اسلام نہ صرف معاشرے میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بات کرتا ہے بلکہ پوری آبادی کو بنیادی معیار زندگی (بنیادی ریاستی پنشن) کا حق دیتا ہے، اس بنیادی معیار زندگی کے مقصد کو یقینی بنانے کیلیے امیروں پر زکوٰة کے نفاذ او راسکی تقسیم کا نظام وضع کیا گیا ہے کہ ”(سارا مال صرف) مال داروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچے(۔“(59:07) [1] زکوٰ ة اس لئے لی جاتی اور پھر تقسیم کی جاتی ہے تاکہ غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے[2]۔ چونکہ زکوٰ ة اسلام کے پہلے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے ، اور فرضِ عین ہے ، اگر تمام لوگ اپنے کم سے کم مال واسباب کے نصاب پر زکوٰة کی ادائیگی کو یقینی بناتے ہیں تو امید ہے ہمیں اپنے ملک کا معیار زندگی بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے ، نبی کریمﷺ کے اس فرمان کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ” ایک آجر اپنے مزدور کو اتنی تنخواہ اور اجرت ضرور دے جس سے اس کی بنیادی ضروریات پوری ہو سکیں۔“
زکوٰة لوگوں کونہ صرف کم از کم معیار زندگی کی فراہمی یقینی بناتی ہے بلکہ اس سے ان کی قوت خرید میں اضافہ ہوتا ہے جس سے معاشرتی عدم مساوات میں کمی اورکمیونٹی میں یکجہتی اور ہم آہنگی کے احساس کو فروغ ملتا ہے، اسلامی نظام زکوٰةکے ذریعے ضرورت مندوں کو سماجی تحفظ فراہم کرتا ہے، قرآن کریم میں زکوٰةکے فوائد کی وضاحت کچھ یوں کی گئی ہے: ” زکوٰۃمحض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی وتقسیم پر مقرر کئے گئے ملازمین اور ایسے لوگوں کے لئے ہے جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو ، مزید یہ کہ یہ زکوٰة انسانوں کو غلامی کی زندگی سے آزاد کرانے میں ، قرض داروں سے قرض کا بوجھ اتارنے میں اور اللہ تعالی ﷻ کی راہ میں جہاد کرنے والوں پراور مسافروں پر خرچ کی جائے، یہ زکوة اللہ تعالی ﷻکی طرف سے فرض کردہ ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔“(09:60) [3]
اسلامی معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ محروموں کو زندگی کی تمام بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں ، اگر معاشرہ اس ذمہ داری سے پیچھے ہٹ جائے تو خدا کی حفاظت ایسے معاشرے سے چھین لی جاتی ہے[4]۔ چوتھے خلیفۂ راشد حضرت علیؓ نے فرمایا: ” اللہ تعالی نے امیروں پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنے مال میں سے جو کچھ غریبوں کے لیے مناسب ہو ادا کریں، اگر ایک غریب بھوکا رہتا ہے ، یا لاچار ہوتا ہے یا مشکلات کا شکار ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ امیروں نے انہیں محروم کردیا ہوتا ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ خدا ئے قادر مطلق اور بلند و بالا جب چاہیں ان کا محاسبہ کریں اور انہیں سزا دیں۔“ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ زکوٰةکی وصولی کے ذریعے ہر ایک کو بنیادی ریاستی پنشن فراہم کرے اور اگر زکوٰةکی رقم اخراجات پورے کرنے کے لیےنا کافی ہو تو دوسرے ٹیکس لگائے جا سکتے ہیں۔ نبی اکرمﷺ کی ایک حدیث ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ” ریاست کا سربراہ ان سب کا سرپرست ہوتا ہے جن کی دادرسی کرنے والا کوئی نہ ہو۔ “ ایک اور حدیث میں ہے ” تم میں سے جو بھی قرض کی حالت میں مر جائے یا اپنے پیچھے ضرورت مند اہل وعیال چھوڑے ، تم مجھے مدد کے لیے بلاؤ ، کیونکہ میں اس کا سرپرست ہوں، اور جو تم میں سے جائیداد چھوڑتا ہے ، اس کا وارث اس کو حاصل کرنے کا حقدار ہے ، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ “ [5] یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ زکوٰةصرف مسلمانوں پر فرض ہے ، لیکن یہ ریاست کے تمام شہریوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جا سکتی ہے ، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم[6]۔
