فہرست مضامین

بچہ مزدوری اور جبری مشقت کی ممانعت

بچہ مزدوری اور جبری مشقت کی ممانعت (Prohibition of Child and Forced Labour)

  1. ان دفعات کا اطلاق بچوں کے ہر قسم کے کام پر ہوتا ہے، چاہے بچہ مزدور ہو یا نہ ہو۔ چودہ (14) سال سے کم عمر کا بچہ ہلکے پھلکے کاموں کے علاوہ  کوئی کام نہیں کرسکتا اور اس کے اوقاتِ کار زیادہ سے زیادہ چار ( 4) گھنٹے یومیہ ہو سکتے ہیں۔[1]
  2. کل وقتی ملازمت کے لیے کم از کم عمرسولہ ( 16) سال ہو گی اور یہ لازمی تعلیم (compulsory  education) کی تکمیل کی عمر سے کم نہیں ہو گی۔ [2]
  3. چودہ (14) سال کی عمر کے بچے سے چھوٹا موٹا کام لیا جا  سکتا ہے ، بشرطیکہ ایسا کام: (الف) بچے کی صحت یا حفاظت ، یا بچے کی اخلاقی یا مادی فلاح و بہبود یا ترقی کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔ اور (ب) بچے کی اسکول میں حاضری ، پیشہ ورانہ واقفیت یا تربیتی پروگراموں میں شرکت یا موصولہ ہدایات سے فائدہ اٹھانے کے لیے بچے کی نشو ونما میں مداخلت نہ کرتا ہو۔
  4. کوئی بھی شخص کسی اٹھارہ (18) سال سے کم عمر بچے سے  کوئی خطرناک کام نہیں کرائے گا[3] نہ ہی ایسے کسی کام کی اجازت دے گا ، جو چائلڈ لیبر کی بدترین اقسام میں سے ہو۔ چائلڈ لیبر کی بدترین اقسام (worst  forms of  child labour) مندرجہ ذیل ہیں:
    1. ہر طرح کی غلامی یا غلامی سے ملتا جلتا طرز عمل جیسے بچوں کی فروخت، اسمگلنگ، بچوں کو رہن رکھنا یا ان کے بدلے قرض لینا، جبری مشقت یا بندھوامزدوری یا  کسی مسلح تصادم  و تنازعات میں استعمال کے لیے بچوں کی جبری بھرتی کرنا ۔[4]؛
    2. فحاشی یا فحش مواد کی تیاری یا جسم فروشی کے لیے بچے کا استعمال ،ان کی خریداری یا  ان کو ایسے کاموں کے لئے پیش کرنا؛
    3. غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے کسی بچے کا استعمال خریداری یا پیشکش، خاص طور پر منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ کے لیے ؛
    4. کوئی کام ، جو ایسے حالات میں انجام دیا جا رہا ہو کہ جس سے  بچے کی صحت ، تحفظ یا اخلاق پر منفی اثرات مرتب ہونے کا امکان ہو[5]۔
  5. کوئی بھی شخص  کسی دوسرےشخص (خصوصاً بچوں اور خواتین )کی جبری مشقت کے لیے بھرتی یا استعمال میں ملوث نہیں ہوگا اور نہ ہی کسی دوسرے شخص کو اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے میں مدد دے گا[6]۔

 

[1]– قرآن کریم   میں بنی نوع انسان کو بچوں کی دیکھ بھال کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے    ارشاد باری تعالی ﷻہےکہ والدین کا اپنے بچوں کے فرائض کو ادا کرنا ایسا ہے گویا وہ اللہ کے فرض کو ادا کر رہے ہوں : ” اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقوٰی اختیار کرو)، بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔“ [4:1]

ﵻيَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًاﵺ

قرآن کریم  نے بچوں کو دنیا اور آخرت  کے نقصان سے بچانے  کو والدین کی بنیادی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ (66:06) ایک بچے کی اہمیت پر توجہ دیتے ہوئے قرآن کریم  نے والدین کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ: اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں (نیکی کا) تاکیدی حکم فرمایا، جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں (اپنے پیٹ میں) برداشت کرتی رہی۔“  [46:15]  اور ایک حدیث مبارکہ میں ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حسن ادب  (یعنی اچھی تعلیم و تربیت)سے بہتر کسی باپ نے اپنی اولاد کو تحفہ نہیں دیا۔ “     (ترمذی:1952)

