فہرست مضامین

باب چہارم: کام کے اوقات اور چھٹیاں

باب چہارم: کام کے اوقات اور چھٹیاں (Working Time and Leaves)

  1. ایک ملازم سے  8 گھنٹے روزانہ  اور 48 گھنٹے ہفتہ وار سے زیادہ کام نہیں لیا جائے گا۔[1]
  2. ایک آجر ہفتے میں ایک یا ایک سے زیادہ دنوں میں اپنے ملازمین سے معمول سے بڑھ کر اوور ٹائم لے سکتا ہے بشرطیکہ اوور ٹائم سمیت ملازمت کے کل گھنٹے 56 گھنٹے فی ہفتہ سے زیادہ نہ ہوں۔[2]
  3. اوور ٹائم کے اوقات کے لیے ، مزدور کو اوور ٹائم پریمیم ادا کیا جائے گا ، جو فی گھنٹہ اجرت کی شرح کے 50 فیصد کے برابر ہوگا۔ اسی طرح ، رات کے ةوقت کام کرنے والوں کو نائٹ ورک پریمیم ادا کیا جائے گا ، جو فی گھنٹہ اجرت کی شرح کے 15 فیصد کے برابر ہوگا۔[3]
  4. ایک آجر پانچ گھنٹے یا اس سے زیادہ مسلسل کام کرنے والے مزدور کو درمیان میں کم از کم ایک گھنٹے کے لیے بامعاوضہ آرام کے لئے  (کھانے اور  نماز کے لئے) وقفہ دے گا۔[4]
  5. ملازم/ مزدور /محنت کش /ورکر ہفتہ وار چوبیس گھنٹوں کے لئے چھٹی کا حقدار ہوگا۔ آجر اپنے ملازم کو اجازت دے گا کہ وہ ہفتہ وار چھٹی اس دن کرے جو حسب روایت طے شدہ ہو یا کسی ایسے دن کرلے جس پر آجر اور مزدور کے درمیان اتفاق ہو۔[5]
  6. آجر کے ساتھ ملازمت کا ایک سال مکمل ہونے پر ، مزدور سالانہ تین ہفتوں کی چھٹی
    (Annual leave)  کا حقدار ہوگا۔[6]
  7. ایک ملازم سال مکمل ہونے پر بمع تنخواہ 12 دنوں کی رخصتِ بیمار ی(Sick  leave)  کا حقدار ہوگا۔[7]
  8. ایک خاتون  ملازمہ 14 ہفتوں کی زچگی کی چھٹی کی حقدار ہو گی۔[8]
  9. رات کے اوقات (نائٹ شفٹ )پر کام عام طور پر ممنوع ہوگا۔ تاہم ، آجر ملازم سے تحریری رضامندی حاصل کرنے کے بعد کسی ملازم کو رات کے وقت کام پر لگا سکتا ہے اور رات کے کام کرنے والے مزدوروں /محنت کشوں  کی صحت اور حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی اقدامات کر سکتا ہے۔[9]  آجر اٹھارہ سال سے کم عمر کےکسی ملازم کو بھرتی نہیں کرے گا  یا اجازت نہیں دے گا کہ وہ نائٹ شفٹ میں کام کرے۔[10]
  10. آجر اس بات کو یقینی بنائے گا کہ حاملہ یا دودھ پلانے والی عورتیں کوئی ایسا کام سرانجام دینے کی پابند نہیں ہیں جسے مجاز اتھارٹی کی طرف سے ماں یا بچے کی صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیا گیا ہو ، یا جہاں  کام کی جگہ کا ماحول ماں یا اس کے بچے کی صحت کے لئے خطرہ ہو۔[11]
  11. آجر کا کسی حاملہ عورت کو  حمل کے دوران  یا حمل کی چھٹیوں کے دوران یا بچے کی پیدائش کے  6 ماہ بعد تک، حمل کی وجہ سے یا بچے کی پیدائش کی وجہ سے یا بچے کو دودھ پلانے کی وجہ سے نوکری سے نکالنا غیر قانونی ہوگا۔ ہاں اس کے علاوہ کسی اورمعقول  وجہ سے نوکری سے نکالا جا سکتا ہے۔ [12]
  12. بچے کی پیدائش کے بعد ڈیوٹی پر واپس آنے والی ہر زچہ(عورت/ماں) کو بچے کی نگہداشت کے لئے(  جب تک کہ بچے کی عمر 24 ماہ نہ ہو جائے)، روزانہ کے اوقاتِ کار میں سے تیس تیس منٹ کا دو بار  با معاوضہ وقفہ دیا جائے گی، اور جہاں بچے کی دیکھ بھال کے لئے کوئی قریبی جگہ نہ ہو تو ایسی ملازمہ کو روزانہ کے  اوقاتِ کار میں ایک گھنٹے کی چھوٹ دی جائے گی۔ [13]
  13. ہر ملازم اپنی قانونی چھٹی مکمل کرنے کے بعد اپنی پوسٹ پر واپس آنے کا حق رکھتا ہے۔  [14]



