مذہب اور مزدور کے مابین مضبوط تعلق نے مجھے (افتخار احمد)ہمیشہ مسحور کیے رکھا ہے۔میں نے سال 2002ء کے اوائل میں اسلامی معاشیات کے بارے میں مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ ،مولانا مناظر احسن گیلانیؒ ، ڈاکٹر حمیداللہؒ، مجیب اللہ ندویؒ ، ڈاکٹرنجات اللہ صدیقیؒ ،علامہ محمد طاسینؒ، ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی ؒ اور ڈاکٹرنور محمد غفاری کی تحریروں کا گہری دلچسپی سے مطالعہ کیا۔ بعد ازاں مجھے ان میں سے کچھ معاملات کا عملی طور پر مشاہدہ کرنے کا موقع اس وقت ملا جب 2006ء میں مجھے وزارتِ محنت وافرادی قوت، حکومت پاکستان کے ساتھ کام کرتے ہوئے مزدوروں کے حقوق کی ناگفتہ بہ حالت کی بنیادی وجہ قوانین محنت کامبہم ہونا اور غیر موٴثر نفاذ ہونا سمجھ آیا اسکے علاوہ یہ بھی پتا چلا کہ ہمارے قوانین محنت عالمی اصولوں کے مطابق بھی نہیں ہیں ۔کورنیل یونیورسٹی امریکا (Cornell University, NY, USA) میں اپنی تعلیم کے دوران میں نے اسلامی نقطۂ نظر کی روشنی میں مزدوروں اور آجروں کے درمیان انفرادی اور اجتماعی تعلقات کے بارے میں ریسرچ کی جسے ایک مشہور امریکی اکیڈمک جرنل نے 2011 ء میں شائع کیا[1]۔ اسکے بعد ویج انڈیکیٹر فاوٴنڈیشن (WageIndicator Foundation) کے ساتھ قوانینِ محنت کے تقابلی مطالعے (جو کہ 100 سے زیادہ ممالک کا احاطہ کرتا ہے) سے یہ بھی سامنے آیا کہ اسلامی ممالک کے قوانینِ محنت نہ صرف فرسودہ ہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے برعکس وہ بنیادی حقوق تک کا احاطہ نہیں کرتے اور مزدوروں کے حقوق کا تحفظ بھی نہیں کرتے اور نہ ہی آجرین کیلیے اپنا کاروبار چلانا آسان بناتے ہیں۔
میرےشریک مصنف) اصغر جمیل (2007 ء کے بعد سے مشرق وسطٰی اور افریقہ میں کام کے سلسلے میں مقیم رہے اور ان ممالک کی لیبر مارکیٹس اور انکے قوانینِ محنت کے مسائل کا بغور جائزہ لینے اور ان پر کام کرنے کا انہیں تجربہ ہوا ۔ان میں سے اکثر ممالک، بالخصوص مشرق وسطٰی کے ممالک(گلف کوآپریشن کونسل)، میں مزدوروں کی کل تعداد کا بیشتر حصہ بیرون ملک سے آئے مزدوروں پر مشتمل ہے اور کئی دفعہ انہیں انکے حقوق کی نامکمل آگاہی ان کے حقوق سے محروم کر دیتی ہے ۔ان ممالک میں بنیادی حقوق کی پامالی کی خبریں کئی دفعہ سامنے آتی ہیں جو کہ ان میں کام کرنے والے غیر ملکی مزدوروں سے متعلق ہوتی ہیں جس سے مسلم حکومتوں اور اسلام کے بارے میں ایک منفی تاٴثر پیدا ہوتا ہے۔
2014 ء میں ہم دونوں نےایک ایسے قانونِ محنت بنانے پر کام شروع کیا ، جس میں اوپر دیئے گئے مسائل کو حل کرنے کیلیے قرآن و سنت کی تعلیمات سے مکمل راہنمائی حاصل کی گئی ہو ۔ چند ایک جگہ خلفائے راشدین کے اقوال کے علاوہ یہ کام مکمل طور پر قرآن وسنت کی تعلیمات سے ماخوذ ہے اور اس میں قرآن و حدیث سے بار بار اقتباسات سے ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام مزدور وں کے حقوق کا محافظ و علمبردارہے ۔ اسلامک لیبر کوڈ کا پہلا انگریزی ایڈیشن دسمبر 2020 ء میں چھپا جبکہ اسکا دوسرا ایڈیشن جون 2021ء میں شائع ہوا جس میں سوشل سیکیورٹی اور مساوات کے موضوعات پر قرآن وسنت سے مزید ریفرنسز شامل کیے گئے ۔
ہم اس کام کےبتدائی عرصے کے دوران 2014-2015 میں کی گئی ریسرچ سپورٹ کیلیے بلال الرحمٰن اور ہمارے انگریزی میں لکھےگئے اسلامک لیبر کوڈ کے2021 میں کیے گئے بنیادی ترجمے کیلیے سعید الرحمٰن کے شکر گزار ہیں اگرچہ بعد میں اس ترجمے کی جگہ اسلام کا قانونِ محنت کو علیحدہ کتاب کے طور پر چھاپنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ اردو ایڈیشن ہمارے 2021 ء کے انگریزی ایڈیشن کے ترجمے کی بجائے ایک مکمل اور علیحدہ کتاب ہے۔ انگریزی ایڈیشنز کے مقابلے میں اس اردو ایڈیشن میں ہم نے قرآنی آیات اور احادیث سے تقریباً 20 فیصد مزید نئے اقتباسات دیے ہیں۔اس میں اردو کی مشہور تفاسیر کے کچھ اقتباسات بھی ہیں اور مزدوروں کے بنیادی حقوق اور لیبر انسپکشن کے موضوعات پر قرآن و سنت اور خلفائے راشدین کے اقوال سےنئے ریفرنسز شامل ہیں۔
