فہرست مضامین

قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق – ملازمت کیلئے بہترین شخص کی بھرتی

اسلام آجروں کو میرٹ کی بنیاد پر ملازمین کو بھرتی ، منتخب اور ترقی دینے کی ترغیب دیتا ہے، اور جانبداری، اقربا پروری اور کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کی مذمت کرتا ہے۔ قرآن کریم نے مزدور کی خدمات حاصل کرنے کا واضح اور سیدھا اصول یہ کہہ کر دیا ہے کہ ؛ ”بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں، وہی ہوسکتا ہے جو قوی(طاقتور) اور امانت دار  ہو۔“ (28:26) [1] ”اور (جو ذمہ داری اسے دی جائے اسکی ) حفاظت کرنے والا اور صاحب استعداد، با صلاحیت اور تجربہ رکھنے والا ہو ۔“(12:55)  ایک اور مثال میں  حضرت موسٰی علیہ السلام  کی بہن نے اپنی والدہ کو فرعون کے اہلِ خانہ کے پاس بطور دایہ یا نرس بھرتی کرنے کی سفارش کی اور بتایا  کہ وہ بچے کی اچھی طرح دیکھ بھال کریں گے اور  موسٰی  علیہ السلام  کے خیر خواہ ہوں گے۔“[2] ان آیات کی روشنی میں کسی بھی ملازم میں یہ خصوصیات ہونا ضروری ہیں:

الف۔ قوی: مزدور جسمانی اور ذہنی طور پر صحتمند ہو۔

ب۔ امین: مزدور  امانتدار اور دیانتدار ہو۔ [3]

ج۔ حفیظ: مزدور اپنی ذمہ داریوں (املاک،معلومات) کی حفاظت کرنے والا ہو۔

د۔ علیم: مزدور باصلاحیت، تربیت یافتہ اورتجربہ رکھنے والا ہو۔

ہ ۔ ناصح: مزدور اپنے ادارے یا آجر کا خیر خواہ بھی ہو۔

ایک روایت میں ہے آپ ﷺنے ارشاد  فرمایا : ”جب تم اپنا کام کسی ایسے آدمی کے سپرد کر دیتے ہو جسے کچھ علم نہ  ہو تو  پھر تباہی کا انتظار کرو۔“  ایک اور حدیث میں ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا: ” جو شخص مسلمانوں  کے کسی اجتماعی معاملے کا ذمہ دار بنے اور وہ کسی منصب پر کسی شخص کا تقرر اقربا پروری کی بنیادپر کرےتو اس پر اللہ کی لعنت ہے ۔“[4]

اسلام آجر کا فرض سمجھتا ہے کہ وہ اپنے لئے  بہترین ملازم تلاش کرے، حضرت عمرؓنے فرمایا:  ”اگر کسی کم صلاحیت والے شخص کو کسی جماعت کا سربراہ مقرر کیا جائے جبکہ اس جماعت میں اس سے  بہتر لوگ دستیاب ہو ں تو اس کا عمل خدا ، رسولﷺ اور لوگوں کے ساتھ دھوکہ اور خیانت  کرنے کے مترادف ہے۔“[5]

اسلام آجر سے یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کرے جنہیں وہ ناپسند کرتا ہے (05:08) بلکہ اسلام  آجرسے تمام ملازمین یا درخواست گزاروں کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔خلیفۂ راشد حضرت علیؓ نے مصر کے گورنر (مالک اشتر نخعیؒ) کے نام اپنے مشہور خط میں لکھا:

”پھر اپنے عہدہ داروں کے بارے میں نظر رکھنا، ان کو خوب آزمائش کے بعد منصب دینا، کبھی صرف رعایت اور جانبداری کی بنا پر انہیں منصب عطا نہ کرنا۔ اس لئے کہ یہ باتیں ناانصافی اور بے ایمانی کا سرچشمہ ہیں۔

اور ایسے لوگوں کو منتخب کرنا جو آزمودہ و غیرت مند ہوں، ایسے خاندانوں میں سے جو اچھے ہوں اور جن کی خدمات اسلام کے سلسلہ میں پہلے سے ہوں۔ کیونکہ ایسے لوگ بلند اخلاق اور بے داغ عزت والے ہوتے ہیں، حرص و طمع کی طرف کم جھکتے ہیں اور عواقب و نتائج پر زیادہ نظر رکھتے ہیں۔

پھر ان کے کاموں کو دیکھتے بھالتے رہنا اور سچے اور وفادار مخبروں کو ان پر چھوڑ دینا، کیونکہ خفیہ طور پر ان کے امور کی نگرانی انہیں امانت کے برتنے اور رعیت کے ساتھ نرم رویہ رکھنے کا باعث ہو گی۔

جو شخص جس کارنامے کو انجام دے اسے پہچانتے رہنا، اور ایک کا کارنامہ دوسرے کی طرف منسوب نہ کر دینا، اور اس کی حسن کارکردگی کا صلہ دینے میں کمی نہ کرنا، اور کبھی ایسا نہ کرنا کہ کسی شخص کی بلندی و رفعت کی وجہ سے اس کے معمولی کام کو بڑا سمجھ لو، اور کسی کے بڑے کام کو کرنے والے کے خود پست ہونے کی وجہ سے معمولی قرار دے لو۔