[1] – کام کے اوقات ملازمین کی عمر  اور استطاعت کے مطابق ترتیب دیے جا سکتے ہیں ، مثلاً نوعمر (young  persons) اور زیادہ عمر  (elderly workers)کے ملازمین کے لیے روزانہ کے اوقات میں کمی کی جا سکتی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔” اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔“ (02:286)

ﵻلَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَاﵺ

نبی  کریم ﷺ نے لوگوں کو نصیحت فرمائی کہ  وہ مزدوروں پر ان کی استطاعت سےزیادہ  بوجھ نہ ڈالیں۔ ”ملازم/ نوکر کے حقوق یہ ہیں کہ اسے کھانا کھلایا جائے ، اسے مناسب کپڑے پہنائے جائیں  (کھانا اور لباس دراصل  تمام ضروریات ِزندگی کی طرف  اشارہ ہیں اس لیے یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ کم از کم اجرت اس لیول پر رکھے جس سے مزدوروں کی ضروریات زندگی اس دور کے تقاضوں کے مطابق پوری ہو سکیں)  اور اس  پر اس کی استطاعت سے بڑھ کر کام  کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔“ (صحیح مسلم: 1662)

﴿لِلْمَمْلُوكِ طَعَامُهُ وَكِسْوَتُهُ وَلاَ يُكَلَّفُ مِنَ الْعَمَلِ إِلاَّ مَا يُطِيقُ﴾

مروی ہے کہ ”خلیفۂ وقت  سیدنا عمر بن خطاب ؓہر ہفتے کے دن مدینہ کے گرد و نواح میں (واقع کھیتوں وغیرہ) میں جایا کرتے اور اگر انہیں کوئی ایسا غلام مل جاتا جو اپنی طاقت سے بڑھ کر کام کر رہا ہوتا تو آپ اس کا بوجھ کم کروا دیتے۔“ (موطا امام  مالک: کتاب 54 ، حدیث 41)

أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، كَانَ يَذْهَبُ إِلَى الْعَوَالِي كُلَّ يَوْمِ سَبْتٍ فَإِذَا وَجَدَ عَبْدًا فِي عَمَلٍ لاَ يُطِيقُهُ وَضَعَ عَنْهُ مِنْهُ

[2] –  کام کے اوقات استطاعت سے  زیادہ نہیں ہونے چاہئیں۔ انسانی جسم کو بھی آرام کی ضرورت ہوتی ہے ، اور  ہر انسان کا ایک  خاندان اور دوست ہوتے  ہیں جن کا اس پر کوئی حق  ہے کہ وہ انہیں بھی وقت دے ۔حضرت عبداللہ ؓبیان کرتے ہیں کہ
رسول اللہﷺ میرے حجرے میں تشریف لائے اور فرمانے لگے: ” کیا مجھے یہ بتایا نہیں گیا کہ تو ساری رات نماز پڑھتا رہتا ہے اور ہر دن روزہ رکھتا ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”ایسے نہ کر۔ سو بھی اور قیام بھی کر۔ روزہ بھی رکھ اور ناغہ بھی کر۔ یقینا تیری آنکھ کا تجھ پر حق ہے، تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے، تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے، تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے دوست کا بھی تجھ پر حق ہے۔“ (سنن نسائی: 2393)

