فہرست مضامین

باب پنجم: لیبر انسپکشن

(مزدودوں کے حالاتِ کار کی چھان بین اوراس کے معائنےکاانتظام)  (Labour Inspection)

  1. ایسی انٹرپرائزز یا کام کی جگہیں ، جو اس لیبر کوڈ کی دفعات کے تحت کام کر رہی ہیں   ان کے لئے لیبر انسپکشن ضروری ہوگی۔[1]
  2. لیبر انسپکٹرز کو درج ذیل افعال اور اختیارات حاصل ہوں گے۔
    1. آجروں اور مزدوروں /محنت کشوں  کو قانونی دفعات کی تعمیل کے لئے انتہائی موثر  طریقے سے تکنیکی مدد، معلومات اور  مفید مشورے فراہم کرنا۔[2]
    2. کام کی شرائط اور مزدوروں کے حقوق سے متعلق قانونی دفعات کے نفاذ کو یقینی بنانا ، جیسے اوقات کار ، اجرت ، حفاظت ، صحت اور فلاح و بہبود ، بچوں اور نوجوانوں کے روزگار ، اور دیگر متعلقہ معاملات ، جہاں تک اس طرح کی دفعات کا نفاذ لیبر انسپکٹرز کی ذمہ داری ہے۔[3]
    3. نقائص یا زیادتیوں کو (بطور خاص ایسے نقائص اور زیادتیاں جو موجودہ قانونی دفعات میں شامل نہیں) مجاز اتھارٹی کے نوٹس میں لانا ۔
  3. لیبر انسپکٹرز کو سونپے جانے والے اضافی فرائض ان کے بنیادی فرائض کی مؤثر طریقے سے انجام دہی میں مداخلت نہ کرتے ہوں اور انسپکٹروں کے آجروں اور ملازمین کے ساتھ تعلقات میں جو غیر جانبداری ضروری ہے اس میں مانع نہ ہوں۔
  4. مندرجہ ذیل اختیارات کے ذریعے لیبر انسپکٹرز کو بااختیار بنایا جائے گا:
    1. وہ پیشگی اطلاع دیئے بغیر دن یا رات کے کسی بھی پہر کام کی کسی بھی ایسی جگہ جو اس کے معائنہ  کے دائرہ کار میں آتی ہو کے اندر آزادانہ   طور پر داخل ہو سکتا ہے۔
    2. دن کے وقت کسی بھی معقول وجہ سے کسی ایسی کام کی جگہ  میں داخل ہوسکتا ہے جو اس کے معائنہ کے دائرہ کار میں آتی ہو۔ اور
    3. کوئی بھی ایسا ٹیسٹ یا انکوائری جسے وہ خود اپنی ذاتی تسلی کے لیے یا قانونی دفعات کے نفاذ کے لئے ضروری سمجھتا ہو  کروا سکتا ہے۔
    4. قانونی دفعات کے اطلاق سے متعلق کسی بھی معاملے پر تنہا یا گواہوں کی موجودگی میں[4] آجر یا ادارے کے سے عملہ پوچھ گچھ کر سکتا ہے۔[5]
    5. ایسی کتابوں ، رجسٹروں یا دیگر دستاویزات کی طلبی جن کا رکھنا قومی قوانین یا کام کے قواعد و ضوابط کے تحت ضروری ہو ، تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ  آیا وہ قانونی دفعات کے مطابق ہیں، یا اس طرح کی  کتابوں، رجسٹروں یا دستاویزات کی فوٹو کاپی کرنا یا ان سے اقتباسات بنانا۔[6]
    6. قانونی دفعات کے ذریعہ مطلوبہ نوٹس کو نافذ کرنا۔
    7. استعمال شدہ یا محفوظ شدہ عناصر اور مواد کا تجزیاتی نمونہ اخذ کرنا، لینا یا ہٹانا، بشرطیکہ آجر یا اس کے نمائندہ کو اس مقصد کے لیے ہٹائے گئے یا لئے گئے کسی بھی نمونہ یا مادہ کے بارے میں مطلع کیا جائے۔
  5. معائنہ کرتے وقت انسپکٹر آجر یا اس کے نمائندے کو اپنی موجودگی کے بارے میں مطلع کرے گا ، الا یہ کہ وہ یہ سمجھتا ہو کہ ایسا کرنا اسکے فرائض کی انجام دہی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
  6. مرد اور عورت دونوں ہی معائناتی عملے میں(لیبر انسپکٹرز کے طور پر) تقرری کے اہل ہوں گے۔ جہاں ضروری ہو ، مرد اور خواتین انسپکٹروں کو خصوصی فرائض بھی تفویض کیے جا سکتے ہیں۔[7]
  7. لیبر انسپکٹرز کے لئے اپنے زیرِ معائنہ کئے جانے والے کاموں میں براہِ راست یا بالواسطہ دلچسپی رکھنا ممنوع ہو گا۔[8] یہ لوگ سروس چھوڑنے کے بعد بھی ، کسی مینوفیکچرنگ یا تجارتی راز کے اخفا نہ کرنے کےپابند ہوں گے جو ان کے فرائض منصبی کے دوران ان کے علم میں آئے ہوں۔ وہ کسی بھی شکایت (جو ان کے نوٹس میں لائی گئی یا  کوئی خرابی یا قانونی دفعات کی خلاف ورزی) کو مکمل طور پر صیغۂ راز میں رکھنے کے پابند ہوں گے۔
  8. قانون نافذ کرنے والے ادارے لیبر انسپکٹروں کی جانب سے نافذ ہونے والی قانونی دفعات کی خلاف ورزیوں اور لیبر انسپکٹروں کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنے والوں کے خلاف مناسب کاروائی اور سزائیں تجویز کریں گے۔[9]
  9. ایک شکایت کنندہ اور گواہ کواس کی ملازمت سے متعلقہ معاملات میں متاثر ہونے سے بچایا جائے گا۔  [10]
  10. لیبر انسکپٹر یہ کوشش کرے گا کہ مزدوروں اور شکایت کنندگان کی شکایات کا جلد از جلد مداوا کرے اور ان پرپندرہ دن کے اندر ضروری ایکشن لے۔ [11]