پھر تمہیں تاجروں اور صنّاعوں کے خیال اور ان کے ساتھ اچھے برتاؤ کی ہدایت کی جاتی ہے، اور تمہیں دوسروں کو ان کے متعلق ہدایت کرنا ہے، خواہ وہ ایک جگہ رہ کر بیوپار کرنے والے ہوں یا پھیری لگا کر بیچنے والے ہوں، یا جسمانی مشقت (مزدوری یا دستکاری) سے کمانے والے ہوں، کیونکہ یہی لوگ منافع کا سرچشمہ اور ضروریات کے مہیا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ان ضروریات کو خشکیوں، تریوں، میدانی علاقوں اور پہاڑوں ایسے دور افتادہ مقامات سے درآمد کرتے ہیں، اور ایسی جگہوں سے کہ جہاں لوگ پہنچ نہیں سکتے اور نہ وہاں جانے کی ہمت کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ امن پسند اور صلح جُو ہوتے ہیں۔ ان سے کسی فساد اور شورش کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ تمہارے سامنے ہوں یا جہاں جہاں دوسرے شہروں میں پھیلے ہوئے ہوں، تم ان کی خبر گیری کرتے رہنا“۔[6]

علم اور سیکھنے پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ، ایک آجر کو چاہئے  کہ وہ ایک  ملازم کو ملازمت میں کامیاب بنانے کے لیے ضروری تربیت فراہم کرے”۔ [7]

اسلام  علم سیکھنے کےلیے کسی کی شاگردی اختیار کرنے  کی بھی حمایت کرتا ہے،اپرنٹس شپApprenticeship) )  حضرت موسٰی علیہ السلام   ﷤اور حضرت خضِرؒ ﷤ کے واقعے سے ثابت ہوتی ہے  جس  میں حضرت  موسٰی علیہ السلام   علم سیکھنے کے لیے  حضرت خضِرؒ  کے ساتھ کچھ دن گزارتے ہیں ۔(18:65) [8] ایک اور مثال میں  قرآن کریم  نے حضرت موسٰی علیہ السلام   کو ایک خاص کام  کی ادائیگی کے لیے منتخب کرنے کا ذکرکیا ہے۔ (20:41) [9]




[1]  ان میں سے ایک (لڑکی) نے کہا: ”اے (میرے) والد گرامی! انہیں (اپنے پاس مزدوری) پر رکھ لیں بیشک بہترین شخص جسے آپ مزدوری پر رکھیں وہی ہے جو طاقتور امانت دار ہو (اور یہ اس ذمہ داری کے اہل ہیں)۔“ (28:26)

[2] – ”اور ہم نے پہلے ہی سے موسٰی (علیہ السلام) پر دائیوں کا دودھ حرام کر دیا تھا سو (موسٰی علیہ السلام کی بہن نے) کہا: کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کی نشاندہی کروں جو تمہارے لئے اس (بچے) کی پرورش کر دیں اور وہ اس کے خیر خواہ (بھی) ہوں۔“  (28:12)

[3] – رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا:” خازن اور امین وہ شخص ہے کہ اسے جو کام  سپرد کیا جائے وہ اسے نہایت خندہ پیشانی سے انجام دے (تو یہ بھی صدقہ ہے)۔ “ ﴿إ الخازن الامين الذي يؤدي ما امر به طيبة نفسه احد المتصدقين﴾

[4] – ”جو شخص مسلمانوں کے کسی اجتماعی معاملے میں ذمہ دار بنایا گیا  ہو ، اور وہ  باقی سب کو چھوڑ کر کسی ایسے شخص کو جسے  وہ (رشتہ داری/ قرابت یا کسی اور وجہ سے )  پسند کرتا ہے کسی منصب  پر مقرر کر دے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے ، اللہ اس کا کوئی فرض اور کوئی نفلی عبادت قبول نہیں کرتا یہاں تک کہ اسے جہنم میں داخل کر دے۔“ (مسند احمد:21)

﴿مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ شَيْئًا فَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ أَحَدًا مُحَابَاةً فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا حَتَّى يُدْخِلَهُ جَهَنَّمَ وَمَنْ أَعْطَى أَحَدًا حِمَى اللَّهِ فَقَدْ انْتَهَكَ فِي حِمَى اللَّهِ شَيْئًا بِغَيْرِ حَقِّهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ أَوْ قَالَ تَبَرَّأَتْ مِنْهُ ذِمَّةُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ﴾

[5] ﴿مَنِ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا مِنْ عِصَابَةٍ وَفِي تِلْكَ الْعِصَابَةِ مَنْ هُوَ أَرْضَى لِلَّهِ مِنْهُ فَقَدْ خَانَ اللَّهَ وخانَ رَسُولَهُ وخانَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (مستدرک حاکم: 4/ 104))

 [6] نہج البلاغہ، خط نمبر 53

[7] – ”علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔“  مشکوة المصابیح : 218

﴿طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ﴾

[8] – پندرہویں صدی کے گروہوں میں درجہ بندی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان لوگوں میں استاذی شاگردی رائج تھی۔

[9]  -” اور (اب) میں نے تمہیں اپنے (امرِ رسالت اور خصوصی انعام کے) لئے چن لیا ہے۔“

ﵻوَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِيﵺ

اس آیت کے لفظ ”اصطنع“    سے مراد کسی خاص کام کے لیے کسی شخص کو منتخب کرنا ہے اور پھر اس کے مطابق اس شخص کی تربیت کی جاتی ہے۔

اسی طرح ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے کوئی مناسب پیشہ اختیار کرے، رسول کریمﷺ نے فرمایا: ”تم اپنا اپنا کام کرو ، اور ہر ایک کیلیے اسکا کام آسان کردیا گیا ہے۔“ (جامع ترمذی:2136)

﴿اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ﴾