﴿ مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ ﴾

اسلامی قانون کے تحت بچے کی کمرعمری  کی مدت کو مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے اور ماں اور باپ دونوں پراپنے  بچے کی دیکھ بھال لازم ہے چاہے وہ الگ ہو جائیں، تاکہ کوئی  بھی بچہ اپنی  عمر کے کسی مرحلے میں  بغیر توجہ کے نہ رہے،  بچے کو ماں ،باپ یا کسی قریبی رشتہ دار  کی زیر کفالت دیا جا سکتا ہے جیسا کہ اسلامی قانون  کی تعلیمات سے ثابت ہے۔ اگر کوئی شخص بچے کی کفالت کی ذمہ داری کماحقہ ادا نہیں کرتا تو  اسے کسی بچے کو اپنی کفالت میں رکھنے کا حق نہیں۔  ناشائستہ زندگی گزارنا  اور گزارنے پر مجبور کرنا کفالت سے نااہلی کی وجہ بھی بن سکتا ہے،کسی بچے سے مزدوری کروانے  یا اسے کمائی کا ذریعہ بنانے والے والدین یا سرپرست کو بچے کی کفالت کا کوئی حق حاصل   نہیں۔

بچے کو کسی بھی صورت میں چائلڈ لیبر کا سہارا لے کر اپنی یا کسی دوسرے شخص کی  زیر کفالت نہیں چھوڑا جا سکتا، ایسا بچہ جس  کی دیکھ بھال کے لئے  نہ  تو اسکے والدین ہوں  نہ کوئی اور رشتہ دار تو ایسے بچے کو مسلم معاشرے کے کسی بھی فرد کے زیر کفالت رکھا جا سکتا ہے، اور اگر کوئی  بھی شخص یا سب  افراد اس فرض کی ادائیگی میں ناکام رہیں یا تساہل برتیں  تو قرآن  کریم نے ایسے تمام لوگوں کو اللہ کے  نافرمان اور اس کے سامنے  جوابدہ ہوں گے، قرآن کریم میں ارشاد ہے: کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے، تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو ردّ کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے)، اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)، پس افسوس (اور خرابی) ہے ان نمازیوں کے لئے، جو اپنی نماز (کی روح) سے بے خبر ہیں (یعنی انہیں محض حقوق اللہ یاد ہیں حقوق العباد بھلا بیٹھے ہیں)، وہ لوگ (عبادت میں) دکھلاوا کرتے ہیں (کیونکہ وہ خالق کی رسمی بندگی بجا لاتے ہیں اور پسی ہوئی مخلوق سے بے پرواہی برت رہے ہیں)، اور وہ برتنے کی معمولی سی چیز بھی مانگے نہیں دیتے۔
(107:2-7)

قرآن پاک میں یتیموں کی جائیداد کا مناسب خیال رکھنا واجب قرار دیا  گیاہے۔ (النساء4:5-10)  بچوں کی دیکھ بھال اور تحفظ کے اس جامع پروگرام  کے تحت  اسلام کسی بھی قسم کی چائلڈ لیبر، جبری  وغیر جبری مزدوری ، اسمگلنگ ، جنگوں میں استعمال ، جسم فروشی ، فحاشی ، ناجائز سرگرمیوں ، منشیات فروشی اور اسکے علاوہ کسی بھی طرح کے خطرناک کام میں ملوث ہونے کی اجازت بالکل نہیں دیتا ۔

قرآن  کریم نے علم کے حصول  کو اہمیت دیتے ہوئے فرمایا: ” اللہ کے بندوں میں سے اس سے ڈرنے والے وہ ہیں  جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں۔“(35: 68)، اللہ تعالٰی قرآن  میں  سوال کر تاہے:”  کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں؟“(39: 09)

نبی کریم ﷺ نے واضح اصول بیان فرمایا ہےکہ:  ”چھوٹے بچوں کو کمائی کے بوجھ تلے نہ ڈالا جائے۔“
(موطا امام مالک کتاب:54، حدیث 42)

