فہرست مضامین

تعارف

اسلام کا قانونِ محنت

اسلام  عربی  لفظ ”سَلِمہ“ سے ماخوذ ہے  جس کا مطلب امن ، پاکیزگی ، فرمانبرداری اور اطاعت ہے، اسلام کا مفہوم خدا کی مرضی کے تابع ہوکر اس کے قانون کی اطاعت کرنا  ہے۔ اسلام کی ابتدا  مشرق وسطٰی میں 1445 سال پہلے ہوئی ۔ اس وقت مسلم آبادی 2  بلین افراد کے قریب ہے جو پوری دنیا کی ایک چوتھائی آبادی بنتی ہے۔[1]   اسلام نہ صرف مشرق وسطٰی بلکہ بہت سارے ایشیائی اور افریقی ممالک میں بھی پایا جاتا ہے جہاں  ایک اندازے کے مطابق بالترتیب کل مسلمان آبادی کا 70فیصد(ایشیامیں) اور 27 فیصد(افریقامیں) رہائش پذیر ہے۔ یورپ اور امریکہ میں دنیا کی کل مسلمان آبادی کا صرف  3 فیصد حصہ آباد ہے۔ دنیا میں 57 ریاستیں مسلم اکثریت کی حامل ہیں جہاں ڈیڑھ بلین  سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ یہ 1969ء میں قائم ہونے والی اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے رکن بھی ہیں۔[2]      شماریاتی ، معاشی اور معاشرتی تحقیق و تربیت   کے مرکز  برائے اسلامی  ممالک (SESRIC)[3] کے مطابق   2023ء  میں مسلم اکثریتی ممالک میں کل آبادی2.03 بلین افراد ہے۔[4]      ایک اندازے کے مطابق  اوآئی سی (OIC) کے رکن ممالک میں تقریباً 761 ملین مزدورکام کرتے ہیں۔ اس امر کو مدنظر رکھتےہوئے،کہ مسلمان  آبادی او آئی سی (OIC)ممبران کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی موجود ہے جیسا کہ ہندوستان جہاں مسلم آبادی 200 ملین افراد سے زیادہ ہے، ہمارا اندازہ ہے کہ تمام دنیا میں  مسلمان لیبر فورس  اور مسلمان ملکوں میں کام کرنے والی افرادی قوت کی کل تعداد تقریباً    800   ملین مزدوروں  پر مشتمل ہے۔

ایک مسلمان کی روز مرہ زندگی میں اسلام کی اہمیت کے پیش نظر ، ان ممالک کے قوانین میں اسلامی تعلیمات نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہیں۔ در حقیقت ، کچھ مسلم ممالک نے اپنے دساتیر میں اسلام کو ریاستی مذہب اور قانون سازی کا ایک بنیادی وسیلہ اور ذریعہ بھی قرار دیا ہے ، جس کا ضروری تقاضا یہ ہے کہ ان ممالک میں اسلام کے احکامات کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی جاسکتی۔ 57 مسلم اکثریتی ممالک کے آئینی تجزیے سے یہ  ثابت ہوتا  ہے کہ ان میں سے 26  ممالک میں اسلام کو ریاستی مذہب قرار دیا گیا ہے، اور 14 ممالک ایسے  ہیں جو اسلام  (قرآن وسنت)کو قانون سازی کا منبع قرار دیتے ہیں۔[5] ان تمام ممالک کے دساتیر میں یہ شقیں ہونے کے باوجود  مسلم ممالک کے قوانینِ محنت میں مزدوری اور روزگار سے متعلق اسلامی دفعات شاذ و نادر ہی دکھائی  دیتی ہیں۔ لیبر کوڈز میں اسلامی روایات اور ان سے متعلق دفعات نہ ہونے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بیشتر مسلم ممالک گذشتہ صدی کے کسی نہ کسی موقع پر نوآبادیات  رہے ہیں جنہوں نے  آزادی کے بعد لیبر کوڈز کو  اسلامی سانچے میں ڈھالے بغیر جوں کا توں یورپی اقوام والا  ہی رہنے دیا۔   چنانچہ نئی قوموں کی دستور سازی میں جہاں  اسلام بہت سارے حوالوں میں دکھائی دیتا ہے وہاں ان کے لیبر کوڈز زیادہ تر اسلامی تعلیمات اور اصولوں سے وابستہ دکھائی نہیں دیتے۔