﴿حَدَّثَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ قَالَ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حُجْرَتِي فَقَالَ ‏‏ أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَقُومُ اللَّيْلَ وَتَصُومُ النَّهَارَ ‏‏ ‏.‏ قَالَ بَلَى ‏.‏ قَالَ ‏‏ فَلاَ تَفْعَلَنَّ نَمْ وَقُمْ وَصُمْ وَأَفْطِرْ فَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِزَوْجَتِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِضَيْفِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِصَدِيقِكَ عَلَيْكَ حَقًّا﴾

اسی طرح حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ : وقتافوقتا  اپنے دلوں کو راحت، آرام اور تفریح دیا کرو کیونکہ دل جب تھک جاتے تو بےحس ہو جاتے۔

اسی قسم کی ایک حدیث جامع ترمذی میں بھی ہے: ”رسول اللہ ﷺ نے سلمانؓ اور ابو الدرداءؓ کے مابین بھائی چارہ کروایا تو ایک دن سلمانؓ نے ابوالدرداء ؓ کی زیارت کی، دیکھا کہ ان کی بیوی ام الدرداء معمولی کپڑے میں ملبوس ہیں، چنانچہ انہوں نے پوچھا کہ تمہاری اس حالت کی کیا وجہ ہے؟ ان کی بیوی نے جواب دیا: تمہارے بھائی ابوالدرداءؓ          کو دنیا سے کوئی رغبت نہیں ہے کہ جب ابو الدرداءؓ  گھر آئے تو پہلے انہوں نے سلمان ؓ کے سامنے کھانا پیش کیا اور کہا: کھاؤ میں آج روزے سے ہوں۔ سلمان   ؓ   نے کہا: میں نہیں کھاؤں گا یہاں تک کہ تم بھی میرے ساتھ کھاؤ۔ چنانچہ سلمان نے بھی کھایا۔ پھر جب رات آئی تو ابوالدرداءؓتہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے، تو سلمان ؓنے ان سے کہا: سو جاؤ وہ سو گئے۔ (تھوڑی دیر بعد)پھر تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو کہا سو جاؤ، چنانچہ وہ سو گئے، پھر جب صبح قریب ہوئی تو سلمانؓ نے ان سے کہا: اب اٹھ جاؤ چنانچہ دونوں نے اٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر سلمانؓ نے ان سے کہا: ”تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے رب کا تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر صاحب حق کو اس کا حق ادا کرو“، اس کے بعد دونوں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس گفتگو کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”سلمان نے سچ کہا۔“ (جامع ترمذی: 2413)

” ایک مرتبہ نبی کریمﷺ مسجد میں تشریف لے گئے۔وہاں  آپﷺ کی نظر ایک رسی پر پڑی جو دو ستونوں کے درمیان تنی ہوئی تھی۔ دریافت فرمایا کہ یہ رسی کیسی ہے؟ لوگوں نے عرض کی کہ یہ زینب ؓ نے باندھی ہے جب وہ (نماز میں کھڑی کھڑی) تھک جاتی ہیں تو اس سے لٹکی رہتی ہیں۔ نبی کریمﷺ  نے فرمایا کہ نہیں یہ رسی نہیں ہونی چاہیے اسے کھول ڈالو، تم میں ہر شخص کو چاہیے جب تک دل لگے نماز پڑھے( یعنی نشاط طبع کے ساتھ نماز پڑھے)، تھک جائے تو بیٹھ جائے (اور آرام کرے)۔“ (صحیح بخاری: 1150)