 

[1] – حسبہ (معائنہ) کا تصور قرآن کی مندرجہ ذیل آیت سے ثابت  ہے ، جس میں  ایک شخص سے کہا گیا  ہے کہ وہ اپنے اعمال کو ذہن میں رکھے: ”اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھتے رہنا چاہئیے کہ اس نے کل (قیامت) کے لئے آگے کیا بھیجا ہے، اور تم اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ اُن کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔“  (59:18)

ﵻيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَﵺ

اسلامک لیبر کوڈ رسمی اور غیر رسمی شعبے کی نام نہاد تقسیم سے  قطع نظر معیشت کے تمام شعبوں پر لاگو ہوگا ۔ قرآن  کریم میں ارشاد ہے: ”اور کوئی امّت (ایسی) نہیں مگر اُس میں کوئی (نہ کوئی) ڈر سنانے والا (ضرور) گزرا ہے۔“ (35:24)

ﵻوَإِن مِّنۡ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٞ ﵺ

قوانین بنانے کا مقصد ان کا فوری نفاذ ہی ہوتا ہے۔ اس بات کی تائید  قرآن ”لوہے“  کی طاقت کا حوالہ دے کر کرتا ہے تاکہ قانون سازی کے لیے ریاست کی طاقت اور اختیار کو ظاہر کیا جا سکے۔ قرآن  مجید میں ہے: ”بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں، اور ہم نے (معدنیات میں سے) لوہا مہیّا کیا اس میں (آلاتِ حرب و دفاع کے لئے) سخت قوّت اور لوگوں کے لئے (صنعت سازی کے کئی دیگر) فوائد ہیں اور (یہ اس لئے کیا) تاکہ اللہ ظاہر کر دے کہ کون اُس کی اور اُس کے رسولوں کی (یعنی دینِ اسلام کی) بِن دیکھے مدد کرتا ہے، بیشک اللہ (خود ہی) بڑی قوت والا بڑے غلبہ والا ہے۔“ (57:25)

ﵻلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌﵺ

مولانا مودودیؒ تفہیم القرآن میں  لکھتے ہیں : ”انبیاء علیہم السلام کے مشن کو بیان کرنے کے معاً بعد یہ فرمانا کہ ”ہم نے لوہا نازل کیا جس میں بڑا زور اور لوگوں کے لیے منافع ہیں“، خود بخود اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں لوہے سے مراد سیاسی اور جنگی طاقت ہے ، اور کلام کا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو قیام عدل کی محض ایک اسکیم پیش کر دینے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا تھا بلکہ یہ بات بھی ان کے مشن میں شامل تھی  کہ اس کو عملاً نافذ کرنے کی کوشش کی جائے اور وہ قوت فراہم کی جائے جس سے فی الواقع عدل قائم ہو سکے ، اسے درہم برہم کرنے والوں کو سزا دی جا سکے اور اس کی مزاحمت کرنے والوں کا زور توڑا جا سکے ۔“

قرآن کریم  میں  اسی بات  کو مومنوں کی ایک خصوصیت کے طور پر اجاگر کیا گیا ہے جس کا مقصد ریاستی نظام ِمعائنہ قائم کرنا ہے اور جس نظام کے تحت  صحیح کاموں کا حکم دینا ہے اور غلط کاموں سے منع کرنا ہے۔ ”(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام  اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔“ (22:41)

ﵻالَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِﵺ

اسلام میں لیبر انسپکشن سسٹم بھی وضع کیا گیا ہے جہاں ہر کوئی اپنے  اس دائرہ کار کا ذمہ دار ہے ، جس کا وہ انچارج ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خبردار سن لو! تم میں سے ہر شخص اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور ( قیامت کے دن ) اس سے اپنی رعایا سے متعلق بازپرس ہو گی لہٰذا امیر جو لوگوں کا حاکم ہو وہ ان کا نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق بازپرس ہو گی اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے اولاد کی نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا غلام اپنے آقا و مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، تو ( سمجھ لو ) تم میں سے ہر ایک راعی ( نگہبان ) ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھ گچھ ہو گی۔“ ( سنن ابو داؤد:2928)