ہماری رائے کے مطابق اسلام بحیثیت ایک مذہب مسلم ممالک میں ایسے  لیبر کوڈز بنانے اور اپنانے میں ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے جو بین الاقوامی معیار (انٹرنیشنل لیبر سٹینڈرڈز) کے مطابق ہوں اور جدید معاشی ضروریات کو بھی پورا کرتے ہوں ۔  مذہبی اور روحانی بنیاد ان قوانین کو زیادہ قابلِ عمل بنائے گی ، جو مسلم آبادی میں وقت کی ضرورت ہے اور مزدوروں ، آجروں اور شہریوں کو مزدوری سےمتعلقہ نظام ِ قانون میں ملکیت اور شمولیت کا احساس بھی  دلائے گی۔[6] ان لیبر کوڈز کی صداقت و معتبری (authenticity)   ، اسٹیک ہولڈرز کی ملکیت اور عوامی شرکت ان کے موثر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔

ہمارا نقطہٴ آغاز عالمِ اسلام کے ظہور کے وقت کام کی دنیا (world   of    work)  اور عالمِ عرب میں موجود پیشوں سے ہے، عرب بنیادی طور پر ’زراعت ، تجارت ، سمت شناسی اور دستکاری جس میں کارپینٹری اور آہن گری شامل تھی‘ جیسے شعبوں سے وابستہ تھے،[7]   جس کا ثبوت ہمیں مختلف قرآنی آیات اور نبی کریم ﷺکی احادیثِ مبارکہ سے ملتا ہے۔ سب سے اہم اور بڑے پیمانے پر اختیارکئے جانے والے پیشے تجارت اور زراعت تھے۔ مکہ مکرمہ ،جوکہ پیغمبرِاسلام حضرت محمدﷺ کا مقامِ پیدائش ہے، کے  زیادہ تر لوگ تجارت پیشہ تھے اور مدینہ منورہ کے لوگ زراعت پیشہ تھے،انسانوں کو غلام بنانا اس وقت ایک رواج تھا۔[8]  ہمیں قرآن مجید میں  غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں بہت سی آیات ملتی ہیں، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے  ہمیں  زیادہ تر  قرآن وحدیث میں ”آقا وغلام“   اور بعض اوقات” آقاو خادم“  جیسے الفاظ ملتے ہیں۔ مزید یہ کہ چونکہ اس وقت کی معیشت جنگوں اور لڑائیوں کے گرد گھومتی تھی (عسکری معیشت) اور زیادہ تر ملازمت فوجی مقاصد کے لئے کی جاتی تھیں لہذا ہمیں کچھ دفعات خالصتا ًفوج سے متعلق نظر آتی ہیں۔[9] بہر حال ، بہت ساری قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ آجر اور اجیر کے جدید تعلق  سے متعلق بھی  ہیں اور ہم نے ان آیات کو حقوق کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔

ابتدائی اسلامی تاریخ میں (اور اب بھی دنیا بھر کے کچھ مقامات پر) ،رہبانیت، درویشی اور تصوف لوگوں میں رضاکارانہ بے روزگاری کا باعث رہا ہے۔[10] تاہم ، مورخین کا خیال ہے کہ کام  چوری  اور محنت ومشقت سے جی کترانے کا رویہ دستی مزدوری(manual  labour) کے منفی تصورسے نکلا ہے ، جسے عرب ثقافت میں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بیات (1992) کا کہنا ہے کہ کس طرح پیشہ اور حرفت کے لئے استعمال ہونے والا عربی لفظ (المهنة) ذلت اور انحطاط کے معنی رکھتا ہے۔

