاد ہے:

ﵻوَيَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَﵺ‎

” اور اے میری قوم! تم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور فساد کرنے والے بن کر ملک میں تباہی مت مچاتے پھرو۔“(11:85)

ﵻوَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ‏ ‏۝ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَﵺ

”اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم (تول کے ساتھ) مت دیا کرو اور ملک میں (ایسی اخلاقی، مالی اور سماجی خیانتوں کے ذریعے) فساد انگیزی مت کرتے پھرو۔“(26:182)۔ ایک او رمقام میں ارشاد ہے:

ﵻأَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ ٨‏ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَﵺ

”یہ کہ تم تولنے میں بے اعتدالی نہ کرو، اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو کم نہ کرو۔“(55:07)

ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیﷻ کسی شخص کو اس کے حق سے کم ادائیگی کونا پسند کرتے ہیں، یہ انتہائی غلط  ہے کہ ایک آدمی کام تو پورا لے لیکن معاوضہ کم دے، یا ایک آدمی کام کم کرے اور معاوضہ پورا طلب کرے۔

قرآن  کریم نے اجرت میں کمی بیشی کو بھی مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:

ﵻوَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ‏۝ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ ‏۝ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَﵺ

”بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے، یہ لوگ جب (دوسرے) لوگوں سے ناپ لیتے ہیں تو (ان سے) پورا لیتے ہیں، اور جب انہیں (خود) ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں۔“(83:02)

اس آیت میں  لفظ    ” تطفیف  “سے  مراد  وہ  آجر  ہے  جو    ملازم  سے  پورا  کام   لیتا   ہے   (جیسا  کہ  اوپر  حدیث  میں  بیان کیا گیاہے) ،لیکن  جب ادائیگی کا  وقت آتاہے تو ملازم کو پوری  اجرت نہیں ملتی۔ اسی  پیرایہ  میں نبی کریمﷺ  کی یہ حدیث بھی ہے کہ ” سیدھے سادھے  گاہک کو دھوکہ دینا (جسے مزدور یا آجر سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے) سود  اور ناجائز فائدہ ہے۔“[18] قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس آیت کی تشریح  میں وہ مزدور بھی شامل ہے جو اجرت تو پوری لیتا ہے لیکن  اپنا کام  پورا نہیں کرتا ۔

چھٹا اصول

اسلام میں مساوی کام کے لیے مساوی تنخواہ کا حکم ہے۔ مزدور کیلیے یہ حکم ہے کہ پوری تنخواہ کے حصول کے لئے پورا کام کرے اور  آجر کیلیے  یہ حکم ہے کہ کام پورا کرنے پر مزدور کو پوری تنخواہ اداکرے۔اسلام میں ہر کام (خواہ  وہ صحیح ہو یا غلط)  پر جزا یا سزا ملتی ہے، ایسے کام کی ادائیگی میں جنس (مرد وعورت)، رنگت (سفید و سیاہ)  یا کسی بھی قسم   کی نسل ، مذہب  یا زبان کی بنیاد پر  کوئی  امتیاز نہیں ۔  اور جیسے مرد کام کرنے کے مکلف ہیں اسی طرح خواتین بھی ہیں۔

ﵻأَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰﵺ

”یقیناً میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت۔“(03: 195)

اور ایک مقام پر ارشاد باری تعالی ہے:

ﵻمَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَﵺ

”جو لوگ (فقط) دنیوی زندگی اور اس کی زینت (و آرائش) کے طالب ہیں ہم ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ اسی دنیا میں دے دیتے ہیں اور انہیں اس (دنیا کے صلہ) میں کوئی کمی نہیں دی جاتی۔“

عدم تفریق کا یہ اصول  رسول اللہ ﷺکے آخری خطبے سے بھی ثابت ہے ، ارشاد مبارک ہے: ”کسی عربی کو عجمی پر، کسی عجمی کو عربی پر، کسی سرخ کو سیاہ پر اور کسی سیاہ کو سرخ پر کوئی برتری حاصل نہیں ، اللہ تعالیﷻ کے ہاں برتری اور فضیلت کا معیار تقوٰی ہے۔“ [19] کچھ دیگر  آیات  مبارکہ میں ہے :

ﵻفَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ۝وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُﵺ

” تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے (بھی) دیکھ لے گا۔“(99:07–08) ،

ﵻوَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَٰذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا ۚ وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا ۗ وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًاﵺ

” اور (ہر ایک کے سامنے) اَعمال نامہ رکھ دیا جائے گا سو آپ مجرموں کو دیکھیں گے (وہ) ان (گناہوں اور جرائم) سے خوفزدہ ہوں گے جو اس (اَعمال نامہ) میں درج ہوں گے اور کہیں گے: ہائے ہلاکت! اس اَعمال نامہ کو کیا ہوا ہے اس نے نہ کوئی چھوٹی (بات) چھوڑی ہے اور نہ کوئی بڑی (بات)، مگر اس نے (ہر ہر بات کو) شمار کر لیا ہے اور وہ جو کچھ کرتے رہے تھے (اپنے سامنے) حاضر پائیں گے، اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہ فرمائے گا۔“ (18:49)

مذکورہ بالا تمام آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کسی مزدور کو اس کے کام کی اجرت کسی کمی بیشی کے بغیر پوری پوری ادا کرنے کا حکم دیتا ہے ، اس سلسلے میں وہ کسی قسم کا جنسی ، مذہبی، نسلی ، علاقائی بنیادوں پر کسی امتیازی سلوک  کی اجازت نہیں دیتا۔

مساوی تنخواہ سے متعلق ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام اجرت میں فرق کی اجازت دیتا ہے۔ اجرت میں فرق مختلف وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے ، جیسا کہ غیر مالی فوائد میں فرق ، تربیت کی لاگت میں فرق ، مزدوروں کی نقل و حرکت کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کی سوجھ بوجھ کی بنا پر بھی مزدوروں کی اجرتوں میں فرق ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل  ذکر ہے کہ قرآن کریم اجرت کے اس فرق کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ قابلیت کی بنا پر اجرت میں کمی بیشی کی اجازت بھی دیتا ہے، آیت مبارکہ میں ہے:

ﵻإِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُﵺ

” بیشک بہترین شخص جسے آپ مزدوری پر رکھیں وہی ہے جو طاقتورو امانت دار ہو۔“ (28:26)

اسلام میں  تنخواہ میں برابری کا  کوئی ایسا سخت تقاضا نہیں  (منان 1986ء)، بلکہ قابلیت کی بنیاد پر کمائی میں تنوع  کو بھی جائز قرار دیتا ہے، اس طرح ترغیبی تنخواہ کے نظام کو بھی درست کہا گیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے:

ﵻوَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَﵺ

”اور تم اس چیز کی تمنا نہ کیا کرو جس میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا۔“  (04:32)

ایک اور آیت میں قرآن اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ” جن لوگوں نے اچھے کام کئے ان کے لئے ویسا ہی اچھا بدلہ ہوگا اور اس سے زیادہ بھی۔“ (10:26)

ﵻلِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌﵺ

اس سے جو اصول ہم اخذ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے اچھا کام کرنے والےمزدوروں /محنت کشوں   کو بونسز (bonuses) بھی دیے جا سکتے ہیں اور زیادہ تنخواہیں بھی۔ اصول بس اتنا ہی ہے کہ کسی بھی ورک پلیس(کام کی جگہ) پرمزدوروں /محنت کشوں   کے درمیان امتیاز صرف اور صرف کام کی بنیاد پر ہو جیسا کہ قرآن کہتا ہے:

” ا ور ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجے ملیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال کے پورے بدلے دے اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا۔“(46:19)

ﵻوَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا ۖ وَلِيُوَفِّيَهُمْ أَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَﵺ

قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق – تنخواہیں /اجرت

اور یہ کہ جو لوگ زیادہ محنت کریں انکی حوصلہ افزائی بھی کی جاسکتی ہے اور انکو زیادہ اجرت بھی دی جا سکتی ہے، مثال کے طور پر یہ حدیث دیکھیے:”جو شخص قرآن کے پڑھنے میں ماہر ہو، وہ معزز اور نیک سفراء  (فرشتوں) کے ساتھ ہو گا، اور جو شخص قرآن کو اٹک اٹک کر پڑھتا ہو اور اسے پڑھنے میں مشقت ہوتی ہو تو اس کو دو گنا ثواب ہے۔“[20]

ان آیات اور احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے حکومتیں بنیادی اور قابل گزارہ اجرتوں کا تعین کر سکتی ہیں اور آجران اور کمپنیاں کارکردگی  یا اس کام کیلیے ضروری مہارت یا اس میں درپیش مشقت کو سامنے رکھتے ہوئے  اس بنیادی اجرت  میں مزید اضافہ کر سکتی ہیں۔