﴿‏ أَلاَ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ عَلَيْهِمْ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَالَعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ‏‏ ﴾

لیبر انسپکٹوریٹ (labour     inspectorate)کو قانون کے نفاذ اور مزدوروں /محنت کشوں   کے کام کی جگہ کے حقوق تک رسائی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”کوئی امیر نہیں جو مسلمانوں کے امور کا ذمہ دار ہو پھر ان (کی بہبود )کے لئے جد وجہد اور خیرخواہی نہ کرے تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔“    (صحیح مسلم: 366)

﴿مَا مِنْ أَمِيرٍ يَلِي أَمْرَ الْمُسْلِمِينَ ثُمَّ لاَ يَجْهَدُ لَهُمْ وَيَنْصَحُ إِلاَّ لَمْ يَدْخُلْ مَعَهُمُ الْجَنَّةَ﴾

ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقیؒ (عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت) کے مطابق رسول کریم ﷺ نے بازار کے مختلف افسروں کی تقرری بھی کی تھی جن میں حضرت  سعید بن سعید بن العاصؓ  اور حضرت عمر ؓ      کو بالترتیب مکہ اور مدینہ کے بازاوں کا افس (مارکیٹ انسپکٹر) مقرر کیا گیا تھا۔

[2] –  قرآن کریم  مندرجہ ذیل الفاظ میں معائنہ کی سرگرمیوں کی تعریف کرتا ہے اور ایک علیحدہ خود مختار لیبر انسپکشن ایجنسی کی حمایت کرتا ہے۔ ”تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقیناً ان کے لئے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔“ (03:110)

ﵻكُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ ۚ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَﵺ

سب سے پہلا مرحلہ لیبر حقوق  کے بارے میں قانون سازی  اور ذمہ داریوں کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔ تعمیل کی جانچ یا نگرانی اگلا مرحلہ ہے۔ یہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ جرمانے لگانے سے پہلے وارننگ دی جانی چاہیے۔ قرآن کہتا ہے: ”جو کوئی راہِ ہدایت اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے فائدہ کے لئے ہدایت پر چلتا ہے اور جو شخص گمراہ ہوتا ہے تو اس کی گمراہی کا وبال (بھی) اسی پر ہے، اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے (کے گناہوں) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور ہم ہرگز عذاب دینے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ ہم (اس قوم میں) کسی رسول کو بھیج لیں۔“ (17:15)

ﵻمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا

انبیاء علیھم السلام کی مثال  کو سامنے رکھتے ہوئے، لیبر انسپکٹر یٹ کے عہدیداروں کو  بھی مقامی زبان میں قانون کی وضاحت کرنی چاہیے: ”اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان کے ساتھ تاکہ وہ ان کے لئے (پیغامِ حق) خوب واضح کر سکے۔“ (14:04)

ﵻوَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْﵺ

قوانین کو بتدریج نافذ کیا جانا چاہیے۔ مندرجہ ذیل آیت  اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ قوانین پر نظر ثانی کی جا نی چاہیے اور جب حالات سازگار ہوں  تو انہیں نئے سرے سے نافذ کیا جا سکتا ہے: ”اور قرآن کو ہم نے جدا جدا کر کے اتارا تاکہ آپ اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور ہم نے اسے رفتہ رفتہ (حالات اور مصالح کے مطابق) تدریجاً اتارا ہے۔“ (17:106)

ﵻوَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَىٰ مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنزِيلًاﵺ

اس کے علاوہ جسے سزا دی جائے اسے قانونی تقاضوں کے بارے میں آگاہ کرنا بھی ضروری ہے،: سائب بن یزیدؓ   سے مروی ہے:
”میں مسجد نبوی میں کھڑا ہوا تھا، کسی نے میری طرف کنکری پھینکی۔ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ عمر بن خطاب ؓسامنے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ یہ سامنے جو دو شخص ہیں انہیں میرے پاس بلا کر لاؤ۔ میں بلا لایا۔ آپؓ نے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلہ سے ہے یا یہ فرمایا کہ تم کہاں رہتے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ اگر تم مدینہ کے ہوتے تو میں تمہیں سزا دئیے بغیر نہ چھوڑتا۔ رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں آواز اونچی کرتے ہو؟“  (صحیح بخاری : 470)

﴿قَالَ كُنْتُ قَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ فَحَصَبَنِي رَجُلٌ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ اذْهَبْ فَأْتِنِي بِهَذَيْنِ‏.‏ فَجِئْتُهُ بِهِمَا‏.‏ قَالَ مَنْ أَنْتُمَا ـ أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا قَالاَ مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ‏.‏ قَالَ لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ لأَوْجَعْتُكُمَا، تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم﴾