﴿دخَل رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم المسجدَ وحبلٌ ممدودٌ بينَ ساريتَيْنِ فقال: ( ما هذا ؟ ) قالوا: لزينبَ تُصلِّي فإذا كسِلَتْ أو فتَرَتْ أمسكت به قال: ( حُلُّوه ) ثمَّ قال: ( لِيُصَلِّ أحدُكم نشاطَه فإذا كسِل أو فتَرَ فليقعُدْ ) ﴾

[3]   نبی کریم  ﷺ نے آجروں کو ہدایت کی کہ جب مزدوروں کو کوئی  مشکل کام سونپا جائے تو ان کی مدد کی جائے۔ یہ مدد  یا تو ٹائم آف  یعنی چھٹیوں (time      off)کی صورت میں ہوسکتی ہے یا مانیٹری پریمیم یعنی اضافی تنخواہ (monetary       premium) کی ادائیگی سے یا دونوں طریقوں سے ۔آپﷺ نے فرمایا: ”وہ (آپ کے نوکر اور غلام)  تمہارے بھائی ہیں، اللہ نے انہیں تمہارے ماتحت کیا ہے، تم انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو اور ان پر ایسے کام کی ذمہ داری نہ ڈالو جو ان کے بس سے باہر ہو، اگر ان پر (مشکل کام کی) ذمہ داری ڈالو تو ان کی اعانت کرو (ان کے اضافی بوجھ کو بانٹ کر ان کی مدد کرو)۔“ (صحیح مسلم:4313)

﴿إِخْوَانُكُمْ جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ فَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ وَأَلْبِسُوهُمْ مِمَّا تَلْبَسُونَ وَلاَ تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ﴾

ایک اور مثال میں ، نبی کریم ﷺ نے آجروں کو ہدایت دی کہ وہ اپنے مزدوروں کی مدد کریں۔ جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے ، یہ مدد اضافی تنخواہ یا چھٹیوں کی صورت میں ہو سکتی ہے فرمایا: ”تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، لہٰذا ان سے حسن سلوک کرو۔ جو کام تم سے نہ ہو سکے اس میں ان سے مدد لو، اور جو کام ان سے نہ ہو سکے اس میں ان کی مدد کرو۔“ اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ ” کام کرنے والے کی اس کے کام میں مدد کرو، بلاشبہ جو اللہ کے لیے عمل کرتا ہے وہ محروم نہیں ہوتا۔“ (الادب المفرد: 190 اور 191)

﴿أَرِقَّاكُمْ إِخْوَانُكُمْ، فَأَحْسِنُوا إِلَيْهِمْ، اسْتَعِينُوهُمْ عَلَى مَا غَلَبَكُمْ، وَأَعِينُوهُمْ عَلَى مَا غُلِبُوا﴾

[4] –  جیسا کہ نبی کریم ﷺ  نے فرمایا  ”ایک شخص کے اپنے جسم پر بھی کچھ حقوق ہیں۔  (سنن نسائی: 2391)

لہذا ،  کام کے گھنٹوں کے درمیان آرام کے لئے وقفہ(rest     break) ، کام کے بعد روزانہ آرام کا وقفہ (daily     rest      period) ، اور ہفتہ وار آرام (weekly     rest      day) کی ضرورت ہوتی ہے۔

”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عبداللہ! کیا میری یہ اطلاع صحیح ہے کہ تم ( روزانہ ) دن میں روزے رکھتے ہو اور رات بھر عبادت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں یا رسول اللہ! نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو، روزے بھی رکھو اور بغیر روزے بھی رہو۔ رات میں عبادت بھی کرو اور سوؤ بھی۔ کیونکہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔“ (صحیح بخاری: 5199)