ہم سینٹر فار لیبر ریسرچ کےٹیم ممبرز، رزان عائشہ ، سیماب حیدر عزیز اور عائشہ میر، کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے اس اردو ایڈیشن کا مکمل ریویو کرتے ہوئے قیمتی آراء دیں، اس کا ٹائٹل ڈیزائن کیا اور کتاب کی فارمیٹنگ اور ڈیزائن پر کام کیا، اسکے علاوہ ہم راجہ فیض الحسن فیض صاحب (سابقہ سینٹرل لیبر ایڈوائزر، حکومت پاکستان) کے شکر گزار ہیں جنہوں نے مجوزہ اسلامک لیبر کوڈ کے مسودے کا بغور جائزہ لیا اور اپنی ماہرانہ آراء سے نوازا۔ہم اسلامی قانون کے ماہر سید معاذ شاہ کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیں گے جنہوں نے اس کام کو مقتدر حلقوں تک پہنچانے میں ہماری مدد کی۔ اور سب سے بڑھ کر ہم برادرِ محترم سراج الدین امجد کے شکر گزار ہیں جنکی ہمہ وقت حوصلہ افزائی سے ہم اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ ان سب لوگوں کی سپورٹ کے بغیر اس کام کا مکمل ہونا مشکل تھا۔
ہم توقع کرتے ہیں کہ اس کتاب کو قانونی دستاویز (اسلامک لیبر کوڈ) کی صورت میں پیش کرنا مسلم حکومتوں کے لئے بہت مددگار ثابت ہوگا جس سے انہیں اس کی روشنی میں قانون سازی کرنے میں آسانی ہوگی۔جیسا کہ ہم نے اگلے صفحات میں لکھا ہے کہ 57 مسلم اکثریتی ممالک کے آئینی تجزیے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان میں سے 26 ممالک میں اسلام کو ریاستی مذہب قرار دیا گیا ہے، اور 14 ممالک ایسے ہیں جو اسلام (قرآن وسنت)کو قانون سازی کا منبع قرار دیتے ہیں، اس کتاب کا مقصد دراصل ان 26 یا کم از کم 14 ممالک کی توجہ قرآن وسنت میں دیئے گئے اصولوں کی طرف مبذول کروانا ہے تاکہ قوانینِ محنت کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالا جا سکے۔
اللہﷻ اور اس کے نبی ﷺ سے التجا ہے کہ وہ محنت کش طبقہ کے حقوق کے متعلق اسلامی تعلیمات کو اجاگر کرنے کی ہماری اس عاجزانہ کوشش کو اپنی بارگاہ میں یوں شرف ِقبولیت بخشیں جیسے اصحابِ کہف کے کتے کی وفاداری کے باعث اسکا ذکر قرآن کریم میں محفوظ کر دیا گیا[2]۔ اس کام کا بنیادی مقصد خدا تعالٰی اور اسکے
حبیب ﷺ کا پیغام لوگوں تک پہنچانا ہے، نبی کریم ﷺ نے اپنے حجۃ الوداع کے خطبے میں فرمایا: ’’سنو، جو موجود ہیں، وہ یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو موجود نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جن کو یہ باتیں پہنچیں، ان میں سے کچھ ان کی بہ نسبت ان کو زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والوں ہوں جنھوں نے براہ راست مجھ سے سنی ہیں ‘‘[3]۔ہم اپنی اس ناچیز کاوش میں ہونے والی کمیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کیلئے اللہ رب العزت سے مغفرت اور اس کی رضا ،خوشنودی اور اجرِ عظیم کے طلب گار ہیں۔
افتخار احمد اسلام آباد ، پاکستان جون 2024 |
اصغر جمیل ایمسٹرڈیم ، نیدرلینڈز جون 2024 |
[1] Ahmad, I. (2011), RELIGION AND LABOR: PERSPECTIVE IN ISLAM. WorkingUSA,
14: 589-620. https://doi.org/10.1111/j.1743-4580.2011.00363.x
https://onlinelibrary.wiley.com/doi/10.1111/j.1743-4580.2011.00363.x
[2] ۔اصحاب کہف کا ذکر کرتے ہوئے قرآن ان کے کتے کا ذکر بھی کرتا ہے جو کہ غار کے دہانے پر پاوٴں پھیلائے سینکڑوں سال بیٹھا رہا۔(18:18)
ﵻوَكَلۡبُهُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَيۡهِ بِالۡوَصِيۡدِﵺ
[3] ۔ صحیح بخاری: 7078