[3] – ایک اسلامی ریاست میں ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ لیبر قانون کی تعمیل کو یقینی بنائے۔ ایک عام آدمی لیبر انسپکٹوریٹ کے سامنے شکایت درج کروا سکتا ہے۔ ایک ریاستی عہدیدار ، یا تو اپنے طور پربھی کاروائی کر سکتا ہے یا موصول ہونے والی شکایت کی وجہ سے  کسی جرم کے مرتکب کے خلاف ضروری کارروائی کر سکتا ہے۔ ہاتھ سے (طاقت کے ذریعے) غیر قانونی کام کو روکنے کی اجازت صرف اسلامی ریاست میں ریاستی حکام کو ہے۔ دوسروں کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا کسی فرد کی ذمہ داری نہیں ہے۔ وہ اب بھی قانون کی خلاف ورزی پر متعلقہ محکمے میں شکایت درج کروا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” جو تم میں سے کوئی ناگوار چیز دیکھے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے ہاتھ سے روک دے۔ اور اگر اس کے پاس اتنا کرنے کی طاقت نہیں ہے تو اسے اپنی زبان سے روکے ، اور اگر اتنی  بھی طاقت نہیں کہ وہ اسے  ہاتھ سے  روک سکے ، تو اسے اپنے دل سے (اس سے نفرت) کرنی چاہیے ، اور یہ ایمان کا کمتر درجہ ہے ۔“(صحیح مسلم: 177)

﴿ مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ  الإِيمَانِ ﴾

اسلامی ریاست کی ذمہ داری  بنتی ہے کہ وہ  اس بات کو یقینی بنائے کہ سبھی ، چاہے وہ آجر ہوں یا مزدور /محنت کش /ورکر ، اپنے کام کی جگہ کے حقوق تک رسائی حاصل کریں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر لوگ برائی دیکھیں اور اسے نہ  روکیں تو قریب ہے  کہ اللہ ان سب پر اپنا عذاب بھیج دے۔“ (مسند احمد: 1)

﴿إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْكَرَ فَلَمْ يُنْكِرُوهُ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمْ اللَّهُ بِعِقَابِهِ﴾

لیبر انسپکٹوریٹ کے ضروری کاموں میں سے ایک یہ یقینی بنانا ہے کہ حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دی  جائے، لوگوں کو انکے حقوق  سے کم دینا فساد ہی ہے،قرآن پاک میں اس بات کا ذکر ان لفظوں میں ہے: ”اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم (تول کے ساتھ) مت دیا کرو اور ملک میں (ایسی اخلاقی، مالی اور سماجی خیانتوں کے ذریعے) فساد انگیزی مت کرتے پھرو۔“(26:183)

ﵻ وَلَا تَبۡخَسُواْ ٱلنَّاسَ أَشۡيَآءَهُمۡ وَلَا تَعۡثَوۡاْ فِي ٱلۡأَرۡضِ مُفۡسِدِينَ ﵺ

لیبر انسپکٹوریٹ کو فریقین کے درمیان تنازعات کا فیصلہ قانون کی دفعات کے مطابق اور کسی فریق کی طرفداری کیے بغیر کرنا ہے اور یہی طریقہ اسلام میں پسندیدہ ہے۔” اور اگر آپ فیصلہ فرمائیں تو ان کے درمیان (بھی) عدل سے (ہی) فیصلہ فرمائیں (یعنی ان کی دشمنی عادلانہ فیصلے میں رکاوٹ نہ بنے)، بیشک  اللہ عدل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔“(05:42)

ﵻوَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَﵺ

[4] – مزدوروں /محنت کشوں    کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ ثبوت دیں اور جہاں ضرورت ہو قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے میں مدد کریں:” اور گواہوں کو جب بھی (گواہی کے لئے) بلایا جائے وہ انکار نہ کریں۔“(02:282)

ﵻوَلَا يَأۡبَ ٱلشُّهَدَآءُ إِذَا مَا دُعُواْۚ اﵺ

رسول اللہﷺ نے فرمایا   : ”   کیا میں تمہیں گواہوں میں سے بہترین گواہ نہ بتا دوں؟ جو پوچھنے سے پہلے گواہی پیش کرتا ہے اور پوچھے جانے سے پہلے گواہی دے دیتا ہے۔“ (موطا امام مالكؒ رواية ابن القاسم: 522)

﴿الا اخبركم بخير الشهداء الذى ياتي بشهادته قبل ان يسالها ان يخبر بشهادته قبل ان يسالها﴾

نہ صرف گواہی دینا بلکہ ثبوت چھپانابھی قرآن مجید میں منع ہے: ”اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اس گواہی کو چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے (کتاب میں موجود) ہے۔“(02:140)

ﵻوَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللَّهِﵺ

اور گواہوں کے لئےوہ سب بتانا  ضروری ہے جو کچھ بھی وہ جانتے ہیں:” اور ہم نے فقط اسی بات کی گواہی دی تھی جس کا ہمیں علم تھا اور ہم غیب کے نگہبان نہ تھے۔“(12:81)

