فہرست مضامین

مساویانہ مواقع اور سلوک

مساویانہ مواقع اور سلوک(Equality of Opportunity and Treatment)

  1. ایک آجر ملازمت کے کسی بھی پہلو میں[1] براہِ راست یا بالواسطہ طور پر [2] کسی مزدور/محنت کش /ورکر یا ملازمت کے درخواست گزار کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرے گا[3]۔
  2. اس باب کے مقصد کے لیے، امتیازی سلوک سے مراد کوئی بھی ایسا امتیاز، اخراج یا ترجیح شامل ہے جس سے ملازمت یا پیشے میں  مساویانہ مواقع یا سلوک ختم  یا کمزور پڑ جائے یا غیر مؤثر ہوجائے۔ امتیازی سلوک مندرجہ ذیل بنیادوں پر ممنوع ہے۔[4]:
    1. نسل کی بنیاد پر[5]
    2. قبیلہ یا ملک کی بنیاد پر[6]
    3. قومیت کی بنیاد پر[7]
    4. رنگت کی بنیاد پر [8]
    5. جنس کی بنیاد پر [9]
    6. مذہب/فرقےکی بنیاد پر[10]
    7. زبان /لسانی بنیادوں پر [11]
    8. عمر کی بنیاد پر [12]
    9. معذوری کی بنیاد پر[13]
    10. ٹریڈ یونین کی رکنیت کی بنیاد پر[14]
  3. کسی خاص ملازمت کی لاینفک ضروریات کی بنیاد  پر روا رکھا جانے والا کوئی فرق ، محرومی یا ترجیح امتیازی سلوک نہیں سمجھا جائے گا۔[15]
  4. ایسے اقدامات کو امتیازی سلوک نہیں سمجھا جائے گا  جن کے تحت کچھ افراد کو جنس ، عمر یا معذوری جیسی وجوہات کی بنا پرکسی قسم کا کوئی خاص تحفظ دیا جائے یا مدد فراہم کی جائے ۔[16]
  5. ایک ہی نوعیت اور یکساں قدر کا  کام کرنے والے تمام مزدور  یکساں معاوضے کے حقدار ہونگے۔[17] ہر آجر تمام مزدوروں /محنت کشوں   کے لیے ایک ہی نوعیت   اور یکساں  قدرکے کام کے لیے یکساں معاوضے کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے گا۔[18]  ایک مزدور جس کو معاوضہ اس مقدار سے کم دیا گیا ہو  جتنا اس طرح کا کام کرنے والے دوسرے مزدور کو دیا گیا ہو تو ایسا مزدور مساوی تنخواہ کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ  حق رکھتا ہے  کہ وہ آجر سے اس رقم کی  ادائیگی کا مطالبہ کرے جو  اس طرح کے کام کی ادائیگی سے کم ہو۔ [19]
    1. یکساں قدرکا کام(work  of  equal  value) وہ کام ہے ، جس کے لیے مزدوروں /محنت کشوں کے درمیان  قابلیت ، تجربہ ، ذمہ داریوں اور جسمانی یا دانشورانہ کوششوں سے حاصل کردہ صلاحیتوں میں تقابل ہو سکے ۔[20]

 

[1] – قرآن  کریم کسی قسم کے جنسی ، نسلی ، قومیت یا مذہب وغیرہ پر مبنی امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیتا۔ تمام انسانوں میں مساوات کا اعلان کرتے ہوئے قرآن کریم میں ہے: ” اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا ۔“ (49:13)

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنَّا خَلَقۡنَٰكُم مِّن ذَكَرٖ وَأُنثَىٰ

ایک اور آیت کریمہ میں ارشاد باری تعالٰی ہے: ”اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔“  (04:01)

ﵻيَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءًﵺ

اسی معنی کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے جو خطبہ حجۃ الوداع کا حصہ ہے، ابو نضرہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے اختتام حج پر ایام تشریق کے  آدھے دن میں ایک  خطبہ میں ارشاد  فرمایا : ”اے لوگو بے شک تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ آدمؑ بھی ایک ہے۔ بے شک  کسی عربی کو  کسی عجمی پر کوئی فوقیت نہیں اور نہ ہی  کسی عجمی کو عربی پر۔ اور  نہ ہی کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت ہے اور  نہ ہی کسی کالے کو گورے پر، سوائے تقویٰ کے۔ خبردار! کیا میں نے (اللہ کا پیغام)پہنچا دیا ہے؟“  انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیوں نہیں۔“ (مسند احمد: 23489- 22978)

﴿يا أيها الناس ألا إن ربكم واحد وإن أباكم واحد ألا لا فضل لعربي على أعجمي ولا لعجمي على عربي ولا لأحمر على أسود ولا أسود على أحمر إلا بالتقوى أبلغت قالوا بلغ رسول الله ﷺ﴾

اسی طرح کی ایک اور  حدیث جسے بیہقی اور بزار نے روایت  کیا:”کسی عرب کو کسی غیر عرب پر کوئی فوقیت حاصل نہیں نہ ہی کسی عجمی کو کسی عرب پر کوئی برتری حاصل ہے، نہ ہی کسی گورے کو کالے آدمی پر کوئی برتری حاصل ہے ، اور نہ ہی کالے کو گورے آدمی پر کوئی برتری حاصل ہے۔ تم سب آدم ؑکی اولاد ہو اور آدمؑ کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔“ (بیہقی ، شعب الایمان: 5137)ایک اور موقع پر نبی کریمﷺ نے فرمایا: ” باز آجائیں وہ قومیں جو اپنے ان آباء واجداد پر فخرکررہی ہیں جو مرگئے ہیں، وہ جہنم کا کوئلہ ہیں ورنہ وہ اللہ کے نزدیک اس گبریلے سے بھی زیادہ ذلیل ہوجائیں گے، جو اپنے آگے اپنی ناک سے نجاست ڈھکیلتا رہتاہے ، اللہ نے تم سے جاہلیت کی نخوت کو ختم کردیا ہے، اب تو لوگ مومن و متقی ہیں یا فاجر وبدبخت، لوگ سب کے سب آدم ؑکی اولاد ہیں اور آدم ؑمٹی سے پیداکیے گئے ہیں۔“ (جامع ترمذی: 3955)

﴿لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ يَفْتَخِرُونَ بِآبَائِهِمُ الَّذِينَ مَاتُوا إِنَّمَا هُمْ فَحْمُ جَهَنَّمَ أَوْ لَيَكُونَنَّ أَهْوَنَ عَلَى اللَّهِ مِنَ الْجُعَلِ الَّذِي يُدَهْدِهُ الْخِرَاءَ بِأَنْفِهِ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ إِنَّمَا هُوَ مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ النَّاسُ كُلُّهُمْ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ﴾

مزید یہ کہ اسلام میں  دورانِ ملازمت  امتیازی سلوک کی ممانعت ہے۔ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ”دیکھو! تم ان لوگوں سے بہتر نہیں ہو جو سرخ یا کالے رنگ والے ہیں جب تک کہ تم ان سے تقویٰ میں سبقت نہ لے جاؤ۔“ (مشکوٰة المصابیح: 5198؛  مسند احمد: 20442)

﴿انْظُرْ، فَإِنَّكَ لَيْسَ بِخَيْرٍ مِنْ أَحْمَرَ وَلَا أَسْوَدَ إِلَّا أَنْ تَفْضُلَهُ بِتَقْوَى﴾

ایک شخص دوسرے سے صرف اسی صورت میں برتر وبالا ہو سکتا ہے جب وہ  بغیر کسی امتیازی سلوک کے سب سے  اچھا ومعیاری کام کرے گا،  یہی بات ان آیات 52:21 اور 74:38 سے بھی واضح ہوتی ہے۔ ایک آیت مبارکہ میں ہے : ”ہر شخص اپنے ہی عمل (کی جزا و سزا) میں گرفتار ہوگا۔“(52:21)

ﵻكُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌﵺ

”ہر شخص اُن (اَعمال) کے بدلے جو اُس نے کما رکھے ہیں گروی ہے۔“ (74:38)

ﵻكُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌﵺ

ہر آجر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو مساوی کام (اور مساوی مقدار) اور مساوی اجرت ادا کرے۔ قرآن کریم  میں اچھے کام کرنے والوں کے بارے میں ارشاد ہے کہ  یہ وہ لوگ ہیں جو (دینی احکامات کی روشنی میں) تنظیمی کلچر پر یقین رکھتے ہیں اور اپنا کام تندہی سے سرانجام دیتے ہیں۔”بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہی لوگ ساری مخلوق سے بہتر ہیں۔“(98:07)

ﵻإِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِﵺ

[2] – قرآن کریم میں ارشاد ہے: ”اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔“(60:08)

ﵻلَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ  إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَﵺ

قرآن  کریم  نے اقلیتوں کے لیے (ان کی مذہبی  وابستگی سے قطع نظر) ملازمتوں میں مساوی مواقع (بشمول روزگارکا  کوٹہ)  مقرر کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس میں غیر ملکیوں کے لیے ملازمت ، تربیت اور انٹرن شپ کے مواقع بھی شامل ہیں۔ اسی طرح ، قرآن کریم میں ارشاد ہے :”بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔“(04:58)

ﵻإِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًاﵺ

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امتیازی سلوک کی روک تھام کے لیے ، انٹرپرائز ریگولیشنز کو واضح طور پر بھرتی کے لیے اہلیت کا معیار مقرر کرنا چاہیے ، اور صرف اہل اور قابل افراد کو ہی ملازم بھرتی کیا جائے۔

[3]–  قرآن  کریم مزدوروں کے ساتھ امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیتا۔ اس  آیت مبارکہ سے  ہم بغیر کسی امتیاز کے سب کے لیے یکساں اجرت/فوائد اور سلوک کی اہمیت  کا اندازہ لگاسکتے ہیں ، اور یہ کہ انسان کو (انصاف سے) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض  اللہ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے، اور یہ کہ اُس کی ہر کوشش عنقریب دکھا دی جائے گی (یعنی ظاہر کر دی جائے گی)، پھر اُسے (اُس کی ہر کوشش کا) پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ (53:39-41)

ﵻوَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ۝ وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ ۝ ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰﵺ

مندرجہ ذیل قرآنی آیت میں  مزدور کے کام کے مطابق اس کا معاوضہ  بھی  برابر/انصاف پسندانہ ہونا چاہئے  ۔ لہذا ، مزدوروں کے لیے انعام اور سزا بھی بلا امتیاز دی جائے جیسا کہ آیات02:81-82 اور 11:03 میں فرمایا گیا ہے کہ: ” اور (روزِقیامت اللہ تعالیٰ)   ہر فضیلت والے کو اس کی فضیلت کی جزا دے گا (یعنی اس کے اَعمال و ریاضت کی کثرت کے مطابق اَجر و درجات عطا فرمائے گا)۔“ (11:03)

ﵻوَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُﵺ

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہر وہ شخص جو زیادہ   خوش اسلوبی اور لگن سےکام کرتا ہے اسے زیادہ فراخ دلی سے نوازا جاتا ہے۔ اعلٰی کامیابی حاصل کرنے والوں کو بلا امتیاز بونس اور انعامات  دیئے جانے چاہئیں۔اس بات کی وضاحت قرآن کریم کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں  اسلام نے امتیازی سلوک سے منع فرمایا ہے، خاص طور پر قومیت کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک پر سزا تجویز کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: ” بیشک جن لوگوں نے کفر کیا ہے اور (دوسروں کو) اللہ کی راہ سے اور اس مسجدِ حرام (کعبۃ  اللہ) سے روکتے ہیں جسے ہم نے سب لوگوں کے لئے یکساں بنایا ہے اس میں وہاں کے باسی اور پردیسی (میں کوئی فرق نہیں)، اور جو شخص اس میں ناحق طریقہ سے کج روی (یعنی مقررہ حدود و حقوق کی خلاف ورزی) کا ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔“

ﵻإِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍﵺ

اسی طرح سے رسول کریم ﷺ نےسماجی درجہ بندی ( سوشل سٹیٹس) کی بنیاد پر بھی امتیازی سلوک سے منع کیا اور اپنےملازموں کا خیال رکھنے کا حکم دیا، روایت ہے کہ: ایک سیاہ فام عورت (سنن بیہقی میں اس خاتون کا نام ام محجنؓ مذکور ہے) مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ اسکی وفات ہو گئی لیکن نبی کریمﷺ کو اسکی وفات کی خبر نہ دی گئی، ایک دن رسول اللہ ﷺ نے اس کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے اسکے انتقال کے متعلق بتایا ۔آپؐ نے فرمایا: ”کیا تم لوگوں کو مجھے اطلاع نہیں دینی چاہیے تھی؟“تو لوگوں نے عرض کیا کہ یہ وجہ تھی (اس لیے آپ کو تکلیف نہیں دی گئی) گویا لوگوں نے اسے حقیر جان کر قابلِ توجہ نہ سمجھا تو آپؐ نے فرمایا: ”مجھے اس کی قبردکھاؤ۔“صحابہؓ نے آپؐ کو اس کی قبر دیکھائی۔تو آپﷺ نےاس کی نماز جنازہ پڑھی۔ (صحیح مسلم: 2215)

﴿أنَّ امْرَأَةً سَوْدَاءَ كَانَتْ تَقُمُّ المَسْجِدَ، أَوْ شَابًّا، فَفَقَدَهَا رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عَنْهَا، أَوْ عنْه، فَقالوا: مَاتَ، قالَ: أَفلا كُنْتُمْ آذَنْتُمُونِي قالَ: فَكَأنَّهُمْ صَغَّرُوا أَمْرَهَا، أَوْ أَمْرَهُ، فَقالَ: دُلُّونِي علَى قَبْرِهِ فَدَلُّوهُ، فَصَلَّى عَلَيْهَا﴾

[4] – قرآنی آیت 49:11 میں ارشاد باری تعالی  ہے : ” اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں۔“  (49:11)

اس باب کے مقصد کے لیے، امتیازی سلوک سے مراد کوئی بھی ایسا امتیاز، اخراج یا ترجیح شامل ہے جس سے  ملازمت یا پیشے میں  مساویانہ مواقع یا سلوک ختم  یا کمزور پڑ جائے یا غیر مؤثر ہوجائے۔چاہے  امتیازی سلوک کی بنیادیں کوئی بھی ہوں:

ﵻيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ  بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ  وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَﵺ

اس آیت  مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں رنگ و نسل ، اور ذات  پات  وغیرہ کی بنیاد پر  کسی  کوہراساں کرنا ،ڈرانا ، دھمکانا  یا کسی کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کی اجازت نہیں ۔ اسلام میں قبیلے ، قومی  وابستگی، رنگ یا مذہب یا کسی اور بنیاد پر مزدوروں /محنت کشوں   یا ملازمین ساتھیوں سے امتیازی سلوک کی اجازت نہیں ہے۔ مقامِ ملازمت پر ضابطۂ اخلاق  وضع کرنا ضروری ہے ۔ قرآن نے اعلان کیا ہے کہ جنس ، رنگ ، ذات ، عقیدہ اور قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک  روا رکھنا ممنوع ہے۔ سب سے زیادہ قابل احترام وہ ہیں جو قانون پر عمل کرتے ہیں۔ جیسا کہ 49:13 میں  ہے ،  ” اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک  اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک  اللہ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔“ (49:13)

ﵻيَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا  إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ  إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌﵺ

لہذا ایسا امتیازی سلوک جو ملازمت  میں مساوی مواقع یا سلوک  میں  رکاوٹ  ہو ، اس پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔ایک اور مقام پر نبی کریمﷺ نے یتیموں (ایسے بچے جن  کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ ہو ) اور عورتوں کی حقوق تلفی سے منع کیا ہے۔ ”اے اللہ ، میں دو کمزوروں، یعنی   یتیموں اور عورتوں کے حقوق مارنے کو حرام  قرار دیتا ہوں۔“ (ریاض الصالحین: 270) (یتیم سے مراد وہ شخص بھی ہے جو معاشرہ میں تنہا رہ جائے جسکا کوئی سہارا نہ ہو چاہے وہ جس عمر کا بھی ہولیکن عام طور پر یہ وہ بچہ ہے جس کے ماں باپ مر گئے ہوں اور سنِ بلوغت تک یتیم کہلاتا ہےلیکن یتیم لڑکی کی جب تک شادی نہ ہو یتیم کہلائے گی۔)

‏﴿اللهم إني أحرج حق الضعيفين اليتيم والمرأة‏‏﴾

رسول کریمؐ نے فرمایا کہ: ”سب لوگ آدمؑ کی أولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں۔“ (ترغیب و ترہیب)

﴿النَّاسُ بنو آدمَ ، وآدمُ خُلِق من ترابٍ﴾

اسی طرح ایک اور موقع پر آپ ﷺنے فرمایا: ”سب انسان بھائی بھائی ہیں۔“

﴿النَّاسُ کلھم اخوة﴾

[5]–  مذکورہ بالا قرآنی آیات (04:01، 49:13) اور اسی طرح  البیہقی ، البزار  اور مشکوٰة المصابیح سے رسول اللہ ﷺ کی جو احادیث مبارکہ یہاں  ذکر کی گئی ہیں وہ یہاں بھی لاگو ہوتی ہیں۔ نبی کریم ﷺنے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ اللہ تعالی ٰصرف کسی شخص کی نیتوں اور اعمال کو دیکھتا ہے، حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں جن کاترجمہ  ہے۔ ”اللہ تعالی جسموں اور تمہاری صورتوں  کو نہیں دیکھتا اور نہ تمہارے لباس کو دیکھتا ہے بلکہ وہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے۔“ (ریاض الصالحین: 07)