﴿وَلاَ تُكَلِّفُوا الصَّغِيرَ الْكَسْبَ﴾

یتیم (جن میں بے سہارا بچے بھی ہو سکتے ہیں) ، کے بارے میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ  میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپ نے شہادت اور درمیانی انگلیوں کے اشارہ سے ( قرب کو ) بتایا۔“ (صحیح بخاری: 6005)

﴿أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ، فِي الْجَنَّةِ هَكَذَا ‏”‏‏.‏ وَقَالَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى﴾

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:” مسلمانوں میں سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ( پرورش پاتا ) ہو، اور اس کے ساتھ نیک سلوک کیا جاتا ہو، اور سب سے بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو ۔“ (ابن ماجہ: 3679)

﴿خَيْرُ بَيْتٍ فِي الْمُسْلِمِينَ بَيْتٌ فِيهِ يَتِيمٌ يُحْسَنُ إِلَيْهِ وَشَرُّ بَيْتٍ فِي الْمُسْلِمِينَ بَيْتٌ فِيهِ يَتِيمٌ يُسَاءُ إِلَيْهِ﴾

نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ”جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کھائے اور ہمارے بڑے کا حق نہ پہنچانے ( اس کا ادب و احترام نہ کرے )  تو وہ ہم میں سے نہیں۔“ (سنن ابو داؤد:4943)

﴿مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيَعْرِفْ حَقَّ كَبِيرِنَا فَلَيْسَ مِنَّا﴾

روزگار کے تعلقات میں ایک بنیادی اصول ان لوگوں کے ساتھ شفقت اور ہمدردی ہے جو آجر کے زیر کفالت ہیں۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا:” جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ  بھی اس پر رحم نہیں فرماتے۔“ (ادب المفرد:370)

﴿ مَنْ لاَ يَرْحَمِ النَّاسَ لاَ يَرْحَمْهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ‏﴾

بچوں سے  ملازمت  اور کام  کاج کراتے  وقت مناسب دیکھ بھال  ضروری ہے،  ان سے ایسا  کام  کروایا جائے جو بچے کی صحت یا حفاظت ، یا بچے کی اخلاقی یا مادی بہبود یا ترقی  کے لیے نقصان دہ نہ ہو  اور اسکی تعلیم کے جاری رکھنے میں مانع نہ ہو،  نہ اس سے وہ کام لیا جائے جو اس کی صلاحیت وطاقت سے زیادہ ہو، قرآن کریم نے  کچھ واضح اصول وضع کئے ہیں جنہیں ”صلاحیت یا استطاعت“ کے نام سے پکارا گیاہے، حتی ٰکہ اسلام نے تو دینی امور میں بھی اپنی صلاحیت سے زیادہ محنت کرنے کو منع کیا ہے، ارشاد بار ی تعالٰی ﷻ ہے: ” االلہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا، اس نے جو نیکی کمائی اس کے لئے اس کا اجر ہے اور اس نے جو گناہ کمایا اس پر اس کا عذاب ہے۔“ (02:286)

‏ ﵻلَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَاﵺ

سو جس قدر ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو     ۔    (64:16)

ﵻفَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْﵺ

نبی کریمﷺ نے فرمایا: ” جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو بجا لاؤ جس حد تک تم میں استطاعت ہو۔“ (صحیح بخاری:7288)
اسی طرح جب آپؐ نے مرد اور خواتین سے بیعت لی تو اس پر بھی  عمل درآمد کیلیئے ”استطاعت اور طاقت “ کی شرط لگائی۔
(سلسلہ احادیث صحیحہ: 529)( موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 16)

﴿كنا نبايع رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة، فيقول لنا: ” فيما استطعتم﴾

اسلام نے مسلمانوں پر  حج کی فرضیت  کی  جو شرط رکھی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذمہ داریاں تفویض کرتے وقت ، ایک مزدور /محنت کش /ورکر کی استطاعت اور صلاحیت پر نظر رکھنا ضروری ہے، ارشاد باری تعالی ہے: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔“ (03:97)

ﵻوَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًاﵺ

اور اسی طرح سے زکوٰۃ کا تعلق بھی استطاعت کے ساتھ ہےیعنی صاحبِ نصاب ہونا ضروری ہے۔اسی استطاعت کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے ملازم کا یہ حق ہے کہ اس کی استطاعت سے بڑھ کر اسے (خاص طور پر جسمانی کام) کرنے کو نہ کہا جائے۔ یہ اصول چائلڈ لیبر ، بانڈڈ لیبر(جبری مشقت) اور کام کے زیادہ اوقات پر پابندی عائد کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:  ” خادم   (ملازم)کا حق ہے کہ اسے  (اچھا)کھلایا اور پلایا جائے اور اسے کوئی ایسا کام کرنے کا حکم نہ دیا جائے جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔
(ادب المفرد: 192-193)

﴿لِلْمَمْلُوكِ طَعَامُهُ وَكِسْوَتُهُ، وَلاَ يُكَلَّفُ مِنَ الْعَمَلِ مَا لاَ يُطِيقُ

انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکی دس سال تک خدمت کی لیکن آپ نے کبھی مجھے اف تک نہیں کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا۔ (صحیح بخاری:6038)، ایک اور جگہ روایت کرتے ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ نے ابوطلحہؓ سے فرمایا کہ” اپنے یہاں کے بچوں میں سے کوئی بچہ تلاش کر کے لاوٴ جو میرے کام کر دیا کرےتو ابوطلحہؓ انہیں آپؐ کے پاس لائے تھے۔“  (صحیح بخاری: 1867) اور احادیث میں اگر انکے کاموں سے متعلق روایات کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ انہیں چھوٹے موٹے کاموں (کسی کو کوئی پیغام بھیجنا، کسی کو بلا لانا) کیلیے رکھا گیا تھا ۔اور وہ خود روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا رویہ انکے ساتھ بہت مشفقانہ رہا۔

انس ؓ سے روایت ہے کہ جب ﷺ  مدینہ تشریف لا ئے تو حضرت ابو طلحہ ؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اورمجھےرسول اللہﷺ کی خدمت میں لے گئے اور عرض کی: اللہ کے رسولﷺ! انس ایک سمجھدار لڑکا ہے، اس لیے یہ آپ کی خدمت کرے گا حضرت انس  ؓ نے کہا: پھر میں سفر اور حضر میں آپؐ کی خدمت کرتا رہا اللہ کی قسم! میں نے کوئی کا م کیا تو آپؐ نے یہ نہیں فرما یا: تم نے یہ کا م اس طرح کیوں کیا؟اور میں نے کوئی کام نہ کیا تو آپؐ نے یہ نہیں فرمایا: تم نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا؟ (صحیح مسلم: 6013) ایک اور روایت میں انس ؓ فرماتے ہیں میں نے دس سال مدینہ میں نبی اکرمﷺ کی خدمت کی، میں ایک کمسن بچہ تھا، میرا ہر کام اس طرح نہ ہوتا تھا جیسے میرے آقاﷺ کی مرضی ہوتی تھی، لیکن آپ ﷺنے کبھی بھی مجھ سے اف تک نہیں کہا اور نہ مجھ سے یہ کہا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ یا تم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟۔(سنن ابوداوٴد: 4774)

﴿خَدَمْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عَشْرَ سِنِينَ، فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ‏.‏ وَلاَ لِمَ صَنَعْتَ وَلاَ أَلاَّ صَنَعْتَ﴾

انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ لوگوں میں سب سے بہتر اخلاق والے تھے، ایک دن آپؐ نے مجھے کسی ضرورت سے بھیجا تو میں نے کہا: قسم اللہ کی، میں نہیں جاؤں گا، حالانکہ میرے دل میں یہ بات تھی کہ اللہ کے نبی اکرمﷺ نے حکم دیا ہے، اس لیے ضرور جاؤں گا، چنانچہ میں نکلا یہاں تک کہ جب میں کچھ بچوں کے پاس سے گزر رہا تھا اور وہ بازار میں کھیل رہے تھے کہ اچانک
رسول اللہ ﷺ نے میرے پیچھے سے میری گردن پکڑ لی، میں نےآپؐ کی طرف مڑ کر دیکھا، آپ ہنس رہے تھے، پھر آپؐ نے فرمایا:”اے ننھے انس! جاؤ جہاں میں نے تمہیں حکم دیا ہے “ میں نے عرض کیا: ٹھیک ہے، میں جا رہا ہوں، اللہ کے رسولﷺ۔ (سنن ابوداوٴد: 4773)