﴿قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏‏ يَا عَبْدَ اللَّهِ أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ النَّهَارَ وَتَقُومُ اللَّيْلَ ‏‏‏.‏ قُلْتُ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ قَالَ ‏‏ فَلاَ تَفْعَلْ، صُمْ وَأَفْطِرْ، وَقُمْ وَنَمْ، فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا﴾

جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت میں بتایا گیا ہے ، نماز کے وقفے اور/یا آرام کے وقفے جائز ہیں ، اور لوگوں کو اس طرح کے وقفوں کے بعد کام پر واپس جانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔”اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو، پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔“(62:9-10)

ﵻيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ۝ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَﵺ

[5] –  مختلف  مذاہب والوں کے لیے چھٹی کے مختلف دن مخصوص کیے جا سکتے ہیں۔ یہودیوں کے لیے ایسا دن ہفتہ ہو سکتا ہے۔ دوسرے مذاہب کے لیے بھی اسی طرح کے دن متعین کیے جا سکتے ہیں جہاں مزدوروں /محنت کشوں   کو ہفتہ وار آرام کا دن دیا جا سکتا ہے۔جیسے یہودیوں کیلیے ہفتے کا دن۔  (جامع ترمذی: 2733)

[6] – بیمار  ہونے والے مزدور ، سالانہ اور سرکاری تعطیلات بمع  تنخواہ  کے حقدار ہوں گے۔ سنن ابو داؤد  میں ہے: ”رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے یعنی بدر کے دن اور فرمایا: بیشک عثمان اللہ اور اس کے رسول کی ضرورت سے رہ گئے ہیں  اور میں ان کی طرف سے بیعت کرتا ہوں ، پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے حصہ مقرر کیا اور ان کے علاوہ کسی بھی غیر موجود شخص کو نہیں دیا۔“ (سنن ابو داؤد:2726) (حضرت عثمان ؓ غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہو سکے، کیونکہ آپ کی اہلیہ حضرت رقیہؓ  جو رسول اللہ ﷺکی صاحبزادی ہیں ان ایام میں سخت بیمار تھیں اسی وجہ سے ان کی دیکھ ریکھ کے لئے انہیں رکنا پڑ گیا تھا۔حضرت رقیہ ؓ کا اسی بیماری میں انتقال ہوا)

﴿إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَامَ – يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ – فَقَالَ ‏ ‏ إِنَّ عُثْمَانَ انْطَلَقَ فِي حَاجَةِ اللَّهِ وَحَاجَةِ رَسُولِ اللَّهِ وَإِنِّي أُبَايِعُ لَهُ ‏‏ ‏.‏ فَضَرَبَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِسَهْمٍ وَلَمْ يَضْرِبْ لأَحَدٍ غَابَ غَيْرُهُ ﴾

ایک اور حدیث میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی حقیقی عذر کی وجہ سے  کام /سرگرمی سے غیر حاضر رہنے والے ملازمین کو فوائد سے نوازا  جا سکتا ہے ،  ”جب رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک سے واپس ہوئے۔ اور مدینہ کے قریب پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”مدینہ میں بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ جہاں بھی تم چلے اور جس وادی کو بھی تم نے قطع کیا وہ ( اپنے دل سے ) تمہارے ساتھ ساتھ تھے۔“  صحابہ ؓنے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! اگرچہ ان کا قیام اس وقت بھی مدینہ میں ہی رہا ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں، وہ مدینہ میں رہتے ہوئے بھی ( اپنے دل سے تمہارے ساتھ تھے ) وہ کسی عذر کی وجہ سے رک گئے تھے۔“  (صحیح بخاری :4423)

﴿ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَجَعَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ فَدَنَا مِنَ الْمَدِينَةِ فَقَالَ ‏‏ إِنَّ بِالْمَدِينَةِ أَقْوَامًا مَا سِرْتُمْ مَسِيرًا وَلاَ قَطَعْتُمْ وَادِيًا إِلاَّ كَانُوا مَعَكُمْ ‏‏‏‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَهُمْ بِالْمَدِينَةِ قَالَ ‏‏ وَهُمْ بِالْمَدِينَةِ، حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ ‏﴾