﴿ إن الله لا ينظر إلى أجسامكم ، ولا إلى صوركم، ولكن ينظر إلى قلوبكم وأعمالكم ﴾

فرعون کے گناہوں میں سے ایک گناہ یہ تھا کہ جن لوگوں کو وہ کمتر سمجھتا ان کے ساتھ  اس نے نسلی اور امتیازی سلوک کی بنیاد پر معاشرتی تقسیم  کو روا رکھا تھا۔  اس بارے میں قرآن کریم   میں یوں اشارہ کیا  گیاہے:”بیشک فرعون زمین میں سرکش و متکبّر (یعنی آمرِ مطلق) ہوگیا تھا اور اس نے اپنے (ملک کے) باشندوں کو (مختلف) فرقوں (اور گروہوں) میں بانٹ دیا تھا اس نے ان میں سے ایک گروہ (یعنی بنی اسرائیل کے عوام) کو کمزور کردیا تھا کہ ان کے لڑکوں کو (ان کے مستقبل کی طاقت کچلنے کے لئے) ذبح کر ڈالتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا (تاکہ مَردوں کے بغیر ان کی تعداد بڑھے اور ان میں اخلاقی بے راہ روی کا اضافہ ہو)، بیشک وہ فساد انگیز لوگوں میں سے تھا۔“(28:4)

ﵻإِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ  إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَﵺ

مولانا امین احسن اصلاحی ؒ، تدبر قرآن میں کچھ یوں لکھتے ہیں:  اس  (فرعون)نے ملک کے باشندوں کو طبقات میں تقسیم کیا اور ان میں سے ایک گروہ کو اس نے بالکل دبا کر اور غلام بنا کر رکھا۔ جب راعی و رعیت سب خدا کی مملوک ہیں تو کسی ملک کے حکمران کے لیے یہ بات جائز نہیں ہو سکتی کہ وہ رعایا کے درمیان کوئی تفریق و امتیاز برتے بلکہ راعی و رعیت سب کے لیے بلا امتیاز ایک ہی قانون اور ایک ہی نظام عدل و مساوات ہونا چاہیے لیکن فرعون نے بنی اسرائیل کو تو غلاموں کی حیثیت دے رکھی تھی اور خود خدا بن بیٹھا تھا۔ ساتھ ہی اپنی قوم قبطیوں کو یہ اختیار دے رکھا تھا کہ وہ بنی اسرائیل سے غلاموں کی طرح کام لیں۔

[6]– پچھلے حاشیہ  میں بیان کردہ قرآنی آیات 49:11 اور 49:13 ، یہاں بھی لاگو ہیں۔ مزید یہ کہ قرآن کریم ہر حالت میں انصاف کی موجودگی اور عمل کی تعریف کرتا ہے ، جیسا کہ آیت 60:08 میں ذکر کیا گیا ہے:”اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔“(60:08)

ﵻلَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَﵺ

مذہب ، ذات ، مسلک یا قومیت کی بنیاد پر مزدوروں /محنت کشوں   یا درخواست گزاروں کو محروم رکھنا یا ترجیح دینا منع ہے۔  نبی کریمﷺ نے فرمایا:اور جسےخود اسکا عمل ہی پیچھے چھوڑ دے اسکا نسب اسے آگے نہیں لاسکتا۔ (صحیح مسلم:  6853)

﴿وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ﴾

اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے (اپنے  حسب ونسب پر فخر کرنےاور دوسروں کے )حسب ونسب پر طعن وتشنیع کرنے کو بمنزلہٴ کفر قرارد یا ہے۔ (صحیح مسلم: 227)

﴿اثْنَتَانِ فِي النَّاسِ هُمَا بِهِمْ كُفْرٌ، الطَّعْنُ فِي النَّسَبِ، وَالنِّيَاحَةُ عَلَى الْمَيِّتِ﴾

پناہ گزین ہونے کی  بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھنا بھی ممنوع ہے۔  خودصحابہ کرام ؓنے غیر مسلموں کے جور وستم سے بچنے کے لیے دوسرے مقامات (جیسے ہجرت حبشہ)کی طرف ہجرت کی۔ آخر کار ، رسول اللہﷺ نے 622 عیسوی میں مدینہ منورہ کی طرف  ہجرت فرمائی۔ حضرت ابراہیمؑ اور ان کے خاندان بھی ہجرت پر مجبور ہوئے (21:71) اسی طرح حضرت موسٰیؑ ٰؑنے مصریوں/قبطیوں کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے مدین کی طرف ہجرت کی۔(28:20-28)، قرآن کریم اپنی جان اور عقائد کی حفاظت کے لیے ہجرت کا حکم دیتا ہے۔ (04:97)۔ اس کی تائید قرآن میں بھی کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ” اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور انہوں نے راہِ حق میں (قربانی دیتے ہوئے) گھر بار چھوڑ دیئے اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا تو وہ لوگ (بھی) تم ہی میں سے ہیں، اور رشتہ دار اللہ کی کتاب میں (صلہ رحمی اور وراثت کے لحاظ سے) ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔“(08:75)

ﵻوَالَّذِينَ آمَنُوا مِن بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَٰئِكَ مِنكُمْ ۚ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌﵺ

ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقیؒ اپنی کتاب (عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت) میں لکھتے ہیں کہ مواخاتِ مدینہ (یہ عمل ہجرت کے بعد سے شروع ہو کر عہد نبویؐ کے اواخر تک جاری رہا) کا  مقصد یہ تھا کہ ”خارجی واندرونی، ملکی و غیرملکی، اپنے وپرائےو فرزندانِ زمین و تازہ واردانِ بساط اور سب سے بڑھ کر مکی اور مدنی کا فرق مٹ جائے۔ اور جو بھی فرد یا تازہ گروہ وارد ہوتا وہ مواخات کے موثر و فعال ذریعہ کے سبب مدنی مسلم سماج کا جزو بنا دیا جاتا۔“یہی وجہ تھی کہ جب سلمان فارسیؓ سے ان کے نسب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ”میں سلمان ہوں، اسلام کا ایک فرزند۔“ (انا سلمان بن اسلام)

اسی طرح رسول کریم ﷺ نے زید بن حارثہؓ  (جو کہ آپؐ کے آزاد کردہ غلام تھے)کو  نو یا تیرہ مہموں میں  امیر مقرر فرمایا اسی طرح سے اسامہ بن زید ؓ کو آپؐ نے حیات طیبہ کے آخر میں امیر ِلشکر مقرر فرمایا اور بڑے بڑے صحابہ کو انکی ماتحتی میں دیا گیا جب لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو آپؐ نے  شدید بیماری اور نقاہت کے باوجود خطبہ دیا اور فرمایا: ” اگر تم لوگ اس کے امیر بنائے جانے پر اعتراض کرتے ہو تو تم اس سے پہلے اس کے والد زید کے امیر بنائے جانے پر بھی اعتراض کر چکے ہو ، لیکن خدا کی قسم، دونوں امارہ (منصب امیر) کے پورے اہل تھے۔“ (کتاب المغازی، واقدیؒ؛ صحیح بخاری:6627)  ان تقرریوں سے رسول کریم ﷺ یہ تاثر دے دینا چاہتے تھے کہ اسلامی ریاست میں مناصب اور عہدوں کی اصل بنیاد صلاحیت و لیاقت ہے نہ کہ اعلٰی خاندان میں پیدائش کا اتفاقی حادثہ یا حسب و نسب  پر مبنی سماجی مرتبہ۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تمھارے یہ نسب کسی کے لیے باعثِ عار نہیں ہیں ۔ تم آدمؑ کی اولاد ہو، جیسے ایک صاع دوسرے صاع کے برابر ہوتا ہے۔ کسی کو دوسرے پر دین یا صالحیت کے علاوہ کسی لحاظ سے کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔“  ایک اور روایت میں ہے کہ :”کسی کو دوسرے پر دین یا نیک عمل کے علاوہ کسی لحاظ سے برتری حاصل نہیں ہے۔ آدمی (کے برا ہونے) کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ فحش گو، زبان دراز اور بخیل ہو۔“(سلسلہ احادیثِ صحیحہ: 1038؛ مسند احمد: 17313)