اہل ایمان سے کہا گیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی حفاظت کو یقینی بنائیں بلکہ اپنے خاندان کی حفاظت کو بھی یقینی بنائیں۔ اگرچہ  اس آیت کا تعلق آخرت سے ہے  تاہم  علماء نے اس کی وسیع تشریح کی ہے، اور  یہ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بچے کو ایسے کام میں نہ لگائیں جس سے اس کی صحت یا تعلیم متاثر ہو۔ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔“ (66:06)

ﵻيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُﵺ

[2] – چونکہ علم حاصل کرنا ہر شخص  پر فرض ہے لہذا ملازمت کے لیے کم از کم عمر لازمی تعلیم  مکمل کر لینے کے بعد  یا ایسی عمرہو گی جس سے بچے کی لازمی تعلیم نظر انداز نہ ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ “ (سنن ابن ماجہ: 224)

﴿طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ﴾

والدین اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچے اپنی تعلیم مکمل کریں اور اس کے بعد ہی کل وقتی کام شروع کریں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:   آدمی کے گنہگار ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو جن کے اخراجات کی ذمہ داری اس کے اوپر ہے (جو اسکے ماتحت اور زیرِکفالت ہیں انہیں)ضائع کر دے۔“ (سنن ابو داؤد: 1692)

﴿كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُضَيِّعَ مَنْ يَقُوتُ﴾

تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔“ (صحیح بخاری:893)

﴿وَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ﴾

تعلیم کی اہمیت اس قدر ہے کہ رسول کریم ﷺ نے غزوۂ بدر کے بعد قریش کے تعلیم یافتہ قیدیوں سے فدیہ کی رقم یا مال وصول کرنے کی بجائے یہ کہا کہ وہ مدینہ کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں، جو قیدی دس مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیتا اسے رہا کر دیا جاتا (مسند احمد: 2216؛ اقضیۃ الرسول: ابن الطلاعؒ) حضرت زید ؓبن ثابت نے اسی دوران انصار کے دوسرے بچوں کے ساتھ لکھنا سیکھا تھا۔

[3] – یہاں تک کہ جہاد کے لیے بھی ، نبی کریمﷺنے بچوں کو حصہ لینے کی اجازت نہیں دی:

” عبداللہ بن عمر ؓنے بیان کیا کہ   احد کی لڑائی کے موقع پر وہ رسول اللہﷺ کے سامنے ( جنگ پر جانے کے لیے ) پیش ہوئے تو انہیں اجازت نہیں ملی، اس وقت ان کی عمر چودہ سال تھی۔ پھر غزوہ خندق کے موقع پر پیش ہوئے تو اجازت مل گئی۔ اس وقت ان کی عمر پندرہ سال تھی۔ نافع نے بیان کیا کہ جب میں عمر بن عبدالعزیز ؒکے یہاں ان کی خلافت کے زمانے میں گیا تو میں نے ان سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ چھوٹے اور بڑے کے درمیان ( پندرہ سال ہی کی ) حد ہے۔ پھر انہوں نے اپنے حاکموں کو لکھا کہ جس بچے کی عمر پندرہ سال کی ہو جائے ( اس کا فوجی وظیفہ ) بیت المال سے مقرر کر دیں۔ “ (صحیح بخاری :2664)

[4] – نبی  کریم ﷺ نے کبھی بچوں کو جنگ میں شامل نہیں ہونے دیا۔ نیز جنگوں میں عورتوں اور بچوں کے قتل کی ممانعت فرمائی۔ نبی اکرم ﷺ نے راستے میں ایک عورت کو دیکھا جسے قتل کر دیا گیا تھا تو آپ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرما دیا۔“ (سنن ابن ماجہ: 2841)

﴿أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رَأَى امْرَأَةً مَقْتُولَةً فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ فَنَهَى عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ﴾

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”(بہت زیادہ عمر کے)بوڑھوں کو نہ مارنا، نہ شیر خوار بچوں کو، نہ کم عمر بچوں کو، اور نہ ہی عورتوں کو۔“ (سنن ابو داؤد: 2614)