پہلے خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں جب مسلم افواج کے کمانڈر نے جب ایک فتح شدہ علاقہ کے غیر مسلموں کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تو ان سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا گیا اس معاہدہ کے الفاظ یہ تھے: ”اور میں نے یہ حق دیا ہے کہ اگر کوئی بوڑھا شخص کام کرنے کے قابل نہیں رہتا یا بیمار ہو جائے یا امیری کے بعد مفلس وبے سہارا ہو جائے یا کوئی اس قدر ضرورت مندہوجائے کہ اس کے ساتھی مذہب والے اسے خیرات دینا شروع کر دیں تو اس کا جزیہ معاف کر دیا جائے گا [7]اور جب تک وہ اسلامی ریاست میں رہے گا اسے اور اس کے خاندان کو سرکاری خزانے سے دیکھ بھال کے لیے الاؤنس ملے گا۔“[8]دوسرے خلیفۂ راشد حضرت عمرؓ کے دور میں بھی ہمیں اسی طرح کی مثالیں ملتی ہیں جب غیر مسلموں کو اس وقت وظائف دینے کا اعلان کیا گیا جب وہ بھیک مانگتے ہوئے دیکھے گئے، اور وہ بوڑھے یا بیمار ہونے کی وجہ سے روزی کمانے سے قاصر تھے۔[9]
فقہائے اسلام کا کہنا ہے کہ زکوٰةکا استعمال بے روزگاروں کو تربیت فراہم کرنے اور ملازمت کے بحالی پروگراموں میں بھی کیا جا سکتا ہے، زکوٰةکو انکم سپورٹ پروگراموں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، یہ استعمال بیروزگاری کے زیادہ تر انشورنس پروگراموں کے اصولوں کے مطابق ہے ، جس کے لیے وصول کنندگان کو کام کے لیے اور ملازمت کے حصول کے لیے دستیاب ہونا ضروری ہوتا ہے، اسلام ”رضاکارانہ بے روزگاری“ (voluntary unemployment)کو ناپسند کرتا ہے اور ہر ایک کے لیے جائز کمائی کی تلاش ضروری سمجھتاہے، زکوٰ ة لینےکی اجازت کسی ایسے شخص کو نہیں ہے جو کما سکتا ہو ، لیکن پھر بھی اسے کم آمدن والے مزدوروں کی مدد کرنے پر صرف کیا جا سکتا ہے، اسے مزدوروں کی تربیت یا بحالی کے لیے بطوروظیفہ بھی خرچ کیا جا سکتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے ایک قبیلے کی اس وقت تعریف فرمائی جب انہوں نے ضرورت کے پیش نظرصدقات کو اجتماعی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔[10]
[1] ”یہ تقسیم کا نظام اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ (پوری دولت) تمہارے امیروں کے درمیان (صرف) گردش نہ کرے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔“ ﵻكَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْﵺ
[2] ”اللہ تعالی نے ان لوگوں پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنی جائیداد سے زکوٰ ةادا کریں جو ان میں سے امیروں سے لیا جائے اور غریبوں کو دیا جائے۔“ (صحیح بخاری: 1395)
﴿أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ، تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ﴾
[3] یہ بھی ” ضرورت مندوں کے لیے صدقہ ہے ۔“(02:273)