ﵻوَمَا شَهِدْنَا إِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حَافِظِينَﵺ

ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے اپنے مالک/آجر کے حق میں مزدور کی گواہی قبول کرنے سے منع کیا ہے:”رسول اللہ ﷺ نے خیانت کرنے والے مرد، خیانت کرنے والی عورت اور اپنے بھائی سے بغض و کینہ رکھنے والے شخص کی شہادت رد فرما دی ہے، اور خادم کی گواہی کو جو اس کے گھر والوں ( مالکوں ) کے حق میں ہو رد کر دیا ہے اور دوسروں کے لیے جائز رکھا ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: «غمر» کے معنیٰ: کینہ اور بغض کے ہیں، اور «قانع» سے مراد پرانا ملازم مثلاً خادم خاص ہے۔ (سنن ابو داؤد: 3600)

﴿أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَدَّ شَهَادَةَ الْخَائِنِ وَالْخَائِنَةِ وَذِي الْغِمْرِ عَلَى أَخِيهِ وَرَدَّ شَهَادَةَ الْقَانِعِ لأَهْلِ الْبَيْتِ وَأَجَازَهَا لِغَيْرِهِمْ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ الْغِمْرُ الْحِنَةُ وَالشَّحْنَاءُ وَالْقَانِعُ الأَجِيرُ التَّابِعُ مِثْلُ الأَجِيرِ الْخَاصِّ﴾

[5] –  مزدوروں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ شکایت جمع کراتے وقت یا جب انہیں بطور گواہ پیش ہونے کے لیے کہا جائے تو لیبر انسپکٹرز کو درست معلومات دیں۔ قرآن مندرجہ ذیل الفاظ میں رہنمائی کرتا ہے:” اور حق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو اور نہ ہی حق کو جان بوجھ کر چھپاؤ۔“(02:42)

ﵻوَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَــقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَﵺ

لیبر انسپکٹر کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ کسی آجر یا مزدور /محنت کش /ورکر کو مجرم قرار دینے سے پہلے ضروری تفتیش اور انکوائری کریں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ” اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) سفر پر نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور اس کو جو تمہیں سلام کرے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے، تم (ایک مسلمان کو کافر کہہ کر مارنے کے بعد مالِ غنیمت کی صورت میں) دنیوی زندگی کا سامان تلاش کرتے ہو تو (یقین کرو) اللہ کے پاس بہت اَموالِ غنیمت ہیں۔ اس سے پیشتر تم (بھی) توایسے ہی تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا (اور تم مسلمان ہوگئے) پس (دوسروں کے بارے میں بھی) تحقیق کر لیا کرو۔ بیشک اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔“(04:94)

ﵻ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ ۚ كَذَٰلِكَ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًاﵺ

مزدوروں کو محض افواہیں پھیلانے کے بجائے لیبر انسپکٹوریٹ حکام کو ضروری معلومات بہم پہنچانی چاہیے: ”اور جب ان کے پاس کوئی خبر امن یا خوف کی آتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں اور اگر وہ (بجائے شہرت دینے کے) اسے رسول اللہ ﷺاور اپنے میں سے صاحبانِ امر کی طرف لوٹادیتے تو ضرور ان میں سے وہ لوگ جو (کسی) بات کانتیجہ اخذ کرسکتے ہیں اس (خبر کی حقیقت) کو جان لیتے، اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً چند ایک کے سوا تم (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتے۔“(04:83)

ﵻوَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًاﵺ

لیبر انسپکٹرز کو بھی ہدایت دی گئی ہے کہ وہ محض شکایت پر تعزیراتی کارروائی کرنے کے بجائے پہلے معاملے کی تحقیقات کریں۔ مزدوری کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات کی تحقیقات کے لیے کام کی جگہ پر تشکیل دی گئی انکوائری کمیٹیوں پر بھی یہی بات لاگو ہوتی ہے۔” اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔“(49:06)

ﵻيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَﵺ

لیبر انسپکٹروں کو رشوت لینے سے بھی گریز کرنا چاہیے اور قوانین کی خلاف ورزیوں میں کسی کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ قرآن کریم میں آتا ہے:”اور اللہ کے عہد حقیر سی قیمت (یعنی دنیوی مال و دولت) کے عوض مت بیچ ڈالا کرو، بیشک جو (اجر) اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم (اس راز کو) جانتے ہو۔“(16:95)

ﵻوَلَا تَشْتَرُوا بِعَهْدِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا إِنَّمَا عِندَ اللَّهِ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَﵺ

[6] – اچھی طرح محفوظ رکھا گیا ریکارڈ قوانین محنت  کی تعمیل یا عدم تعمیل کی نشاندہی کے لیے کافی ہے۔ قرآن کریم  کی  واضح  راہنمائی موجود ہے: ”تم اپنی کتاب پیش کرو اگر تم سچے ہو۔“(37:157)