تاہم کام چوری کا یہ رویہ آفاقی نہیں تھا۔بلکہ صوفیوں میں سے خودمحاسبیؒ (متوفی 857 ء) اور طالب المکیؒ اور اہل علم میں سے مشہور حنفی فقیہ شیبانیؒ (متوفی 804 ء) نے کچھ صوفیوں کے کام  کاج ترک کردینے والی عادات  پر شدید تنقید کی تھی۔اسی طرح  حنبلی عالم ،امام ابن تیمیہؒ (متوفی 1328 ء) اور ابوبکر الخلالؒ (متوفی 923 ء) جیسے فقہاء   ہمیں مزدوروں کی محنت ومشقت اور کمائی کی اہمیت پر زور دیتے دکھائی دیتے ہیں۔انہوں نے احادیث کے مجموعے سےیہ ثابت کیا  کہ”معاشی سرگرمی ، تجارت اور  اپنے ہاتھ سے محنت مزدوری کرنا“ ہر فرد پر فرض کیا گیا ہے،ہم دیکھتے ہیں کہ محنت و مزدوری کے بارے میں مثبت رویہ نہ صرف اصفہانیؒ  [11]جیسے دانشوروں بلکہ اخوانُ الصفا  [12]      (جو ماہر علوم الٰہیہ  تھے) اور ابنِ خُلدون (متوفی 1406 ء) کے ہاں بھی موجود ہے۔[13]چند   اہلِ تصوف کے ہاں کام کاج  سے پہلو تہی  کی نفی اس امر سے ہوتی  ہے کہ اسلام  نے اپنے پیروکاروں کو کبھی بھی  ترکِ دنیا اختیار کرکےراہب یا سادھو بننے کا حکم نہیں دیا، اس کے برعکس قرآن مجید کی سورة جمعہ (62:10) میں  ہے کہ نمازِ جمعہ  پڑھنے کے بعد لوگ معاش کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں ، لہذا یہ نہ اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے اور نہ ہی اس کی  توقع کی گئی ہے کہ لوگ اپنا پورا وقت مسجد میں یا عبادات میں گزاریں ۔ جیسا کہ ہم اگلے صفحات میں دیکھیں گے ، قرآن اور سنت میں زیادہ تر احکامات جو آجر وملازمین کے ہم آہنگی سے متعلق ہیں وہ اخلاقی ترغیب (moral   suasion)کی ایک قسم ہیں جنہیں  انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے اختیار کردہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق ڈھالا جاسکتا ہے۔ اور یہ دونوں مستند اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ اصولوں کی اخلاقی قوت کے حامل ہیں۔ تاہم ، یہ جاننا ضروری ہے کہ  اسلام ریاست کو لیبر مارکیٹ منظم کرنے میں کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے (جیسا کہ حسبہ کے ادارہ کے قیام سے ثابت ہے) ، اور دوسرا مسلمانوں کے عقیدہ اخرت کے مطابق جس میں ہر اچھے برےعمل کا حساب دینا ہوگا ، جس کی روشنی میں سخت قانونی پابندیوں کے زیر اثر کام کرنا ہوتا ہے۔ اور جس کے تناظر میں ، ایک فرد صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے جب وہ  اخروی زندگی میں کامیاب ہو ، اور اس کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ ان اخلاقی معیاروں پر کس قدر پورا اترا جن کی اسلام حوصلہ افزائی کرتا ہے۔[14]

اسلام دیگر آسمانی والہامی مذاہب کی طرح اُخروی دنیا کا مذہب ہے جہاں دنیا میں کی گئی کوششوں اور اقدامات پر آخرت میں پورا  پورا بدلہ یا سزا ملے گی۔ دوسرے جہاں کےبارے میں یہ عقیدہ ایک انسان کو قانونی حکمرانی  کے مقابلے میں محض اخلاقی  نقطۂ نظر سے زیادہ مضبوط بناتا ہے۔ اسلام قانونی دفعات کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا (بلکہ وہ ریاست کے کردار کی حوصلہ افزائی کرتا ہے)،  تاہم  اخلاقی اور ایمانی جذبہ کے بغیر قانونی دفعات کی اہمیت نسبتاً  کم ہی ہوتی ہے۔[15]  زیرِ نظر کتاب بھی ان اخلاقی وایمانی جذبات  کو قانونی طور پر قابلِ نفاذ دفعات میں تبدیل کرنے کی ایک کوشش ہے۔