﴿لاَ تَقْتُلُوا شَيْخًا فَانِيًا وَلاَ طِفْلاً وَلاَ صَغِيرًا وَلاَ امْرَأَةً ﴾

ایک اور روایت میں  رسول اللہﷺنے حکم دیا کہ تم لوگ  دوران ِجنگ  بچوں اور غیر جنگجو   مزدوروں اور خادموں (محنت کشوں/نوکروں)  کو قتل نہ  کرنا۔ (سنن  کبری نسائی: 7395، سنن ابن ماجہ: 2842)

﴿لا تقتلَنَّ ذرِّيَّةً ولا عسيفًا﴾ 

ابوبکر صدیق ؓ      شام کے لئے فوجیں روانہ کرنے کے موقع پر یزید بن ابی سفیان( جو ایک فوجی کمانڈر تھے) کے ساتھ چکر لگا رہے تھے  ۔ کہا جاتا ہے کہ یزید نے ابوبکرؓ سے کہا کہ آپ سوار ہو جائیں یا پھر میں بھی نیچے  اترتا ہوں؟ حضرت  ابوبکرؓنے فرمایا نہ میں سوار ہوں گا اور نہ ہی  آپ نیچے اتریں گے ، میں چاہتا ہوں کہ میرے یہ قدم اللہ کی راہ میں  شمار ہوں۔پھر یزید سے کہا کہ تمہیں کچھ ایسے لوگ ملیں گے جو یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی جانوں کو   اللہ کے لئے روک رکھا ہے،  تو ایسے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ، اور کچھ ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے اپنے سروں کو بیچ میں سے منڈایا ہے تو ایسے لوگوں کے سروں پر مارنا،  اور میں تمہیں دس باتوں کی وصیت کرتا ہوں  کہ کسی عورت کو مت مارنا،  نہ بچوں کو ، نہ بوڑھے ضعیف کو، نہ ہی کسی پھل دار درخت کو کاٹنا ، نہ ہی کسی بستی کو اجاڑنا، نہ کسی بکری  یا اونٹ وغیرہ کی کونچیں کاٹنا، ہاں کھانے کے لئے انہیں ذبح کر سکتے ہو، نہ ہی کسی کھجور کے درخت کوجلانا  یا کاٹنا، نہ ہی غنیمت  کے مال میں چوری کرنا، اور نہ ہی بزدلی دکھانا۔ (مؤطا  امام مالکؒ: 968 کتاب:21، حدیث:10)

أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ، بَعَثَ جُيُوشًا إِلَى الشَّامِ فَخَرَجَ يَمْشِي مَعَ يَزِيدَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ – وَكَانَ أَمِيرَ رُبْعٍ مِنْ تِلْكَ الأَرْبَاعِ – فَزَعَمُوا أَنَّ يَزِيدَ قَالَ لأَبِي بَكْرٍ إِمَّا أَنْ تَرْكَبَ وَإِمَّا أَنْ أَنْزِلَ ‏.‏ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ مَا أَنْتَ بِنَازِلٍ وَمَا أَنَا بِرَاكِبٍ إِنِّي أَحْتَسِبُ خُطَاىَ هَذِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ لَهُ إِنَّكَ سَتَجِدُ قَوْمًا زَعَمُوا أَنَّهُمْ حَبَّسُوا أَنْفُسَهُمْ لِلَّهِ فَذَرْهُمْ وَمَا زَعَمُوا أَنَّهُمْ حَبَّسُوا أَنْفُسَهُمْ لَهُ وَسَتَجِدُ قَوْمًا فَحَصُوا عَنْ أَوْسَاطِ رُءُوسِهِمْ مِنَ الشَّعَرِ فَاضْرِبْ مَا فَحَصُوا عَنْهُ بِالسَّيْفِ وَإِنِّي مُوصِيكَ بِعَشْرٍ لاَ تَقْتُلَنَّ امْرَأَةً وَلاَ صَبِيًّا وَلاَ كَبِيرًا هَرِمًا وَلاَ تَقْطَعَنَّ شَجَرًا مُثْمِرًا وَلاَ تُخَرِّبَنَّ عَامِرًا وَلاَ تَعْقِرَنَّ شَاةً وَلاَ بَعِيرًا إِلاَّ لِمَأْكُلَةٍ وَلاَ تَحْرِقَنَّ نَحْلاً وَلاَ تُفَرِّقَنَّهُ وَلاَ تَغْلُلْ وَلاَ تَجْبُنْ