 


 

[1]– باضابطہ نوکری سے پہلے ، حضرت  شعیب (علیہ السلام)  حضرت موسٰیٰؑ (علیہ السلام) کے پاس پیغام بھیجتے ہیں کہ وہ ریوڑ کو پانی پلانے کی ادائیگی کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کریم  نے اس واقعے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ”پھر (تھوڑی دیر بعد) ان کے پاس ان دونوں میں سے ایک (لڑکی) آئی جو شرم و حیاء (کے انداز) سے چل رہی تھی۔ اس نے کہا: میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ وہ آپ کو اس (محنت) کا معاوضہ دیں جو آپ نے ہمارے لئے (بکریوں کو) پانی پلایا ہے۔“ (28:25)  اس آیت سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اگر کوئی رضاکار کے طور پر بھی  کام کردے تو اس کو کچھ نہ کچھ دینا چاہیے اور اس رضاکارانہ تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے اس شخص کو ملازمت بھی دی جا سکتی ہے۔

اجرت اور کام کا مسئلہ  حضرت موسٰیٰؑ (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) کی قصے میں کئی بار اجاگر کیا گیا ہے۔
(18: 65-82)

نبی کریمﷺ نے ایک دفعہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی  ملازمت کا ذکر کر کے فرمایا کہ: ”انہوں نے آٹھ یا دس برس اس طرح سے مزدوری کی کہ اس مدت میں وہ پاک دامن بھی رہے اور اپنی کمائی کو بھی پاک رکھا۔“ (سنن ابن ماجہ: 2444)

﴿ إن موسى صلى الله عليه وسلم آجر نفسه ثماني سنين او عشرا على عفة فرجه وطعام بطنه﴾

[2] –  کہف ، ایم 1987. ابتدائی اسلامی پبلک ریونیو سسٹم: اسباق اور مضمرات۔ جدہ: اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (IRTI)۔

Kahf, M. 1987. The early Islamic public revenue system: Lessons and implications. Jeddah: IRTI.

[3] – اسی طرح قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ”اور یہ جس طرح کا بھی اچھا کام اور نیکی کریں گے اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔“ (03:115)

[4] بیہقی اور عبدالرزاق نے  المصنف میں ذکر کیا۔اسکے علاوہ مسند احمد  دیکھیں (11565)

﴿أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن استئجار الأجير حتى يبين له أجره ﴾

[5] صحیح مسلم اور مؤطا امام مالک

[6] مجمع الزوائد

[7] – صحیح بخاری: 2545

﴿ إِنَّ إِخْوَانَكُمْ خَوَلُكُمْ جَعَلَهُمُ اللہُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ، فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ، وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ﴾

[8] جامع ترمذی:2341

﴿ليس لابن آدم حق في سوى هذه الخصال بيت يسكنه، وثوب يواري عورته، وجلف الخبز والماء﴾

[9] – علامہ شبلی نعمانیؒ – الفاروقؓ (جس میں حضرت عمر فاروق ؓخلیفہ ثانی کی سوانح عمری بیان کی گئی ہے)۔

”فقہ حضرتِ   عمرؓ “ میں بیان ہے کہ” ایک روز حضرت عمرؓ نے مال فئے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ میں اس فئے کا تم سے زیادہ مستحق نہیں ہوں اور ہم میں سے کوئی بھی اسکا زیادہ حقدار نہیں ہے البتہ ہم ان امور کے پابندہیں کہ جو کتاب اللہ نے مقرر کیے ہیں اور اس تقسیم کے پابند ہیں جو رسول اللہﷺ نے فرمائی، علاوہ بریں ہم آدمی کی (ایمان میں)سبقت، (میدان جہاد میں)اس کی کارکردگی، اسکی عیالداری، اور اسکی ضروریات کو بھی ملحوظ رکھیں گے۔“(فقہ حضرتِ      عمرؓ  : رواس قلعہ جیؒ، ص 670)

مال فئے سے وہ مال مراد ہے جو دشمن سے بغیر جنگ کے حاصل ہوا ہو۔ ”فئے“ کے معنی لوٹانے کے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ اس مال کو غاصبوں سے لے کر اس کے حقیقی حق داروں کو لوٹا دیتا ہے۔  مال فےکے مصارف قرآن نے خود بتا دیے ہیں کہ یہ کل کا کل اللہ، رسولﷺ، رسولﷺ کے متعلقین ، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہو گا۔ یعنی اس میں مجاہدین  کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