علامہ غلام احمد پرویزؒ کے مطابق:” صدقات کے متعلق (یعنی اس مال کے متعلق جسے مملکت رفاہِ عامہ کے لئے صرف کرتی ہے) یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس کی تقسیم ‘ کسی کے ذاتی مفاد یا انفرادی جذبات کی تسکین کے لئے نہیں ہوگی۔ یہ درحقیقت ان لوگوں کا حق ہے۔ (1) فقرا یعنی جو اپنی نشوونما کے لئے دوسروں کے محتاج ہوں۔ یعنی کسی وجہ سے خود کمانے کے قابل نہ ہوں۔ (2) مساکین یعنی جن کا چلتا ہوا کاروبار‘ یا نقل و حرکت (کسی وجہ سے) رک گئی ہو۔ (3) جو لوگ صدقات (مملکت کی اس آمدنی) کی وصولی پر مامور ہوں‘ (ان کی کفالت کے لئے)۔ (4) جن کی تالیفِ قلوب مقصود ہو۔(یعنی جو لوگ ویسے تو نظام خداوندی کی طرف آنے کے لئے تیار ہوں لیکن بعض معاشی موانع ان کے راستے میں اس طرح حائل ہوں کہ وہ انہیں اس طرف آنے نہ دیں۔ اِن موانع کے دُور کرنے میں ان کی امداد کی جائے)۔ (5) جو لوگ دوسروں کی محکومی کی زنجیروں میں جکڑے ہوں‘ انہیں آزادی دلانے کیلئے۔ (6) ایسے لوگ جو دشمن کے تاوان‘ یا قرض کے بوجھ کے نیچے اس طرح دب گئے ہوں کہ اس کا ادا کرنا ان کے بس میں نہ ہو۔ (7) نیز‘ اُن باہر سے آنے والوں کا جنہیں مالی امداد کی ضرورت لاحق ہوجائے اور مسافروں کی بہبود کیلیئے۔ (8) ان کے علاوہ‘ اور جو کام بھی نظامِ خداوندی کے لئے مفید اور نوع انسان کی فلاح وبہبود کے لئے ممدّومعاون ہوں‘ انہیں سر انجام دینے کے لئے۔ یہ خدا کے ٹھہرائے ہوئے ضوابط ہیں۔ اور اللہ کے ٹھہرائے ہوئے ضوابط علم وحکمت پر مبنی ہوتے ہیں ۔“ (مفہوم القرآن)
سید ابوالاعلی مودودیؒ کے مطابق ”: فقیر سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اپنی معیشت کے لیے دوسرے کی مدد کا محتاج ہو۔ یہ لفظ تما م حاجت مندوں کے لیے عام ہے خواہ وہ جسمانی نقص یا بڑھاپے کی وجہ سے مستقل طور پر محتاجِ اعانت ہو گئے ہوں ، یا کسی عارضی سبب سے سردست مدد کے محتاج ہوں اور اگر انہیں سہارا مل جائے تو آگے چل کر خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہوں، مثلًا یتیم بچے ، بیوہ عورتیں ، بے روزگار لوگ اور وہ لوگ جو وقتی حوادث کے شکار ہو گئے ہوں۔ مَسکَنَت کے لفظ میں عاجزی ، درماندگی ، بے چارگی اور ذلت کے مفہومات شامل ہیں۔ اس اعتبار سے مساکین وہ لوگ ہیں جو عام حاجت مندوں کی بہ نسبت زیادہ خستہ حال ہوں۔ نبی ﷺ نے اس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ ایسے لوگوں کو مستحق امداد ٹھہرایا ہے جو اپنی ضروریات کے مطابق ذرائع نہ پارہے ہوں اور سخت تنگ حال ہوں مگر نہ تو ان کی خودداری کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اجازت دیتی ہو اور نہ ان کی ظاہری پوزیشن ایسی ہو کہ کوئی انہیں حاجت مند سمجھ کر ان کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے ۔ چنانچہ حدیث میں اس کی تشریح یوں آئی ہے کہ المسکین الذی لا یجد غنی یغنیہ ولا یفطن لہ فیتصد ق علیہ ولا یقوم فیسئال الناس۔” مسکین وہ ہے جو اپنی حاجت بھر مال نہیں پاتا ، اور نہ پہچانا جاتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے، اور نہ کھڑا ہو کر لوگوں سے مانگتا ہے۔ “ گویا وہ ایک ایسا شریف آدمی ہے جو غریب ہو۔ ایسے قرض دار جو اگر اپنے مال سے اپنا پورا قرض چکا دیں تو ان کے پاس قدر نصاب سے کم مال بچ سکتا ہو۔ وہ خواہ کمانے والے ہوں یا بے روزگار اور خواہ عرفِ عام میں فقیر سمجھے جاتے ہوں یا غنی ، دونوں صورتوں میں ان کی اعانت زکوٰۃ کی مد سے کی جاسکتی ہے ۔ مگر متعدد فقہا کی رائے یہ ہے کہ جس شخص نے بد اعمالیوں اور فضول خرچیوں میں اپنا مال اڑا کر اپنے آپ کو قرضدار ی میں مبتلا کیا ہو اس کی مدد نہ کی جائے جب تک وہ توبہ نہ کر لے۔ مسافر خواہ اپنے گھر میں غنی ہو، لیکن حالت سفر میں اگر وہ مدد کا محتاج ہو جائے تو اس کی مدد زکوٰۃ کی مد سے کی جائے گی ۔“(تفیہم القرآن)