﴿إن أنسابكم هذه ليست بسباب على أحد، وإنما أنتم ولد آدم، طف الصاع لم تملئوه، ليس لأحد على أحد فضل إلا بالدين أو عمل صالح، حسب الرجل أن يكون فاحشا بذيا، بخيلا جبانا﴾

ایک اور حدیث میں نبی کریمﷺ نے فرمایا: ”اللہ اس قوم کا لحاظ باقی نہیں رکھتا جس میں ضعیف (کمزور فریق)ہکلائے بغیر طاقتور سے اپنا حق نہیں لے لیتا۔“ اس حق کا دلوانا حکومت کا کام ہے اسی لیے  حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اپنے پہلے خطبے میں ارشاد فرمایا تھا: تم میں  سے قوی ترین شخص میرے نزدیک ضعیف ہے جب تک کہ اس سے حق حاصل نہ کر لو ں اور تم میں سے کمزور ترین شخص میرے نزدیک قوی ہے جب تک اسے اسکا حق دلا نہ دوں۔“  (فقہ ابوبکرؓ: رواس قلعہ جیؒ)

﴿لا تُقدَّسُ أمَّةٌ لا يُقضَى فيها بالحقِّ ولا يأخذُ الضَّعيفُ حقَّه من القويِّ غيرَ مُتَعتَعٍ﴾

[7]– قرآنی آیات 49:11  ، 49:13 اور 60:08 کے اطلاق کے علاوہ ، آیت 2:282  0میں  ہے ، ”اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہئے کہ انصاف کے ساتھ لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے  اللہ نے لکھنا سکھایا ہے، پس وہ لکھ دے (یعنی شرع اور ملکی دستور کے مطابق وثیقہ نویسی کا حق پوری دیانت سے ادا کرے)، اور مضمون وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق (یعنی قرض) ہو اور اسے چاہئے کہ  اللہ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس (زرِ قرض) میں سے (لکھواتے وقت) کچھ بھی کمی نہ کرے، پھر اگر وہ شخص جس کے ذمہ حق واجب ہوا ہے ناسمجھ یا ناتواں ہو یا خود مضمون لکھوانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس کے کارندے کو چاہئے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے…۔“  (02:282)

ﵻفَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِﵺ

اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا  ہے کہ(آجروں کو اپنے ماتحت)  غیر ملکی مزدوروں و ملازمین جو زبان سمجھنے یا بولنے سے قاصر ہیں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں برتنا چاہیے اور نہ ہی ان سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ مزدور اپنے ان   ممالک میں جو انہیں ہمارے ہاں کام کے لئے بھیجتے ہیں ہمارے ریاستی کردار کی عکاسی کرتےہیں ۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ مزدور /محنت کش /ورکر معاہدہ کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اپنے کام کی جگہ کے حقوق سے بخوبی آگاہ ہوں۔

آیت مبارکہ 30:20 میں ہے:  ”اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر اب تم انسان ہو جو (زمین میں) پھیلے ہوئے ہو۔“اس کا مطلب  قومیت، قبیلے اور رنگ کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت ہے۔

ﵻوَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَﵺ

[8]–  قرآن کریم  رنگ کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے منع کرتا ہے۔   یہ بات مذکورہ بالا حاشیہ میں بیان کردہ قرآنی آیات 30:22 ، اور 49:11 اور 49:13 سے ثابت ہوتی ہے ، نیز ایک حدیث مبارکہ  میں کہا گیا ہے: ”ایک حبشی مرد یا حبشی عورت مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ ایک دن اس کا انتقال ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق دریافت فرمایا۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ تو انتقال کر گئی۔ آپؐ نے اس پر فرمایا کہ تم نے مجھے کیوں نہ بتایا، پھر آپ ﷺ قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز پڑھی۔“ (صحیح بخاری:458)۔اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملازمت یا کام کی جگہ کے معاملات میں رنگ کی بنیاد پر امتیاز اسلام کا حصہ نہیں ، اور یہ کہ تمام ملازمین  کے ساتھ منصفانہ  سلوک اور یکساں احترام سے پیش آنا چاہیے۔اسی طرح ، مندرجہ ذیل آیت رنگ اور زبان کے تنوع کی طرف اشارہ کرتی ہے ،  اور اس بنیاد پر کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک سے روکتی ہے: ”اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کے لئے نشانیاں ہیں۔“(30:22)

ﵻوَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَﵺ

[9] – آیات 4:32 ، 49:13 اور 60:12 خواتین کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں اور ان کے لیے یکساں مواقع کی نشاندہی کرتی ہیں، اسلام میں جنس پر مبنی امتیاز حرام ہے۔ آیات 7:32 اور 66:01 میں عورتوں کو مردوں جیسی ملازمتوں تک رسائی کی اجازت  دی گئی ہے۔  آیت نمبر7:32  میں اللہ تعالی فرماتا ہے: فرما دیجئے: ” اللہ کی اس زینت (و آرائش) کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمائی ہے اور کھانے کی پاک ستھری چیزوں کو (بھی کس نے حرام کیا ہے)؟“ فرما دیجئے: ”یہ (سب نعمتیں جو) اہلِ ایمان کی دنیا کی زندگی میں (بالعموم روا) ہیں قیامت کے دن بالخصوص (انہی کے لئے) ہوں گی۔ اس طرح ہم جاننے والوں کے لئے آیتیں تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔“  (7:32)

ﵻقُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَﵺ

اسلام میں کہیں بھی خواتین کی ملازمت اور لیبر فورس میں شرکت ممنوع نہیں ، قرآن و سنت نے عورتوں کو ملازمت سے نہیں روکا، اگرچہ قرآن کچھ سرگرمیوں کی ممانعت کرتا ہے ، اس میں کہیں بھی خواتین کی ملازمت کو ممنوعہ سرگرمی کے طور پر ذکر نہیں کیا گیا :  ”حالانکہ اس نے تمہارے لئے ان (تمام) چیزوں کو تفصیلاً بیان کر دیا ہے جو اس نے تم پر حرام کی ہیں۔“ (06:119)

ﵻوَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْﵺ

رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”اللہ نے اپنی کتاب میں جو حلال کیا ہے وہ حلال ہے اور جسے حرام قرار دیا ہے وہ حرام ہے اور جس چیز کے بارے میں وہ خاموش ہے وہ اس کی مہربانی ہے۔ پس اللہ کی اس مہربانی کو  قبول کرو ، کیونکہ اللہ کسی چیز کو بھولنے والا نہیں ہے۔“  پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی  ”اور تمہارا رب بھولنے والا نہیں ہے۔“
(19:64) (مستدرک حاکم: 375/2)

ﵻوَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّاﵺ

نبی کریم  ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ”بے شک اللہ تعالٰی نے دینی ذمہ داریاں (فرائض) رکھی ہیں ، جنہیں نظر انداز نہ کرو۔ اور اس نے  کچھ حدود مقرر کی ہیں ، جس سے تجاوز نہ کرو، اور اس نے کچھ چیزوں کو حرام  قرارکیا ہے ، جن کی خلاف ورزی نہ کرو ،اور کچھ چیزوں کے بارے میں اس نے خاموشی اختیار کی جو تم لوگوں سے ہمدردی کی وجہ سے ہے نہ کہ  بھولنے کی وجہ سے، لہذا ان کی تلاش مت کرو (اور انکے پیچھے مت پڑو)۔“ (ریاض الصالحین: 1832-40 حدیث نووی: 30)

﴿إنَّ اللَّه تَعَالَى فَرَضَ فَرائِضَ فَلاَ تُضَيِّعُوهَا، وحدَّ حُدُودًا فَلا تَعْتَدُوهَا، وحَرَّم أشْياءَ فَلا تَنْتَهِكُوها، وَسكَتَ عَنْ أشْياءَ رَحْمةً لَكُمْ غَيْرَ نِسْيانٍ فَلا تَبْحثُوا عَنْهَا﴾

اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اور صرف قرآن وسنت میں ہی ہماری پیشہ ورانہ سرگرمیوں کا حل ہے ،  چاہے وہ حلال ہو یا حرام ہو۔  اسی طرح خواتین کو بھی مردوں کی طرح  تمام مواقع تک یکساں رسائی حاصل ہونی چاہیے ، اور صنفی امتیاز منع ہے۔ اسلامی تاریخ میں خواتین ہمیشہ سب سے آگے رہی ہیں۔ نبوت کے 13 ویں سال  یثرب (جس کا نام بعد  مدینہ رکھا گیا) کے جن  73 افراد نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پربیعت کی۔ان میں  سے دو خواتین  (نسیبہؓ بنت کعب  اور اسما ؓ بنت عمرو)بھی تھیں۔ اسے ”بیعت عقبہ ثانیہ“(ریاست ِ مدینہ کے قیام کیلیئے بنیاد ساز معاہدہ) بھی کہا جاتا ہے۔ (معرفة الصحابہ: ابی نعیمؒ)