ﵻفَاْتُوْا بِكِتٰبِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَﵺ

اسی مناسبت سے   ایک اور آیت بھی ہے جس سے  مزدوروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے ریکارڈ  جمع کرنے کا ثبوت ملتا ہے: ” اور جب اَعمال نامے کھول دیئے جائیں گے۔“(81:10)

ﵻوَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْﵺ

اور کارکردگی کے جائزے پر یا کوئی بھی تادیبی کارروائی کرتے ہوئے ، مزدور /محنت کش /ورکر کو اپنے روزگار کے ریکارڈ تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔ ایک حوالہ قرآن میں درج ذیل الفاظ میں ملتا ہے: ”اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کا نوشتہ اس کی گردن میں لٹکا دیا ہے، اور ہم اس کے لئے قیامت کے دن (یہ) نامۂ اعمال نکالیں گے جسے وہ (اپنے سامنے) کھلا ہوا پائے گا۔“(17:13)

ﵻوَكُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِﵺ

[7] مردوں اور عورتوں دونوں کو بطور لیبر انسپکٹر مقرر کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم  ان دونوں میں فرق نہیں کرتا  کیونکہ ان کا کام نیکی کا حکم دینے اور برائی کی ممانعت  کے زمرے میں آتا ہے:”اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔“(09:71)

ﵻوَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِﵺ

اسی طرح یہ بتایا گیا ہے کہ : ” اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں۔“(03:104)

ﵻوَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَﵺ

حضرت عمر ؓنے حضرت  سمرہؓ کو  مکہ مکرمہ میں اور حضرت شفاء ؓبنت عبد اللہ کو  مدینہ  منورہ میں بطور مارکیٹ انسپکٹر مقرر کیا تھا۔  ابن عبد البرؒ نے بیان کیا ہے کہ ”سمرہ ؓبنت نہیک بازاروں میں گشت کرتی ، نیکی کا حکم دیتی اور برائی سے منع کرتی“
جناب عمر ؓنے  شفاء ؓبنت عبداللہ کو مدینہ منورہ  میں  بطور بازار انسپکٹر مقرر کیا جہاں وہ حکم جاری کرتیں اور شریعت کے لین دین کے قوانین کے بارے میں رہنمائی کرتیں۔“  (الاستیعاب فی معرفت الاصحاب: 4/1863)

[8] – لیبر انسپکٹرز کو انصاف کے ساتھ فریقین کے درمیان فیصلہ کرنا چاہیے۔آگے درج کی گئی آیت  اگرچہ حضرت داؤد علیہ السلام سے مخاطب ہے ، لیکن یہ  تمام ریاستی عہدیداروں پر لاگو ہوتی ہے۔” اے داؤد! بے شک ہم نے آپ کو زمین میں (اپنا) نائب بنایا سو تم لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلے (یا حکومت) کیا کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ورنہ (یہ پیروی) تمہیں راہِ خدا سے بھٹکا دے گی، بے شک جو لوگ  اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں اُن کے لئے سخت عذاب ہے اس وجہ سے کہ وہ یومِ حساب کو بھول گئے۔“(38:26)

ﵻيَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِﵺ

نبی  کریم ﷺ نے ریاستی عہدیداروں کو اپنی عمومی ذمہ داری سر انجام دیتے ہوئےکوئی ذاتی فائدہ اٹھانے سے منع کیا ہے ۔

قبیلہ ازد کے ایک صحابی کو جنہیں ابن اتبیہؓ  کہتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے زکوة وصول کرنے کے لیے عامل بنایا۔ پھر جب وہ واپس آئے تو کہا کہ یہ تم لوگوں کا ہے ( یعنی بیت المال کا ) اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ اپنے والد یا اپنی والدہ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا۔ دیکھتا وہاں بھی انہیں ہدیہ ملتا ہے یا نہیں۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اس ( مال زکوٰۃ ) میں سے اگر کوئی شخص کچھ بھی ( ناجائز ) لے لے گا تو قیامت کے دن اسے وہ اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اگر اونٹ ہے تو وہ اپنی آواز نکالتا ہوا آئے گا، گائے ہے تو وہ اپنی اور اگر بکری ہے تو وہ اپنی آواز نکالتی ہو گی۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ ہم نے آپ ﷺ کی بغل مبارک کی سفیدی بھی دیکھ لی ( اور فرمایا ) اے اللہ! کیا میں نے تیرا حکم پہنچا دیا۔ اے اللہ! کیا میں نے تیرا حکم پہنچا دیا۔ تین مرتبہ ( آپ ﷺ نے یہی فرمایا ) ۔“  (صحیح بخاری: 2597)