یہ کتاب ہمہ وجوہ مزدوروں کے مسائل پر اسلامی نقطہ نظر کے حوالے  سے  کی جانے والی دیگر تحقیقات سے قدرے مختلف ہے۔ یہ ایک  غیر تقابلی جائزہ ہے، جس میں  دنیا کےدیگر معاشی یا قانونی  نظاموں کے ساتھ اسلامی دفعات کا موازنہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام  ایک بہترین اور مکمل نظام حیات ہے جس پر عمل کیا جانا چاہئے۔  جیسا کہ بیات (1992) نے بیان کیا ، اس موضوع پر زیادہ تر مواد مارکسزم(Marxism) کے خلاف ایک غیر اعلانیہ بحث اور مناظرہ کی شکل اختیار کرلیتا“ ہے۔ اسلامی معاشی تعلیمات کا سرمایہ دارانہ اور سوشلسٹ(Socialist) نظاموں سے موازنہ کرنے کی ہمیشہ ہی کوشش رہی ہے۔مگر یہ کتاب مزدوروں کے  متعلق اسلامی قوانین کو بعینہٖ اپنی اصل حالت میں پیش کرتی ہے ، اور اس میں  مزودوروں کے متعلق  موجودہ اور جدید دفعات کو اسلامی بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ، نہ ہی اس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسلامی قانون سازی کے بنیادی ماخذ یعنی قرآن و سنت نے مزدروں کے  ہر مسئلے کی وضاحت اور اس  کا  حل  پیش کیا ہے۔ اسلامی قانون کے بنیادی ماخذ (یعنی قرآن وسنت) قوانینِ محنت یا لیبر کوڈ  بالکل نہیں ہیں (اور  نہ ہی کبھی تھے) بلکہ انہیں ایک ضابطہِ حیات کے طور پر دیکھا اورسمجھا جائے۔ قرآن دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ”ہر چیز کی تفصیل ہے (یعنی ہر اُس چیز کی تفصیل جو انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ضروری ہے)۔ “  (12:111) ﵻوَتَفْصِيلَ كُلِّ شَىْءٍۢﵺ

اسی طرح سورہ نحل کی آیت نمبر89   ﵻوَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍﵺِْ ، سورہ انعام کی آیت نمبر38
 ﵻمَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍﵺ
سورہ انعام ہی کی آیت نمبر59   ﵻوَلَا رَطْبٍۢ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍۢ مُّبِينٍۢﵺ اور سورہ یونس کی آیت نمبر 61   ﵻوَلَآ أَصْغَرَ مِن ذَٰلِكَ وَلَآ أَكْبَرَ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍۢ مُّبِينٍﵺ میں اس بات کا بار بار اظہار ہے کہ قرآن انسانی زندگی میں ہدایت کے متعلق کسی گوشے کو تشنہ نہیں رہنے دیتا ۔ یہ اب قارئین پر منحصر ہے کہ وہ اس میں دیے گئےمختلف  رہنمااصولوں پر کیسے غور و فکر کرتے ہیں۔ نزول قرآن  کا ایک بنیادی مقصد اس آیت میں بھی موجود ہے: ”تمھارے پاس یہ اللہ کی طرف سے ایک روشنی آگئی ہے، یعنی ایک ایسی کتاب جو (دین و شریعت سے متعلق ہر چیز کو) واضح کر دینے والی ہے۔اِس کے ذریعے سے اللہ اُن لوگوں کو جو اُس کی خوشنودی چاہتے ہیں، سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے اور اپنی توفیق و عنایت سے اُنھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور ایک سیدھی راہ کی طرف اُن کی رہنمائی کرتا ہے۔“(05:15-16)

ﵻقَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ ۝ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍﵺ

اس آیت کی تشر یح میں مولانا مودودیؒ کے مطابق ”سلامتی“ سے مُراد غلط بینی، غلط اندیشی اور غلط کاری سے بچنا اور اس کے نتائج سے محفوظ رہنا ہے۔ جو شخص اللہ کی کتاب اور اُس کے رسول کی زندگی سے روشنی حاصل کرتا ہے اُسے فکر و عمل کے ہر چوراہے پر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کس طرح ان غلطیوں سے محفوظ رہے“ ۔
)تفہیم القرآن)