[5] – رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”تم لوگ اپنی اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرو، اور انہیں بہترین ادب  (اچھے عادات و اطوار)سکھاؤ ۔“(سنن ابن ماجہ:3671)

﴿أَكْرِمُوا أَوْلاَدَكُمْ وَأَحْسِنُوا أَدَبَهُمْ﴾

اسلام  بچے کی بہتر پرورش کو اخروی جزا کے ساتھ جوڑتا ہے اور اس طرح سے والدین کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ بچوں کی  اچھی پرورش کریں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” انسان اپنی اولاد کو اچھے آداب  (اور عادات و اطوار)سکھادے وہ اس کے لئے روزانہ نصف صاع صدقہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔“ (مسند احمد: 20900)

﴿لان يؤدب الرجل ولده او احدكم ولده خير له من ان يتصدق كل يوم بنصف صاع﴾

[6] – کسی سے  جبری مشقت(بندھوا مزدوری) لینا اسلام میں منع ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:   اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تین طرح کے لوگ ایسے ہوں گے جن کا قیامت کے دن میں مدعی بنوں گا، ایک وہ شخص جس نے میرے نام پر عہد کیا اور وہ توڑ دیا، وہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور وہ شخص جس نے کوئی مزدور اجرت پر رکھا، اس سے پوری طرح کام لیا، لیکن اس کی مزدوری نہیں دی۔(صحیح بخاری:2227)

﴿قَالَ اللَّهُ: ثَلاَثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ: رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ، وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ، وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ ﴾

جبری مشقت میں دونوں پہلو شامل ہیں: ایک شخص کو غلام کے طور پر بیچنا اور کسی شخص کو اس کی مناسب اجرت ادا نہ کرنا۔ ایک اور روایت میں رسول کریمﷺ نے تین کبیرہ گناہوں کا تذکرہ فرمایا اور ان میں اس شخص کا ذکر کیا جس نے کسی ایک آدمی کو مزدوری پر لگایا اور اسکی اجرت ہڑپ کر گیا۔ (سلسلہ احادیثِ صحیحہ: 999) نبی کریم ﷺ نے ایک اور موقع پر فرمایا”سنو! جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا یا اس کا کوئی حق چھینا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالا یا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی مرضی کے لے لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے وکیل ہوں گا ۔“ (سنن ابو داؤد:3052)

﴿أَلاَ مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أَوِ انْتَقَصَهُ أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾

قرآن ،کریم حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت شعیب  علیہ السلام کے درمیان گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے ایک اچھے آجر کو خراج تحسین پیش کرتا ہے اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی  مزدور سے جبری مشقت نہیں  لینی چاہیے اور نہ ہی  مقررہ وقت سے زیادہ کام لینا چاہیے: آیت مبارکہ  میں ہے:” اور میں آپ پر مشقت نہیں ڈالنا چاہتا، اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے نیک لوگوں میں سے پائیں گے۔“(28:27)

ﵻوَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَﵺ

رسول اللہ ﷺ نے  کسی کو مشقت میں ڈالنے سےمنع فرمایا ہے، اس مشقت میں وہ تمام افراد بھی شامل ہیں جو بچوں سے جبری مشقت لیتے ہیں یا کسی  کو وقت مقررہ سے زیادہ کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔   ارشاد نبویؐ ہے: ” جو لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے تکلیف میں مبتلا کرے گا۔“ (بخاری:7152)

﴿وَمَنْ يُشَاقِقْ يَشْقُقِ اللَّهُ عَلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾

نبی کریم ﷺ نے درج ذیل الفاظ میں آجر  اور مزدور کے تعلق کی بات کی، اور فرمایا:” تمہارے غلام/ خدمت گزار /ملازم بھی تمہارے بھائی ہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے۔ اس لیے جس کا بھی کوئی بھائی اس کےماتحت ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ لیکن اگر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالو تو پھر ان کی خود مدد بھی کر دیا کرو۔“ (صحیح بخاری:2545)