اسلام کے احکام مردوعورت کیلیے یکساں ہیں، ام الموٴمنین ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ: خادمہ میری کنگھی کر رہی تھی کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ کہتے ہو ئے سنا: "اے لوگو! میں نے خادمہ سے کہا: مجھ سے پیچھے ہٹ جاؤ کیونکہ مجھے جلدی ہے!وہ کہنے لگی، آپﷺ نے مردوں کو مخاطب فرمایا ہے عورتوں کو نہیں۔میں نے کہا: میں بھی لوگوں میں سے ہوں (صرف مرد ہی لو گ نہیں ہو تے)۔ (صحیح مسلم: 5974)

﴿فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏”‏ أَيُّهَا النَّاسُ ‏”‏ ‏.‏ فَقُلْتُ لِلْجَارِيَةِ اسْتَأْخِرِي عَنِّي ‏.‏ قَالَتْ إِنَّمَا دَعَا الرِّجَالَ وَلَمْ يَدْعُ النِّسَاءَ ‏.‏ فَقُلْتُ إِنِّي مِنَ النَّاسِ﴾

دورانِ عدت عورتوں کو کام کرنے کی اجازت تھی۔ حضرت  جابر ؓکہتے ہیں کہ   میری خالہ کو تین طلاقیں دی گئیں، وہ اپنی کھجوریں توڑنے نکلیں، راستے میں ایک شخص ملا تو اس نے انہیں نکلنے سے منع کیا چنانچہ وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا:” جاؤ اور اپنی کھجوریں توڑو، ہو سکتا ہے تم اس میں سے صدقہ کرو یا اور کوئی بھلائی کا کام کرو ۔“ (سنن ابو داؤد: 2297)

﴿عَنْ جَابِرٍ، قَالَ طُلِّقَتْ خَالَتِي ثَلاَثًا فَخَرَجَتْ تَجُدُّ نَخْلاً لَهَا فَلَقِيَهَا رَجُلٌ فَنَهَاهَا فَأَتَتِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ لَهَا ‏ ‏ اخْرُجِي فَجُدِّي نَخْلَكِ لَعَلَّكِ أَنْ تَصَدَّقِي مِنْهُ أَوْ تَفْعَلِي خَيْرًا ﴾

اسلام میں خواتین کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ جنگوں کے دوران پناہ (امان) دینا ،بہت  اہم سمجھا جاتا تھا ۔ رسول اللہ ﷺنے عورتوں کو پناہ دینے کی اجازت دی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”مسلمان عورت کسی کو پناہ دے سکتی ہے۔“ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کی طرف سے اعزاز ہے۔ (جامع ترمذی:1579) فتح مکہ کے دن ام ہانی ؓ   نبی کریمﷺ کے پاس تشریف لائیں  اور دونوں کے درمیان مندرجہ ذیل بات چیت ہوئی:”یا رسول اللہﷺ! میرے بھائی (حضرت علی ؓ) کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک شخص کو ضرور قتل کرے گا۔ حالانکہ میں نے اسے پناہ دے رکھی ہے۔ یہ ( میرے خاوند ) ہبیرہ کا فلاں بیٹا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ام ہانیؓ جسے تم نے پناہ دے دی، ہم نے بھی اسے پناہ دی۔“ (صحیح بخاری:357)

﴿قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ ابْنُ أُمِّي أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلاً قَدْ أَجَرْتُهُ فُلاَنَ بْنَ هُبَيْرَةَ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏‏ قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئٍ﴾

ام ہانی ؓ مزید بیان کرتی ہیں کہ ”میں نے اپنے دو دیوروں کو پناہ دی۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ جسے تم نے پناہ دی ہم بھی  اسے پناہ دیتے ہیں ۔“

﴿قَالَتْ أَجَرْتُ رَجُلَيْنِ مِنْ أَحْمَائِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏‏ قَدْ أَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ﴾

اسلام میں خواتین کو پیشہ منتخب کرنے کا حق حاصل ہے کیونکہ کسی بھی پیشے کو خواتین کے لیے منع نہیں کیا گیا ہے۔ اسلام میں جو بھی حرام نہیں ہے اس کی اجازت ہے۔ قرآن ایک بنیادی اصول کی طرف اشارہ کرتا ہے:”فرما دیجئے:  اللہ کی اس زینت (و آرائش) کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمائی ہے اور کھانے کی پاک ستھری چیزوں کو (بھی کس نے حرام کیا ہے)؟“ فرما دیجئے: ”یہ (سب نعمتیں جو) اہلِ ایمان کی دنیا کی زندگی میں (بالعموم روا) ہیں قیامت کے دن بالخصوص (انہی کے لئے) ہوں گی۔ اس طرح ہم جاننے والوں کے لئے آیتیں تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔“(07:32)

ﵻقُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَﵺ

اسی طرح ، اگر اللہ اور اس کے نبی ﷺ نے کسی چیز (جیسے عورتوں کے کام کرنے) سے منع نہیں کیا ہے تو آج  بھی اس پر پابندی نہیں ۔ قرآن  کریم اس بابت مندرجہ ذیل الفاظ میں اشارہ کرتا ہے: ”اور تمہارا پروردگار کبھی بھی نہیں بھولتا۔“ (19:64)

ﵻوَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّاﵺ

[10]–  آیات 49:11 ، 60:08 اور 2:282  کے علاوہ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت  قرآن کریم کی آیت 29:56 سے بھی ثابت ہے ، ”اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو! بے شک میری زمین کشادہ ہے سو تم میری ہی عبادت کرو۔“ (29:56)

ﵻيَا عِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ أَرْضِي وَاسِعَةٌ فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِﵺ

اس سے مراد ہر مزد ور کو کام کرنے کی جگہ پر  آزادی ہے اور  ہر مزدور بلا امتیاز اپنے مذہب کی تعلیمات   پر عمل کرسکتا ہے۔

مزید یہ کہ مزدوروں کی خدمات حاصل کرتے وقت ، معیار صرف مہارت اور تجربہ ہے ، سوائے کچھ خاص صورتوں کے ، جیسے تعلیمی اداروں میں مذہب کی تعلیم۔ ایسی صورت میں ، ملازم کے ایمان کو ملازمت کی لاینفک اور اہم ضرورت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ روانگی (ہجرت) کے دوران ، نبی کریم ﷺ نے ایک غیر مومن کو اپنا گائیڈ مقرر کیا۔
”رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ نے بنو دیل کے ایک ماہر راہبر سے مزدوری طے کر لی تھی۔ وہ شخص کفارِ قریش کے دین پر تھا۔ ان دونوں حضرات نے اپنی دونوں اونٹنیاں اس کے حوالے کر دی تھیں اور کہہ دیا تھا کہ تین راتوں کے بعد صبح سویرے ہی سواریوں کے ساتھ غار ثور پر آ جائے۔“(صحیح بخاری:2264)

﴿وَاسْتَأْجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبُو بَكْرٍ رَجُلاً مِنْ بَنِي الدِّيلِ، هَادِيًا خِرِّيتًا وَهْوَ عَلَى دِينِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ، فَدَفَعَا إِلَيْهِ رَاحِلَتَيْهِمَا، وَوَاعَدَاهُ غَارَ ثَوْرٍ بَعْدَ ثَلاَثِ لَيَالٍ بِرَاحِلَتَيْهِمَا صُبْحَ ثَلاَثٍ﴾

رسول اللہ ﷺ کے خادموں میں سے (یاد رہے کہ وہ خادم تھا غلام نہیں تھا)  ایک یہودی لڑکا تھا۔ جب وہ بیمار ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی عیادت کیلیے تشریف لے گئے۔ (ادب المفرد: 524)

اسی طرح ملازمت کے حصول کیلیے بھی جہاں بہتر ملازمت ملے(بشرطیکہ وہ احکامِ دین کے خلاف نہ ہو) اسے کرلینا چاہیے اور  آجر کے مذہب کی بنیاد پر ملازمت کا تعین نہیں کرنا چاہیے۔

حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ مال غنیمت میں سے مجھے ایک اونٹ حصے میں ملا اور نبی کریم ﷺ نے مجھے ایک اور اونٹ خمس میں سےدیا۔ جب میں نے حضرت فاطمہ ؓ  کی رخصتی کرانے کا ارادہ کیا تو بنو قینقاع (مدینہ کا ایک یہودی  خاندان) کے ایک زرگر سے طے کیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم اذخر کاٹ کر لائیں۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ میں اسے سناروں کے پاس فروخت کرکے اپنی شادی کے ولیمے میں اس سے کچھ مدد حاصل کروں گا۔ (صحیح بخاری: 2089)

﴿كَانَتْ لي شَارِفٌ مِن نَصِيبِي مِنَ المَغْنَمِ، وكانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أعْطَانِي شَارِفًا مِنَ الخُمُسِ، فَلَمَّا أرَدْتُ أنْ أبْتَنِيَ بفَاطِمَةَ بنْتِ رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، واعَدْتُ رَجُلًا صَوَّاغًا مِن بَنِي قَيْنُقَاعَ أنْ يَرْتَحِلَ مَعِي، فَنَأْتِيَ بإذْخِرٍ أرَدْتُ أنْ أبِيعَهُ مِنَ الصَّوَّاغِينَ، وأَسْتَعِينَ به في ولِيمَةِ عُرُسِي﴾

قرآن کریم میں ہے: ”اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے۔ اسی طرح ہم نے ہر فرقہ (و جماعت) کے لئے ان کا عمل (ان کی آنکھوں میں) مرغوب کر رکھا ہے (اور وہ اسی کو حق سمجھتے رہتے ہیں)، پھر سب کو اپنے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے اور وہ انہیں ان اعمال کے نتائج سے آگاہ فرما دے گا جو وہ انجام دیتے تھے۔“ (06:108)

ﵻ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَﵺ

اس کے علاوہ ، قرآن کریم  نے مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنے پر سزا کا ذکر کیا ہے ، اس کا مطلب یہ بھی  ہے کہ کسی بھی مزدور کو اس کی مذہبی ذمہ داریوں سے منع نہیں کیا جانا چاہیے۔ کام کی جگہ پر مذہبی امتیاز کی اجازت نہیں ہے۔ آیت  مبارکہ میں ہے: ”اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کیے جانے سے روک دے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے! انہیں ایسا کرنا مناسب نہ تھا کہ مسجدوں میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لئے دنیا میں (بھی) ذلّت ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے۔“(02:114)

ﵻ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌﵺ

کام کی جگہ پر اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق محفوظ ہے اور مزدوروں /محنت کشوں   کے ساتھ ان کے عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا  نہیں  رکھا جا سکتا۔ قرآنِ کریم  میں ارشاد ہے:

”(یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب  اللہ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)، اور اگر  اللہ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جد و جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے  اللہ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص  اللہ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقیناً  اللہ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بیشک  اللہ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے (گویا حق اور باطل کے تضاد و تصادم کے انقلابی عمل سے ہی حق کی بقا ممکن ہے)۔“ (22:40)

ﵻ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا ۗ وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌﵺ

ہمیں سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے نجران کے عیسائیوں کے ایک وفد کو مسجد میں نماز پڑھنے (عبادت کرنے) کی اجازت دی ، حالانکہ اصحاب ؓنے پہلے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ (سیرت رسول اللہ (ﷺ) از ابن اسحاق;
دلائل النبوة از بیہقی)

اسی طرح سے آپ نے ہر انسان کی (اسکے مذہب سے قطع نظر)عزت کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: أَليسَتْ نَفْسًا (کیا اسکی جان نہیں ہے؟)

سہل بن حنیفؓ اور قیس بن سعد ؓ قادسیہ میں کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں کچھ لوگ ادھر سے ایک جنازہ لے کر گزرے تو یہ دونوں بزرگ کھڑے ہو گئے۔ عرض کیا گیا کہ جنازہ تو ذمیوں کا ہے (جو کافر ہیں) اس پر انہوں نے فرمایا کہ نبی کریمﷺ کے پاس سے اسی طرح سے ایک جنازہ گزرا تھا۔ آپﷺ اس کے لیے کھڑے ہو گئے۔ پھر آپؐ سے کہا گیا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپؐ نے فرمایا :”کیا یہودی کی جان نہیں ہے؟ “(صحیح بخاری: 1312)

جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ:ہمارے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو نبی ﷺ کھڑے ہو گئے اور ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ پھر ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ ”جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو۔“
(صحیح بخاری: 1311)

[11] – آیت مبارکہ 30:22 میں ہے:  ”اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کے لئے نشانیاں ہیں ۔“ جیسا کہ اوپر بھی  بیان کیا گیا ، اس کا مطلب زبان اور رنگ کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت ہے۔

ﵻ وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِلْعَالِمِينَﵺ

حدیث میں لہجے کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے منع کیا گیا اور قرآن کریم کو سات طریقوں یا قراٴتوں سے تلاوت کرنے کی اجازت دی گئی، رسول کریمﷺ نے فرمایا: ”یہ قرآن سات حرفوں (یعنی سات قراٴتوں) پر نازل ہوا ہے لہٰذا اس میں سے جو میسر ہو ( اور تمھارے لیے جس لہجے میں پڑھنا آسان ہو) اس میں پڑھو۔“ (صحيح بخاري:4992)

برصغیر میں قراءت امام عاصم بروایت حفص رائج ہے،جبکہ الجزائر،شمالی افریقہ میں قراءت نافع بروایت ورش عام ہے ،  لیبیا ،تیونس اور دیگر متعدد افریقی ممالک میں روایت قالون عن نافع جبکہ مصر، صومالیہ، سوڈان میں روایت دوری عن امام ابو عمرو بصری رائج ہے۔

[12]–  عمر کی بنیاد پر کسی مزدور /محنت کش /ورکر کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا منع ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”وہ ہم میں سے نہیں ہے جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کے مقام عزت  کو نہیں پہنچانتا۔“ (ریاض الصالحین: 355)

﴿لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيَعْرِفْ شَرفَ كَبِيرِنَا﴾

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”معمر اور سن رسیدہ مسلمان کی اور حافظ قرآن کی جو نہ اس میں غلو کرنے والا ہواور نہ اس سے دور پڑ جانے والا ہو، اور عادل بادشاہ کی عزت و تکریم دراصل اللہ کے اجلال و تکریم ہی کا ایک حصہ ہے۔“(سنن ابو داؤد:4843)

﴿إِنَّ مِنْ إِجْلاَلِ اللَّهِ إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِي فِيهِ وَالْجَافِي عَنْهُ وَإِكْرَامَ ذِي السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ﴾

[13] – اسلام ہر ایک کے ساتھ مساوی سلوک کا  حکم دیتا ہے اور معذوری کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیتا۔ معذور افراد کے ساتھ نبی کریم ﷺ کا رویہ مثالی تھا، عبداللہ بن ام مکتومؓ ، ایک نابینا صحابی تھے ، جب نبی کریمﷺفوجی مہمات پر جاتے تو  انہیں مدینہ کا سربراہ  مقرر فرمایا کرتے۔عبداللہ بن عمر ؓ﷠بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دو مؤذن  تھے ایک حضرت  بلالؓ اور دوسرے حضرت  عبداللہ بن ام مکتوم ؓ، جو (بعد میں) نابینا ہو گئے تھے۔  (صحیح مسلم: 380 الف)
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ  ’’ نبی اکرم ﷺ نے عبداللہ بن ام مکتوم ؓ    کو مدینہ میں دو مرتبہ ( جب جہاد کو جانے لگے ) اپنا قائم مقام (خلیفہ ) بنایا۔“  (سنن ابو داؤد:2931)

﴿أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم اسْتَخْلَفَ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ عَلَى الْمَدِينَةِ مَرَّتَيْ﴾

حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ   ”نبی اکرم ﷺ نے ابن ام مکتوم ؓ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا، وہ لوگوں کی امامت کرتے تھے، حالانکہ وہ نابینا تھے۔“ (سنن ابو داؤد:595)

﴿أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم اسْتَخْلَفَ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ يَؤُمُّ النَّاسَ وَهُوَ أَعْمَى﴾

ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقیؒ (عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت) کے مطابق ”اس خلقی کمزوری کے باوجود  انہوں نے بارہ یا تیرہ  مواقع پر  خلافت اور نیابتِ رسولؐ کی سعادت حاصل کی تھی، یہ صحابی نہ صرف جسمانی طور سے معذور تھے بلکہ قریش کے ایک غیر اہم خاندان بنوعامر بن لوئی سے تعلق رکھتے تھے جو سیادت و قیادت کے لحاظ سے دوسرے درجہ کے خاندان بلکہ قریش البطاح کے باہر تصور کیا جاتا تھا۔“یہ نیابت صرف نماز کیلیے نہیں ہوتی تھی بلکہ مقرر کردہ نائب بحیثیت سربراہِ مملکت رسول کریمﷺ کا جانشین و خلیفہ ہوتا تھا اور آپؐ کی غیر موجودگی میں مدینہ میں موجود لوگوں کی فلاح و بہبود اور ریاست کے مفادات کا نگران ہوتا تھا۔

قرآن کریم  نے  حضرت موسٰیٰؑ     کی تقریر ی معذوری کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے: ”اور (ایسے ناسازگار ماحول میں) میرا سینہ تنگ ہوجاتا ہے اور میری زبان (روانی سے) نہیں چلتی سو ہارون (علیہ السلام) کی طرف (بھی جبرائیل علیہ السلام کو وحی کے ساتھ) بھیج دے (تاکہ وہ میرا معاون بن جائے) ۔“(26:13)

ﵻوَيَضِيقُ صَدْرِي وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِي فَأَرْسِلْ إِلَى هَارُونَﵺ

اسلام نہ صرف معذوری کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے ، بلکہ معذور افراد کے لیے کام کے ماحول میں مناسب سہولیات  کی فراہمی کو بھی ممکن بناتا ہے جس سے انکا کام کرنا بھی آسان ہو سکے۔حضرت  موسٰی ؑکے واقعے  میں ایک حوالہ پہلے سے موجود ہے جب ان سے فرعون کے سامنے تبلیغ کرنے کو کہا گیاتو موسٰیٰؑ علیہ السلام اپنی زبان کی گرہ ڈھیلی کرنے کی دعا کرتے ہیں تاکہ وہ لوگ  ان کی تقریر کو پوری طرح سمجھ سکیں۔ (20: 28-29) بظاہر ، یہ تقریر میں رکاوٹ تھی جیسے لڑکھڑاہٹ ، لکنت یا ہکلاہٹ۔ جب آپؑ کی دعائیں قبول ہوئیں  تو  جو ہوا وہ ناقابل یقین تھا۔  حضرت موسٰیٰؑ کو اپنے کام کی سہولت کے لیے لکھی ہوئی کتاب (تورات) دی گئی اور ان کے بھائی ہارون ؑ      کو بھی بوجھ بانٹنے کے لیے نبوت دی گئی۔( حضرت موسٰیٰؑ واحد پیغمبر ہیں جنہیں لکھی ہوئی کتاب دی گئی اور جنکے بھائی کو انکا ہاتھ بٹانے کیلیے پیغمبری بھی دی گئی)۔  اسی چیز کو قرآن کریم میں یوں بیان کیا گیا ہے:  ”اور ہم نے ان کے لئے (تورات کی) تختیوں میں ہر ایک چیز کی نصیحت اور ہر ایک چیز کی تفصیل لکھ دی (ہے)، تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھو اور اپنی قوم کو (بھی) حکم دو کہ وہ اس کی بہترین باتوں کو اختیار کرلیں۔ میں عنقریب تمہیں نافرمانوں کا مقام دکھاؤں گا۔“(07:145)

وَكَتَبۡنَا لَهُۥ فِي ٱلۡأَلۡوَاحِ مِن كُلِّ شَيۡءٖ مَّوۡعِظَةٗ وَتَفۡصِيلٗا لِّكُلِّ شَيۡءٖ فَخُذۡهَا بِقُوَّةٖ وَأۡمُرۡ قَوۡمَكَ يَأۡخُذُواْ بِأَحۡسَنِهَاۚ

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ”آدمؑ اور موسٰیٰؑ نے مباحثہ کیا۔ موسٰی علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے کہا: ”آدمؑ! آپ ہمارے باپ ہیں مگر آپ ہی نے ہمیں محروم کیا اور جنت سے نکالا۔“ آدم علیہ السلام نے موسٰیٰؑ علیہ السلام سے کہا ”موسٰیٰؑ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہم کلامی کے لیے برگزیدہ کیا اور اپنے ہاتھ سے آپ کے لیے تورات کو لکھا۔ کیا آپ مجھے ایک ایسے کام پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا۔ آخر آدم علیہ السلام بحث میں موسٰیٰؑ علیہ السلام پر غالب آئے۔ تین مرتبہ نبی کریم ﷺ نے یہ جملہ فرمایا۔“ (صحیح مسلم: 2652 صحیح بخاری: 6614)

﴿احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى، فَقَالَ لَهُ مُوسَى يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا خَيَّبْتَنَا وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّةِ‏.‏ قَالَ لَهُ آدَمُ يَا مُوسَى اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِكَلاَمِهِ، وَخَطَّ لَكَ بِيَدِهِ، أَتَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدَّرَ اللَّهُ عَلَىَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً‏.‏ فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى ‏”‏ ثَلاَثًا﴾

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ”ہمیں اس صاحبِ بصیرت آدمی کے پاس چلو جو بنو واقف قبیلے کا ہے تاکہ ہم اسکی تیمارداری کر سکیں۔“ یہ صاحب چونکہ  نابینا تھے اس لیے نبی کریمﷺ نے ایسا لفظ استعمال کیا جس سے  حقارت کا پہلو نہ نکلتا ہو۔ (سلسلہ احادیثِ صحیحہ: 521)

‏‏‏‏اسی طرح ایک اور حدیث سے یہ پتا چلتا ہے کہ معذوری (چاہے وہ پیدائشی ہو بعد میں کسی حادثے کی وجہ سے)   یا سوشل سٹیٹس یا رنگ کی وجہ سے منصب دینے میں کوئی  امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ اسیدنا ابوذر ؓسے روایت ہے، میرے دوست رسول اللہﷺنے مجھے وصیت کی سننے اور اطاعت کرنے کی اگرچہ ایک غلام ہاتھ پاؤں کٹا ہی کیوں نہ حاکم ہو۔(صحیح مسلم: 4755۔4763)

﴿عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ إِنَّ خَلِيلِي أَوْصَانِي أَنْ أَسْمَعَ وَأُطِيعَ وَإِنْ كَانَ عَبْدًا مُجَدَّعَ الأَطْرَافِ﴾

[14] –  اسلام ٹریڈ یونین کے قیام کی اجازت دیتا ہے ، اور اس بارے میں امتیازی سلوک سے منع کرتا ہے۔ اس کے بارے میں مزید تفصیلات ”ٹریڈ یونینز کے قیام“ کے ذیلی عنوان کے تحت ہیں۔

[15] – قرآن کریم  میں  کسی کام کے فطری تقاضوں کی بنیاد پر یا علم وغیرہ کی بنیاد پر ایک مخصوص ملازم کو دوسرے پر ترجیح دینے کو  جائز قرار دیا گیا ہے، جسے امتیازی سلوک نہیں سمجھا جاتا۔ جیسا کہ آیت 44:32  میں ہے : ”اور بیشک ہم نے ان (بنی اسرائیل) کو علم کی بنا پر ساری دنیا (کی معاصر تہذیبوں) پر چُن لیا تھا۔“(44:32)

ﵻوَلَقَدِ اخْتَرْنَاهُمْ عَلَى عِلْمٍ عَلَى الْعَالَمِينَﵺ

[16]۔ اسلام معاشرے کے کمزور اور پسماندہ گروہوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات کو جائز قراردیتا ہے۔ مختلف مواقع پر ، خاص طور پر نماز ، روزہ ، حج اور جہاد جیسے مذہبی فرائض میں  ایک شخص کی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مذہبی فریضے میں کمی یا چھوٹ دی جاتی ہے۔ جس کے لئے آیات نمبر  (03:97) ،(04:101) اور (02:185) سے رجوع کریں۔”اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔“ (03:97)

ﵻوَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًاﵺ

”اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرو (یعنی چار رکعت فرض کی جگہ دو پڑھو)۔“ (04:101)

ﵻوَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِﵺ

[17] – قرآن روزگار میں مساوی سلوک کی بات کرتا ہے جیسا کہ آیت 04:32 میں بیان کیا گیا ہے:”اور تم اس چیز کی تمنا نہ کیا کرو جس میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔“(4:32)

ﵻ وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ ۚ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاﵺ

یہاں قرآن ملازمت میں امتیازی سلوک سے منع کرتا ہے ، مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں کام کے لیے یکساں معاوضے کو جائز قرار دیتا ہے ، اور صنفی امتیاز سے قطع نظر کمائی کے مساوی مواقع فراہم کرنے کا حکم دیتا ہے ، جہاں خواتین کو مردوں جیسی ملازمتوں تک رسائی حاصل ہے۔

[18]–  قرآن کریم میں آجروں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ مساوی اجرت، کافی اور بروقت معاوضہ (رزق) کو یقینی بنائیں
آیت41:9-10 میں ہے: ”فرما دیجئے: کیا تم اس ( اللہ) کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دِن (یعنی دو مدّتوں) میں پیدا فرمایا اور تم اُس کے لئے ہمسر ٹھہراتے ہو، وہی سارے جہانوں کا پروردگار ہے، اور اُس کے اندر (سے) بھاری پہاڑ (نکال کر) اس کے اوپر رکھ دیئے اور اس کے اندر (معدنیات، آبی ذخائر، قدرتی وسائل اور دیگر قوتوں کی) برکت رکھی، اور اس میں (جملہ مخلوق کے لئے) غذائیں (اور سامانِ معیشت) مقرر فرمائے (یہ سب کچھ اس نے) چار دنوں (یعنی چار ارتقائی زمانوں) میں مکمل کیا، (یہ سارا رِزق اصلًا) تمام طلب گاروں (اور حاجت مندوں) کے لئے برابر ہے۔“ (41:9-10)

ﵻقُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ  ۝ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَﵺ

نمایاں کردہ حصوں کے بارے میں ، آجر سے یہ تقاضا  کیا گیا ہے کہ وہ مزدوروں کو ان کے کام/محنت کے مطابق یکساں معاوضہ ادا کرے ۔ آیت کے حصے سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ کے معنی کو ”رزق مانگنے والوں کی ضروریات“ کے مطابق بیان کیا گیا ہے ، ”مساوی مواقع“ اسلامی قانون کی وضاحتوں کے مطابق ، ہر ایک کو مخصوص مشترکہ وسائل کے برابر حقوق حاصل ہیں: جنگلوں کی لکڑی ، ندی/نالوں کا پانی اور زمین کے بنجر حصے میں ہل چلا کر بیج بونا ، جب تک کہ کسی نے پہلے ہی یہ کام نہ کیا ہو، ایسی زمین اس  آیت  کی رو سے سب کے لیے یکساں ہے اسی طرح  یہ آیت  ان لوگوں کے لئے ،جو محنت مزدوری کے خواہشمند ہیں،  کے لئے ملازمتوں تک یکساں رسائی کی بھی نشاندہی کرتی ہے ۔

قرآن کریم کی آیت 26:181-183   مکمل اجرت کی ادائیگی کے علاوہ مساوی کام کے لیے مساوی اجرت کے بارے میں بات کرتی ہے اور آجروں کو اپنے مزدوروں کے ساتھ انصاف کے معاملات  کرنے کی ہدایت کرتی ہے۔ قرآن  کریم میں ہے :” تم پیمانہ پورا بھرا کرو اور (لوگوں کے حقوق کو) نقصان پہنچانے والے نہ بنو، اور سیدھی ترازو سے تولا کرو، اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم (تول کے ساتھ) مت دیا کرو اور ملک میں (ایسی اخلاقی، مالی اور سماجی خیانتوں کے ذریعے) فساد انگیزی مت کرتے پھرو۔“
(26:181-183)

ﵻأَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ۝ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ۝ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَﵺ

علا وہ ازیں ، قرآن کریم کی  آیت 57:25 تمام اداروں میں انصاف اور قانونی عملداری کا حکم دیتی ہے۔ آیت  مبارکہ میں ہے : ”بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں، اور ہم نے (معدنیات میں سے) لوہا مہیّا کیا اس میں (آلاتِ حرب و دفاع کے لئے) سخت قوّت اور لوگوں کے لئے (صنعت سازی کے کئی دیگر) فوائد ہیں اور (یہ اس لئے کیا) تاکہ اللہ ظاہر کر دے کہ کون اُس کی اور اُس کے رسولوں کی (یعنی دینِ اسلام کی) بِن دیکھے مدد کرتا ہے، بیشک اللہ (خود ہی) بڑی قوت والا بڑے غلبہ والا ہے۔“(57:25)

ﵻ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌﵺ

ایک ہی نوعیت  کا کام کرنے والے مزدوروں کے معاوضے کی امتیازی شرح کو مناسب شرح سے بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ ریاستی اداروں کا فرض ہے کہ وہ مساوی معاوضے کے قانون پر عملداری اور تعمیل کو یقینی بنائیں۔

[19] – وہ آیات اور تشریحات ، جو سابقہ پیراگراف میں بیان ہوئیں ، یہاں بھی لاگو  ہوتی ہیں۔ ایک مزدور جس کو اس کی منصفانہ تنخواہ سے کم اجرت  دی گئی ہو اسے انصاف کے ساتھ کم اداء کی گئی رقم کی مکمل  ادائیگی کرنی چاہیے۔

[20]– نبی کریم ﷺ کے الفاظ  بھی ایک ہی نوعیت کے کام کی وضاحت کرتے ہیں، ایک حدیث مبارکہ میں دو بہت مختلف سرگرمیوں کو  اجر میں برابر بتایا گیا ہے ، یعنی جہاد اور اپنے والدین کی خدمت کا  اجر ۔ اس حدیث  مبارکہ کے مطابق ایک صحابی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺسے جہاد میں شرکت کی اجازت چاہی۔ آپ ﷺنے ان سے دریافت فرمایا ”کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟“ انہوں نے کہا کہ جی ہاں! آپ ﷺنے فرمایا ”پھر انہیں میں جہاد کرو۔ ( یعنی ان کو خوش رکھنے کی کوشش کرو ) “ (صحیح بخاری : 3004)

﴿جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَاسْتَأْذَنَهُ فِي الْجِهَادِ فَقَالَ ‏‏ أَحَىٌّ وَالِدَاكَ ‏‏‏.‏ قَالَ نَعَمْ‏.‏ قَالَ ‏‏ فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ﴾

جاہمہؓ نبی اکرم ﷺکے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! میں جہاد کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اور آپ کے پاس آپ سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں، آپﷺ نے ( ان سے ) پوچھا: ”کیا تمہاری ماں موجود ہے؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپﷺ نے فرمایا: ”انہیں کی خدمت میں لگے رہو، کیونکہ جنت ان کے دونوں قدموں کے نیچے ہے ۔ “(سنن النسائی: 3105)

﴿أَنَّ جَاهِمَةَ، جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ أَسْتَشِيرُكَ ‏.‏ فَقَالَ ‏‏ هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ ‏‏ ‏.‏ قَالَ نَعَمْ ‏.‏ قَالَ ‏‏ فَالْزَمْهَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَ﴾

اسی طرح ایک اعرابی نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپﷺ سے ہجرت کا حال پوچھنے لگا۔ آپﷺ نے فرمایا ”تجھ پر افسوس! ہجرت تو بہت مشکل ہے۔ تمہارے پاس کچھ اونٹ بھی ہیں؟“ اس نے کہا جی ہاں ہیں۔ فرمایا ”تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتے ہو؟“ اس نے عرض کیا جی ہاں ادا کرتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا ”اونٹنیوں کا دودھ دوسرے (محتاجوں) کو بھی دوہنے کے لیے دے دیا کرتے ہو؟“ اس نے عرض کیا کہ ایسا بھی کرتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا ”انہیں گھاٹ پر لے جا کر (محتاجوں کے لیے) دوہتے ہو؟“ اس نے عرض کیا ایسا بھی کرتا ہوں۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا ”پھر تم سات سمندر پار عمل کرو، اللہ تعالیٰ تمہارے کسی عمل کا بھی ثواب کم نہیں کرے گا۔“(صحیح بخاری: 3923)

حضرت ابوذر غفاریؓ  روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺسے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے، آپؐ نے فرمایا کہ ”اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔“ میں نے پوچھا اور کس طرح کا غلام آزاد کرنا افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا، ”جو سب سے زیادہ قیمتی ہو اور مالک کی نظر میں بہت زیادہ پسندیدہ ہو۔“  میں نے عرض کیا کہ اگر مجھ سے یہ نہ ہو سکا؟ آپ ﷺنے فرمایاکہ ”پھر کسی کاریگر کی مدد کردو یا کسی بے ہنرکا کام کر دو۔“ انہوں نے کہا کہ اگر میں یہ بھی نہ کر سکا؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ” پھر لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ کر دے کہ یہ بھی ایک صدقہ ہے جسے تم خود اپنے اوپر کرو گے۔“ (صحیح بخاری: 2518)

﴿يا رسولَ اللهِ أيُّ العملِ أفضَلُ ؟ قال: ( إيمانٌ باللهِ وجهادٌ في سبيلِه قال: قُلْتُ: فأيُّ الرِّقابِ أفضَلُ ؟ قال: أنفَسُها عندَ أهلِها وأغلاها ثمنًا قال: فإنْ لم أفعَلْ ؟ قال: تُعينُ صانعًا أو تصنَعُ لأخرَقَ قُلْتُ: فإنْ ضعُفْتُ عن ذلك ؟ قال: فدَعِ الشَّرَّ فإنَّها صدقةٌ تصَدَّقُ بها على نفسِكَ﴾

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف قسم کے کاموں /عبادات دوسروں کے تقابل میں علم، قابلیت اور کوشش کے اعتبار سے مساوی قدر و قیمت رکھ سکتے ہیں۔