ان حوالہ جات میں مختلف امور پر تبادلۂ خیال عمومی انداز میں  کیا گیا ہے ، اور زیادہ تر  قواعد انہی عام حوالوں سے اخذ کیے گئے ہیں، ہمارا زیادہ کام قرآن و سنت کے احکام کو سامنے رکھتے ہوئے قیاس پر مبنی ہے اور ہم کسی بھی طرح یہ دعوٰی نہیں کرتے کہ یہ واحد قابل قبول رائے ہے۔قرآن نے وضاحت کی ہے کہ کسی کی دی گئی معلومات کی تشریح کرنا ہر ایک کا کام نہیں ہوتا    اور ہر  شعبےکے ماہر لوگ استنباط کے ذریعے سے حقیقت کو جان سکتے ہیں۔اسلامی قانون محنت پر کام کرتے ہوئے ہم نے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے استنباط کیا ہے۔ اسلامی تعلیمات یعنی (قرآن و سنت) کا ترجمہ وتشریح کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ہم اللہ تعالی ﷻ سے اس کی مدد کے طلبگار ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ وہ ہماری اس کوشش کو قبول کرے  اور ہماری تمام غلطیوں اور کوتاہیوں ، بھول چوک پر ہمیں معاف فرمائے ، آمین

” اور جب ان کے پاس کوئی خبر امن یا خوف کی آتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں اور اگر وہ (بجائے شہرت دینے کے) اسے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اپنے میں سے صاحبانِ امر کی طرف لوٹادیتے تو ضرور ان میں سے وہ لوگ جو (کسی) بات کانتیجہ اخذ کرسکتے ہیں اس (خبر کی حقیقت) کو جان لیتے، اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً چند ایک کے سوا تم (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتے ۔“ (04:83)

ﵻوَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًاﵺ

موجودہ کام مندرجہ ذیل ابواب پر مشتمل ہے۔

  • باب دوئم اسلامی قانون سازی کے ذرائع کی شناخت  اور روزگار کے مواقع کے بارے میں حکومت کے کردار،”حسبہ“ کے اہم ادارے ، اور اس کی  اسلامی تعلیمات کے ساتھ ہم آہنگی کے متعلق بات کرتا ہے۔
  • باب سوئم : کام کے مواقع  میں  حقوق اور ذمہ داریوں پر تبادلۂ خیال کرتا ہے اور اس میں مزدور اور روزگار کے امور سے متعلق قرآن مجید اور احادیث مبارکہ  سے وسیع حوالہ جات پیش کئے گئے ہیں۔
  • باب چہارم: قرآن و سنت کی تعلیمات پر مبنی ایک جامع اسلامی قانون محنت(اسلامک لیبر کوڈ) پیش کیا گیا ہے ، جس میں مزدوروں کے حقوق کے بارے میں تفصیلی دفعات موجود ہیں۔

اسلامی قوانینِ محنت سے متعلق اپنے اس کام کو ہم مسلسل اپڈیٹ کر رہے ہیں اور اس کام کو ایک قانونی دستاویز کے طور پرمرتب کیا گیا ہے ، جسے  صوبائی اور وفاقی حکومتیں استعمال کر سکتی ہیں اور اس کے مطابق اپنے قوانینِ محنت کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ڈھال سکتی ہیں۔

اس کتاب کو ٹریڈ یونینز اور دیگر حقوقِ انسانی کی تنظیمیں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مزدوروں اور محنت کشوں سے متعلق امور میں قانون سازی اور ادارہ جاتی اصلاحات کی وکالت کے لئے استعمال کر سکتی ہیں۔ اسی طرح ، اس کا استعمال ایسے ترقی پسند کاروباری اداروں میں کیا جاسکتا ہے ، جن کا مقصد اپنی تنظیمی پالیسیوں او رتنظیمی ثقافت میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہے۔ اس کتاب کا حتمی مقصد عوام میں اور  خاص طور پر مزدوروں کے قوانین پر کام کرنے والے وکلاء، صنعتی وکاروباری تعلقات  پر کام کرنے والے ماہرین، اور انسانی وسائل پر کام کرنے والوں کے ساتھ ساتھ قانون ساز اداروں میں کام کرنے والے افراد میں محنت کشوں کے انفرادی اور اجتماعی حقوق اور مسائل پر اسلامی احکامات کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔ اور ان سب سے بڑھ کر اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے جو مسلمان ریاستوں کے مزدور دشمن اور انسانی حقوق کے منافی اقدامات اور میڈیا کے زہریلے پراپیگنڈے سے پھیلی ہیں۔[16] اگرچہ اس کتاب کو اسلامی  تعلیمات کی روشنی میں  تیار کیا گیا ہے پھر بھی ہم  اس کے کسی بھی قسم کے مذہبی تقدس کا دعوٰی نہیں کرتے اور ہم  ”من آنم کہ من دانم “ کے مصداق اپنی کم مائیگی سے بخوبی آگاہ ہیں۔


 

[1] – پیو ریسرچ سینٹرhttps://www.pewresearch.org/fact-tank/2019/04/01/the-countries-with-the-10-largest-christian-populations-and-the-10-largest-muslim-populations/

[2]https://www.oic-oci.org/

[3] – یہ اسلامی تعاون تنظیم(OIC) کا ماتحت ادارہ ہے جس کی بنیاد   1977ء میں رکھی گئی۔

[4]https://www.sesric.org/index.php

[5] – افغانستان ، ایران ، مالدیپ اور پاکستان کے علاوہ باقی 10 ممالک (بحرین ، مصر ، عراق ، کویت ، لیبیا ، عمان ، قطر ، سعودی عرب ، شام اور متحدہ عرب امارات) مشرق وسطی اور شمالی افریقہ (MENA) میں واقع ہیں۔ مزید  معلومات کےلیے اس کتاب کے آخر میں دیا گیا  جدول  دیکھیے جس میں اسلامی ممالک کے دساتیر کے حوالہ جات دیے گئے ہیں۔

[6]For details, please see Zulfiqar, A. A. 2007. Religious sanctification of labor law: Islamic labor principles and model provisions. University of Pennsylvania Journal of Labor and Employment Law 9 (3):421–44

[7]Please refer to Bayat, A. 1992. Work ethics in Islam: A comparison with Protestantism. The Islamic Quarterly 36 (01):05– 27

[8]– اس پس منظر میں اسلام نے غلاموں کے حالات بہتر کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے اور غلاموں کو  آزاد کرنے کے لئے بہت سارے طریقے بتلائے، مثلاً غلاموں کو آزاد کرنے کے لئے زکوٰة کی رقم خرچ کرنا(9:60)  ، غلاموں کی آزادی کو بڑی نیکی گرداننا (90:13) ، مکاتبت کا اختیار(24: 33) اور کئی غلطیوں (قسم توڑنا، روزہ توڑنا، ظہار، قتل خطا وغیرہ) کے کفارے کے طور پر  غلام آزاد کرنے کا حکم:قسم توڑنے کا کفارہ(05:89)، روزہ توڑنے کا کفارہ (صحیح بخاری: 6821)، ظہار کا کفارہ(58:03) اور قتلِ خطا کا کفارہ (04:92)

[9] ۔ مکہ میں تو باقاعدہ حبشی غلاموں اور تنخواہ دار نوکروں پر مشتمل ایک مستقل فوج قائم تھی  اور اگر کوئی شخص  کسی لڑائی میں حصہ لینے سے قاصر ہوتا تو وہ اپنے بدلہ میں کسی اور کو روانہ کر سکتا تھا۔ (نقشِ سیرت: ، ص 246، مولف و مرتب: پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد، قرطاس ، 2021)

[10] Voluntary unemployment

[11]– راغب الاصفہانیؒ (متوفی 1109ء) نے خلیفہ ثانی حضرت عمر ؓ کے دور کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس میں خالی خولی  تصوف کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب خلیفہٴ وقت نے ایک نیکوکار (عبادات میں مشغول رہنے والے) شخص  سے پوچھا کہ کیا وہ کوئی پیشہ یا کام کاج کرتا ہے تو اس نے نفی میں جواب دیا، جس پر حضرت عمرؓ نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور اس کی رائے کو غیر اہم سمجھا۔ کنزالعمال( 9854) میں حضرت عمر ؓ کے متعلق مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ” میں ایک  شخص کو دیکھتا ہوں اور وہ مجھے اچھا لگتا ہے جب میں پوچھتا ہوں کہ اسکو کوئی ہنر وغیرہ آتا ہے اور لوگ کہتے ہیں نہیں تو وہ شخص میری نظروں سے گر جاتا ہے۔“  حضرت عمر ؓ کے دور میں ارادی طور پر بےروزگار رہنے والے شخص کی کوئی اہمیت نہ تھی، آپؓ نے ایک دفعہ فرمایا: ”دیکھو، مسلمانوں پر اپنی  پرورش کا بوجھ نہ ڈالنا“۔ (تاریخ ِ عمرؓ: ابن جوزیؒ)

حضرت عمرؓ نے کچھ جوانوں کو بے مصرف بیٹھے ہوئے دیکھا تو پوچھا: تم کون؟ جواب دیا گیا کہ ہم متوکل لوگ ہیں،آپؓ نے اپنے درے سے ان کی کھال ادھیڑنے کی تیاری کرتے ہوئے کہا:مجھے یہ بات سخت ناپسند ہے کہ کوئی شخص بے کار بیٹھا ہو، دنیا کا کام کر رہا ہو نہ آخرت کا، جبکہ یہ معلوم ہے کہ آسمان سے سونے چاندی کی بارش نہیں ہوتی.(اخبار عمرؓ و اخبار عبداللہ بن عمرؓ: علی طنطاوی اور ناجی طنطاوی ، 1983)

[12]–  اخوانُ الصفا    دسویں اور گیارہویں صدی میں فلسفیوں اور سائنس دانوں کا خفیہ بھائی چارہ تھا جس نے رسائل اخوان الصفا پر مشتمل دنیا کا پہلا انسائیکلوپیڈیا لکھا اور انہوں نے  ”محنت کو بطور ایک نظریہ“ پیش کیا۔ ان کا خیال تھا کہ خدا کی طرح محنت بھی مقدس ہے۔ کیونکہ ایک کاریگر / مزدور  ”خام مال سے نئی شکلیں تیار کرتا ہے جس کی کوئی شکل نہیں ہوتی ہے ایسا کرنے میں وہ اپنی ذہانت اور فکر کو استعمال کرتا ہے“۔ Shatzmiller, 1994,  p.380).)

[13] – شمالی افریقہ کے مشہور اسلامی مفکر، بہت سارے لوگوں کے نزدیک وہ سماجیات کے روح رواں ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ  ”ہر کام اور سرمایہ جمع کرنے کے لئے انسانی  محنت ضروری ہے۔ جو شخص مال وثروت کماتا ہے اور اسے حاصل کرتا ہے وہ  اگر کسی ہنر کے نتیجے میں ہو، تو وہ اس کی محنت سے حاصل ہونے والی قدر ہے“۔مذکورہ تینوں علماء کے مابین تقابل کے لئے ملاحظہ کریں:

The Islamic Philosophy of Labor and Crafts: The View of the Ikhwan al-Safa’, Isfahani, and Ibn Khaldun by Mohamed, Y.

[14]– قرآن کریم میں نقصان اٹھانے والوں کے بارے میں کہا گیا: ”فرما دیجئے: کیا ہم تمہیں ایسے لوگوں سے خبردار کر دیں جو اعمال کے حساب سے سخت خسارہ پانے والے ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری جد و جہد دنیا کی زندگی میں ہی برباد ہوگئی اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم نے بڑے معرکے مارے ہیں۔“ (18:103-104)

ﵻقُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا ۝ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًاﵺ

[15] Shafi, M. M. 1988. Distribution of wealth in Islam. Karachi: Begum Aisha Bawany Wakf

[16] ۔ اسلام کی دعوت ہمیشہ سے عالمی رہی ہے ،قرآن کی  مکی آیات میں بھی اسی حقیقت  کو بیان کیا گیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے :”حالانکہ یہ قرآن تو  سارے جہان والوں کیلیے ایک نصیحت ہے۔ “ (68:52)

ﵻوَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَﵺ

اسی طرح سے رسول اللہ ﷺ کی بعثت کسی خاص قوم، ملک، گروہ، آبادی یا خطے کیلیے نہیں ہوئی بلکہ قرآن کے مطابق آپﷺ کو تمام انسانیت کیلیے رسول بنا کر بھیجا گیا، اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اسلام کا پیغام تمام لوگوں تک پہنچایا جائے۔

ﵻوَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًاﵺ (04:79)

ﵻ وَمَآ أَرْسَلْنَـٰكَ إِلَّا كَآفَّةًۭ لِّلنَّاسِ بَشِيرًۭا وَنَذِيرًۭاﵺ (34:28)