﴿إِنَّ إِخْوَانَكُمْ خَوَلُكُمْ جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ، وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلاَ تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَأَعِينُوهُمْ﴾

نبی کریم ﷺ کے  آخری الفاظ  یہ تھے : ”نماز ، نماز اور اپنے ماتحتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔“ (مسند احمد: 585)

﴿كَانَ آخِرُ كَلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ اتَّقُوا اللَّهَ فِيمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُك﴾

جبری مشقت کی صورت میں غلامی کا رواج  آج بھی دنیا میں موجود ہے ،جس میں سود کے ساتھ قرض ادا نہ کرنے پر جبری مزدوری ، ذات پات  کی صورت میں کسی سے زبردستی کوئی  کام  لینا وغیرہ شامل ہیں۔  مرنے والے والدین کے بقایا  قرضوں کے عوض ان کے  یتیم بچوں سے مشقت لینا ۔ بے شک اللہ اور اس کے رسول نے ہر طرح کے سود کو حرام قرار دیا ہے : [2:275] ارشاد باری تعالی ہے: ” جو لوگ ناحق یتیموں کی جائیداد ( جس میں کام  کاج بھی شامل ہیں) کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ  میں آگ کھاتے ہیں: انہیں جلد ہی بھڑکتی ہوئی آگ کو برداشت کرنا پڑے گا!“ [04:10]

ﵻإِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًاﵺ

جو لوگ سود کا لین دین کرتے ہیں وہ ایسے ہیں گویا انہیں شیطان نے الجھا دیا ہو، ایسے لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے:  ”جو لوگ سُود کھاتے ہیں وہ (روزِ قیامت) کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان (آسیب) نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو، یہ اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو سود کی مانند ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت (سوداگری) کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کیا ہے، پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ (سود سے) باز آگیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اسی کا ہے، اور اس کا معاملہ  اللہ کے سپرد ہے، اور جس نے پھر بھی لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔“ (02:275)

ﵻالَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَﵺ

اسلام نے غلاموں کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ایک معاہدے کے ذریعے اپنی  غلامی سے آزادی کا دعویٰ کرسکیں۔ اسلامی قانون میں  مکاتبت آقا اور غلام کے مابین حقوق کے تعین کا معاہدہ ہے جس کی رو سے ایک غلام کو آزاد  ہونے کے لئے ایک مقررہ مدت میں ایک مخصوص رقم ادا کرنا ہوتی ہے، قانونی اصطلاح میں  اس معاہدے میں داخل ہونے والے غلاموں کو مکاتب کہا جاتا ہے۔ خود
نبی کریمﷺ نے اس طرح کے معاہدے میں غلام/مزدور کے لیے زیادہ مشکلات پیدا  نہ کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔

” جو کوئی کسی ( مشترک ) غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دے، تو اس کی ذمہ داری ہے کہ اگر اس کے پاس مال ہو تو اپنے مال سے اس کو مکمل آزاد کرائے، اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو غلام سے باقی ماندہ قیمت کی ادائیگی کے لیے مزدوری کرائے، لیکن اس پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔“ ( ابن ماجہ :2527)

﴿مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا لَهُ فِي مَمْلُوكٍ أَوْ شِقْصًا فَعَلَيْهِ خَلاَصُهُ مِنْ مَالِهِ إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ اسْتُسْعِيَ الْعَبْدُ فِي قِيمَتِهِ غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْهِ﴾

قرآن نے مندرجہ ذیل الفاظ میں مکاتب کے ساتھ بھلائی کی تاکید فرمائی ہے: ”اور تمہارے زیردست (غلاموں اور باندیوں) میں سے جو مکاتب (کچھ مال کما کر دینے کی شرط پر آزاد) ہونا چاہیں تو انہیں مکاتب (مذکورہ شرط پر آزاد) کر دو اگر تم ان میں بھلائی جانتے ہو، اور تم (خود بھی) انہیں اللہ کے مال میں سے (آزاد ہونے کے لئے) دے دو جو اس نے تمہیں عطا فرمایا ہے۔“   (24:33)

ﵻوَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا وَآتُوهُمْ مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْﵺ