فہرست مضامین

ہراسانی کی ممانعت

ہراسانی کی ممانعت (Prohibition of Harassment)

  1. آجر کسی مزدور/ ورکر کو ہراساں نہیں کرے گا۔
    قانون کی شق میں ورکر سے مراد تمام مزدور اور محنت کش ہیں جو معاہدے کی حیثیت سے قطع نظر، کام کر رہے ہوں، سیکھ رہے ہوں  (انٹرن ہوں)، شاگرد ہوں   (اپرنٹس ہوں)، رضاکار ہوں یا وہ ورکرز جن کی مدت ملازمت ختم ہو چکی ہو یا وہ  ملازمت کے متلاشی یا ملازمت کے لئے درخواست دہندہ ہوں۔
    ہراساں کرنے سے مراد کوئ بھی  ایسا ناپسندیدہ طرز عمل جو ضروری نہیں کہ  جنسی نوعیت کا ہو بلکہ اس کا تعلق تعلیم، زبان کی صلاحیتوں، رنگ ونسل، ذات پات، جائے سکونت یا علاقائی بود وباش، مذہب وعقیدہ، سیاسی وابستگی، عمر، جنس وصنف، نسلی یا سماجی ومعاشی حیثیت یا معذوری سے ہو اور جس کا مقصد محنت کش کی بے توقیری، یا اس  کے لیے دھمکی آمیز ، دشمنانہ ، ذلت آمیز یا تکلیف دہ ماحول پیدا کرنا ہو۔
  2. کام پر ”تشدد اور ہراساں کرنا“[1]کی اصطلاح سے مراد ناقابل قبول رویے، طور اطوار، یا دھمکیاں جو چاہے ایک بار ہو یا بار بار ،اور جس کا مقصد جسمانی، نفسیاتی، جنسی یا معاشی نقصان پہنچانا، اور اس میں صنف پر مبنی تشدد اور ہراساں کرنا بھی  شامل ہے۔
    1. کوئی بھی شخص کسی مزدور یا آجر کو تنگ یا جنسی طور پر ہراساں نہیں کرے گا۔[2]
    2. آجر اس بات کو یقینی بنائے گا کہ آجر کے لیے کام کرنے والے کسی بھی مزدورکوکام کے دوران نہ تو  کوئ شخص تنگ کرے گا اور نہ ہی اسے جنسی طور پر ہراساں کرے گا۔[3]
    3. آجر کو چاہئے کہ وہ ہراسانی بشمول جنسی ہراسانی کے بارے میں ایک تحریری پالیسی[4]جاری کرے جس میں کم از کم یہ چیزیں شامل ہوں :
      1. ہراساں کرنے اور جنسی ہراسانی کی تعریف (جیسا کہ سیکشن 14 اور 15 میں بیان کیا گیا ہے)۔
      2. یہ کہ ایک ملازم/مزدور/محنت کش /ورکر ہرطرح  کی ہراسانی بشمول جنسی ہراسانی سے پاک ماحول میں  کام کرنے کا حق رکھتا ہے ۔[5]
      3. آجر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے گا کہ کسی بھی ملازم /مزدور کو کسی طور بھی ہراساں بشمول جنسی طور پر ہراساں نہ کیا جائے۔[6]
      4. آجر کو چاہئے کہ وہ اپنے ماتحت کام کرنے والے ایسے ملازم/ مزدور کےخلاف مناسب تادیبی کاروائی کرے جو کسی دوسرے ملازم/مزدور /محنت کش /ورکر کو ہراساں کرتا ہے یا  اسے جنسی ہراسانی کا نشانہ بناتا ہے۔[7] اور
      5. ایسے اقدامات کرے جن کے ذریعے سے ہراسانی بشمول جنسی ہراسانی کی اطلاع وشکایات آجر تک پہنچ سکیں ۔[8]
      6. آجر اپنے ما تحت کام کرنے والے تمام افراد کو  اس پالیسی کے بارے میں مطلع کریگا۔[9]

 

[1]–  اسلام روزگار سمیت ہر قسم کے تعلقات  میں ایک دوسرے کا احترام کرنے پر زور دیتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں حیا پر زور دیتے ہوئے  ہراساں کرنے سے منع کیا ہے۔ رسول اللہﷺنے فرمایا: حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔“
(سنن نسائی: 5006)

﴿الْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ﴾

ایک اور مقام پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”سابقہ پیغمبروں کا کلام جو لوگوں کو ملا اس میں یہ بھی ہے کہ جب تم میں  شرم  و حیاہی نہ رہے تو پھر جو جی چاہے وہ کرتے پھرو۔“ (صحیح بخاری:6120)

﴿إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلاَمِ النُّبُوَّةِ الأُولَى إِذَا لَمْ تَسْتَحِي فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ﴾

ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ ہوں، اور مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جان و مال کے بارے میں مطمئن رہیں۔“  (سنن النسائی:4995، مشکوٰۃ  المصابیح:33 )

﴿الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ﴾

جنسی طور پر ہراساں کرنے پر پابندی کے بارے میں ہم نے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں اسلامی تعلیمات کو استعمال کیا ہے، آیت مبارکہ 04:36 میں ہے: ” اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس (ہم کار) اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو۔“

میاں بیوی کے بعد‘دوسرے رشتہ داروں کا سوال سامنے آتا ہے۔ لیکن معاملہ کسی کا بھی ہو‘ اصول ہر جگہ یہی کار فرما رہے گا کہ تم نے صرف قانونِ خداوندی کی اِطاعت کرنی ہے۔ اِس کے ساتھ نہ اپنے ذاتی جذبات کو شامل کرنا ہے‘ نہ کسی دوسرے انسان کے فیصلے کو۔ خدا کے قانون کا فیصلہ یہ ہے کہ ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ ۔ اسی طرح دوسرے رشتے داروں کے ساتھ۔ رشتے داروں سے آگے بڑھ کر‘ اُن تمام لوگوں کے ساتھ جو (والدین کے ٖفوت ہوجانے سے‘ یا ویسے ہی) معاشرے میں تنہا رہ رہ جائیں۔ یا جو حرکت سے معذور ہوجائیں ( اور ان کا چلتا ہوا کاروبار رک جائے)۔ اور ہمسایہ کے ساتھ بھی حسن ِسلوک سے پیش آؤ ‘ خواہ وہ قریب کا ہمسایہ یا دُور کا….وہ اپنا ہو یا بیگانہ…. رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار…. نیز اپنے رفقائے کار کے ساتھ بھی‘ اور ان مسافروں کے ساتھ بھی‘ جن کے پاس زادراہ نہ رہا ہو‘ یا وہ ویسے ہی تمہارے حسن ِسلوک کے متمنی ہوں…. ہر مسافر حسن سلوک کا متمنی ہوتا ہے…. اور ان لوگوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک سے پیش آؤ جو تمہارے ماتحت کام کریں۔ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک سے وہی پیش آسکتا ہے جس کا سینہ جو ہر انسانیت سے معمور ہو۔ جو اخلاق کریمانہ کا پیکر ہو۔ جو دوسروں کی امداد میں خوشی محسوس کرے۔ لیکن جو لوگ اپنے متعلق خود فریبی میں مبتلا ہوں۔ کوئی جوہر اُن میں ہو نہ اور وہ باتیں بڑی بڑی کریں۔ شیخی بہت بھگاریں‘ لیکن دیں کسی کو کچھ نہ۔ تو ایسے لوگ‘ قانونِ خداوندی کی نگاہوں میں کس طرح مستحق ستایش ہو سکتے ہیں (مفہوم القرآن) ۔(04:36) اس کا مطلب یہ ہے کہ کام کی جگہ کے تعلقات میں کسی قسم کا ہراسانی نہیں ہونا چاہیے اور کسی بھی مزدور /محنت کش /ورکر کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ اس آیت  کریمہ میں کام کی جگہ پر ہر قسم کی جنسی ہراسانی کی ممانعت ہے ، چاہے مجرم کام کی جگہ کے  ساتھی (ہم کار) ہوں ، ماتحت ہوں یا آجر ہوں یا  پھر تیسرا فریق ہو۔

﴿ وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ﴾

قرآن کی یہ آیت پڑوسی کی تین اقسام بیان کرتی ہے ۔ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی‘۔ یعنی پڑوسی بھی ہے اور اس کے ساتھ رشتہ داری کا بھی تعلق ہے۔’الْجَارِ الْجُنُبِ‘۔ جُنُب کے معنی اجنبی کے ہیں یعنی پڑوسی ہے لیکن رشتہ داری اور قرابت اس کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ’الصّاحِبُ بِالْجَنْبِ‘ ’جَنْب‘ کے معنی پہلو کے ہیں، جو شخصی وقتی اور عارضی طور پر بھی کسی مجلس، کسی حلقے، کسی سواری، کسی دکان، کسی ہوٹل میں آپ کا ہم نشین و ہم رکاب ہو جائے، وہ ’الصاحب بالجنب‘ ہے۔ اسلامی معاشرہ میں ان تینوں قسم کے لوگوں کو ایک دوسرے پر حقوق جوار حاصل ہو جاتے ہیں  (مولانا امین احسن اصلاحیؒ: تدبر قرآن)۔ ’الصاحب بالجنب‘ میں  کام کی جگہ پر ساتھ کام کرنے والے لوگ شامل ہیں۔

اسلام ہراساں کرنے اور چھیڑ چھاڑ سے منع کرتا ہےرسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔“ (صحیح بخاری:6018)

‏﴿ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ ‏‏‏﴾

اسی طرح کے معنی صحیح بخاری ، حدیث نمبر 6138سے اخذ کیے جا سکتے ہیں،  دیگر احادیث بھی ہراساں کرنے ، غنڈہ گردی، ڈرانے دھمکانے اور کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک سے دور رہنے کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔ جیسا کہ صحیح بخاری نے روایت کیا ہے کہ’’ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”واللہ! وہ  شخص ایمان والا نہیں۔ واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔“ عرض کیا گیا :کون یا رسول اللہﷺ؟ فرمایا ” وہ جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔“ (صحیح بخاری: 6016)    (ادب المفرد:121)

‏‏﴿وَاللَّهِ لاَ يُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لاَ يُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لاَ يُؤْمِنُ ‏‏‏.‏ قِيلَ وَمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ‏‏ الَّذِي لاَ يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَايِقَهُ ‏﴾

ایک اور حدیث میں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خدا کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھی کے ساتھ بہترین ہو ، اور خدا کی نظر میں بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے ساتھ بہتر ہو ۔ (الادب المفرد: 115)

﴿خَيْرُ الأَصْحَابِ عِنْدَ اللهِ تَعَالَى خَيْرُهُمْ لِصَاحِبِهِ، وَخَيْرُ الْجِيرَانِ عِنْدَ اللهِ تَعَالَى خَيْرُهُمْ لِجَارِهِ﴾

کام کی جگہ دوسروں پر دھونس دھاندلی اور ہراساں کرنے کو ناگوار  کہا گیا ہے اور یہ مجرم کو جہنم میں لے جائے گا (اس وجہ سے حکومت کو ایسے شخص کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت دی جائے ، خاص طور پر جب وہ دوسروں کے حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہوں)۔ ایک روایت  میں ہے کہ”لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: خدا کے رسول (ﷺ) ، ایک عورت رات کو نماز پڑھتی ہے اور دن میں روزے رکھتی ہے ، اور بہت سے اچھے کام کرتی ہے خیرات دیتی ہے لیکن وہ  اپنے پڑوسیوں کو ناراض کرتی ہے۔“  آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ نیکی سے خالی ہے۔ وہ آگ والوں میں سے ایک ہے۔“ لوگوں نے کہا: ”ایک عورت صرف فرض نماز پڑھتی ہے اور صدقہ بھی بہت کم دیتی ہے ، لیکن وہ کسی کو ناراض نہیں کرتی۔
“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ جنت والوں میں سے ہے۔“ (ادب المفرد: 119)

اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث نمبر (73/46, 6687) اور صحیح بخاری کی حدیث نمبر) 6015  (بھی دوسروں (ساتھیوں/پڑوسیوں) کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جبرائیل علیہ السلام مجھے اس طرح باربار پڑوسی کے حق میں وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال گزرا کہ شاید پڑوسی کو وراثت میں شریک نہ کر دیں۔“

﴿ما زال جبريل يوصيني بالجار حتى ظننت انه سيورثه﴾

ہراساں کرنے اور غنڈہ گردی میں ملوث  افراد کی نشاندہی کمپنی (ورک پلیس)  کی سطح پر کی جا سکتی ہے۔، ایک روایت میں ہے: ”ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسولﷺ میرا ایک پڑوسی ہے جو مجھے ایذا دیتا ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا : جاؤ اپنا سامان (گھر سے) نکال کر راستے پر رکھ دو ۔ وہ گیا اور اپنا سامان نکال کر راستے پر رکھ دیا ۔ لوگ اس کے پاس آئے اور پوچھا تجھے کیا ہوا ؟ اس نے کہا میرا پڑوسی مجھے تکلیف دیتا ہے میں نے یہ بات نبی کریمﷺسے ذکر کی تو آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ جاؤ اور اپنا سامان (گھر سے) نکال کر راستے پر رکھ دو ۔ (لوگوں نے یہ سنا) تو کہنے لگے اللہ اس پر لعنت کرے ، اللہ اسے رسوا کرے ۔ یہ بات جب ہمسائے تک پہنچی تو وہ اس کے پاس آیا اور کہا اپنے گھر میں لوٹ آؤ اللہ کی قسم میں تمہیں کبھی تکلیف نہیں دوں گا ۔“ (ادب المفرد:124)

﴿قَالَ رَجُلٌ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ لِي جَارًا يُؤْذِينِي، فَقَالَ‏:‏ انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مَتَاعَكَ إِلَى الطَّرِيقِ، فَانْطَلَقَ فَأَخْرِجَ مَتَاعَهُ، فَاجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَيْهِ، فَقَالُوا‏:‏ مَا شَأْنُكَ‏؟‏ قَالَ‏:‏ لِي جَارٌ يُؤْذِينِي، فَذَكَرْتُ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، فَقَالَ‏:‏ انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مَتَاعَكَ إِلَى الطَّرِيقِ، فَجَعَلُوا يَقُولُونَ‏:‏ اللَّهُمَّ الْعَنْهُ، اللَّهُمَّ أَخْزِهِ‏.‏ فَبَلَغَهُ، فَأَتَاهُ فَقَالَ‏:‏ ارْجِعْ إِلَى مَنْزِلِكَ، فَوَاللَّهِ لاَ أُؤْذِيكَ﴾

تعمیری برطرفی(constructive      dismissal)  ، جس میں ایک مزدور /محنت کش /ورکر آجر کی طرف سے قوانین  یا معاہدہ ملازمت کی سنگین خلاف ورزی کی وجہ سے ملازمت چھوڑنے پر مجبور ہوتا ہے ان میں ہراساں کرنا اور جنسی طور پر ہراساں کرنا   بھی شامل ہے اور یہ قابل سزا جرم ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اپنے پڑوسی پر ظلم اور اسے تنگ کرے ، یہاں تک کہ وہ  اپنا سامان اٹھا کر گھر چھوڑنے پر مجبور  ہو جائے، تو  یقیناً ایسا شخص ہلاک ہوگیا۔“ (ادب المفرد:127)

﴿وَمَا مِنْ جَارٍ يَظْلِمُ جَارَهُ وَيَقْهَرُهُ، حَتَّى يَحْمِلَهُ ذَلِكَ عَلَى أَنْ يَخْرُجَ مِنْ مَنْزِلِهِ، إِلاَّ هَلَكَ﴾

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: ”بدکار کی بدی کا تذکرہ کرنے سے تم لوگ کب تک باز رہو گے، اسکی کہاں تک عزت کرو گے یہاں تک کہ لوگ اس سے بچ سکیں۔“ (جمع الفوائد: 308)  اس سے یہ پتا چلتا ہے کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک یا ہراساں کرنے والے شخص کے جرم کے متعلق (اگر تحقیقات کے بعد اس پر الزام ثابت ہو جائے) لوگوں کو بتایا جا سکتا ہے تاکہ لوگ اپنا بچاوٴ کر سکیں۔

کسی کو بھی ہراساں کرنا اسکی تحقیر کے مترادف ہے اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:” کبر نام ہے حق سے سرتابی کا اور لوگوں کی تحقیر کا“ اور پھر اسی حدیث میں ہی یہ وعید سنائی گئی کہ: ”جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر (گھمنڈ) ہو۔“ (جامع ترمذی: 1999)

﴿الكِبْر: بطر الحق، وغَمْط الناس﴾

ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: ”کسی کے بُرا ہونے کے لیےاتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔“ (سنن ابن ماجہ: 4213)

﴿حَسْبُ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ ﴾

اسی طرح کسی شخص کو مذاق میں بھی ڈرانے سے منع کیا گیا ہے: ”کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی مسلمان کو ڈرائے دھمکائے۔“(سنن ابوداود:5004)

﴿ لاَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا ﴾

[2] اسلام جنسی طور پر ہراساں کرنے کی ممانعت کرتا ہے جیسا کہ قرآنی آیت 24:33 میں بیان کیا گیا ہے: ”اور ایسے لوگوں کو پاک دامنی اختیار کرنا چاہئے جو نکاح (کی استطاعت) نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے، اور تمہارے زیردست (غلاموں اور باندیوں) میں سے جو مکاتب (کچھ مال کما کر دینے کی شرط پر آزاد) ہونا چاہیں تو انہیں مکاتب (مذکورہ شرط پر آزاد) کر دو اگر تم ان میں بھلائی جانتے ہو، اور تم (خود بھی) انہیں اللہ کے مال میں سے (آزاد ہونے کے لئے) دے دو جو اس نے تمہیں عطا فرمایا ہے، اور تم اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن (یا حفاطتِ نکاح میں) رہنا چاہتی ہیں، اور جو شخص انہیں مجبور کرے گا تو اللہ ان کے مجبور ہو جانے کے بعد (بھی) بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔“(24:33)

ﵻوَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ  وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا  وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ  وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا  وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌﵺ

اس آیت میں جنسی طور پر ہراساں کرنے ، جنسی اسمگلنگ اور دیگر قسم کے جنسی بدسلوکی کے ساتھ ساتھ جبری مشقت کی ممانعت ہے ، خاص طور پر آجر اور مزدور کے روزگار کے تعلقات میں۔ آیت کا یہ بھی مطلب ہے کہ مزدوروں/ماتحتوں کو آجر پر معاشی انحصار کی وجہ سے غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔قرآن کریم  کسی بھی قسم کے جنسی ہراساں کرنے سے بھی منع کرتا ہے۔ آیت نمبر 07:81  میں ہے : ”بیشک تم نفسانی خواہش کے لئے عورتوں کو چھوڑ کر مَردوں کے پاس آتے ہو بلکہ تم حد سے گزر جانے والے ہو ۔“ (07:81)

ﵻإِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ النِّسَاءِ  بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَﵺ

اس کا مطلب کام کی جگہ اور ملازمت کے تعلقات میں ہر قسم کی جنسی ہراسانی اور غیر اخلاقی حرکتوں کی ممانعت ہے۔

[3]– قرآنی آیت 24:33 کو یہاں بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔ قرآن  کریم میں ہے :”…اور تم اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن (یا حفاطتِ نکاح میں) رہنا چاہتی ہیں… “

وَلَا تُكۡرِهُواْ فَتَيَٰتِكُمۡ عَلَى ٱلۡبِغَآءِ إِنۡ أَرَدۡنَ تَحَصُّنٗا لِّتَبۡتَغُواْ عَرَضَ ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَاۚ

یہ آیت آجروں  منع کرتی ہے کہ وہ کام کی جگہ پر ملازمین کو غیر قانونی  وغیراخلاقی سرگرمیوں  (جن میں جنسی ہراسانی بھی شامل ہے )پر مجبور کریں  ۔اسلام  آجر  کو اس امر سے بھی منع کرتا ہے کہ وہ اپنے مزدوروں کو جنسی طور پر ہراساں کرے اور کسی بھی  قسم کا ناجائز فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

[4]–   آجر کے ساتھ ساتھ  ملازم/ مزدور کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ آیا ان کی سرگرمیاں کہیں  الفحش ، المنکر اور البغی کی تعریف یعنی غنڈہ گردی اور ہراساں کرنے میں تو  نہیں  آتی ہیں  ۔ آیت نمبر 16:90 ایک جامع آیت ہے جو مالک اور مزدور دونوں کے لیے ہے ، آیت کاترجمہ ہے : ”بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو۔“(16:90)

ﵻإِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَﵺ

ـ قرآنی اوامرو منہیات کا خلاصہ: یہ عظیم آیت تمام قرآنی اوامر و منہیات کا خلاصہ ہے۔ قرآن جن باتوں کا حکم دیتا ہے ان کی بنیادیں بھی اس میں واضح کر دی گئی ہیں اور جن چیزوں سے روکتا ہے ان کی اساسات کی طرف بھی اس میں اشارہ ہے۔ تمام قرآنی اوامر کی بنیاد عدل، احسان اور ذوی القربیٰ کے لیے انفاق پر ہے اور اس کی منہیات میں وہ چیزیں داخل ہیں جن کے اندر فحشاء، منکر اور بغی کی روح فساد پائی جاتی ہے۔ ”عدل“ کی توضیح: یہاں بالاجمال صرف یہ ذہن میں رکھیے کہ”عَدل“یہ ہے کہ جس کا جو حق واجب ہم پر عاید ہوتا ہے ہم بے کم و کاست اس کو ادا کریں، خواہ صاحب حق کمزور ہو یا طاقت ور اور خواہ وہ ہم کو مبغوض ہو یا محبوب۔ ”احسان“ کی توضیح: ”اِحْسَان“ عدل سے ایک زائد شے ہے۔ یہ صرف حق کی ادائیگی ہی کا تقاضا نہیں کرتا بلکہ مزید برآں یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ دوسرے کے ساتھ ہمارا معاملہ کریمانہ اور فیاضانہ ہو۔”إِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ“سے مراد :”إِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ“ احسان کی ایک نہایت اہم فرع ہے۔ قرابت مند عدل و احسان کے حق دار تو ہیں ہی، مزید برآں وہ بربنائے قرابت مزید انفاق کے مستحق ہیں، ہر صاحب مال کو اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں پر فیاضی سے خرچ کرنا چاہیے۔ ”فَحْشاء“ سے مراد:”فَحْشاء“ کھلی ہوئی بے حیائی اور بدکاری کو کہتے ہیں۔ مثلاً زنا اور لواطت (اغلام) اور اس قبیل کی دوسری برائیاں۔ ”مُنْكَر“ سے مراد:”مُنْكَر“ معروف کا ضد ہے۔ معروف ان اچھی باتوں کو کہتے ہیں جن کا ہر اچھی سوسائٹی میں چلن ہو۔ مثلاً مہمان داری، مسافر نوازی اور اس قبیل کی دوسری نیکیاں۔ منکر اس کا ضد ہے تو اس سے مراد وہ باتیں ہوں گی جو معروف اور عقل و عرف کے پسندیدہ طریقہ اور آداب کے خلاف ہوں۔ ”بَغْيِ“ سے مراد:”بَغْيِ“کے معنی سرکشی اور تعدی کے ہیں یعنی آدمی اپنی قوت و طاقت اور اپنے زور و اثر سے ناجائز فائدہ اٹھائے اور اس سے دوسروں کو دبانے کی کوشش کرے۔ “ (مولانا امین احسن اصلاحیؒ: تدبر قرآن)

دوسری چیز ”مُنْكَر“ہے۔ یہ معروف کا ضد ہے۔ یعنی وہ برائیاں جنھیں انسان بالعموم برا جانتے ہیں، ہمیشہ سے برا کہتے رہے ہیں اور جن کی برائی ایسی کھلی ہوئی ہے کہ اِس کے لیے کسی استدلال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مذہب و ملت اور تہذیب و تمدن کی ہر اچھی روایت میں اُنھیں برا ہی سمجھا جاتا ہے۔ قرآن نے ایک دوسرے مقام پر اِس کی جگہ ’اِثْم‘ کا لفظ استعمال کرکے واضح کر دیا ہے کہ اِس سے مراد یہاں وہ کام ہیں جن سے دوسروں کے حقوق تلف ہوتے ہوں۔ “ (جاوید احمد غامدی:البیان)

[5] – آیت نمبر 24:33 ، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے ،  کا اطلاق یہاں بھی ہوسکتا ہے۔ کام کی جگہ پر کسی کو جنسی طور پر ہراساں کرنا منع ہے۔ کسی بھی قسم کی جبری مشقت بشمول جنسی مشقت ممنوع ہے اور اسے کسی بھی ملازم / مزدور /محنت کش /ورکر پر نافذ نہیں کیا جا سکتا۔

[6]– قرآن  کریم نے آجروں کو جنسی ہراسانی سے پاک ماحول فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ جیسا کہ آیت نمبر  17:32 میں بیان کیا گیا ہے : ” اور تم زنا (بدکاری) کے قریب بھی مت جانا بیشک یہ بے حیائی کا کام ہے، اور بہت ہی بری راہ ہے ۔“(17:32)

ﵻوَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًاﵺ

کام کی جگہ کا ماحول ، پالیسیاں اور ضابطہ اخلاق ایساہونا چاہئے کہ اس  میں کسی قسم کی برائیوں کی اجازت نہ ہو۔ قرآن کریم کی  آیت نمبر  17:37 بھی کام کی جگہ پر ضابطہ اخلاق رکھنے کی بات کرتی ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :” اور زمین میں اکڑ کر مت چل، بیشک تو زمین کو (اپنی رعونت کے زور سے) ہرگز چیر نہیں سکتا اور نہ ہی ہرگز تو بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے (تو جو کچھ ہے وہی رہے گا)۔“(17:37) ایک مجرم  کسی کو اسی وقت جنسی طور پر ہراساں کرتا ہے جب وہ خود کو اپنے نشانے یا  شکار سے زیادہ طاقتور محسوس کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ چھوڑ دیا جائے گا۔

ﵻوَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًاﵺ

علاوہ ازیں آیت نمبر: 24:02 میں ہے: ”بدکار عورت اور بدکار مرد (اگر غیر شادی شدہ ہوں) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو (شرائطِ حد کے ساتھ جرمِ زنا کے ثابت ہو جانے پر) سو (سو) کوڑے مارو (جبکہ شادی شدہ مرد و عورت کی بدکاری پر سزا رجم ہے اور یہ سزائے موت ہے) اور تمہیں ان دونوں پر اللہ کے دین (کے حکم کے اجراء) میں ذرا ترس نہیں آنا چاہئے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا (کے موقع) پر مسلمانوں کی (ایک اچھی خاصی) جماعت موجود ہو، (یہ سزا غیر شادی شدہ افراد کے لیے ہے جو مذکورہ بالا جرم کے مرتکب ہوں، اگر شادی شدہ افراد اس  جرم کا ارتکاب کرتے ہیں تو  ان کی سزا اللہ کے قانون کے مطابق سنگسار کرنا ہے) ۔“

ﵻالزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَﵺ

مذکورہ بالا آیت میں نمایاں  کردہ حصے کا مطلب یہ ہے کہ جنسی طور پر ہراساں کرنے والوں اور دیگر مجرموں کو دی جانے والی سزائیں کام کی جگہ پر دی جائیں اور جرم ثابت ہونے پر اسکے متعلق سب کو بتایا جائے تاکہ مستقبل میں ہراساں کرنے کو روکا جا سکے اور ایک ایسا ماحول یقینی بنایا جا سکے جہاں کوئی مزدور /محنت کش /ورکر جنسی ہراسانی کا شکار نہ ہو۔اسی طرح ، قرآنی آیات نمبر: 24:19 اورنمبر : 31:06سے ہم یہ بھی اخذ کرتے ہیں  کہ ہراساں کرنے والوں اور کام کے ماحول کو خراب کرنے والے مزدوروں /محنت کشوں   کو  سزا آجر خود دے  تاکہ مزید جنسی ہراسانی کو روکا جا سکے اور تمام مزدوروں /محنت کشوں   کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

”بیشک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ (ایسے لوگوں کے عزائم کو) جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔“(24:19)

ﵻإِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَﵺ

چاہےیہ  ہراساں کرنا فحش نگاری یا دیگر فحش تصاویر شیئر کرکے کیا جائے منع ہے” اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ بغیر سوجھ بوجھ کے لوگوں کو  اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں اور اس (راہ) کا مذاق اڑائیں، ان ہی لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔“(31:06)

ﵻوَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌﵺ

اس کے علاوہ ، قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ کس طرح  ملازمین اور مزدور /محنت کش /ورکر ایک ضابطہ اخلاق پر عمل کرتے ہوئے کام کی جگہ پر ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔ جب حضرت موسٰیٰؑ نے دو لڑکیوں کے جانوروں کو پانی پلانے میں مدد دی  تو وہ غیر ضروری باتوں میں مشغول نہیں ہوئے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:” اور جب وہ مَدْيَن کے پانی (کے کنویں) پر پہنچے تو انہوں نے اس پر لوگوں کا ایک ہجوم پایا جو (اپنے جانوروں کو) پانی پلا رہے تھے اور ان سے الگ ایک جانب دو عورتیں دیکھیں جو (اپنی بکریوں کو) روکے ہوئے تھیں (موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: تم دونوں اس حال میں کیوں (کھڑی) ہو؟ دونوں بولیں کہ ہم (اپنی بکریوں کو) پانی نہیں پلا سکتیں یہاں تک کہ چرواہے (اپنے مویشیوں کو) واپس لے جائیں، اور ہمارے والد عمر رسیدہ بزرگ ہیں، سو انہوں نے دونوں (کے ریوڑ) کو پانی پلا دیا پھر سایہ کی طرف پلٹ گئے اور عرض کیا: اے رب! میں ہر اس بھلائی کا جو تو میری طرف اتارے محتا ج ہوں۔“(28:23-24)

ﵻوَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِنْ دُونِهِمُ امْرَأَتَيْنِ تَذُودَانِ ۖ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا ۖ قَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّىٰ يُصْدِرَ الرِّعَاءُ ۖ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ۝فَسَقَىٰ لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّىٰ إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌﵺ

[7]– اسلام جنسی ہراسانی کی سزا کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کا مرتکب ہونے والے کی سماجی حیثیت سے قطع نظر سزا پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ قانون کا نفاذ اوپر سے شروع ہونا چاہیے ، نیچے سے نہیں اور سزاؤں کے نفاذ میں کوئی طبقاتی امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔ایک  روایت ہے کہ: ”نبی اکرمﷺ کے پاس ایک چور لایا گیا آپﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا، لوگوں نے کہا: ہمیں آپ سے ایسی امید نہ تھی، آپ نے فرمایا: ”اگر فاطمہؓ بنت محمد بھی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔“ایک اور روایت میں ہے کہ ”ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں چوری کی، ان لوگوں نے کہا: اس سلسلے میں ہم آپ سے بات نہیں کر سکتے، آپ سے صرف آپ کی محبوب شخصیت  اسامہ بن زیدؓ  ہی بات کر سکتے۔ چنانچہ انہوں نے آپ سے اس سلسلے میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا: ”اسامہ! ٹھہرو، بنی اسرائیل انہی جیسی چیزوں سے ہلاک ہوئے، جب ان میں کوئی اونچے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر ان میں کوئی نچلے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتے۔ اگر اس جگہ فاطمہ ؓبنت محمد بھی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔“  (سنن نسائی:4898 سے لیکر 4901 تک)

﴿إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ الْوَضِيعُ قَطَعُوهُ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُهَا﴾

اسی طرح ، جنسی طور پر ہراساں کرنے کی سزا کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث مبارکہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس میں کہ جب کوئی مزدور یا آجر جو جنسی طور پر ہراساں کرتا ہے ، ہراساں کرنے کی جھوٹی شکایت کرتا ہے ، کام کی جگہ پر لعن طعن کرتا ہے اور/یا آجر انصاف دینے میں امتیازی سلوک کرتا ہے تو اس حدیث کی رو سے ان سب کو سزاوار ٹھہرایا گیا ہٍے، سنن ابو داؤد میں روایت ہے : اسامہ بن شریک ؓکہتے ہیں کہ   میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حج کے لیے نکلا، لوگ آپ کے پاس آتے تھے جب کوئی کہتا: اللہ کے رسولﷺ! میں نے طواف سے پہلے سعی کر لی یا میں نے ایک چیز کو مقدم کر دیا یا مؤخر کر دیا تو آپ ﷺ فرماتے: ”کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں، حرج صرف اس پر ہے جس نے کسی مسلمان کی جان یا عزت و آبرو پامال کی اور وہ ظالم ہو، ایسا ہی شخص ہے جو حرج میں پڑ گیا اور ہلاک ہوا ۔“ ( ابو داؤد: 2015)

﴿عَنْ أُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ، قَالَ خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حَاجًّا فَكَانَ النَّاسُ يَأْتُونَهُ فَمَنْ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ سَعَيْتُ قَبْلَ أَنْ أَطُوفَ أَوْ قَدَّمْتُ شَيْئًا أَوْ أَخَّرْتُ شَيْئًا ‏.‏ فَكَانَ يَقُولُ ‏ ‏ لاَ حَرَجَ لاَ حَرَجَ إِلاَّ عَلَى رَجُلٍ اقْتَرَضَ عِرْضَ رَجُلٍ مُسْلِمٍ وَهُوَ ظَالِمٌ فَذَلِكَ الَّذِي حَرِجَ وَهَلَكَ‏﴾

سیدنا اسامہ بن شریک عامری ؓبیان کرتے ہیں: میں اس وقت ان دیہاتیوں کے پاس موجود تھا وہ نبی اکرم ﷺسے یہ سوال کررہے تھے کیا ہم پر اس معاملے میں گناہ ہوگا۔ ا س معاملے میں ہوگا، تو نبی اکرمﷺنے فرمایا:” اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ نے حرج کو اٹھالیا ہے ماسوائے اس شخص کے جو شخص اپنے کسی بھائی کی عزت کے درپے ہوتا ہے، تو یہ چیز ہے، جو حرج میں مبتلا کرتی ہے اور ہلاک کر دیتی ہے۔“ (مسند حمیدی: 845)

قرآن مجید کی آیات سے ہم یہ بھی اخذ کرتے ہیں کہ جنسی طور پر ہراساں کرنے والوں  کو سخت  سزا  دی جائے،  سزا  دیتے وقت  کوئی رحم   یا نرمی نہ کی جائے ، اور سزا بھی سرعام  سب لوگوں کے سامنے دی جائے ۔

اسلام میں مجرم پر سزا کے اطلاق کو اہمیت دینے کی بھی  تاکید کی گئی ہے۔”حکومت کے غلاموں میں سے ایک نے حصہ خمس کی ایک باندی سے صحبت کر لی اور اس کے ساتھ زبردستی کر کے اس کی بکارت توڑ دی تو  حضرت عمرؓنے غلام پر حد جاری کرائی اور اسے شہر بدر بھی کر دیا لیکن باندی پر حد نہیں جاری کی، کیونکہ غلام نے اس کے ساتھ زبردستی کی تھی۔“ (صحیح بخاری:6949)

﴿أَنَّ عَبْدًا مِنْ رَقِيقِ الإِمَارَةِ وَقَعَ عَلَى وَلِيدَةٍ مِنَ الخُمُسِ، فَاسْتَكْرَهَهَا حَتَّى اقْتَضَّهَا، فَجَلَدَهُ عُمَرُ، الحَدَّ وَنَفَاهُ، وَلَمْ يَجْلِدِ الوَلِيدَةَ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ اسْتَكْرَهَهَا ﴾

اس واقعے سے کام کی جگہ پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کی سزا کا اطلاق قانون کی رو  سے سب پر لاگو ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ صحیح بخاری حدیث نمبر 6633 کی مندرجہ ذیل حدیث  مبارکہ کی  رو سے جنسی ہراساں کرنے والوں کو سخت سزا  دینےکا حکم ہےخاص طور پر ان لوگوں کو  جو کام کی جگہ پر  اپنے اختیارات کا ناجائزاستعمال کریں۔

”دو آدمیوں نے رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں اپنا جھگڑا پیش کیا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ ہمارے درمیان آپ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کر دیں۔ دوسرے نے، جو زیادہ سمجھ دار تھا کہا کہ ٹھیک ہے، یا رسول اللہ! ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کر دیجئے اور مجھے اجازت دیجئے کہ اس معاملہ میں کچھ عرض کروں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کہو۔ ان صاحب نے کہا کہ میرا لڑکا اس شخص کے یہاں مزدور  تھا اور اس نے اس کی بیوی سے زنا کر لیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اب میرے لڑکے کو سنگسار کیا جائے گا۔ اس لیے ( اس سے نجات دلانے کے لیے ) میں نے سو بکریوں اور ایک لونڈی کا انہیں فدیہ دے دیا پھر میں نے دوسرے علم والوں سے اس مسئلہ کو پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میرے لڑکے کی سزا یہ ہے کہ اسے سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے شہر بدر کر دیا جائے، سنگساری کی سزا صرف اس عورت کو ہو گی۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا۔ تمہاری بکریاں اور تمہاری لونڈی تمہیں واپس ہو گی اور پھر آپ نے اس کے لڑکے کو سو کوڑے لگوائے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا۔ پھر آپ نے انیس اسلمی سے فرمایا کہ مدعی کی بیوی کو لائے اور اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اسے سنگسار کر دے۔ اس عورت نے زنا کا اقرار کر لیا اور سنگسار کر دی گئی۔“(صحیح بخاری: 6633)

﴿أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَقَالَ الآخَرُ، وَهُوَ أَفْقَهُهُمَا: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَاقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ وَأْذَنْ لِي أَنْ أَتَكَلَّمَ، قَالَ: «تَكَلَّمْ» قَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا – قَالَ مَالِكٌ: وَالعَسِيفُ الأَجِيرُ – زَنَى بِامْرَأَتِهِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ، فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَجَارِيَةٍ لِي، ثُمَّ إِنِّي سَأَلْتُ أَهْلَ العِلْمِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ مَا عَلَى ابْنِي جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَإِنَّمَا الرَّجْمُ عَلَى امْرَأَتِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، أَمَّا غَنَمُكَ وَجَارِيَتُكَ فَرَدٌّ عَلَيْكَ» وَجَلَدَ ابْنَهُ مِائَةً وَغَرَّبَهُ عَامًا، وَأُمِرَ أُنَيْسٌ الأَسْلَمِيُّ أَنْ يَأْتِيَ امْرَأَةَ الآخَرِ، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ رَجَمَهَا، فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَهَا﴾

مزید برآں ، آیت نمبر : 24:04 کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے جھوٹے الزامات لگانے پر سزا کا تعین کرتی ہے۔ جیسا کہ آیت مبارکہ میں ہے : ”اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو تم انہیں (سزائے قذف کے طور پر) اسّی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، اور یہی لوگ بدکردار ہیں۔“

ﵻوَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً  أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَﵺ

اسی طرح  آیت مبارکہ نمبر:  (24:6-9) بھی کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کے جھوٹے الزامات لگانے پر مزدوروں یا آجروں کے لیے سزا مقرر کرتی ہے۔”اور جو لوگ اپنی بیویوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں اور ان کے پاس سوائے اپنی ذات کے کوئی گواہ نہ ہوں تو ایسے کسی بھی ایک شخص کی گواہی یہ ہے کہ (وہ خود) چار مرتبہ اللہ کی قَسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (الزام لگانے میں) سچا ہے، اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو، اور (اسی طرح) یہ بات اس (عورت) سے (بھی) سزا کو ٹال سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر (خود) گواہی دے کہ وہ (مرد اس تہمت کے لگانے میں) جھوٹا ہے، اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر (یعنی مجھ پر) اللہ کا غضب ہو اگر یہ (مرد اس الزام لگانے میں) سچا ہو۔“(24:6-9)

ﵻوَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ۝وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِن كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ۝وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَن تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ۝وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِن كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَﵺ

اس کے علاوہ ، سنن ابو داؤد میں بیان کردہ ایک حدیث کا مطلب ہے کہ کام کی جگہ پر متعدد جرائم کی وجہ سے سزا میں کئی گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے ، بشمول جنسی ہراسانی کے کسی جھوٹے الزام کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے اور مناسب سزا دی جانی چاہیے۔عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ بکر بن لیث کے ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر چار بار اقرار کیا کہ اس نے ایک عورت سے زنا کیا ہے تو آپ نے اسے سو کوڑے لگائے، وہ کنوارا تھا، پھر اس سے عورت کے خلاف گواہی طلب کی تو عورت نے کہا: قسم اللہ کی وہ جھوٹا ہے، اللہ کے رسول! تو اس پر آپؐ نےاس شخص کو بہتان کے بھی اسی (۸۰)کوڑے لگائے۔“ (سنن ابو داؤد:4467)

﴿أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَكْرِ بْنِ لَيْثٍ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقَرَّ أَنَّهُ زَنَى بِامْرَأَةٍ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، فَجَلَدَهُ مِائَةً، وَكَانَ بِكْرًا، ثُمَّ سَأَلَهُ الْبَيِّنَةَ عَلَى الْمَرْأَةِ، فَقَالَتْ: كَذَبَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَجَلَدَهُ حَدَّ الْفِرْيَةِ ثَمَانِينَ﴾

[8]  –  آیت  نمبر 05:106  ایک مناسب انکوائری کے  طریقہ کار کو ظاہر کرتی ہے جہاں ٹھوس شواہد جمع کرنے کے موثر اقدامات موجود ہیں۔”اے ایمان والو! جب تم میں سے کسی کی موت آئے تو وصیت کرتے وقت تمہارے درمیان گواہی (کے لئے) تم میں سے دو عادل شخص ہوں یا تمہارے غیروں میں سے (کوئی) دوسرے دو شخص ہوں اگر تم ملک میں سفر کر رہے ہو پھر (اسی حال میں) تمہیں موت کی مصیبت آپہنچے تو تم ان دونوں کو نماز کے بعد روک لو، اگر تمہیں (ان پر) شک گزرے تو وہ دونوں اللہ کی قَسمیں کھائیں کہ ہم اس کے عوض کوئی قیمت حاصل نہیں کریں گے خواہ کوئی (کتنا ہی) قرابت دار ہو اور نہ ہم اللہ کی (مقرر کردہ) گواہی کو چھپائیں گے (اگر چھپائیں تو) ہم اسی وقت گناہگاروں میں ہو جائیں گے۔“ (05:106)

ﵻيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةُ الْمَوْتِ ۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَمِنَ الْآثِمِينَﵺ

اسی طرح  قرآن کریم کی آیات نمبر: 05:107  اور نمبر05:108   انصاف کا بول بالا کرنے کے لیے انکوائری کے عمل میں ضروری ثبوت کی تصدیق کا حوالہ دیتی ہیں۔ جیسا کہ آیت 05:107 میں ہے :”پھر اگر اس (بات) کی اطلاع ہو جائے کہ وہ دونوں (صحیح گواہی چھپانے کے باعث) گناہ کے سزاوار ہو گئے ہیں تو ان کی جگہ دو اور (گواہ) ان لوگوں میں سے کھڑے ہو جائیں جن کا حق پہلے دو (گواہوں) نے دبایا ہے (وہ میت کے زیادہ قرابت دار ہوں) پھر وہ اللہ کی قَسم کھائیں کہ بیشک ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ سچی ہے اور ہم (حق سے) تجاوز نہیں کر رہے، (اگر ایسا کریں تو) ہم اسی وقت ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔“(05:107)

ﵻفَإِنْ عُثِرَ عَلَىٰ أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْأَوْلَيَانِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِن شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَﵺ

جب کہ آیت نمبر05:108 میں ہے: ”یہ (طریقہ) اس بات سے قریب تر ہے کہ لوگ صحیح طور پر گواہی  دیں یا اس بات سے خوفزدہ ہوں کہ (غلط گواہی کی صورت میں) ان کی قسموں کے بعد (وہی) قَسمیں (زیادہ قریبی ورثاء کی طرف) لوٹائی جائیں گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور (اس کے احکام کو غور سے) سنا کرو، اور اللہ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔“(05:108)

ﵻ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَىٰ وَجْهِهَا أَوْ يَخَافُوا أَنْ تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاسْمَعُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَﵺ

ثبوت اور گواہ پر مزید حوالہ جات لیبر انسپکشن کے باب میں مل سکتے ہیں۔

[9] –  قرآن کریم میں ہے: ”اور تم زنا (بدکاری) کے قریب بھی مت جانا بیشک یہ بے حیائی کا کام ہے، اور بہت ہی بری راہ ہے۔“(17:32)

ﵻوَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًاﵺ

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کام کا ماحول ہر طرح کی جنسی ہراسانی سے پاک ہو  جس کے لئے  پالیسیاں اور ضابطہ اخلاق وضع کرنا ضروری ہے۔