[10] – سنن ابو داؤد ۔2945

‏‏ ﴿مَنْ كَانَ لَنَا عَامِلاً فَلْيَكْتَسِبْ زَوْجَةً فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ خَادِمٌ فَلْيَكْتَسِبْ خَادِمًا فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَسْكَنٌ فَلْيَكْتَسِبْ مَسْكَنًا ﴾ ‏

سنن ابو داؤد کی روایت کردہ حدیث کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ” جو شخص ہمارا عامل  ہو(یعنی ریاست کیلیے کام کرتا ہو) وہ ایک بیوی کا خرچ بیت المال سے لے سکتا ہے، اگر اس کے پاس کوئی خدمت گار نہ ہو تو ایک خدمت گار رکھ لے اور اگر رہنے کے لیے گھر نہ ہو تو رہنے کے لیے مکان لے لے۔ “ مستورد کہتے ہیں: ابوبکر ؓنے کہا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ” جو شخص ان چیزوں کے سوا اس میں سے لے تو وہ خائن یا چور ہے۔ “

[11] – علاوہ ازیں  جیسا کہ ذوالفقار (2007) نے یہ دلیل دی ہے کہ اسلام میں کم سے کم اجرت طے کرنےکی بنیاد اصول زکوٰة
(اسلام کا دوسرا ستون) ہے جو اس صورت میں فرض ہوتی ہے جب کوئی شخص سونے کی کم از کم مقدار کا مالک ہو۔ اور اس پر پورا ایک سال گزر چکا ہو، (یعنی سونے ، چاندی یا کرنسی کا نصاب

[12]– عوف بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے پاس جس دن مال فئے آتا آپ اسی دن اسے تقسیم کر دیتے، شادی شدہ کو دو حصے دیتے اور کنوارے کو ایک حصہ دیتے، تو ہم بلائے گئے، اور میں عمار ؓ سے پہلے بلایا جاتا تھا، میں بلایا گیا تو مجھے دو حصے دئیے گئے کیونکہ میں شادی شدہ تھا، اور میرے بعد عمار بن یاسر ؓ بلائے گئے تو انہیں صرف ایک حصہ دیا  گیا ۔  (مسند احمد: 22905) کیونکہ وہ کنوارے تھے

[13]– مشکٰوة المصابیح:  2987

[14] صحیح بخاری 2287

[15] مشکٰوة المصابیح:  2984

[16]– Bobo, K. 2008. Wage theft in America. New York: The New Press.

[17] صحیح بخاری: 2280 (رسول کریمﷺ مزدوری کے معاملے میں کسی پر ظلم نہیں کرتے تھے بلکہ حق سے زیادہ عطا فرماتے تھے)

﴿ولم يكن يظلم احدا اجره﴾

ابو رافع ؓ بیان کرتے ہیں کہ : رسول اللہ ﷺنے ایک اونٹ قرض لیا، پھر جب آپ ﷺ کے پاس صدقے کے اونٹ آئے، تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں اس شخص کا قرض ادا کر دوں جس سے چھوٹا اونٹ لیا تھا۔ میں نے کہا: میں تو اونٹوں میں چھ سال کے بہترین اونٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں پاتا تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:”اسی میں سے اسے دے دو، کیونکہ لوگوں میں بہتریں وہ انسان ہیں جو قرض ادا کرنے میں سب سے اچھے ہیں۔ “ (موطا امام مالك ؒ رواية ابن القاسم: 524؛ جامع ترمذی: 1318)

﴿خيار الناس احسنهم قضاء﴾

[18]ابن تیمیہؒ ، امام تقی الدین احمد ، 2006. اسلام کا نظام ِ حسبہ  (اردو ترجمہ و حواشی: ڈاکٹر حافظ اکرام الحق یٰسین، شریعہ اکیڈمی، اسلام آباد)

Ibn Taimiyyah, Imam Taqi al Din al Ahmad 1983. Public duties in Islam. [al-Risala fi al-Hisba] (M. Holland Trans.). Wiltshire, UK: The Islamic Foundation.

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلام میں سود کو حرام قرار دیا گیا ہے (02:275)۔

[19] مسند احمد: 22978۔

[20] ۔ (سنن ابوداوٴد: 3779)

﴿الماهِرُ بالقرآنِ مع السفرَةِ الكرامِ البرَرَةِ ، والذي يقرؤُهُ ويتَعْتَعُ فيهِ وهو عليه شاقٌّ لَهُ أجرانِ﴾