﴿قَالَ اسْتَعْمَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم رَجُلاً مِنَ الأَزْدِ يُقَالُ لَهُ ابْنُ اللُّتْبِيَّةِ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ هَذَا لَكُمْ، وَهَذَا أُهْدِيَ لِي‏.‏ قَالَ ‏ ‏ فَهَلاَّ جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ أَوْ بَيْتِ أُمِّهِ، فَيَنْظُرَ يُهْدَى لَهُ أَمْ لاَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْهُ شَيْئًا إِلاَّ جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى رَقَبَتِهِ، إِنْ كَانَ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ أَوْ بَقَرَةً لَهَا خُوَارٌ أَوْ شَاةً تَيْعَرُ ـ ثُمَّ رَفَعَ بِيَدِهِ، حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَةَ إِبْطَيْهِ ـ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ ثَلاَثًا﴾

ایک حدیث مبارک میں اسی مسئلے کی وضاحت ہوتی ہے:  ”تم میں سے جسے ہم کسی کام کی ذمہ داری سونپیں، پھر وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی کوئی کم تر چیز چھپائے، تو وہ خیانت ہو گی، جسے لے کر وہ قیامت کے دن حاضر ہو گا، یہ سن کر ایک سانولے رنگ کے انصاری، جنھیں گویا میں اب بھی دیکھ رہا ہوں، کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! آپ نے مجھے جو کام سونپا تھا، اس سے مجھے مستعفی ہونے کی اجازت دیجیے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ تمھیں کیا ہو گیا؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے آپ کو ایسے فرماتے ہوئے جو سن لیا ہے! تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں! میں اب اسے پھر کہتا ہوں کہ جسے ہم کسی کام کی ذمے داری سونپیں، وہ کم یا زیادہ سب کچھ لے کر آئے۔ جو اسے دیا جائے وہ لے لے اور جس سے منع کر دیا جائے اس سے رک جائے۔“
(صحیح مسلم: 4743)

﴿مَنِ اسْتَعْمَلْنَاهُ مِنْكُمْ عَلَى عَمَلٍ فَكَتَمَنَا مِخْيَطًا فَمَا فَوْقَهُ كَانَ غُلُولاً يَأْتِي بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾

[9] – قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا ملنی چاہیے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:” اور جو شخص رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی (گمراہی) کی طرف پھیرے رکھیں گے جدھر وہ (خود) پھر گیا ہے اور (بالآخر) اسے دوزخ میں ڈالیں گے، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ “(04:115)

ﵻوَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًاﵺ

رہنمائی کا  اصول یہ ہے کہ ایک قانون ، جو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مناسب مشاورت کے بعد نافذ کیا گیا ہے جو کہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے ،اس پر بغیر کسی چوں چراں کے مکمل طور پر عمل کرنا ہوگا۔ارشاد باری تعالی ہے: ”اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔“(2:208)

ﵻ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌﵺ

لیبر انسپکٹرز  کے کام میں رکاوٹ ڈالنا یا انہیں کسی بھی طرح نقصان پہنچانا قابل سزا جرم ہے:”یقینا جو لوگ  اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں اور انبیاءکو ناحق قتل کرتے ہیں اور لوگوں میں سے بھی انہیں قتل کرتے ہیں جو عدل و انصاف کا حکم دیتے ہیں سو آپ انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیں۔“(03:21)

ﵻإِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَيَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍﵺ

قانون کو نافذ کرتے ہوئے لیبر انسپکٹوریٹ کو کسی سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیبر انسپکٹوریٹ حکام کے کام میں رکاوٹ پر آجروں اور دیگر ذمہ داروں کوسخت سزائیں دی جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی حدود کو نافذ کرو، خواہ کوئی قریبی ہو یا دور کا، اور اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرو۔“ (سنن ابن ماجہ: 2540)

﴿أَقِيمُوا حُدُودَ اللَّهِ فِي الْقَرِيبِ وَالْبَعِيدِ، وَلَا تَأْخُذْكُمْ فِي اللَّهِ لَوْمَةُ لَائِمٍ﴾

لیبر انسپکٹروں کو ہر ایک کے ساتھ ان کی مالی حیثیت یا دیگر معاشرتی حیثیت سے قطع نظر  یکساں سلوک کرنا چاہیے ،  نبی کریم ﷺ کی ایک مشہور روایت میں اس اصول کی اچھی طرح وضاحت کی گئی ہے:” مخزومیہ خاتون ( فاطمہ بنت اسود ) جس نے ( غزوہ فتح کے موقع پر ) چوری کر لی تھی، اس کے معاملہ نے قریش کو فکر میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پر رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کون کرے! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپ ﷺ کو بہت عزیز ہیں۔ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اسامہ ؓنے آپ ﷺ سے اس بارے میں کچھ کہا تو آپ ﷺ نے فرمایا۔ اے اسامہ! کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا ( جس میں ) آپ ﷺ نے فرمایا۔ پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔“ (صحیح بخاری: 3475)