جاوید احمد غامدی صاحب کے مطابق ”: فقرا و مساکین کے لیے۔ فقیر کا لفظ اُس شخص کے لیے بولا جاتا ہے جو اپنی معیشت کے لیے دوسروں کی مدد کا محتاج ہو۔ یہ غنی کا مقابل ہے اور ہر قسم کے حاجت مندوں کے لیے عام ہے۔ مسکین اِس کے مقابل میں سخت ہے۔ مسکنت کے لفظ میں عاجزی، درماندگی، بے بسی اور بے چارگی شامل ہے۔ اِس اعتبار سے مسکین اُسے کہا جائے گا جو عام حاجت مندوں کی بہ نسبت زیادہ خستہ حال ہو۔ ’الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا‘، یعنی ریاست کے تمام ملازمین کی خدمات کے معاوضے میں۔
’ وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ ‘، یعنی اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں تمام سیاسی اخراجات کے لیے۔ ’فِی الرِّقَابِ‘، یعنی ہر قسم کی غلامی سے نجات کے لیے۔ ’الْغٰرِمِیْنَ‘، یعنی کسی نقصان، تاوان یا قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے۔ ’فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘، یعنی دین کی خدمت کے کاموں میں۔ ’ابْنِ السَّبِیْلِ‘، یعنی مسافروں کی مدد اور اُن کے لیے سڑکوں، پلوں، سراؤں وغیرہ کی تعمیر کے لیے۔ “(البیان)
[4] مستدرک الحاکم۔
[5] ”میں اللہ کی کتاب کے مطابق ، تمام مومن انسانوں کے قریب ہوں۔ پس تم میں سے جو کوئی قرض کی حالت میں مر جائے یا بے سہارا بچوں کو چھوڑ جائے ، تم مجھے (مدد کے لیے) بلاؤ ، کیونکہ میں اس کا سرپرست ہوں۔ اور جو تم میں سے جائیداد چھوڑتا ہے تو اس کا وارث اس کو لینے کا حقدار ہے ، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ “(صحیح مسلم 1619 د)
﴿أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِالْمُؤْمِنِينَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَأَيُّكُمْ مَا تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيْعَةً فَادْعُونِي فَأَنَا وَلِيُّهُ وَأَيُّكُمْ مَا تَرَكَ مَالاً فَلْيُؤْثَرْ بِمَالِهِ عَصَبَتُهُ مَنْ كَانَ﴾
[6] زکوٰ ة سماجی تحفظ کا ادارہ ہے جو اسلام نے بنایا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مال نصاب کی کم از کم سطح پر پہنچنے کے بعد لوگ اپنی بچت کاڈھائی فیصد (2.5%)ادا کریں۔ زکوٰةجمع کرنا اور تقسیم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عدم ادائیگی پر ، ریاست لوگوں کو اس کی ادائیگی یا ان کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
[7] جزیہ وہ سالانہ ٹیکس تھا جو مسلم ریاست میں رہنے والے غیر مسلموں پر فوجی تحفظ اور فوجی خدمات سے چھوٹ کے لیے لگایا گیا تھا۔ یہ صرف غیر مسلم مردوں پر مقرر کیا گیا تھا اور بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کو چھوٹ دی گئی تھی۔ مزید یہ کہ یہ ”ادائیگی کی صلاحیت یا حیثیت “ کے اصول پر مبنی تھا ، یعنی امیر کے لیے زیادہ شرح اور غریب کے لیے کم شرح۔
[8] کتاب الخراج ، امام ابو یوسفؒ۔
[9] کتاب الاموال ، ابو عبید قاسم بن سلام ؒ؛ شبلی نعمانیؒ : الفاروق (حضرت عمرؓ کی سوانح عمری)
[10] نبی اکرم ﷺنے فرمایا:”قبیلہ اشعر کے لوگوں کا جب جہاد کے موقع پر توشہ کم ہو جاتا یا مدینہ ( کے قیام ) میں ان کے بال بچوں کے لیے کھانے کی کمی ہو جاتی تو جو کچھ بھی ان کے پاس توشہ ہوتا تو وہ ایک کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں۔ پھر آپس میں ایک برتن سے برابر تقسیم کر لیتے ہیں۔“ (صحیح بخاری: 2486)
﴿إِنَّ الأَشْعَرِيِّينَ إِذَا أَرْمَلُوا فِي الْغَزْوِ، أَوْ قَلَّ طَعَامُ عِيَالِهِمْ بِالْمَدِينَةِ جَمَعُوا مَا كَانَ عِنْدَهُمْ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ اقْتَسَمُوهُ بَيْنَهُمْ فِي إِنَاءٍ وَاحِدٍ بِالسَّوِيَّةِ، فَهُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ﴾