[7]  اسی طرح جو ملازم  بیماری کی وجہ سے کام پر حاضر نہیں ہو سکتے انہیں رخصت علالت دی جا سکتی ہے ۔ حضرت جابر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ تم جس وادی سے بھی گزرے، یا جس راہ پر چلے ثواب میں ہر جگہ وہ تمہارے شریک رہے، انہیں عذر  (بیماری)نے روک رکھا تھا۔“ (سنن ابن ماجہ: 2765)

﴿عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ خَلَّفْتُمْ بِالْمَدِينَةِ رِجَالًا، مَا قَطَعْتُمْ وَادِيًا، وَلَا سَلَكْتُمْ طَرِيقًا، إِلَّا شَرَكُوكُمْ فِي الْأَجْرِ، حَبَسَهُمُ الْمَرَضُ﴾

نبی کریم ﷺ نے ا یک بار فرمایا:  ”جب کوئی شخص بیمار پڑ جاتا ہے تو اس کے لیے ان اعمال کا اجر بھی درج کیا جاتا ہے جو وہ صحت مند ہونے پر کرتا تھا۔“ (ادب المفرد: 500)

﴿مَا مِنْ أَحَدٍ يَمْرَضُ، إِلاَّ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ مَا كَانَ يَعْمَلُ وَهُوَ صَحِيحٌ‏﴾

ایک اور روایت  میں  ہے  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ کسی مسلمان کو جسمانی  درد میں مبتلا کرتا ہے تو  جب تک وہ بیمار رہتا ہے اسے ان اعمال کا بھی  اجر عطا  کرتا ہے جو وہ حالت تندرستی میں  کیا کرتا  تھا۔“ (ادب المفرد: 501)

﴿مَا مِنْ مُسْلِمٍ ابْتَلاَهُ اللَّهُ فِي جَسَدِهِ إِلاَّ كُتِبَ لَهُ مَا كَانَ يَعْمَلُ فِي صِحَّتِهِ، مَا كَانَ مَرِيضًا﴾

مذکورہ بالا  احادیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مزدوروں کو روزگار کے تحفظ کے ساتھ رخصتِ علالت دی جائے۔ ان کے کام کی بنا پر انہیں  بیماری  کے دوران بیماری کے فوائد (sickness     benefits)حاصل ہوں  گے اور ان کا روزگار  بھی محفوظ رہے گا۔

[8] – زچگی کی چھٹی کے علاوہ ، ملازمین کو گود لیے گئے بچوں کے لیے بھی چھٹی دی جا سکتی ہے۔ قرآن نے  حضرت  زکریا ؑ کے حضرت مریمؑ کو گود لینے کی  طرف اشارہ  ان الفاظ سے کیا ہے: ”(اے محبوبؐ!) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں، حالانکہ آپ (اس وقت) ان کے پاس نہ تھے جب وہ (قرعہ اندازی کے طور پر) اپنے قلم پھینک رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم (علیہا السلام) کی کفالت کرے اور نہ آپ اس وقت ان کے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔“ (03:44)

ﵻ ذَٰلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَﵺ

[9]۔           رات کی شفٹ میں  یا بھاری بھرکم کام میں مصروف مزدوروں /محنت کشوں   کے لیے کام کے اوقات میں  کمی کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح ، وبائی امراض کے دوران کام کے اوقات کم کیے جا سکتے ہیں تاکہ مزدوروں /محنت کشوں   کو نقصان سے بچایا جا سکے۔ لوگوں کو نقصان سے بچانے کے لیے لازمی ڈیوٹی میں کمی کی مثال ملاحظہ کریں: ”اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرو (یعنی چار رکعت فرض کی جگہ دو پڑھو) اگر تمہیں اندیشہ ہے کہ کافر تمہیں تکلیف میں مبتلا کر دیں گے۔ بیشک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں۔“ (04:101)

ﵻوَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُبِينًاﵺ

نمازِتہجد (رات کی نماز) کا ثواب زیادہ ہے (17:79)۔ اس مشابہت کو مدنظر رکھتے ہوئے ، جو لوگ رات کے کام سمیت خطرناک کام کی ڈیوٹی دیتے ہیں ان کو اضافی اجرت دی جانی چاہیے۔ قرآن نے اس کا تذکرہ مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے: ”بے شک رات کا اُٹھنا (نفس کو) سخت پامال کرتا ہے اور (دِل و دِماغ کی یک سُوئی کے ساتھ) زبان سے سیدھی بات نکالتا ہے۔“ (73:06)

ﵻإِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًاﵺ

[10] – رات آرام کا وقت ہے اس لیے عام طور پر رات کے وقت  کام ممنوع ہے سوائے مخصوص شعبوں کے اور جہاں کچھ ضروری کام ختم کرنا ضروری ہو: ”اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام پاؤ اور دن کو دیکھنے کے لئے روشن بنایا۔ بے شک اللہ لوگوں پر فضل فرمانے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔“ (40:61)

ﵻاللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَﵺ

[11] – نبی ﷺ نے حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہے۔

ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ وہ  رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ کھانا تناول فرما رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا:
” بیٹھو، اور ہمارے کھانے میں سے کچھ کھاؤ ، میں نے کہا: میں روزے سے ہوں۔“  آپ ﷺ نے فرمایا: ”اچھا بیٹھو، میں تمہیں نماز اور روزے کے بارے میں بتاتا ہوں: اللہ نے ( سفر میں ) نماز آدھی کر دی ہے، اور مسافر، دودھ پلانے والی، اور حاملہ عورت کو روزہ رکھنے کی رخصت دی ہے ، قسم اللہ کی! آپ ﷺ نے دونوں کا ذکر کیا یا ان دونوں میں سے کسی ایک کا، مجھے رسول اللہ ﷺ کے کھانے میں سے نہ کھا پانے کا افسوس رہا۔“ (سنن ابو داؤد: 2408)

[12] –  حمل کے دوران  ملازمت سے معطلی عام طور پر ممنوع ہے۔ تاہم ، معاشی برخاستگی(redundancy) کی صورت میں ، حمل کے دوران ملازمت کا خاتمہ کسی مزدور کو زچگی کے فائدے(maternity   benefits) سے محروم نہیں کرے گا کیونکہ طلاق کی صورت میں بھی شوہروں کو یہ حکم ہے کہ وہ بیویوں پر خرچ کرتے رہیں : ”اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں۔“ (65:06)

ﵻوَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّﵺ

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہے: ”(اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے ۔“ (02:233) اس سے ہم یہ بھی مراد لے سکتے ہیں کہ اس بنیاد پر انہیں نوکری سے نہیں نکالا جائے گا یا کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔

ﵻلَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَهُﵺ

مذکورہ بالا  آیات کے پیش نظر ، بچے کی پیدائش یا دیگر چھٹیوں سے متعلق قانونی حق استعمال کرنا مزدور کے روزگار پر منفی اثر نہیں ڈالے گا اور چھٹیوں کے دوران اس کا روزگار محفوظ رہنا چاہیے (سالانہ ، بیمار ی، زچگی ، یا ولادت کی چھٹی)۔

”زنا کے ایک کیس میں جب (غامد قبیلے)  کی ایک عورت نے    اعتراف جرم (زنا) کیا تو  نبی کریم  ﷺ نےاس کی سزا تقریبا دو سال کے لیے ملتوی کر دی ۔ نبی کریم ﷺ نے کہا کہ  پہلے  وہ بچے کو جنم دے  ( کیونکہ  وہ حاملہ تھی) ،پھر آپﷺ نے  اسے بچے کو دودھ پلانے کی اجازت دی یہاں تک کہ جب وہ اسے دودھ چھڑا چکی  تو  پھر  اسے سزا دی گئی۔ اس کا مقصد جنین اور بچے کو بچانا تھا۔“ (صحیح مسلم: 1695 ب)