جہاں اسلام سزا کے اطلاق پر زور دیتا ہے وہیں اسلام ہمدردی کا بھی درس دیتا ہے ، اور لیبر انسپکٹر کا پہلا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ بغیر کسی سزا کے اپنے فرض کو پورا کرنا یقینی بنائے۔ نبی ﷺ نے مخصوص ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:” نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”آسانی پیدا کرو، تنگی نہ پیدا کرو، لوگوں کو تسلی اور تشفی دو نفرت نہ دلاؤ۔“ (صحیح بخاری: 6125)

﴿يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا، وَسَكِّنُوا وَلاَ تُنَفِّرُوا﴾

” (لوگوں کو) خوش کرنے والی باتیں بتاؤ  (ان کے ذہنوں میں) نفرت پیدا نہ کرو ان سے  نرمی کرو  اور ان پر سختی نہ کرو۔“ (مشکوٰۃ المصابیح: 3722)

﴿بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا، وَيَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا﴾

ایک اور مقام پر  آپﷺ نے فرمایا:” لوگوں کو سکھاؤ، ان کے کاموں میں ان کے لئے آسانیاں پیدا کرو اور تنگیاں پیدا نہ کرو۔“ (ادب المفرد:245)

﴿عَلِّمُوا وَيَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا﴾

مذکورہ بالا احادیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کوئی قانون ایسا سخت نہیں ہونا چاہئے جو  آجروں کے لیے گراں ہو، اور جس  پر عمل  مشکل ہو۔ اور آجروں کو بھی نئی قانون سازی یا ریگولیٹری تقاضوں  میں اعتماد میں لیا جائے۔

[10] – قرآن کریم میں  گواہ کو  اذیت دینے سےان الفاظ میں منع  کیا گیا ہے” اور نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ گواہ کو، اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہاری (طرف سے) حکم شکنی ہوگی۔“(02:282)

ﵻوَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ ۚ وَإِن تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْﵺ

قانون کی خلاف ورزی کے بارے میں مطلع کرنے کے لیے آنے والے اور اپنے طور پر کام کرنے والے کسی  گواہ  کو اذیت دینا ممنوع ہے۔ نکارہ بجانے والے  پر بھی یہی اصول  لاگو ہوتا ہے۔ نبی کریم  ﷺ نے ایسے گواہ کی تعریف کی ہے اور فرمایا:” کیا میں تمہیں ایک اچھے گواہ کے بارے میں نہ بتا دوں، اور وہ وہ ہے جو پوچھنے سے پہلے ہی گواہی دے دے۔“ ( صحیح مسلم: 4494)

﴿أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ الشُّهَدَاءِ الَّذِي يَأْتِي بِشَهَادَتِهِ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَهَا﴾

عام اصول کے طور پر مزدور اپنے آجروں کے کاموں کے ذمہ دار نہیں ہوتے۔ آجر کے خلاف   کاروائی کے دوران آجر کے ہاں  کام کرنے کی وجہ سے کسی مزدور /محنت کش /ورکر کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔ ، نبی کریم ﷺ نے لڑائی کے دوران کسی نوکر کو نقصان پہنچانے یا قتل کرنے سے منع فرمایا ہے:”کسی عورت کو اور  کسی مزدور کو ہر گز نہ  مارا جائے۔“  ( سنن ابو داؤد: 2669)

﴿لاَ يَقْتُلَنَّ امْرَأَةً وَلاَ عَسِيفًا ﴾

[11] ۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے سیدنا ابوعبیدہ ؓبن الجراح کو جو شام میں تھے خط لکھا کہ: اما بعد! میں تمہیں ایک ایسا خط لکھ رہا ہوں جس میں میں نے امکانی حد تک  اپنی اور تمھاری خیرخواہی کی ہے، پانچ باتوں پر عمل کرو تو تمھارا دین سلامت رہے گا اور تمہیں بہتر سے بہتر اجر ملے گا:

1۔ جب کسی مقدمے دونوں فریق تمھارے پاس آئیں تو تمھارے لیے ضروری ہے کہ عادل گواہیوں اور قطعی قسموں کا مطالبہ کرو۔

2۔ کمزور (فریق) کو اپنے پاس آنے دو تاکہ اسکے دل کو مضبوطی حاصل ہو اور اسکی زبان کھل سکے۔

3۔ غریب الوطن پردیسیوں (دور دراز سے آنے والے لوگوں) کی طرف جلد توجہ کرنا، کیوں کہ اگر اسے زیادہ عرصہ روک کر رکھا گیا تو وہ اپنی شکایت کو بیچ میں ہی چھوڑ کر چلا جائے گا۔

4۔ اس شخص کا کام خراب کرنے کی ذمہ داری اسکے سر ہے جس نے اسکی طرف کوئی توجہ نہ کی (اور اسکی شکایت کا مناسب عرصے میں مداوا نہ کیا)۔

5۔ اور جب تک تم کسی مقدمہ میں مناسب فیصلہ تک نہ پہنچ سکو تب تک صلح کرانے کی کوشش کرو۔ والسلام۔ (کتاب الخراج، امام ابویوسفؒ، مترجم، مولانا نیاز احمد اوکاڑوی، مکتبہ رحمانیہ، لاہور)