[13] –  دودھ پلانے  کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے۔ یہ اصول قرآن کریم کی  اس آیت سے ماخوذ ہے جس میں  دو سال تک دودوھ پلانے کا حکم ہے ۔ ” اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لئے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے۔“ (02:233)

ﵻوَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَﵺ

نبی کریم ﷺ نے گریہٴ طفل کی وجہ سے نماز میں تخفیف کی ہے اس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے ایک شیر خواربچے کی ماں کے اوقاتِ کار میں کمی کی جا سکتی ہے: آپ ﷺ نے فرمایا کہ: ”میں نماز کی نیت باندھتا ہوں، ارادہ یہ ہوتا ہے کہ نماز کو طویل کروں گا، لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کر دیتا ہوں کیونکہ میں اس درد کو سمجھتا ہوں جو بچے کے رونے کی وجہ سے ماں کو ہو جاتا ہے (اور بچے کی ماں کو اس کے رونے کی وجہ سے تکلیف ہو گی)۔“ (صحیح بخاری: 710)

﴿إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلَاةِ فَأُرِيدُ إِطَالَتَهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ شِدَّةِ وَجْدِ أُمِّهِ مِنْ بُكَائِهِ﴾

[14] –  نبی اکرم ﷺ نے ایک بار فرمایا: ”اگر کوئی شخص  مجلس سے اٹھ کر چلا جاتا ہے اور پھر واپس آتا ہے تو وہ اپنی جگہ کا زیادہ حقدار ہے۔“ (صحیح مسلم: 2179) لہذا ، ایک مزدور کو اپنی چھٹی مکمل ہونے پر اسی نوکری/پوزیشن پر واپس آنے کا حق حاصل ہے۔

﴿إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ مِنْ مَجْلِسِهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْهِ، فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ﴾

کام کے اوقات کے دوران، جب ایک مزدور /محنت کش /ورکر پہلے ہی احاطے میں داخل ہو چکا ہوتا ہے اور کام تفویض ہونے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے، عام لیبرقوانین کے مطابق آجروں سے ایسے گھنٹوں کے لیے مزدوروں کو ادائیگی کی ضرورت ہوتی ہے۔        رسول اللہ ﷺ    نے فرمایا کہ نماز کا انتظار کرنے والا نماز میں ہے۔

”ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عشاء پڑھنی چاہی تو آپ باہر تشریف نہ لائے یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی  (اس کے بعد تشریف لائے) اور فرمایا: ”تم لوگ اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہو، ہم لوگ اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہے“، پھر آپﷺنے فرمایا:”لوگوں نے نماز پڑھ لی اور اپنی خواب گاہوں میں جا کر سو رہے، اور تم برابر نماز ہی میں رہے جب تک کہ تم نماز کا انتظار کرتے رہے، اگر مجھے کمزور کی کمزوری، اور بیمار کی بیماری کا خیال نہ ہوتا تو میں اس نماز کو آدھی رات تک مؤخر کرتا۔“ (سنن ابوداؤد: 422)

﴿عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْعَتَمَةِ فَلَمْ يَخْرُجْ حَتَّى مَضَى نَحْوٌ مِنْ شَطْرِ اللَّيْلِ فَقَالَ خُذُوا مَقَاعِدَكُمْ فَأَخَذْنَا مَقَاعِدَنَا فَقَالَ إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا وَأَخَذُوا مَضَاجِعَهُمْ وَإِنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا فِي صَلَاةٍ مَا انْتَظَرْتُمْ الصَّلَاةَ وَلَوْلَا ضَعْفُ الضَّعِيفِ وَسَقَمُ السَّقِيمِ لَأَخَّرْتُ هَذِهِ الصَّلَاةَ إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ﴾